مشتاق دربھنگوی کی یاد میں ۔۔۔ ڈاکٹر عطا عابدی

مشتاقؔ دربھنگوی سے میری ملاقات محلہ املی گھاٹ (دربھنگہ) میں ہوئی تھی، جہاں میرا قیام ہوا کرتا تھا۔ یہ غالباً 1982-83ء کی بات ہے۔ اُنہوں نے اپنے شعری مجموعہ ’’غمِ جاناں‘‘ سے نوازا۔ ’غمِ جاناں‘ کی شاعری غمِ جاناں سے عبارت تھی۔ اُس وقت اُن کی نوجوانی کا عالم تھا، میں خود بھی طفلِ مکتب تھا (آج بھی طفلِ مکتب ہی ہوں ) اور یہ شاعری اچھی لگی تھی۔ مجموعہ کا سائز اور انداز ’’حلقۂ فکر و فن‘‘ کے گلدستہ ’’وادیِ نشاط‘‘ جیسے تھے۔ اُس وقت وہ اپنی رومانی شاعری سے مطمئن نہیں تھے۔ اُن کے ذہن و دل میں فکر و فن کے کچھ الگ حوالے کسمساتے رہتے تھے۔ وہ اِس کسمساہٹ کو کوئی نام نہیں دیتے تھے لیکن اِس کیفیت کے سبب اچھے سے اچھا لکھنے کے عزم کا اظہار ضرور کرتے۔ اُن کی غزل کا مطلع دیکھیں:

کیا ضروری ہے کہ ہر بات پہ آنسو نکلے

جیسے ہر پھول سے ممکن نہیں خوشبو نکلے

اس ملاقات کے بعد ’’حلقۂ فکر و فن‘‘ کی نشستوں میں اُن سے ملاقاتیں رہیں۔ شعر و شاعری کا دور رہا اور اب اُن کی غزلوں میں غمِ جاناں سے زیادہ غمِ دوراں کی صورت نظر آتی ہے۔ اُسی دور کے آس پاس وہ کسی مقامی کالج میں انسٹرکٹر کے طور پر کام کرنے لگے تھے۔ برسوں اس ذمہ داری سے وابستہ رہنے کے بعد جب اقتصادی مسائل کے حل کی اُمید نہ رہی تو اُنہوں نے اپنی فکر و صلاحیت کے بموجب صحافت کو پناہ گاہ بنائی۔ صحافت کی راہوں میں قلمی و تکنیکی خدمات کے ساتھ ساتھ اُن کا ادبی مشغلہ جاری رہا۔ اس مشغلہ میں اُنہوں نے اپنے جنون کو شامل کر لیا اور پھر اردو ادب کی خدمت کا بالکل نیا اور منفرد طور اپنایا۔ متنوع عنوانات کے تحت کتابوں کی ترتیب و تہذیب کے سبب وہ دور دور تک اپنے نام اور کام کو منوانے میں کامیاب ہوئے۔ اس ضمن میں شمع فروزاں، سمندر کی لہریں، ہنسی کے پھول، پہیلیاں، اقوالِ زریں، میر بھی ہم بھی، لا الہ الاللہ، صل علیٰ محمدؐ، اسوۂ رسولؐ، جانِ غزل، عندلیبان طیبہ، غزالانِ حرم، لوریاں، گوش بر آواز اور اردو شاعری میں زمزم کتابیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

مشتاقؔ دربھنگوی شاعری میں مشہور ترقی پسند شاعر و ادیب اویس احمد دوراں ؔ سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ اُن دنوں میں بھی دوراںؔ صاحب سے شاعری پر اصلاح لیا کرتا تھا، لہٰذا ہم دونوں ایک دوسرے سے ذہنی لگاؤ محسوس کرتے تھے۔ مشتاقؔ دربھنگوی کئی ادبی انجمنوں سے وابستہ رہے۔ ان کے گاؤں چندن پٹی کی ’’ادبی مجلس‘‘ ہو یا ’’حلقۂ فکر و فن‘‘ یا اور کوئی انجمن، وہ ہر جگہ اپنی شرکت سے اپنے ادبی ذوق و شوق کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔ کولکاتا جانے کے بعد اُن کے اشہبِ ذوق کو پَر لگ گئے اور نئی سمت و رفتار کے ساتھ قلمی سفر طے کرتے رہے اور ایک منفرد شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

’’غمِ جاناں‘‘ کے بعد مشتاقؔ دربھنگوی کا شعری مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ یہ مختصر مجموعہ بھی اب نایاب ہے۔ یہ مجموعہ ہوتا تو معلوم ہوتا کہ اُن کی شاعری اس وقت کس فکر و انداز کی حامل تھی۔ اُن کی ابتدائی غزلیں جیسا کہ قبل ذکر آیا، رومانوی جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی تھیں:

 

یاد ہے اب تک نظر کا زلف و رُخ سے کھیلنا

دل میں تازہ ہے بہارِ عشرتِ رفتہ ابھی

 

چھپا رکھا تھا رازِ عشق میں نے اپنے سینے میں

مگر ہو ہی گئی سب کو خبر آہستہ آہستہ

 

اُن کی دو چار غزلیں جو حال میں مختلف جگہوں پر نظر سے گزریں، وہ متذکرہ غزلوں کی فکر سے الگ ہیں۔ ان غزلوں میں عصری شعور کے جلوے ہیں، وقت کی آوازیں ہیں، حیات کے بصیرت افروز اشارے ہیں اور دعوتِ فکر دیتے ہوئے حقائق بھی۔ ان سب کے باوجود جمالیاتی افکار و اطوار کی ادائیں گُم نہیں ہوئی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اب ان اداؤں میں زندگی کے سنجیدہ تیور بھی جگہ رکھتے ہیں۔ ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

 

تشنگی میری بھلا کیسے بجھاتا دریا

سامنے تھا جو مرے پیاس کا مارا دریا

آپ نے خونیں مناظر کے سنے ہیں قصّے

میری آنکھوں نے تو دیکھا ہے لہو کا دریا

صحرا صحرا اُسے جب ڈھونڈ کے ہم ہار گئے

پھر اُسے ڈھونڈتے پھرتے رہے دریا دریا

 

یہ سچ ہے کہ ایک غزل سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا لیکن ابتدائی غزلوں کے رنگ و آہنگ سے بعد کی غزلیں کس قدر واضح طور پر الگ ہیں، یہ آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے، اطلاع کے بموجب مشتاقؔ دربھنگوی کا شعری مجموعہ عنقریب منظر عام پر آئے گا اور اُنہیں منفرد شعری شناخت عطا کرے گا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے