غزلیں ۔۔۔ فرحت عباس شاہ

(غالبؔ کی زمینوں میں)

 

صبح الم کہے شب ہجراں اٹھائیے

کس کس جگہ سے درد کا ساماں اٹھائیے

 

ہم نے کہا کہ تنگ نہ کیجئے ہمیں حضور

کہنے لگے کہ نخرۂ جاناں اٹھائیے

 

کتنا کہا تھا عشق سے باز آئیے جناب

چلیے اب عمر بھر دل ویراں اٹھائیے

 

ہے فکر پر غزل کی عمارت کھڑی ہوئی

مصرعے کو چھوڑئیے در امکاں اٹھائیے

 

ہیں مضمحل قویٰ بھی تو پیری بھی ہے شریک

کیسے عذاب شورش پنہاں اٹھائیے

 

مہمیز دے رہی ہے بہت خواہش وصال

لیکن کہاں تلک نقد جاں اٹھائیے

 

تھم ہی گیا ہے واں تو تغافل بہ سوئے چشم

کب تک سکوت دیدہ حیراں اٹھائیے

 

فرحت تمام شہر ہو در پَے تو کس لیے

ذلت کو ساتھ اپنے گریباں اٹھائیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

روز کوشش کرے دل بات بنائے نہ بنے

ہو کے مایوس گرے اور کہے ہائے نہ بنے

 

آتشِ عشق سلگنے میں الاؤ پہ مصر

اشک آ آ کے گرے شعلہ بجھائے نہ بنے

 

ان کی خواہش ہے کہ ہو عذرِ معطل پیدا

میں دعا مانگتا رہتا ہوں بِن آئے نہ بنے

 

راکھ مل مل کے کہے دل کہ مرا حال تو دیکھ

اور تری یاد کہ بِن آگ جلائے نہ بنے

 

پھیل جاتا ہے ترا وصل مرے چاروں طرف

جب ترا ہجر کہیں سمٹے سمائے نہ بنے

 

میری خوشیاں کہ مری ہوکے بھی بیگانی رہیں

ہاں مگر درد کہ اک پل بھی پرائے نہ بنے

 

ذہن الزام کے خدشے کی شقاوت کا اسیر

دل کا یہ حال کہ بِن پردہ اٹھائے نہ بنے

 

زندگی حسنِ تضادات کی آرائش ہے

ہم کو روئے نہ بنے اس کو رلائے نہ بنے

 

طبعِ نازک پہ گراں گزرے نہ گزرے فرحت

نالۂ ہجر کی خو ہے کہ سنائے نہ بنے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے