نظمیں ۔۔۔ تنویر قاضی

رنگ ریز

 

جتنے رنگ ہیں

تیرے انگ لگے

اُن رنگوں سے کائنات کا جلتا کینوس

تلچھٹ تلچھٹ

اپنی کاوش اپنے ہی اطراف گرا دیتا ہے

آہستہ آہستہ زائل ہوتے زاویئے اور خطوط

منہ تکتے رہ جاتے ہیں

لا متناہی نیلے خیمے والے

اونٹ بڑے سرکش ہیں

اس تقسیم پر

بندوبست رکھو خیمے کی

رفو گری کا

گُدڑی گُدڑی لعل بھرے ہیں

آنکھیں سپنوں سے خالی

اور ہاتھ تہی تاروں سے

سونپا ہے تو ایک فراق کا رنگ

سطحِ آب کی نیلاہٹ بھاتی ہے

کانٹا کانٹا مچھلی تیرتی

ایک چمک کے پیچھے پاگل ہو جاتی ہے

ماہیءِ آب چلی آتی ہے جال کی جانب اپنے آپ

پیلی ساڑھی پہنی آج مچھیرن نے

انگارہ انگارہ دنداسے کی لاٹ میں وہ ناراض لگی اب کے

ملاحوں نے آگ لگا دی

ساحل کی بے سمتی اوڑھے خستہ کشتی کو

پھیکا پڑتا ہے چروا ہے کے خوابوں کا رنگ تو

پھر تعمیر اک تاج محل ہوتا ہے

اے میرے رنگ ریز

خبر ہے؟

کِس گھوڑے سے

لہو لہو فِتراک گِرا ہے ۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

پھٹے شامیانوں کے نیچے

 

کبوتر اُڑتے ہیں

دن بھر

شنگرفی جھانجھنیں پہنے

نہیں لاتے کوئی اک خیر کی چِٹھی

بظاہر سامنے اک سُرمئی پنگھٹ ہے

گاؤں گاگریں بھرتا

چرکھڑی کو گھماتا ہے

پرندے زخم منقاروں کے دھوتے ہیں

دلوں کے آستانوں میں

فسردہ ہوتے ہیں کنکر برسنے پر

ہمارے پیٹ پتھر باندھنے کے ہو چکے عادی

ہماری بے لباسی ڈھانپنے کو

پتا پتا چادریں ہم سے لپٹتی ہیں

ابھی نوزائیدہ طائر پڑے ہیں

آشیانوں میں

ہرے پیڑوں کی نیلامی کا پھر سے

ڈھول بجتا ہے

نہیں ہم سے سنبھلتے بانس اس پاگل ہوا میں

یہ ترے اُفتادگانِ خاک

اے شہرِ ستمگر

بے سرو سامان بے گھر

چھُپ رہے ہیں

اپنے ہی جسموں کی دیواروں کے پیچھے

اور دوپٹوں کو بدل کر

دھُوپ اور بارش

سہیلی بن گئی ہیں

بے جھجھک گِرتے شکستہ شامیانوں پر

٭٭٭

 

 

 

چِڑیا دھُوپ

 

یاد بھرا

مِٹی کا یہ گُلدان جھاڑتے

ٹُوٹ نہ جائے

تنہائی کے پھُول کی خوشبو میں

وہ

مہکتی ہے

چاول , دال کا دانہ

اور کُوزے کا پانی

دل دیوار پہ

رہنے دو

اَن دیکھی نگری کی

روشن دان سے آتی

اک چِڑیا

دھُوپ کے ساتھ

چہکتی ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے