نظمیں ۔۔۔ غضنفر

جڑوں سے اُکھڑنے کا کرب

 

دل و جاں میں کبھی

ایسا کوئی کلّہ نہیں پھوٹا

کہ اس مٹّی میں کوئی جڑ نہیں اپنی

ہمیشہ ہی لگا ہم کو

کہ ہم بھی تو اسی مٹّی سے نکلے ہیں

اسی کے خون سے سینچی گئی ہے

زندگی اپنی

اسی کا رس رگ و پے میں سرایت ہے

اسی کے لمس سے پودا بنے ہیں

پیڑ کی صورت میں آئے ہیں

اسی سے برگ و بر شاخوں نے پائے ہیں

اسی سے رنگ و بو ہم میں سمائے ہیں

اسی سے گل کھلے ہیں

بزم میں ہم کھلکھلائے ہیں

اسی سے ہم میں رونق ہے

اسی سے جگمگائے ہیں

اسی نے چاؤ سے

ہم کو بھی گوندھا ہے

محبت سے اسی نے گود میں

ہم کو بھی پالا ہے

ہمارے خوں میں اپنا رنگ ڈالا ہے

ہمیں اپنے کسی سانچے میں ڈھالا ہے

کبھی جب لڑکھڑائے ہیں

تو اس نے ہی سنبھالا ہے

کسی بھی طرح ذہن و دل نہیں تیار سننے کو

کہ ہم اپنے نہیں اس گلستاں میں بس پرائے ہیں

ہمارے جسم و جاں میں

ایک بھی ذرّہ نہیں اس کا

ہمارا خون اس مٹّی سے خالی ہے

مگر تلوار ہے سر پر

کہ ہم بولیں بھی ہونٹوں سے

کہ ہم تو اور کے گلشن سے آئے ہیں

کہ اس مٹّی سے کوئی بھی

کسی بھی طرح کا رشتہ نہیں اپنا

کوئی ناطہ نہیں اپنا

کوئی حصہ نہیں اپنا

جو بولیں ہم تو مٹنا ہے

نہ بولیں گر تو کٹنا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ کس کی روداد

 

میں کھُلنا چاہتی ہوں

خوب کھُلنا چاہتی ہوں میں

میں اُڑنا چاہتی ہوں

خوب اڑنا چاہتی ہوں میں

فلک کی چوٹیوں پر پاؤں دھرنا چاہتی ہوں میں

بہت کچھ ذہن و دل میں

آسماں پہ جا کے بھرنا چاہتی ہوں میں

 

ستارے توڑنے کی چاہتیں

مجھ میں بھی پلتی ہیں

قمر کو ہاتھ میں لینے کی خواہش

میں بھی رکھتی ہوں

مرے دل میں بھی یہ ارماں مچلتا ہے

کبھی خورشید کو نزدیک سے دیکھوں

اسے چھوؤں، اسے پرکھوں،

اسے دل میں، نظر میں، جسم میں بھر لوں

 

ضیا کی تیغ سے سارے اندھیروں کو

جو جسم و جاں میں بستے ہیں

رگ و ریشے کو کستے ہیں

مرے جذبوں کو ڈستے ہیں

مجھے ویران کرتے ہیں

مجھے سنسان کرتے ہیں

مجھے حیران کرتے ہیں

انھیں میں قتل کر ڈالوں

 

تمنا یہ بھی سینے میں

مرے انگڑائی لیتی ہے

فلک سے روشنی لے کر جو اتروں

اپنی دھرتی پر

سیاہی کے درو دیوار گر جائیں

جو کالے ناگ پل پل من کو ڈستے ہیں

وہ سارے ناگ مر جائیں

ضیاؤں کے نئے گلزار اُگ آئیں

ہر اک جانب نئے اشجار اُگ آئیں

مرے ماتھے سے ایسی چاندنی پھوٹے

کہ جس کے لمس سے

مردہ زمیں میں جان پڑ جاے

کہ جس کی چھاؤں میں

سوکھے شجر کی ڈالیوں پر

پھول کھل جائے

کہ جس کی نرمیوں سے

طائرِ خاموش کو منقار مل جائے

کہ جس کے قرب سے ہر زخم سِل جائے

فضا میں زمزمے پھر سے سنائی دیں

ہر اک چہرے پہ رنگ و نور کے منظر دکھائی دیں

دلوں کی سیپ میں جو بند ہیں گوہر دکھائی دیں

ڈھکے ہیں دھند سے جو ذہن میں جوہر دکھائی دیں

 

مگر کیسے اڑوں اوپر

بھروں کس طرح دامن کو

ستاروں سے

فلک کے ماہ پاروں سے

پسندیدہ نظاروں سے

کہ میرے پر کسی پنجرے کے اندر ہیں

کہ پنجرہ بھی کسی گھیرے میں رہتا ہے

کہ جس کی چابیاں اک دیو کے قبضے میں رہتی ہیں

کہ جس کی تیلیاں مضبوط ہیں کافی

کبھی جب جذبۂ پرواز میں طوفان اٹھتا ہے

کبھی جب جوش میں پر پھڑپھڑاتے ہیں

تو ڈینے ٹوٹ جاتے ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے