منٹو۔ نوری نہ ناری، ممتاز شیریں پتی ورتا ناری ۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیر

مکتبۂ شعر و ادب لاہور (۷۔ ڈی بلاک سی، سمن آباد لاہور) کے زیر اہتمام دو بالکل ایک جیسی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ دونوں پر تاریخ اشاعت درج نہیں ہے۔ ایک ٹھنڈا گوشت اور دوسری دھواں۔ دونوں کراؤن سائز پر ہیں اور دونوں کے سرورق پر منٹو کے صرف چہرے کا پنسل سکیچ ہے۔ ٹھنڈا گوشت دو سو بارہ صفحات پر مشتمل ہے جس کا انتساب ایشر سنگھ کے نام ہے جو حیوان بن کر بھی انسانیت نہ کھو سکا۔ اس میں آٹھ کہانیاں ہیں ٹھنڈا گوشت، گولی، رحمت خداوندی کے پھول، ساڑھے تین آنے، پیرن، خورشٹ، باسط اور شاردا۔ اس میں ’’زحمت مہر درخشاں‘‘ کے عنوان سے اٹھتر (78) صفحات کا پیش لفظ ہے جس میں منٹو پر دائر کردہ مقدمے کی پوری تفصیل درج ہے۔ ٹھنڈا گوشت پر کس نے مقدمہ دائر کیا کس کس نے اسے فحش قرار دیا اور کس کس نے اسے فحش نہیں بلکہ ادبی فن پارہ ٹھیرایا۔ دوسری کتاب دھواں (159) صفحات پر مشتمل ہے جس میں ’’دھواں‘‘ سمیت تیرہ کہانیاں ہیں۔ اس کا انتساب حسن عباس کے نام ہے۔ فی الحال اس دوسری کتاب سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہمارا موضوعِ بحث پہلی کتاب ہے۔ ٹھنڈا گوشت سعادت حسن منٹو کی بہت معروف کہانی ہے۔ اس کی عدم اشاعت و اشاعت کی تفصیلی روداد خود منٹو نے اپنے پیش لفظ ’’زحمت مہرِ درخشاں‘‘ میں بیان کی ہے جسے صیغۂ واحد غائب میں یہاں درج کیا جا رہا ہے:

’’منٹو بمبئی چھوڑ کر کراچی سے ہوتا ہوا غالباً سات یا آٹھ جنوری 1948ء کو یہاں لاہور پہنچا۔ منٹو اپنے عزیز دوست احمد ندیم قاسمی سے ملا۔ ساحرؔ لدھیانوی سے ملا۔ سب منٹو کی طرح ذہنی مفلوج محسوس ہو رہے تھے۔ منٹو کی طبیعت افسانہ نگاری کی طرف مائل ہی نہیں ہو رہی تھی۔ بالآخر کئی مہینوں کے بعد منٹو نے پاکستان میں اپنا پہلا افسانہ ٹھنڈا گوشت لکھا۔ فروغ اردو کے اشتراک سے احمد ندیم قاسمی نے ایک ماہ نامہ ’’نقوش‘‘ جاری کیا تھا۔ منٹو نے وہ افسانہ قاسمی کو دیا قاسمی نے وہ افسانہ (ٹھنڈا گوشت) منٹو کے سامنے ہی پڑھا اور معذرت بھرے لہجے میں کہا ’’منٹو صاحب معاف کیجئے افسانہ بہت اچھا ہے لیکن نقوش کے لیے بہت گرم ہے‘‘ اس لیے منٹو نے وہ افسانہ اُن سے واپس لے لیا اور قاسمی صاحب سے کہا کہ دوسرے دن آئیں تاکہ دوسرا افسانہ انھیں دیا جا سکے۔ دوسرے دن منٹو نے افسانہ ’’کھول دو‘‘ لکھ دیا۔ قاسمی صاحب وہ افسانہ لے کر گئے اور ’’نقوش‘‘ میں چھاپ دیا۔ حکومت کو یہ افسانہ امن عامّہ کے مفاد کے خلاف لگا چنانچہ نقوش کی اشاعت پر چھے مہینے کی پابندی عائد کر دی گئی۔

کافی دن بعد ’’ ادبِ لطیف‘‘ کے مدیر آ کر منٹو سے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ لے گئے۔ کتابت بھی کروا لی گئی تاہم یہ افسانہ شائع نہ ہو سکا اور ٹھنڈا گوشت پھر سعادت حسن منٹو کے پاس واپس آ گیا۔

اس دوران کراچی سے محترمہ ممتاز شیریں کے متعدد خطوط آ چکے تھے کہ منٹو ان کے ’’نیا دور‘‘ کے لیے کوئی افسانہ بھیجے۔ منٹو نے اٹھا کر ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ ان کو بھیج دیا۔ کافی دیر کے بعد جواب آیا کہ ’’ہم دیر تک سوچتے رہے کہ اسے شائع کیا جائے یا نہیں افسانہ بہت اچھا ہے۔ مجھے (ممتاز شیریں کو) بہت پسند ہے لیکن ڈر ہے کہ حکومت کے احتساب کے شکار نہ ہو جائیں‘‘۔ ٹھنڈا گوشت یہاں سے بھی ٹھنڈا ہو کر واپس منٹو کے پاس پہنچ گیا۔ عارف عبد المتین ایک رسالہ ’’جاوید‘‘ کے ایڈیٹر کے اصرار پر ٹھنڈا گوشت انھیں دیا گیا جو مارچ 1949 کے ’’جاوید‘‘ میں شائع ہو گیا۔ چند دونوں بعد جاوید کے دفتر پر پولیس کا چھاپہ پڑا عارف کے ساتھ منٹو گرفتار کیے گئے۔ منٹو کی حمایت میں بیان دینے والے سید عابد علی عابد ایم اے ایل ایل بی پرنسپل دیال سنگھ کالج لاہور، پروفیسر نفسیات احمد سعید، فیض احمد فیض، خلیفہ عبدالحکیم ڈائرکٹر آف ایجوکیشن کشمیر، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم گورنمنٹ کالج لاہور، منٹو کے خلاف ٹھنڈا گوشت کو فحش قرار دینے والے گواہ تھے مولانا (احسان اللہ خان) تاجور نجیب آبادی، شورش کاشمیری، ابو سعید بزمی اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر۔

تحت کی عدالت میں نصیر انور، عارف عبد المتین اور منٹو پر تین تین سو روپے جرمانہ اور صرف منٹو کو تین ماہ کی قید بھی سنائی گئی۔ فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی۔ یہاں بھی سزا بر قرار رہی البتہ نصیر انور (رسالہ جاوید کے مالک) عارف عبد المتین کی سزا میں تخفیف کر دی گئی۔ یعنی اکیس اکیس یوم کی سزا گر تین تین سو روپے جرمانہ ادا نہ کریں۔ دوبارہ اپیل پر سیشن کی عدالت میں جج نے تینوں ملزموں کو بری کر دیا۔‘‘ یہ تو تھے جملہ ہائے معترضہ۔ بطورِ تمہید۔

اپنے رسالہ ’’نیا دور‘‘ میں منٹو کا افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ شائع کرنے سے معذوری کا اظہار کرنے والی ممتاز شیریں منٹو کی قد آوری کی قائل تھیں۔ مکتبۂ شعر و ادب لاہور کے زیر اہتمام شائع ہونے والی مذکورہ دونوں کتابوں کے سرورق آخر پر ممتاز شیریں کی یہ رائے درج ہے۔

’’منٹو آدم کی جرأت گناہ کا قائل ہے۔ منٹو کا انسان نوری ہے نہ ناری ہے وہ آدمِ خاکی ہے۔ وہ وجودِ خاکی جس میں بنیادی گناہ فساد، قتل و خون وغیرہ کے باوجود خدا نے نوری فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں۔‘‘

’’منٹو۔ نوری نہ ناری‘‘ (جملہ حقوق بحق صمد شاہین محفوظ) اشاعت اول 1985مکتبۂ اسلوب پوسٹ بکس ۲۱۱۹۔ کراچی ۱۸ جو منٹو اور ممتاز شیریں کی وفات کے برسوں بعد شائع ہوئی وہ بھی ادھوری کیوں کہ اس کے آخری دو اہم باب بہ وجوہ لکھے ہی نہیں جا سکے۔ یہ نایاب کتاب ریختہ ڈاٹ کام Rekhta.com پر دستیاب ہے۔ مرتبِ کتاب آصف فرخی نے حرفے چند میں بتایا۔

’’صمد شاہین صاحب کی اطلاع یہ ہے کہ منٹو اور ممتاز شیریں کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی‘‘۔

منٹو نے صمد صاحب کے توسط سے اپنی ایک کتاب (؟) ان کو یہ جملہ لکھ کر بھیجی:

’’ممتاز شیریں کے نام جو مجھ پر کتاب لکھ رہی ہیں‘‘

کیوں کہ اس وقت تک زیر قلم کتاب کے دو باب ’’سویرا‘‘ میں شائع ہو کر اہل نظر سے داد پا چکے تھے۔ ایک انٹرویو میں اپنی بہترین تحریروں کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ممتاز شیریں کہتی ہیں:

’’علمی اور تخلیقی تنقید کے سب سے اچھے نمونے منٹو پر میرے متفرق مضامین ہیں۔ ان میں میں نے اپنے مخصوص تاثراتی اندازِ نقد سے ہٹ کر نفسیاتی زاویۂ نظر سے جائزے لیے ہیں۔ منٹو پر لکھتے ہوئے میں نے جنسی نفسیات پر بہت کچھ پڑھا، فرائیڈ، ہیولاک ایلس سے لے کر کِنسے رپورٹ، سیموں د بوار کی دوسری جنس اور کولن ولسن تک۔ کیوں کہ منٹو کے افسانے جنسی نفسیات کے مطالعے کے لیے بہت اچھا مواد فراہم کرتے ہیں۔ یہ مضامین در اصل منٹو پر میری زیر تحریر کتاب ’’نوری نہ ناری‘‘ کے چند باب ہیں۔‘‘

ممتاز شیریں 12 ستمبر 1924 کو ہندو پور موجودہ آندھرا پردیش انڈیا میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام قاضی عبد الغفور خان اور والدہ کا نام نور جہاں تھا۔ ان کی ابتدائی زندگی میسور کرناٹک میں گزری جہاں ان کے نانا نانی نے ان کی پرورش کی۔ مہارانی کالج میسور سے بی اے کرنے کے بعد اگست 1942 میں ان کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی (کراچی یونیورسٹی سے ممتاز شیریں نے ایم اے کیا )۔

ممتاز شیریں کا پہلا افسانہ ’’انگڑائی‘‘ رسالہ ’’ساقی‘‘ دہلی میں 1943 کے ایک شمارے میں چھپتے ہی ان کی دھوم مچ گئی۔ ممتاز شیریں اور صمد شاہین نے مل کر 1944 میں بنگلور سے ’’نیا دور‘‘ رسالہ جاری کیا جو 1944 سے 1947 تک بنگلور سے پھر 1947 سے 1953 تک کراچی سے نکلتا رہا۔ یہ میاں بیوی قیام پاکستان کے ساتھ ہی کراچی آ گئے تھے آ کر نیا دور کا فسادات نمبر بھی نکالا تھا۔

ممتاز شیریں نے جان سٹائن بیک کے ناول The Pearl کا ترجمہ در شہوار کے نام سے 1957 میں کیا۔ کاموؔ کے ناول ’’اجنبی‘‘ کا ترجمہ بھی ممتاز شیریں نے کیا تھا جو شائع نہ ہو سکا۔   (بحوالہ منٹو نوری نہ ناری۔ مکتبۂ اسلوب کراچی)

ممتاز شیریں نہ صرف یہ کہ خود بہت اچھی قلم کار و صحافی تھیں، مطالعے کا نکھرا ستھرا ذوق بھی رکھتی تھیں بلکہ ان کی جستجو تھی کہ ادیبوں شاعروں کے ساتھ ساتھ با ذوق قارئین تک ہر زبان کی معیاری کتابیں بھی پہنچیں۔ چنانچہ انھوں نے اعلی پیمانے پر کتابوں کی ایک فرم بھی کراچی میں قائم کر رکھی تھی اور چاہتی تھیں کہ ایسا ہی ایک ادارہ لاہور میں بھی وہ قائم کریں۔ اس سلسلے میں وہ محمد طفیل کے نام ایک خط ۲۵؍ جنوری ۱۹۵۶ء کے پس نوشت (ps)کے طور پر لکھتی ہیں:

’’شاید ہم آپ کے ہمسائے ہو جائیں۔ ہماری کتابوں کی دوکان Thomas & Thomasکی لاہور میں ایک برانچ کھولنے کا ارادہ ہے اور غالباً ’’مال‘‘ ہی پر ایک دوکان دیکھی ہے۔ ہم خود تو لاہور نہیں آئیں گے بلکہ ہماری فرم کے نمائندے! بہر حال‘‘

(مدیر ’’نقوش‘‘ محمد طفیل کے نام چالیس خطوط لکھنے والی ممتاز شیریں کی ملاقات کبھی اُن سے نہیں ہو پائی۔)

حیدرآباد دکن میں بھی 1965-66 کے آس پاس روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے زیر اہتمام قائم کردہ ادبی ٹرسٹ کے تحت جہاں کئی ہند و پاک اور کل ہند مشاعرے منعقد ہوئے وہیں ادبی ٹرسٹ ہی کی زیر نگرانی مشہور و معروف شاہ راہ عابڈس پر ایک بنک کی راہ داری میں ہند و پاک کے معیاری رسائل کا ایک بُک سٹال قائم کیا گیا تھا جس کے نگران ایک شاعر حفیظ فضا تھے۔ اس دور میں اورینٹ ہوٹل بھی وہیں تھا۔

ممتاز شیریں بہت قابل پڑھی لکھی قلم کار تھیں۔ تقدیم و تاخیر کے بغیر صرف ان کی قابلیت کے ثبوت میں میں یہاں ان کے ایک خط کا اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں جو انھوں نے مدیر نقوش محمد طفیل کو لکھا تھا۔

 

۸۔ ایف۔ گپتا میانشن، نزد پلازا سینما بندر روڈ کراچی ۳

۲۳ ؍ اپریل 1957

 

مکرمی سلام مسنون

میں کوشش کروں گی کہ مضامین جتنا جلد ہو سکے آپ کو بھجوا سکوں۔۔ ۔

میرے عدم تعاون کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ صرف فرصت کی کمی ہے۔ بات یہ ہے کہ بعض کام یوں ظاہر میں تو نظر نہیں آتے لیکن ان میں وقت کافی لگ جاتا ہے۔ چنانچہ ابھی میں نے اپنے چند افسانوں کے انگریزی میں ترجمے کیے ہیں۔ یہ کام میں آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے کر لیتی ہوں L’Alliance Francaise کے سکریٹری جنرل کا اچانک تبادلہ ہو گیا اور وہ پیرس چلے گئے۔ انھوں نے میرے دو ایک افسانوں کے ترجمے فرانسیسی میں کیے تھے۔۔ ۔۔ وہ میرا مجموعہ ہی فرانس میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ لہذا مجھے چند افسانوں کے انگریزی ترجمے اسی دوران میں کرنے پڑے۔ یوں مجھے فرانسیسی آتی تو ہے لیکن میں اتنی زبان دانی کا دعویٰ تو نہیں کر سکتی کہ اپنے افسانوں کا خود ہی اچھا فرانسیسی ترجمہ کر سکوں۔ لہذا جب ایک فرانسیسی سکالر ہی نے یہ پیش کش کی تو میں نے سوچا یہ وقت اچھا ہے۔

اس طرح ایملی برونٹے پر میں نے جو کام کیا ہے اس کی بنا پر مکتبۂ جدید نے بھی ایملی کے نادر ناول ’’وُدرنگ ہائٹس‘‘ کا ترجمہ میرے ذمے کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایملی اور ’’وُدرنگ ہائٹس‘‘ تو میرے لیے Passion بن گئے ہیں۔ اس طرح کے مستقل کام میں نے سنبھال لیے ہیں کہ رسالوں (میں اب) کم ہی نظر آتی ہوں۔ بہت سے رسالوں کے ایڈیٹر یہ اصرار کرتے ہیں کہ کچھ ’’تبرک‘‘ کے طور پر ہی دے دوں۔ منٹو پر کتاب کے دو چار صفحے ہی سہی۔ تو تقاضوں سے مجبور ہو کر انھیں چند ایک صفحے دے دیتی ہوں یا کوئی ہلکا سا مضمون۔ لیکن آپ کا ’’نقوش‘‘ ظاہر ہے کہ ان پرچوں میں سے نہیں ہے جسے ’’تبرکاً‘‘ کچھ دیا جائے۔ آپ کے لیے تو کوئی معقول چیز ہی بھیجنی چاہیے۔۔ (صمد) شاہین اچھے ہیں آپ کو سلام کہتے ہیں۔ اُمید آپ مع الخیر ہوں گے۔ نیاز کیش

ممتاز شیریں

 

محمد طفیل صاحب کے نام اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’منٹو۔ نوری نہ ناری‘‘ کی تکمیل میں ممتاز شیریں کی کیا کیا مصروفیات حائل رہیں۔

محمد طفیل کے نام ایک خط مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۵۷ء کو ایک مضمون کی خبر دیتے ہوئے لکھتی ہیں:

’’مضمون تیار ہے۔ اس کا عنوان میں نے ’’میں مادام بواری ہوں‘‘ رکھا ہے جو فلائبیر کا ایک معنی خیز مقولہ ہے اور فن کار اور تخلیق کے گہرے رشتے کا مظہر ہے‘‘۔

’’منٹو۔ ممتاز شیریں کی نظر میں‘‘ جناب مظفر علی سید کے ایک مقالے کے مطابق ممتاز شیریں نے منٹو کی طرف اپنی مفصل توجہ کا یہ جواز فراہم کیا ہے:

’’منٹو اک سچا اور بے باک فن کار تھا۔ اک آگ تھی جس میں وہ مسلسل تپتا رہتا تھا۔ منٹو کے افسانوں میں بلا کی جان ہے اور ان کا تاثر ہر سطح کے پڑھنے والے قبول کرتے ہیں۔ یوں تو میں نے بہت سے افسانہ نگاروں کا اپنے مضامین میں جائزہ لیا ہے (ایک مدت تک منٹو کا جائزہ تو کیا اس کا نام بھی نوکِ قلم تک آنے نہیں دیا) لیکن منٹو پر ایک کتاب لکھنے کا خیال اس لیے آیا تھا کہ میری نظر میں منٹو ہمارا نمائندہ اور بہترین افسانہ نگار ہے‘‘۔ (بحوالہ ’’منٹو نوری نہ ناری‘‘ مکتبہ اسلوب کراچی۔ ۱۸)

مظفر علی سید کے خیال کے مطابق منٹو کے بارے میں ممتاز شیریں کا یہ انداز سر پرستانہ لگتا ہے اور مظفر علی سید نے ’’میگھ ملہار‘‘ کے دیباچے میں اپنے ابتدائی افسانوں کے حوالے سے جو کچھ ممتاز شیریں نے لکھا وہ بھی Quote کیا ہے: (یہاں بھی اس کا اقتباس درج کیا جاتا ہے)

’’۔۔ ۔ کہ انسانی سرشت میں شر کے وجود سے آگاہ ہونے کے باوجود میں اس شر کو چھوتے ہوئے ڈرتی تھی۔۔ ۔ بڑے بڑے ادیبوں اور نقادوں کی رائے میں شر کے تصور کے بغیر کوئی گہرا ادب تخلیق نہیں ہو سکتا۔ شر کے وجود کو تسلیم کر لینے کے بعد مجھ میں آہستہ آہستہ نا مکمل انسان کا تصور گھر کرتا گیا جو معصوم فطری انسان کے تصور سے بلند تر تصور ہے جس میں انسان خیر و شر کا مجموعہ ہے۔ اس کی فطرت کے ان دونوں پہلوؤں میں مسلسل اندرونی کشمکش جاری رہتی ہے۔ بے راہ روی اور گناہ کا احساس اسے ایک مسلسل روحانی کرب و اضطراب میں مبتلا رکھتا ہے۔ یہ انسان اپنی فطری حیوانی جبلتوں پر فتح پا کر بلند ہو سکتا ہے اور نامکمل ہونے کے باوجود اپنی تکمیل میں کوشاں رہتا ہے۔ بڑے ادب میں انسان کا یہی تصور ہے۔ آگے چل کر یہی تصور منٹو پر میری کتاب ’’نوری نہ ناری‘‘ کا مرکزی موضوع بنا۔۔ ۔ پیچھے مڑ کر جب اس دور پر نظر جاتی ہے جس وقت منٹو سے غفلت، تغافل یا خوف محسوس ہوا کرتا تھا تو وہ زمانہ بچپنے کا زمانہ لگتا ہے۔۔ ۔ میری نظر میں اُن تنقیدی مضامین کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے جو میں نے تقسیم سے پہلے لکھے تھے۔۔ ۔ یہ مضامین اتنی چھوٹی عمر میں لکھے گئے تھے کہ ان میں سنجیدگی، سلجھاؤ اور توازن کا فقدان تھا۔ اب تنقید میں میں نے جو بہتر کام کیا ہے، وہ تقسیم کے بعد ہی کیا ہے۔ چناں چہ منٹو کا مطالعہ ہے جسے میں اپنی تنقیدی کاوشوں میں سب سے بہتر اور اہم سمجھتی ہوں۔‘‘

(بحوالہ ’’ادبِ لطیف‘‘ جوبلی نمبر 63 نقادوں سے دس سوال) منٹو نوری نہ ناری صفحہ 24-25

اس مرحلے پر یہ ذکر بھی دل چسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ترقی پسندی کے ایک حیدرآبادی اجلاس کی قرار داد کی روداد بیان کرتے ہوئے اختر حسن نے اپنی خود نوشت سوانح کچھ یادیں کچھ باتیں (مرتبہ ڈاکٹر شجاعت علی راشد مطبوعہ 2019 ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی۔ 6) میں بتایا کہ اس قرار داد میں عریانی و فحاشی سے بچنے پر زور دیا گیا تھا۔ اگلی ہی صف میں حسرت موہانی بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے احتجاج کیا اور کہا ’’دنیا کا جتنا آرٹ ہے، ادب ہے سب میں آپ کو عریانی ملے گی۔ شاعری میں بھی ہوتی ہے۔ عریانی میں کوئی مضائقہ نہیں مگر وہ شائستہ اور لطیف ہونی چاہئے۔‘‘ اس پر سبطِ حسن نے کہا کہ ’’مولانا (حسرت موہانی) صحیح بات کہتے ہیں مگر غلط موقع پر کہتے ہیں‘‘ (اس اجلاس کی روداد کرشن چندر نے ’’پودے‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی)

شعبۂ اردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور پاکستان کے زیر اہتمام 2005-2006 میں ’’تحقیق نامہ‘‘ شائع ہوا ہے۔ ادارۂ ’’نقوش‘‘ کے روح رواں محمد طفیل کا پانچ جولائی 1986 کو انتقال ہوا۔ ان کے فرزند جاوید طفیل نے ہند و پاک مشاہیر کے جناب محمد طفیل کے نام لکھے ہوئے پانچ ہزار مکاتیب کا نایاب ذخیرہ جی سی یونیورسٹی (لاہور) کو بطور عطیہ دیا۔ راقم الحروف (رؤف خیر) کے پاس 2005-2006 کا یہ ان مول ’’تحقیق نامہ‘‘ ہے جو محمد طفیل کی بیسویں برسی کی مناسبت سے بیس مرحوم مکتوب نگاران کے محمد طفیل کے نام چارسو مکاتیب پر مشتمل ہے۔ ان میں ممتاز شیریں کے چالیس نایاب خطوط بھی ہیں۔ مخفی مباد ممتاز شیریں نے بہ مشکل اڑتالیس سال کی عمر پائی۔ وہ اور ان کے شوہر ڈاکٹر صمد شاہین بڑی خوش گوار زندگی گزارتے رہے ان کے دو بچے ہیں جن کی تعلیم و تربیت پر دونوں توجہ دیتے رہے۔ پتہ نہیں وہ بچے ماں باپ کا نام کس حد تک روشن کر رہے ہیں: محمد طفیل کے نام ممتاز شیریں نے جو پہلا خط بنگلور سٹی سے لکھا تھا وہ یکم نومبر 1946 کا ہے۔ خط ۷۸۶ سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر کسی خط پر یہ ہندسہ ۷۸۶ نظر نہیں آتا۔

بنگلور سٹی۔ ۱۔ نومبر ۱۹۴۶ء

مکرمی تسلیم۔ پرسوں جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کا خط آیا تھا کہ آپ ان کی کتابیں ’’آبلے‘‘ اور ’’رم جھم‘‘ ریویو کے لیے بھجوا رہے ہیں لیکن ابھی تک ہمیں یہ کتابیں نہیں ملی ہیں۔ از راہِ مہربانی دونوں کتابیں بھجوا دیں تاکہ ہم تفصیلی تبصرہ کروا سکیں اور مجھے اس وجہ سے بھی جلدی ہے کہ میں ’’آبلے‘‘ کے افسانوں کا ذکر اپنے مضمون ۴۵ء اور ۴۶ء کے افسانوں میں کرنا چاہتی ہوں۔ یہاں تو کہیں یہ کتاب دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ لیکن سنا ہے کہ یہ افسانے بہت اچھے ہیں۔

دونوں کتابیں جلد بھجوا سکیں تو بہت عنایت ہو گی۔ نیاز آگیں۔ ممتاز شیریں

پتہ: جناب محمد طفیل صاحب مالک ادارۂ فروغ اردو۔ اندرونی لوہاری دروازہ۔ لاہور

ممتاز شیریں نے پہلا خط جو بنگلور سٹی انڈیا سے 1946 میں لکھا تھا وہ محمد طفیل مدیر نقوش کے نام (بیس مرحومین کے چار سو مکاتیب کے) اس ذخیرے میں سب سے قدیم مکتوب قرار دیا گیا ہے۔ ممتاز شیریں کے ان چالیس خطوط سے ان کی بیماریوں اور سفروں کا حال بھی معلوم ہوتا ہے جو وہ اپنے شوہر ڈاکٹر صمد شاہین کے ساتھ دنیا کے مختلف ملکوں کا دورہ کرتی رہیں۔ وہ ہر مقام سے جناب محمد طفیل کو لکھتی ہیں کہ ان کے نام ’’نقوش‘‘ بھیجا جاتا رہے۔ محمد طفیل ان سے تخلیقات اور ان کی تصویر کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ پاکستان پہنچنے کے بعد ممتاز شیریں نے جو خط لکھا وہ یوں ہے:

8Fگپتا منشن نزد پلازا کراچی ۳

۲۷فروری ۱۹۵۰ء

مکرمی سلام مسنون

آپ کا خط مل گیا تھا۔ شکریہ۔ آپ نے ’’نقوش‘‘ کے خاص نمبر کے لیے ایک افسانہ اور بڑے سائز کی تصویر بھیجنے کے لیے لکھا ہے۔ افسانہ تو میرے پاس کوئی نہیں ہے البتہ رپورتاژ پر ایک تازہ مضمون لکھا ہے۔ یہ میں آپ کو بھیج دیتی ہوں لیکن اسے ذرا صاف کر کے نقل کرنا ہے اور ان دنوں میں بیمار ہوں۔ یہ خط بھی بچھونے پر سے لکھ رہی ہوں۔ جب صحت کچھ اچھی ہو جائے تو یہ مضمون نقل کر کے آپ کو بھیج سکوں گی۔ امید آپ مع الخیر ہوں گے۔ نیاز کیش ممتاز شیریں

 

اُن کے چالیس بہت معلوماتی خطوط میں سے چند ہی خطوط کے اقتباسات میں اپنے مضمون کی مناسبت سے یہاں پیش کر رہا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سعادت حسن منٹو کے فکر و فن سے کس قدر متاثر تھیں۔ ایک خط کا اقتباس دیکھیے:

8F گپتا منشن نزد پلازا کراچی ۳

۱۶جنوری ۱۹۵۲ء

مکرمی سلام مسنون

۔۔ ۔ منٹو صاحب پر میں ایک کتاب لکھ رہی ہوں۔ شاید اس کا کوئی حصہ مکمل کر کے بھیج سکوں۔ اس دفعہ کا نقوش Imposing ہے۔ البتہ مضامین کے حصے میں یہ احساس ہوتا ہے کہ کئی ایک چیزیں محض تبرکاً ہی شامل ہوئی ہیں۔ عبادت بریلوی صاحب کے مضمون میں جو Factual غلطیاں ہیں سو ہیں۔ موضوع کو انھوں نے سمجھا ہی نہیں ہے۔ ادب پر آج کل جو جمود چھایا ہوا ہے وہ تعداد کے لحاظ سے نہیں بلکہ معیار کے لحاظ سے ہے۔ معمولی چیزیں کتنی بھی لکھی جائیں، صرف چند اچھی چیزوں کی بات نہیں آ سکتی۔ مشکل یہ ہے کہ آج کل کوئی لکھ ہی نہیں رہا ہے اور پرچوں کو زندہ رکھنا بہت دشوار معلوم ہو رہا ہے۔ ’’نیا دور‘‘ کے لیے بھی ہمیں یہی دشوار یاں پیش آ رہی ہیں میرا خیال ہے کہ آپ ’’نقوش‘‘ کو Quarterly بنا دیں تو اتنی دقت کا سامنا کرنا نہ پڑے گا۔ امید آپ مع الخیر ہوں گے۔

نیاز کیش ممتاز شیریں۔

۱۶؍جنوری ۱۹۵۲ء کو ممتاز شیریں نے منٹو پر کتاب لکھنے اور اس کا کچھ حصہ ’’نقوش‘‘ میں چھپنے کے لیے دینے کی بات کی تھی۔ آگے ۲۲؍فروری کو اس میں جو پیش رفت ہوئی ہے اس کا ذکر ہے۔ اقتباس دیکھیے:

نیا دور 8F گپتا میانشن۔ نزد پلازا کراچی ۳

۲۲؍فروری ۱۹۵۲ء مکرمی سلام مسنون

۔۔ ۔ ان دنوں میری طبیعت کچھ ناساز ہو گئی تھی۔ پانچ چھے دن تک ہلکا بخار بھی رہا۔ اس لیے مضمون آپ کو وقت پر بھیج نہ سکی۔ مضمون تیار ہے۔ لیکن چوں کہ یہ کتاب کا ایک حصہ ہے، میں اسے ایک سے دو تین دفعہ غور سے دیکھ رہی ہوں۔ بہر حال مضمون میں آپ کو ضرور بھیجوں گی۔ ایک ہفتہ یا کم از کم پانچ چھ دن کی اور مہلت دے دیجئے۔ یہ مضمون جیسا کہ میں نے آپ کو مطلع کیا تھا، منٹو پر کتاب ’’نوری نہ ناری‘‘ کا ایک حصہ ہے اور میری تحریر کے فل سکیپ سائز کے کوئی پندرہ سولہ صفحات کا ہے‘‘۔۔ ۔

ممتاز شیریں بے چاری واقعی بیمار چل رہی تھیں اس لیے وہ وعدے کا پاس نہیں رکھ پا رہی تھیں اپنے اگلے خط میں دیکھیئے وہ کیا فرماتی ہیں:

۸۔ ایف گپتا میانشن، نزد پلازا، کراچی ۳

۹؍مارچ ۱۹۵۲ء مکرمی سلام مسنون

’’نقوش‘‘ کا خاص نمبر اب کس منزل میں ہے؟ اور آپ کو مضمون بھیجنے کی آخری تاریخ کیا ہے؟ (صمد) شاہین نے مجھے بتایا تھا کہ لاہور میں آپ سے ملاقات ہوئی تھی اور آپ نے مضمون جلد بھجوانے کو کہا تھا۔ مضمون تیار ہے اور میں اسے نقل کر رہی ہوں۔ میں نے شاید آپ کو پچھلے خط میں لکھا تھا کہ مضمون میری تحریر کے فل سکیپ پندرہ سولہ صفحات میں آئے گا۔ اب میں نے اس میں کافی اضافہ کر دیا ہے اور اس کے کم از کم پچیس ۲۵ صفحات ہوں گے۔ کیا نقوش میں اس کے لیے گنجائش نکل سکے گی؟ (صمد) شاہین میرا مضمون دیکھنا چاہتے تھے لیکن وہ بالکل دیکھ ہی نہ پائے کیوں کہ لاہور سے لوٹنے کے فوراً بعد انھیں گورنر جنرل کے ساتھ پھر سرحد کے دورے پر جانا پڑا۔ اب وہ پانچ چھ دن میں لوٹیں گے اور میں مضمون اسی وقت آپ کو بھیج دوں گی۔ امید آپ مع الخیر ہوں گے۔ نیاز کیش ممتاز شیریں

تقریباً ڈھائی سال وہ منظر نامے سے غائب رہیں پھر اچانک ایک خط میں لکھتی ہیں:

8Fگپتا میانشن نزد پلازا، کراچی ۳

۲۱؍دسمبر ۱۹۵۴ء

مکرمی سلام مسنون آپ کا کارڈ ملا۔ یاد آوری کا شکریہ

جی ہاں میں جون ہی میں یورپ چلی گئی تھی اور اکتوبر میں واپس آئی۔ (صمد) شاہین ابھی تک ہالینڈ میں ہیں۔‘‘ (اقتباس)

اس عرصے میں ادبی دنیا کے نابغۂ روزگار سعادت حسن منٹو صرف ۴۳ تینتالیس سال کی عمر میں بہ عارضۂ تپ دِق ۱۸؍جنوری ۱۹۵۵ء کو رحلت کر گئے اور لاہور میانی صاحب میں تدفین عمل میں آئی۔ ممتاز شیریں اس دوران منٹو کے فکر و فن سے بہت متاثر ہو چکی تھیں۔ چنانچہ انھوں نے منٹو میموریل قائم کیا جس کی وہ خود اعزازی سکریٹری تھیں۔ منٹو میموریل کے لیٹر ہیڈ پر محمد طفیل کے نام خط لکھا گیا تھا اس کا اہم اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

منٹو میموریل۔ 8 Fگپتا میانشن نزد پلازا کراچی ۳

فروری ۱۹۵۵ء مکرمی سلام مسنون

آپ کے دونوں کارڈ ملے۔ منٹو پر مضمون انشاء اللہ (ان شاء اللہ) آپ کو مارچ کے پہلے ہفتے میں مل جائے گا۔ مضمون طویل نہیں ہو گا۔ اس میں صرف یہ بتانا ہے کہ وہ کون سا آخری تکمیلی نکتہ تھا جس تک منٹو پہنچے تھے‘‘

سب سے پہلے ۱۶؍جنوری ۱۹۵۲ء کے اپنے خط میں ممتاز شیریں نے محمد طفیل کو اطلاع دی تھی کہ منٹو پر وہ اک کتاب لکھ رہی ہیں جس کا اک حصہ پندرہ سولہ صفحات پھر پچیس صفحات تک پھیلا تھا۔ بے چارہ منٹو جان ہی نہ سکا کہ اس پر اپنی کتاب میں وہ آخر کیا لکھ رہی ہیں۔

اب جو ممتاز شیریں نے منٹو میموریل کی داغ بیل ڈالی تو اس کے اغراض و مقاصد بھی فروری ۱۹۵۵ کے خط میں یوں بیان ہوئے ہیں:

’’منٹو میموریل کے نام سے منٹو پر ایک یادگار اور سیر حاصل مجموعہ شائع کرنے کی تجویز پیش ہوئی ہے جس میں سب اچھے اچھے ادیبوں کی طرف سے منٹو کو Tributes ہوں گے اور فن اور شخصیت پر مضامین، اور اس کے ساتھ منٹو کے افسانوں کا انتخاب۔ یہ منٹو کی خدمت میں ہم سب ادیبوں کی طرف سے ایک ہدیہ ہو گا جس کی حیثیت مستقل ہو گی اور اس کتاب کی ساری آمدنی صفیہ منٹو صاحبہ کی خدمت میں ہم ادیبوں کی طرف سے پیش کی جائے گی۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ آج کل بڑی تکلیف دہ مالی دشواریوں سے گزر رہی ہیں۔ منٹو نے اپنے خون سے ادب کو سینچا، اپنی ساری زندگی ادب کے لیے وقف کر دی۔ ظاہر ہے کہ یہاں کوئی ادیب صرف ادب کے سہارے جی نہیں سکتا۔ لیکن منٹو نے بڑی ہمت سے یہ صلیب اپنے شانوں پر اٹھائی اور آخر دم تک ثابت قدم رہا۔ لیکن اب جب کہ اس کے متعلقین کو بے حددشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہ ہے، ہم سب کا فرض ہے کہ ساتھ مل کر مدد کریں۔ ساتھ ہی یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ حکومت پنجاب اور مرکزی حکومت سے ان کے نام وظیفہ مقرر کرنے کی درخواست کی جائے۔ یہاں ہم لوگ مرکزی حکومت کو Approachکریں گے۔ لاہور سے آپ لوگ حکومت پنجاب کو اس طرف توجہ دلا سکیں تو بہت اچھا ہو گا۔ نیاز کیش ممتاز شیریں

18 جنوری 1955 کو منٹو کے گزر جانے کے بعد ان کے بے یار و مددگار افرادِ خاندان کی مالی امداد کے لیے ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے ممتاز شیریں نے منٹو میموریل قائم کر کے عملی ثبوت دیا۔ حالانکہ وہ خود بیمار چل رہی تھیں۔ چناں چہ اپنے ایک خط میں وہ مدیر ’’نقوش‘‘ محمد طفیل کو لکھتی ہیں:

8Fگپتا میانشن نزد پلازا کراچی ۳

۱۰؍مارچ ۱۹۵۵ء

مکرمی سلام مسنون

مضمون ’’منٹو کی فنی تکمیل‘‘ بھیج رہی ہوں۔ رسید سے مطلع کریں۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اس سے جلد بھیج سکوں لیکن پچھلے چند دنوں سے بیمار ہوں۔ بات یہ ہے کہ آکسفورڈ میں میرا نزلہ کا علاج ادھورا رہ گیا تھا۔ اب وہاں سے انجکشن آ گئے ہیں اور میں ہر دوسرے روز ایک انجکشن لے رہی ہوں۔

میں آپ کی ممنون ہوں کہ منٹو میموریل کے سلسلے میں آپ نے ہر طرح سے تعاون کا یقین دلایا ہے اور آپ کے ہاں چھپے ہوئے مجموعوں سے کچھ لینے کی بھی اجازت دی ہے۔ آپ نے لکھا تھا کہ ’’منٹو میموریل‘‘ پر چھپا ہوا جو مواد میں نے بھجوایا تھا وہ صفیہ صاحبہ لے گئی ہیں اور میں مزید آپ کو بھجوا دوں۔ یہ مواد بھی ساتھ ہی بھیج رہی ہوں۔ منٹو پر کتاب کے سلسلے میں (صمد) شاہین سے میں مشورہ کرنا چاہتی ہوں۔ اس کتاب کے دو اک باب اور لکھنے باقی ہیں۔ مکمل مسودہ میرے خیال میں فل سکیپ سائز کے کوئی سوا دو سو ڈھائی سو صفحوں کا ہو جائے گا۔ ساتھ ہی اس کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہو رہا ہے کیوں کہ یہ کتاب انگریزی میں بھی چھپے گی۔

امید آپ مع الخیر ہوں گے۔ نیاز کیش ممتاز شیریں

وہ ممتاز شیریں جس نے منٹو پر پندرہ سولہ صفحات کا مضمون لکھنا شروع کیا تھا جو بڑھتے بڑھتے پچیس صفحات تک پھیل گیا تھا پھر منٹو کی فنی تکمیل کے نکتے سُجھانے لگیں تو یہ سلسلہ ڈھائی سو صفحات فل سکیپ تک جا پہنچا۔ ان کے خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ بہ امید منظوری منٹو پر انھوں نے جو کچھ لکھا وہ ڈرافٹ فار اپروول Draft for Approval ہوا کرتا تھا اور یہ اس وقت تک اشاعت کے لیے دیا نہ جا سکتا تھا جب تک کہ وہ ان کے شوہر صمد شاہین کی نظر سے گزرتا نہ ہو۔ اس میں شک نہیں ممتاز شیریں کے شوہر ڈاکٹر صمد شاہین ایک ذمہ دار سرکاری اعلیٰ افسر کے ساتھ ساتھ صاحب نظر بھی تھے۔

منٹو پر آخری مضمون ممتاز شیریں نے تقریباً مرض الموت سے گزرتے ہوئے اس احساسِ ذمہ داری کے تحت لکھا کہ وہ منٹو کی پندرھویں برسی کے موقع پر مضمون پڑھنے کا وعدہ کر چکی تھیں۔۔ ۔ ’’منٹو کی موت کے بعد سے اب تک اس کتاب کا مکمل نہ کرنا میرے لیے ایک احساس جرم بن گیا ہے‘‘۔ (بحوالہ منٹو نوری نہ ناری)

آنتوں کے کینسر کا شکار ہو کر بالآخر ممتاز شیریں بھی 11؍مارچ 1973ء کو دنیا سے کوچ کر گئیں تاہم ادبی دنیا میں اپنے کارنامے چھوڑ گئیں۔ انھوں نے منٹو پر اپنی کتاب مکمل کرنے کی گویا سو گند کھائی تھی مگر وہ قسم پوری نہ کر سکیں اور نہ اس کا ’’کفارہ‘‘ ہی ادا کر سکیں۔

 

مآخذ:

۱۔     تحقیق نامہ 2005- 2006شعبہ اردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، پاکستان

۲۔     منٹو۔ نوری نہ ناری۔ ممتاز شیریں (ریختہ ڈاٹ کام Rekhta.com کے حوالے سے) مکتبہ اسلوب کراچی ۱۸۔ مرتبہ آصف فرخی

۳۔     ٹھنڈا گوشت۔ مکتبۂ شعر و ادب لاہور۔ سعادت حسن منٹو۔ تاریخ اشاعت ندارد (زحمتِ مہر درخشاں )

۴۔     ادب لطیف لاہورجوبلی نمبر 63نقادوں سے دس سوال (بحوالہ منٹو نوری نہ ناری صفحہ 24-25)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے