غزلیں ۔۔۔ احمد علی برقی اعظمی

امن عالم کی فضا آئیے ہموار کریں

چھوڑ کر بغض و حسد پیار کا اظہار کریں

 

دیں گے کب تک ہمیں ناکردہ گناہی کی سزا

فرد جرم اپنی بھی کہہ دو کہ وہ تیار کریں

 

چاہتا کیا ہے بتا مفسد دوراں کھل کر

’’کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں‘‘

 

خانہ دل بھی ہے اللہ کے گھر کی مانند

چھ دسمبر کی طرح اس کو نہ مسمار کریں

 

ہے کرے کوئی بھرے کوئی کا ہم پر اطلاق

اپنے ہر جرم کا کہتے ہیں کہ اقرار کریں

 

مسخ کرنے پہ تلے ہیں وہ ہماری تاریخ

اپنی تہذیب پہ اس طرح نہ وہ وار کریں

 

چھوڑ دیں سرخی اخبار بنانا اس کو

یوں نہ برقی سے زمانے کو وہ بیزار کریں

٭٭٭

 

 

 

 

 

مجھ سے وابستہ ہے گر وابستگی اتنی تو ہو

دوست کا رکھے بھرم وہ دوستی اتنی تو ہو

 

کوئی ہو ایسا جسے کچھ دیر اپنا کہہ سکیں

’’ہو نہ ہو یہ زندگی، یہ زندگی اتنی تو ہو‘‘

 

دیکھ کر جس کو فدا ہو جائے دل دیوانہ وار

روئے زیبا پر کسی کے دلکشی اتنی تو ہو

 

ہم نے مانا چار دن کی چاندنی ہے زندگی

ہو سکونِ دل میسر چاندنی اتنی تو ہو

 

اس قدر تاریک ہے یہ شاہراہِ زندگی

چل سکیں جس میں بخوبی روشنی اتنی تو ہو

 

دیتا ہے ترکِ تعلق کی وہ دھمکی بار بار

دل کو جو دل سے ملا دے دل لگی اتنی تو ہو

 

حُسن سیرت میں ہوا کرتا ہے صورت میں نہیں

کم سے کم مہر و وفا کی چاشنی اتنی تو ہو

 

آدمی کے کام آئے ہے اگر وہ آدمی

آدمیت اُس میں برقی اعظمی اتنی تو ہو

٭٭٭

 

 

 

 

میری یہ چشمِ نَم دسمبر میں

نہ کہیں جائے جَم دسمبر میں

 

اُف یہ جور و ستم دسمبر میں

نہ نکل جائے دم دسمبر میں

 

جنوری میں گیا تھا یہ کہہ کر

لوٹ آئیں گے ہم دسمبر میں

 

ہے جو رودادِ ہجرِ گیارہ ماہ

کریں کیسے رقم دسمبر میں

 

جس کا وعدہ ہے مثلِ وعدۂ حشر

اُس کا ٹوٹا بھرم دسمبر میں

 

کہیں پہنچا نہ دے یہ سرد ہوا

سوئے ملکِ عدم دسمبر میں

 

جادۂ شوق طے کریں کیسے

ہو گئے شَل قدم دسمبر میں

 

جن کے زیرِ نگیں تھا کشورِ دل

بھر رہے ہیں چلم دسمبر میں

 

ہیں بہت صبر آزما برقیؔ

اُن کے قول و قسم دسمبر میں

٭٭٭

 

 

جشن کی تقریب میں تھا شیشہ و ساغر کھلا

’’اس تکلف سے کہ گویا میکدے کا در کھلا‘‘

 

آتا ہے مجھ کو نظر اک عالمِ محشر کھلا

ہر طرف ہو جیسے ظلم و جور کا منظر کھلا

 

دیکھنے میں لگ رہا تھا جو بظاہر پارسا

محتسب کے سامنے وہ برسرِ منبر کھلا

 

کر رہا تھا سب کو امن و صلح کی تلقین جو

عہدِ حاضر کا وہ نکلا ایک فتنہ گر کھلا

 

اب ہوا معلوم تھا وہ رہزنوں کا سرغنہ

تھا بظاہر دیکھنے میں ایک جو رہبر کھلا

 

بھر رہا تھا دوستی کا دم جو میری عمر بھر

دشمنِ جاں تھا وہی میرا پری پیکر، کھلا

 

اپنے دردِ دل کا جس سے کر رہا تھا میں علاج

میرا قبل از وقت قاتل تھا وہ چارہ گر کھلا

 

لے گیا میری متاع شوق اپنے ساتھ وہ

رکھا تھا جس کے لئے ہر وقت اپنا گھر کھلا

 

میں نے دیکھے ہیں کچھ ایسے بھی سیاسی رہنما

آستیں میں رکھتے ہیں ہر وقت جو خنجر کھلا

 

اب ہوئی غفلت شعاری اپنی مجھ پر مُنکشف

آج اُن کی شر پسندی کا جو مجھ پر شَر کھلا

 

ہو گئے جب میرؔ کی دلی سے رخصت ناگہاں

سب پہ برقیؔ اعظمی کا جا کے تب جوہر کھلا

٭٭٭

 

 

 

(نذر جون ایلیا)

 

تمہیں مجھ سے محبت ؟ نہیں تو

تو کیا پھر مجھ سے نفرت ہے؟ نہیں تو

 

تمہیں میری ضرورت ہے نہیں تو

مجھے پانے کی چاہت ہے؟ نہیں تو

 

جو ظلم و جور مجھ پر ہو رہا ہے

تمہاری یہ شرارت ہے؟ نہیں تو

 

جو سب سے منھ چھپائے پھر رہا ہوں

صحافت کی کرامت ہے؟ نہیں تو

 

بہر سو خونچکاں ہے ایک منظر

کوئی اس میں سیاست ہے؟ نہیں تو

 

سبھی اک دوسرے کو کوستے ہیں

الیکشن ایک لعنت ہے؟ نہیں تو

 

صحافی کرتے ہیں ریشہ دوانی

صحافت سستی شہرت ہے؟ نہیں تو

 

سبھی کرتے ہیں اس میں سودے بازی

سیاست اک تجارت ہے؟ نہیں تو

 

ہیں جامِ زہر سب پینے کو مجبور

تمہیں کیا اس کی عادت ہے؟ نہیں تو

 

پڑے ہیں پھر یہ کیوں برقی کے پیچھے

عداوت ان کی فطرت ہے؟ نہیں تو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے