غزلیں ۔۔۔ ڈاکٹر فریاد آزرؔ

چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے درمیاں الجھے رہے

عمر بھر ہم لوگ بھی آز ؔر کہاں الجھے رہے

 

اک ہمیں تھے حضرتِ حاتم کے رشتہ دار کیا

زندگی بھر امتحاں در امتحاں الجھے رہے

 

اس نے رکھا تھا چھپا کر نکتۂ حسنِ عروج

اور ہم بھی داستاں در داستاں الجھے رہے

 

ہم نے دونوں کے لئے دیں بارہا قربانیاں

اور ہم سے ہی زمین و آسماں الجھے رہے

 

جاہلوں کے سامنے خاموش تھے بے شک سبھی

بے زبانوں سے مگر اہلِ زباں الجھے رہے

 

رزق کا اک بے مسلسل سا ذریعہ کیا ملا

اور پھر گھر کے سبھی پیر و جواں الجھے رہے

٭٭٭

 

 

 

 

حسابِ روز و شب ہی ماہ و سال کا سبب بنا

وہ ہجر ہی تھا جو ترے وصال کا سبب بنا

 

وگرنہ میری دشمنی کسی سے بھی کبھی نہ تھی

مرا عروج ہی مرے زوال کا سبب بنا

 

ہزار زخم دل پہ تھے مگر ترا دیا ہوا

عجیب زخم تھا جو اندمال کا سبب بنا

 

ہر اک جگہ، ہر ایک ظلم کے خلاف میں ہی میں

اسی لئے سبھی کے اشتعال کا سبب بنا

 

اسی نے میری زندگی کا رخ بدل کے رکھ دیا

وہ حادثہ جو میرے انتقال کا سبب بنا

 

وگر نہ ان کی نسل بھی غلام ہوتی آج تک

کوئی تو تھا جو حضرتِ بلال کا سبب بنا

 

وہ نفرتوں کا دور پھر بلا رہا ہے کس لئے

یہی تو تھا جو پرچمِ ہلال کا سبب بن

 

وہ کون تھا، کہاں سے آیا تھا، کدھر گیا وہ شخص؟

کوئی تو تھا جو ندرتِ خیال کا سبب بنا

 

تمام رات گفتگو کا سلسلہ رواں دواں

ہر اک جواب پھر نئے سوال کا سبب بنا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے