غزلیں ۔۔۔ مقبول حسین

جو درس دیتے تھے کوئی نہ پی پلا کے ملے

کسی حسیں کو ملے خود تو لڑکھڑا کے ملے

 

اسے کہو کہ وُہ مجھ سے بھی مسکرا کے ملے

رقیب کو جو ہمیشہ ہی کھلکھلا کے ملے

 

وُہ کاش مجھ سے ملے فاصلے مٹا کے سبھی

اگر گلے نہ ملے ہاتھ ہی ملا کے ملے

 

اکیلے ملنے کا اپنا سرور ہے لیکن

مزہ ہے تب کہ وُہ دشمن کو بھی دِکھا کے ملے

 

ہم اس کو ملنے گئے اس نے جس جگہ بھی کہا

جہاں تھا جان کو خطرہ وہاں بھی جا کے ملے

 

وُہ مجھ سے عشق کی پوری نماز کیا پڑھتا

اسے تو میرے لیے فرض بھی قضا کے ملے

 

سنا ہے گرمیِ جذبات کا وہ منبع ہے

جہاں سے جھونکے مجھے سرد سی ہوا کے ملے

 

ہماری پیٹھ میں کس نے چھُرا یہ گھونپ دیا

کہ ہم تو دوستوں کو تھے گلے لگا کے ملے

 

وہی تو لفظ ہیں مقبول میرا سرمایہ

جو مجھ کو اس سے ،بچھڑتے ہوئے دُعا کے ملے

٭٭٭

 

 

 

 

چاہت سے اپنی خود ہی  مُکرناپڑا مجھے

اس کے  کہے پہ کام یہ کرنا پڑا مجھے

 

کھو کر ترے خیال میں کر لوں گا وُہ بھی پار

گر  پل صراط سے بھی   گذرنا پڑا مجھے

 

بیگانگی، جنون، سزا موت کی فقط

ہرجانہ  بس  یہ   پیار کا بھرنا پڑا مجھے

 

ناسور بن رہا تھا جدائی کا تیری زخم

یادوں کا ناخن آج کترنا پڑا مجھے

 

خواہش تو میری  یہ تھی کہ مل جائے عُمرِ خضر

دیکھا مگر جب  اس کو تو مرنا پڑا مجھے

 

آئیں سمجھ میں  زیست کی ساری حقیقتیں

جب گہرے پانیوں میں  اترنا پڑا مجھے

 

اتنا تھا کربناک مرے ٹوٹنے کا  شور

پتے گرے ہوا سے تو ڈرنا پڑا مجھے

 

میں تھا سُبُک خِرام مگر زندگی میں کچھ

آئے  مقام ایسے، ٹھہرنا پڑا مجھے

 

خوشبو  نہ ہو تو پھول کا، مقبولؔ کیا وجود!

خوشبو گئی تو ساتھ   بکھرنا پڑا مجھے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے