نیا نگر ۔۔۔ تصنیف حیدر

قسط ۴

 

تاریکی ابھی ڈھلی نہیں تھی، جھٹپٹا ہی تھا۔ مجید صاحب گھر پر بیٹھے معقول نقوی سے کسی معاملے پر سنجیدہ گفتگو کر رہے تھے کہ اتنے میں مرزا امانت ایک شخص کو اپنے ساتھ لے کر حاضر ہوا۔ ڈرائنگ روم میں کچھ دوسرے شاگرد بھی بیٹھے تھے جو آپس میں چپکے چپکے مگر بڑے جوشیلے انداز میں بات چیت کر رہے تھے۔ دروازہ کھلنے پر پڑوس سے ایک جھلملاتے ہوئے فلمی نغمے کی آواز بھی گھر میں وارد ہوئی، جس پر ایک شاگرد موج میں آ کر چٹکیاں بجانے لگا۔ مرزا امانت نے دروازہ بند کیا اور اپنے ساتھ موجود شخص کو ایک جانب بیٹھنے کا اشارہ کر کے وہ مجید صاحب یعنی اپنے استاد کی جانب آگے بڑھا۔ باری باری ان سے اور معقول نقوی سے ہاتھ ملا کر وہ برابر ہی بیٹھ گیا اور گفتگو کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ بات کسی شاعر پر ہو رہی تھی، جس کا جوانی میں انتقال ہوا تھا اور جو مجید صاحب کی جوانی کے دنوں میں ان کا اچھا دوست رہ چکا تھا، اس کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا تھا، مگر مجید صاحب نے جب اس کے اشعار معقول نقوی کو سنائے تو وہ پھڑک اٹھا اور نئے سرے سے موت نامی ٹریجڈی پر ایک گفتگو چھیڑ دی تھی۔ شیلے سے کر مجاز تک کا ذکر ان کی گفتگو میں آ چکا تھا، وہ اپنی گفتگو کے انتہائی دلچسپ موڑ پر تھا مگر مرزا امانت پلوتھی مارے شانوں کو ایک خاص انداز میں اچکا رہا تھا، اس کے اس طور سے بے صبری صاف جھلک رہی تھی۔ معقول نقوی یوں تو ان معاملوں میں اتنا معقول آدمی نہیں تھا مگر شاید مرزا امانت کے کندھوں کی حرکت اس کے نفیس مزاج پر ضربیں لگا رہی تھی۔ چنانچہ وہ جلدی میں مجید صاحب سے کوئی بہانہ کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔ مجید صاحب کو اس کی عجلت کا سبب تب سمجھ آیا جب مرزا امانت نے معقول سے بیٹھے رہنے کا اصرار کرنے کے بجائے الوداعی مصافحہ کے لیے کھڑے ہو کر گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔ مرزا امانت جس شخص کو اپنے ساتھ لایا تھا، اس کا تعارف یہ تھا کہ وہ پہلے ایک پراپرٹی ڈیلر تھا، مگر اب چھوٹا موٹا سرمایہ لگا کر کوئی سائڈ بزنس بھی شروع کرنا چاہتا تھا۔ ابھی تک اس کا دفتر بھی نہیں تھا اور وہ صرف اپنے تعلقات کی بنیاد پر اس فیلڈ میں کام کر رہا تھا۔ نام تھا وسیم۔ اس کی شکل دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ پراپرٹی ڈیلنگ کے کاموں کے لیے جس قسم کی باریک ہوشیاری درکار ہوتی ہے، وہ کام کرتے اور سمجھتے اس کے ہاؤ بھاؤ میں، زبان و بیان میں شامل ہو گئی تھی۔ وہ میرا روڈ کے مختلف علاقوں میں بائیک پر گھوم گھوم کر سودے طے کراتا تھا۔ چنانچہ بات کرتے وقت اکثر اس کی شہادت کی انگلی میں بائیک کی چابی ناچتی رہتی تھی۔ اس وقت بھی وہ یہی کر رہا تھا، بیٹھا تھا۔ آس پاس شعر و شاعری کی دھیمی دھیمی گفتگو سن رہا تھا اور ساتھ میں چابی گھماتے ہوئے اس کی نظر امانت کی سرگوشیوں کی جانب ہی تھی۔ امانت کے تعارف کرانے پر مجید صاحب اس سے بہت محبت سے ملتے، جیسے کہ وہ ہر ایک سے ملا کرتے تھے، مگر اب بھی وسیم کی اس ملاقات کا مدعا ان پر روشن نہیں ہوا تھا۔ شاید مرزا امانت اصل بات کرتے ہوئے ہچکچا رہا تھا، چنانچہ وسیم نے ہی تھوڑی بہت رسمی گفتگو کے بعد مدعا صاف لفظوں میں بیان کیا۔ اور پوری بات کا جو مطلب مجید صاحب کو سمجھ میں آیا وہ یہ کہ وسیم نے قاری مستقیم کے یہاں رکھے مجید صاحب کی کتابوں کے کارٹن دیکھے تھے اور میرا روڈ کی شعری و ادبی فضا کو بھانپتے ہوئے اسے لگتا تھا کہ اگر یہاں کوئی چھوٹی موٹی لائبریری قائم کر دی جائے تو لوگ باگ ضرور سستے داموں پر دس پندرہ دن کے لیے ادبی و علمی کتابیں کرایے پر ضرور لیں گے اور تب تو بزنس کے چمکنے کا امکان اور زیادہ ہے اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ یہ کتابیں مجید صاحب کی ہیں۔ اس نے اس مقصد کے لیے ایک دکان بھی دیکھ رکھی تھی اور اگر مجید صاحب راضی ہو جائیں تو وہ دکان کو دو چند روز میں ہی حاصل کر سکتا تھا۔ یہ دکان بالکل سڑک پر تو نہ تھی، مگر بازار کی پچھلی طرف ہوتے ہوئے بھی، ایسا نہ تھا کہ لوگوں کی آوا جاہی وہاں بالکل نہ ہو۔ چنانچہ جیسے ہی مجید صاحب اس بات کے لیے اپنی رضامندی دے دیں گے وہ دکان کرایے پر لے لے گا۔ مجید صاحب اس آفر کے بدلے میں تھوڑا وقت مانگنا چاہتے تھے۔ کتابوں کے تعلق سے وہ پہلے ہی بہت پریشان تھے کہ قاری مستقیم کی دکان میں انہیں کب تک رکھا جا سکے گا۔ وہ مروت میں کچھ کہتا نہیں، لیکن اگر کسی دن اسے اپنا سپیس بڑھانا ہوا تو کیا ان کے پاس کتابوں کو رکھنے کے لیے کوئی دوسرا بندوبست تھا؟ گھر میں ویسے ہی جگہ کم تھی، مگر ہوتی بھی تو کتابوں کے لیے ڈھنگ کی تین چار الماریوں کا بندوبست تو کم سے کم کرنا ہی پڑے گا اور آج کل ایک الماری دو ڈھائی ہزار سے کم تو کیا ہی ملتی ہو گی۔ ٹین کے ریک بھی لیے جائیں تب بھی سات سو روپیہ فی ریک رقم خرچ ہو گی۔ اس حساب سے کم از کم اکیس سے اٹھائیس سو روپیہ صرف ان کی خرید پر آئے گا۔ پھر مزدوروں سے ان کی پہنچوائی، اس کے بعد کتابوں کو ڈھو کر یہاں لانا اور مان لو کہ یہ ساری مصیبتیں جھیل کر اس چھوٹے سے گھر کو کتابوں سے آراستہ کر بھی دیا جائے تو خود اس چھت کا کیا بھروسہ جو تین ماہ کے کرایے کی رقم سے بالکل سروں سے آ لگی تھی اور اگر ایک دو مہینے پیسے اور نہ گئے تو اس کے دھنسنے کا بھی امکان تھا۔ وہ انہی سب خطوط پر غور کر رہے تھے، اندر کے کمرے میں جا کر انہوں نے بیوی سے مشورہ کیا۔ بیوی نے پوچھا

’کیا وہ کچھ ایڈوانس بھی دیں گے؟‘

’ابھی تو کوئی بات نہیں ہوئی۔‘ انہوں نے بیوی کی کنپٹی پر ابھرتی ہوئی نس کو دیکھتے ہوئے کہا۔

’بات کر کے دیکھیے، اس بار ملک صاحب کو منانا مشکل ہو گا، اگر وہ کچھ دے دے تو کم از کم ایک ماہ کا کرایہ تو ان تک پہنچا دیا جائے۔‘

بیوی کی بات درست تھی۔ مگر پیسوں کے لیے کہنا مجید صاحب کی جان کے لیے ایک الگ ہی مصیبت تھی۔ پھر بھی انہوں نے سوکھتی ہوئی حلق پر گھونسے مارنے کے سے انداز میں جلدی جلدی مرزا امانت کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی پریشانی بیان کر دی۔ وسیم نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا۔

’آپ اس سب کی چنتا نہ کیجیے مجید صاحب۔ ایک بار لائبریری کھل جائے، میں ہفتہ بھر میں کوشش کروں گا کہ آپ کو کچھ ایڈوانس دیا جا سکے۔‘

لائبریری کا جب اتنا ذکر ہوا تو وہاں موجود شاگرد کیسے اس بات سے بے خبر رہ سکتے تھے۔ ان کی آنکھیں چمکنے لگیں اور وہ اپنی گفتگو کو بھول کر میرا روڈ کی سب سے شاندار لائبریری کا تصور کر کے گد گد ہو گئے۔ حالانکہ ان میں سے ایک شخص بھی کتاب کا شوقین نہیں تھا، اور نہ کبھی باقاعدگی سے کسی لائبریری کا کبھی ممبر ہی رہا ہو گا۔ لائبریری کا تصور بھی شاید ان کے لیے مجید صاحب کی شاگردی کے توسط سے ایک نئے اور شاندار چائے گھر کا تصور ہی ہو گا۔ چنانچہ ان کی بانچھیں کھلی جاتی تھیں۔ اگلی دوپہر تک پورا نیا نگر اس بات سے واقف ہو چکا تھا کہ محلے میں مجید صاحب کی کتابوں کی مدد سے ایک نئی لائبریری کھلنے والی ہے۔ اگلی شام بہت سے لوگ آئے اور ان میں سے اکثر خاص لائبریری کی مبارکباد دینے آئے تھے۔ مجید صاحب شرمائے شرمائے سب کی مبارکبادیں قبول کر رہے تھے، ان کے دل میں ایک چھپی ہوئی پریشانی اور آنکھوں میں کچھ رقم ملنے کی امید کو ان کی بیوی کے علاوہ کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اور اس روز جب مہینہ گزرنے میں فقط دو دن باقی تھے۔ لائبریری وجود میں آ چکی تھی۔

٭٭٭

 

دنیا کی اس گھن چکر نگری میں دیکھیے تو کون سی ایسی چیز ہے جس پر ہنسا نہیں جا سکتا۔ سائیکل سے گرتا ہوا آدمی ہو، کوئی تھل تھل بدن ہو، جھولے میں بیٹھ کر ڈرتی ہوئی دوشیزہ ہو یا پھر خفیہ امراض کو ٹھیک کرنے کا کوئی اشتہار۔ مگر جو چیز بجائے خود اپنے آپ میں ایک مذاق بن کر رہ جائے وہ عزت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ نیا نگر کا ایک ایک باشندہ اسی عزت کا بھوکا ہے، اس نیا نگر کو اٹھائیے اور دنیا پر رکھ دیجیے۔ سبھی ایک قسم کی ’عزت‘ کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ کچھ عزت پانے کے لیے، کچھ عزت بچانے کے لیے۔ لیکن عزت کا صحیح مفہوم کیا ہے، وہ کب ملتی ہے، کس حد تک انسان کو نفسیاتی طور پر مطمئن کرتی ہے اور کہاں تک اسے مجروح کرتی ہے۔ یہ ساری چیزی اتنی عجیب ہیں کہ انہیں سمجھنا مشکل ہے۔ نیا نگر جس شاعری کے بل پر رونق آباد بنا ہوا تھا وہ سب اسی عزت کے نپے تلے تصور کے بل پر تھا۔ لوگ نہیں دیکھتے کہ جو عزت دار ہے، وہ اندر سے کتنا شکستہ ہے اور جو بے عزت ہے وہ باہر سے کتنا پر وقار۔ لوگوں کے پاس اتنا وقت بھی نہیں، وہ تو بس ان سب چیزوں کا اندازہ تالیوں، تعریفوں سے ہی لگاتے ہیں کہ کون عزت کے ترازو میں کیسے تولا جا رہا ہے۔ نظر مراد آبادی کی نظر میں عزت کوئی بھاری شے نہیں تھی، وہ اسے ڈھو رہا تھا تو اس لیے تاکہ اس کی جیب کچھ بھاری ہو سکے، اسے ایک مشاعرہ مل سکے، ایک خوشامد پسند استاد کی سرپرستی مل سکے اور ان دونوں کی بدولت اسے کچھ روپیہ پیسہ بھی ہاتھ آ جائے۔ نظیر روحانی چائے کی موٹی موٹی چسکیاں لیتے ہوئے آج کا اخبار بے قراری سے دیکھ رہا تھا، اس کے سر پر ٹوپی تھی، بدن پر ایک بنیان اور نچلے دھڑ پر ایک نیلی رنگ کی تہمد۔ اس کی بے یقینی اور بے قراری اس کی آنکھوں میں نمایاں تھی۔ تھوڑی دیر تک نظر اسے دیکھتا رہا، پھر جب رہا نہ گیا تو پوچھ بیٹھا۔

’کیا ہوا سرکار؟‘

’ارے اس نامعقول عورت نے پھر اپنا بیان بدل دیا ہے۔‘

’کس نے؟‘

’یہی ظہیرہ شیخ۔۔۔ اب اخبار میں اس کا انٹرویو چھپا ہے، کہہ رہی ہے کہ عدالت میں بیان اس لیے بدل دیا کیونکہ جان کو خطرہ تھا۔ عجیب دوغلی عورت ہے، ابے جان تو تیری جاہی چکی تھی اسی دن جب تیرے گھر والے نذر آتش کر دیے گئے، اب کس کے لیے زندہ ہے؟ جھوٹی، مکار۔۔۔ کھا لیے ہوں گے پیسے قاتلوں سے۔۔‘

وہ اسی طرح غصے میں بولتا رہا۔ گجرات میں گزشتہ سال جو دنگے ہوئے، اس کو لے کر مسلمانوں میں ایک عجیب قسم کا غصہ تھا۔ عدالت سے انہیں بہت حد تک امید تھی، بیسٹ بیکری کیس کا معاملہ اسی لیے بہت سنجیدگی سے لیا جاتا تھا کہ اس کی پرائم وٹنس ظہیرہ شیخ، اس کا بھائی اور والدہ تینوں کے ذریعے انصاف ملنے کی امید تھی۔ مگر عدالت میں ظہیرہ نے اپنا بیان بدل دیا تھا۔ بعد میں اس سے جب پوچھا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو اس نے بتایا کہ اسے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اخبار میں اس کے انٹرویو کے ساتھ ہی ایک مضمون بھی چھپا تھا، جس کا عنوان تھا ’آخر کیوں بدلا ظہیرہ شیخ نے اپنا بیان‘۔ مضمون نگار نے ثابت کیا تھا کہ وہ مظلوم ہے، ڈری ہوئی ہے، اس لیے اس کا بیان بدلنا کوئی غیر فطری بات معلوم نہیں ہوتی۔ مگر لوگ اس زاویے سے چیزوں کو نہیں دیکھتے تھے۔ جن لوگوں کو وڈودرا کی ہنومان ٹیکری پر اس رات آگ لگا کر مارا گیا، وہ سب اچانک ان کے اعصاب پر طاری ہو گئے تھے۔ جن کے قتل ہوئے، جن بچوں کو چیرا پھاڑا گیا، جن عورتوں کی عصمت دری ہوئی۔ وہ سب کے سب ہندوستانی مسلمانوں کی نفسیات پر ایک عجیب قسم کے مظلوم بھوتوں کی طرح حاوی ہو گئے تھے، ان کی چیخیں اخباروں کی سطروں سے لے کر لوگوں کی گالیوں تک میں سنی جا سکتی تھیں۔ نظیر روحانی اس مضمون نگار سے بھی خفا ہو گیا تھا، جس نے ظہیرہ کا پکش لیا تھا۔ وہ اسے بھی دلال، قاتلوں کا ایجنٹ اور نہ جانے کیا کیا کہہ رہا تھا۔ اس کا غصہ اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ وہ بات کم کر رہا تھا کف زیادہ اڑا رہا تھا۔ چنانچہ نظر نے اس کے غصے کو کم کرنے کے لیے کہا۔

’کہاں آپ ان سب خبروں میں الجھے ہیں، لائیے وہ غزلوں کا رف والا مسودہ کہاں ہے؟ آج بیٹھ کر ساری غزلیں نقل کیے دیتا ہوں اور پھر شام کو حاجی نفیس کے یہاں شعری نشست بھی تو ہے۔ نئی غزل پڑھیں گے یا پرانی۔۔ پرانی غزلیں اب آپ کی سب سنی جا چکیں، کچھ نیا لکھیے۔‘

سب سنی جا چکیں، ایسا جملہ تھا، جس کے دفاع میں فوراً نظیر روحانی کود پڑا۔ اس نے کہا

’ایسا تو ہرگز نہیں ہے۔ یہ جو رف والا مسودہ ہے، اس کی ایک غزل بھی کہیں میں نے پڑھی نہیں۔ وہ سب تو میں اپنے پرزوں پر جو کچھ لکھتا ہوں، وہی سب پڑھتا رہتا ہوں۔‘

نظر نے بڑے خوشامدانہ انداز میں کہا۔

’استاد! کتنی غزلیں لکھ چکے ہیں اب تک؟‘

’بھئی! خدا غرور سے بچائے۔۔۔ بس یہ سمجھو نظر میاں کہ تیس سال سے بندہ غزل گوئی کر رہا ہے۔ تلمیحی اشاروں کو رقم کرنے کا کام گزشتہ چھ برسوں سے جاری ہے، اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب میں نے کوئی نئی غزل نہ لکھی ہو۔۔۔۔‘

’افوہ! اسے کہتے ہیں فنکاری۔۔۔ کمال ہیں آپ استاد!‘

نظر نے دیکھا، نظیر روحانی اخبار تہہ کر کے ایک طرف رکھ چکا تھا۔ خوشامد اپنا اثر دکھا رہی تھی۔ اس نے نظیر روحانی کی دو تین غزلیں یاد کر لی تھیں، چنانچہ وہ ایک غزل ترنم میں گنگنانے لگا۔ نظیر روحانی کو اس بات پر ایسی حیرت بھری مسرت ہوئی کہ اس نے خوشی سے دو بار ران تھپتھپائی اور اپنی ہی غزل کو کسی مشہور شاعر کا کلام مان کر انہماک سے سننے لگا۔

٭٭٭

 

حاجی نفیس رئیس آدمی تھا۔ میرا روڈ میں دو اور بھائیندر میں اس کا ایک سی سائڈ فلیٹ تھا۔ کم از کم گیارہ بار حج اور ان گنت بار عمرہ کر چکا تھا۔ شاعری پر کسی سے اصلاح نہیں لیتا تھا کیونکہ وہ خیال کی اوریجنلٹی کا قائل تھا۔ چنانچہ اس کی اکثر غزلیں بے بحر ہوتی تھیں۔ مگر وہ انہیں ایسے لہک لہک کر ترنم اور تحت میں پڑھتا کہ محفل جھوم جھوم جاتی۔ محفل کے جھومنے میں کچھ اس کی امیری اور کچھ اس کے مسخرے پن کا دخل تھا۔ مجید صاحب کی دل سے عزت کرتا تھا اس لیے ہر نشست کی صدارت انہی کے ذمہ ہوتی تھی، وہ بس اتنا خیال کرتے تھے کہ اس کی بے بحر شاعری کو محبت سے مسکرا کر قبول کرتے تھے، اسے روکتے ٹوکتے نہیں تھے، دوسروں کی طرح اس کا مذاق نہیں اڑاتے تھے اور سب سے بڑھ کر اپنی طرف سے اصلاح کی کوشش بھی نہیں کرتے تھے۔ حاجی نفیس کو اپنی بے بحر شاعری پر جو زعم تھا اس کی ایک وجہ تھی اور وہ تھی بھی بڑی دلچسپ۔ کچھ عرصہ پہلے اس کا مجموعہ کلام بھاری قیمت پر میرا روڈ کے ہی ایک پبلشر کے ذریعے شائع ہو کر منظر عام پر آیا تھا۔ لیکن منظر عام پر آنے کے باوجود بھی لوگ اس کی کتاب قبول کرتے ہوئے کتراتے تھے۔ کبھی کوئی بہانہ بناتے، کبھی کوئی۔ چنانچہ بچارے کی اشاعت شدہ ایک ہزار کاپیاں اس کے عالیشان فلیٹ کے ایک کونے میں پڑی رہتی تھیں۔ مگر ایک روز جب قاری مستقیم کی دکان پر بہت سے شاعروں کی بیٹھک جمی ہوئی تھی۔ وہ ایک سفید رنگ کا بڑا سا لفافہ لہراتے ہوئے بیٹھک میں جا گھسا۔ اور سب کے سامنے وہ سفید لفافہ لہراتے ہوئے گویا ہوا۔

’آپ لوگ میری شاعری کو گھاس نہیں ڈالتے۔۔ میں جانتا ہوں کیوں، کیونکہ آپ کے بقول یہ بحر میں نہیں ہے۔۔۔ تو حضرات بحر کا زمانہ جا رہا ہے، یہ تو خیال کی چمک کا زمانہ ہے، میں نہ کہتا تھا کہ اس کی صحیح قدر عالمی سطح پر ہی ہو سکتی ہے۔۔۔ جب کہتا تھا تو یار دوست ہنستے تھے۔۔۔۔ مگر یہ دیکھیے، ثبوت۔۔۔ بل کلنٹن کے دفتر یعنی وہائٹ ہاؤس سے مجھے خط آیا ہے۔ اور کیا لکھا ہے، پڑھ کر سنا دیتا ہوں۔۔۔۔ ۔ اردو میں ہی لکھا ہے، عزت مآب حاجی نفیس صاحب۔۔۔۔‘ اور اس نے ایک سانس میں اس تہنیت نامے کو پڑھ کر ایسے سنایا، جیسے وہ دنیا کا پہلا شاعر ہو، جسے چچا سام کی سند حاصل ہوئی ہو۔ خیر دنیا کا نہ سہی، اردو کا تو وہ واقعی پہلا شاعر تھا، جسے وہائٹ ہاؤس سے کتاب کی موصولی کی ہی سہی، مگر ایک حوصلہ افزا چٹھی ملی تھی۔ اس طرح ببانگ دہل خط سنانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ پہلے اس پر ہنستے تھے، وہ اب اس واقعے پر ہنسنے لگے۔ مگر چند بزرگوں نے جن میں مجید صاحب اور یوسف جمالی دونوں شامل تھے۔ اس کی بڑی دلجوئی کی، اس سے کہا کہ واقعی اس کی قدر اس زمانے اور اس علاقے میں نہیں، ورنہ وہ بہت اچھا شاعر ہے اور زمانے کی قدر نا شناسی سے ڈرنا ٹھیک بات نہیں کہ یہ تو غالب کے حصے میں بھی نہیں آئی تھی۔ میر کو بھی اہل لکھنؤ نے تب تک ہنسی میں اڑایا، جب تک ان کو ٹھیک سے پہچان نہ لیا، چنانچہ اسے مایوس ہونے کی نہیں، بس انتظار کی ضرورت ہے۔ وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے، جب نیا نگر سے اس کے نام کا جو غلغلہ بلند ہو گا، وہ وایا امریکا پوری دنیائے ادب میں اپنی دھاک بٹھا دے گا۔ اسی حوصلے پر آج اس نے یہ نشست رکھی تھی، جس میں کھانے کا عمدہ انتظام تھا، مگر نشست کی واحد شرط اتنی تھی کہ جو مہمان آج آئیں گے انہیں نہ صرف حاجی نفیس کی کتاب لینی ہو گی بلکہ اس کے ہی مکان پر اگلی نشست میں اس پر اپنی رائے کا اظہار بھی کرنا ہو گا، جس سے یہ پتہ چل سکے کہ انہیں کتاب پڑھ کر کیا محسوس ہوا۔ اسے یقین تھا کہ لوگ اس کی شاعری کو ایک دفعہ اگر ٹھیک سے پڑھ لیں تو ضرور اس کے قائل ہو جائیں گے۔ چنانچہ رونق لگی تھی۔ رونق کی دو وجہیں تھیں، پہلی وجہ تھی عمدہ کھانوں کی وہ فہرست جن کا ذکر دعوت ناموں سے لے کر پوسٹروں تک میں کیا گیا تھا اور دوسری وجہ تھی مجید صاحب کے بلانے پر فدا فاضلی جیسے مشہور شاعر کی آمد۔ پروگرام میں جن شعرا کو پڑھنا تھا ان کی تعداد بہت لیے دیے رہنے کے باوجود تیس بتیس تک پہنچ چکی تھی، کیونکہ ہر شخص اپنی شاعری کے جوہر فدا فاضلی جیسے مشہور شاعر کو دکھانا چاہتا تھا، اس لیے لازمی احتیاط کے باوجود بھی یہ فہرست طویل تر ہوتی گئی، اور کاغذ پر فائنل فہرست کے علاوہ بھی مزید چار پانچ لوگوں نے پڑھ کر ہی دم لیا۔ نشست میں نسیم بریلوی بھی آئی تھی، وہ آئی تھی تو شہناز بھی آئی تھی اور شہناز آئی تھی اس لیے اس پروگرام میں بڑے بھائی سے ایک غزل ادھار مانگ کر تنویر صاحب بھی اس نشست گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ طے یہ ہوا تھا کہ پروگرام تنویر سے شروع ہو گا اور پھر نجیب اپنا کلام سنائے گا۔ چنانچہ جب نشست کا آغاز ہوا تو تنویر کی غزل اسی طرح سنی گئی، جس طرح پہلی غزل سنی جاتی ہے، اسی کے بیچ میں کندھوں پر سے پھلانگتے ہوئے لوگ کسی دوست کے اشارے پر برابر بیٹھنے کے لیے لپک رہے ہوتے ہیں، گھر کا کوئی فرد پانی پروس رہا ہوتا ہے، زیادہ دھیان دیے بغیر شاعر کا دل رکھنے کے لیے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بھی لوگ واہ واہ کی صدا بلند کر رہے ہوتے ہیں۔ اتنا سب ہو رہا تھا مگر ہر شعر پر تنویر مصنوعی داد پا کر بھی کپکپاتی نظر سے شہناز کی طرف دیکھ لیتا تھا۔ اس کے بعد نجیب نے (جو کہ اس نشست کی نظامت بھی کر رہا تھا) اپنا کلام پڑھنا چاہا تو لوگوں نے منع کر دیا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ محفل میں اس کے کچھ خوشامدی شاگرد بھی موجود تھے، جو اب مجید صاحب کی جگہ اس سے اصلاح لیتے تھے، شور بڑھا اور یہی طے ہوا کہ نجیب کو اپنے مقام پر ہی غزل سنانا چاہیے۔ نجیب نے اپنی عزت افزائی پر دل ہی دل میں ایک فخر سا محسوس کیا۔ اسے لگا جیسے آج تو یقینی طور پر شہناز کو بھی معلوم ہو گیا ہو گا کہ وہ کتنا عزت دار اور کتنا ہونہار اور قابل شاعر ہے۔ اس نے آج پڑھنے کے لیے جس غزل کا انتخاب کیا تھا، اس میں بھی اظہار محبت کے بہت سے اشارے موجود تھے۔ غالباً شہناز ہی اس بات سے بے خبر تھی کہ نشست ہو یا مشاعرہ، ان کی تہذیب میں پہلے دوسرے مقام پر پڑھنے والے شاعروں کو نوخیز سمجھا جاتا ہے، کسی شاعر کے ادبی و علمی قد کا اندازہ نشستوں میں اسی بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہ کون سے مقام پر پڑھ رہا ہے، جیسے کہ اس پروگرام میں بالکل آخر میں فدا فاضلی کو اپنا کلام سنانا تھا۔ اس لیے جتنا بڑا شاعر، اتنا آخر میں اس کا نمبر۔ پھر بھی نجیب کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں اور اس کی امید کو آج کی اس قدر افزائی نے اور بڑھا دیا تھا۔ سب ہی لوگوں نے باری باری کلام سنایا، جن میں نظر مرادآبادی، طائر امروہوی، نسیم بریلوی، امانت مرزا اور قاری مستقیم سبھی تھے۔ نظیر روحانی کا نمبر بھی آخر کے شاعروں میں تھا، لیکن حاجی نفیس سے پہلے کیونکہ حاجی نفیس میزبان تھا اور یہی وہ اکلوتی جگہ ہو سکتی تھی جہاں وہ یوسف جمالی اور مجید صاحب سے پہلے کلام سنا کر خود کو ان کا ہم پایہ شاعر منوا سکتا تھا۔ یہ درجہ بندی دیکھنے میں متعصبانہ لگ سکتی ہے، مگر اسی میں اپنا نمبر استاد کے قریب سے قریب تر لانے کی جستجو ہر شاعر کو رہتی تھی، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہر نئے شاعر کو ہوا کرتی تھی۔ طائر امروہوی کا نمبر آیا تو اس نے باقاعدگی سے کھڑے ہو کر پہلے سب کو آداب کیا، پھر دونوں ہاتھ بدن پر یوں باندھے جیسے نماز کے دوران باندھے جاتے ہیں، پھر فدا فاضلی کی نذر کرتے ہوئے ایک نظم پڑھنی شروع کی، مگر ابھی دو مصرعے ہی پڑھے تھے کہ حاجی نفیس کا چھوٹا بھائی نہ جانے کہاں سے اچک کر نشست میں دھم سے کود پڑا اور زور زور سے حاجی نفیس کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔

’کفریات، کفریات۔۔۔۔ یہ کیسی کفریات بک رہے ہیں، یہ شاعر۔۔۔ اسی لیے اللہ نے ان سب کو جہنم کا ایندھن بنا دیا ہے، کیا ہو گیا ہے بھائی جان آپ کو۔۔ دکھتا نہیں۔۔۔ اپنی آخرت تو خراب کر رہے ہیں، اپنے بچوں کی بھی، بھابھی کی بھی، سب کو لے ڈوبنا چاہتے ہیں کیا۔۔۔ ایسے ایسے با ریش لوگ بیٹھے ہیں یہاں۔۔۔ سمجھ نہیں مگر ان کو اسلام کی۔۔ ارے بھائیوں جاؤ کہیں اور جا کر اپنی عاقبت خراب کرو۔۔۔ اسے شیطان کا گڑھ مت بناؤ۔۔۔‘ اس کی کچی داڑھی برابر لرز رہی تھی۔۔۔ شاعروں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔۔۔ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ حاجی نفیس سر نیچا کیے، چپ چاپ اپنے چھوٹے بھائی سے صلواتیں سن رہا تھا۔ دیوبندی مکتبہ فکر کا یہ نیا نیا عالم اس قدر ترش روئی سے شاعروں کو ڈانٹ رہا تھا گویا وہ شعر ہی نہیں سنا رہے ہوں بلکہ ساتھ ساتھ شراب بھی پی رہے ہوں۔ طائر امروہوی سب سے پہلے کھسکا، پھر سارے شاعر مجید صاحب کی پیروی کرتے ہوئے گھر سے باہر جانے لگے، کوئی بچی ہاتھ میں چائے کی بڑی سی ٹرے پکڑے شاید اس طرف لا رہی تھی، مگر اپنے چچا کی گرج دار آواز سن کر گیلری میں کھڑی رہ گئی تھی۔

رات کا قریب گیارہ ساڑھے گیارہ بجا تھا۔ نیا نگر کی سڑکوں پر کتے اچھل کود مچا رہے تھے۔ لمبی سڑک پر اکا دکا گاڑیاں تھیں۔ ماحول میں خنکی تھی مگر شاعروں کی رفتار دھیمی سے بھی کچھ کم تھی۔

’بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے۔‘ فدا صاحب نے غالب کا مصرع پڑھا اور جواب میں مجید صاحب نے استغراق میں ڈوبی ہوئی گردن ہلا دی۔ اب ان دونوں کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ چوک پر ایک ہی ریستوراں کھلا تھا، جس پر سب لوگ جا بیٹھے، جنہیں اندر جگہ نہ ملی وہ باہر بینچیں پھیلا کر براجمان ہو گئے۔ سامنے کھڑی لق و دق مسجد کے دروازے کھلے ہوئے تھے، اور اس کے شکم سے ملگجی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ چند عبادت گزار بوڑھے مسجد سے وقفے وقفے سے نکلتے دکھائی دے جاتے تھے۔ تھوڑی دیر میں سب کے ہاتھ میں شیشے کے گلاس تھے، جن کے شفاف بدن میں چائے کی گرمیاں ڈول رہی تھیں اور ہلکا سفید دھواں اڑ کر باہر کے منظر میں معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ طائر امروہوی، فدا صاحب کے پیچھے پیچھے تھا، اسے بے عزت ہونے سے زیادہ اپنی نظم کے ادھورے رہنے کا افسوس تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ نظم کسی صورت پوری ہو جائے، مگر وہ سرا نہیں مل رہا تھا جسے پکڑ کر اپنی تک بندی کا آغاز کیا جا سکے۔ مجید صاحب اب حاجی نفیس کے بھائی کے بارے میں بات کر رہے تھے، وہ خود بھی اچھے موڈ میں تھے۔

’میر صاحب کا شعر یاد آتا ہے

شیطنت سے نہیں ہے خالی شیخ

اس کی پیدائش احتلام سے ہے۔۔۔۔‘

فدا صاحب نے جواب میں جملہ کسا۔۔۔ ’آہاہا۔۔۔ یار کیا شعر ہے، ناصر اور فراق کے انتخاب کو مات دے دی تم نے۔۔ بالکل بروقت۔۔۔‘

مجید صاحب اس تعریف پر حاجی نفیس کو بھول کر شعر کی پرت کھولنے میں لگ گئے۔

’اب یہ پیدائش کا لفظ جو ہے یہاں پر۔۔۔ یہ وہ جنم لینے کے معنی میں نہیں ہے۔۔۔۔ یہ دیکھو کہ پیدائش کا ایک مطلب ہے عیاں ہونا، یعنی شیخ کو ہر روز احتلام ہوتا ہے، اس لیے یہ اس کی شیطنت کی سب سے بڑی مثال ہے۔۔۔ ایسا ایہام گو ہے میر۔۔۔ لفظ باریک باندھا ہے، یعنی مطلب بھی گہرا، مگر کوئی اس تک نہ بھی پہنچے تو اپنے طور پر مطلب نکالنے میں آزاد۔۔۔‘

فدا نے لقمہ دیا

’شیطنت کا کمال ہے۔۔۔ ایک تو ایسا اچھوتا لفظ، دوسرے یہ کہ رعایتیں دیکھو۔۔۔ شیخ اسی طرح شیطنت سے بھرا ہوا ہے، جس طرح منی سے عضو تناسل۔۔۔ لیکن جس طرح احتلام کی صورت منی باہر آ ہی جاتی ہے، شیخ کی شیطنت بھی چھپائے سے نہیں چھپ سکتی۔۔۔۔ بھری ہی اتنی ہے اس میں۔۔۔ واہ وا۔‘

پھر ذرا توقف کے بعد فرمایا۔

’اور یہ بھی ہے کہ یہ سالا احتلام کی پیدائش ہے۔۔۔ یعنی زبردستی کی۔۔۔‘ انہوں نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا۔ جواب میں محفل میں سبھی لوگوں میں ہنسی کی لہر دوڑ گئی۔

’بھئی۔۔۔ میر کی رعایت لفظی کو ماننا پڑتا ہے۔۔ گالی بھی دے گا تو رعایت کا خیال رکھے گا۔۔۔ وہ شعر ہے ایک ہجو میں اس کا جس میں گالی دی ہے ماں کی اس نے؟‘

’کیا؟ خدائے سخن اور ماں کی گالی۔۔۔ توبہ توبہ؟‘ نظیر روحانی نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگایا۔

’امم ہمم۔۔۔۔‘ فدا تب تک پان کھا چکے تھے۔۔۔ مگر بھرے ہوئے منہ کے ساتھ ہی انہوں نے شعر پڑھا۔

’میری ہیبت سے نکل جاتا تھا موت۔۔ شاعری کی ان نے اپنی ماں کی چوت۔۔۔‘

’ہاں۔۔ ہاں۔۔ یہی یہی شعر۔۔۔ اب دیکھو‘ مجید صاحب نے نظیر روحانی کی توبہ استغفار پر کوئی دھیان نہ دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔

’ماں کی گالی دی ہے تو دھیان رکھا ہے کہ اسے اتنا چھوٹا لونڈا کہا جائے جس کا کسی کی ہیبت سے موت نکل جاتا ہے۔۔۔ یہی تو زبان کی سمجھ ہے۔۔۔ باریکی ہے۔‘

باتیں دلچسپ چل رہی تھیں۔۔ نجیب نے مڑ کر دیکھا، تنویر کہیں نہیں تھا اور ساتھ ہی نسیم اور شہناز بھی دکھائی نہیں پڑ رہی تھیں۔ وہ اٹھ کر باہر کی طرف آیا، بینچوں پر بھی جو لوگ بیٹھے تھے، ان میں وہ تینوں موجود نہیں تھے۔ ’شاید انہیں گھر چھوڑنے گیا ہو گا، رات بھی اتنی ہو گئی ہے۔۔۔‘ وہ واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔۔۔ کتنا کچھ سیکھنے، سننے کو مل رہا تھا۔۔۔ مزہ آ رہا تھا۔۔ وہ پڑھتا تھا، مگر کتنی باتوں سے انجان تھا۔

’لیکن ایک بات میں سمجھنا چاہتا ہوں۔۔۔‘ نظیر روحانی بیچ میں ہی بول پڑا تھا۔

’جی، جی۔۔ فرمائیے۔۔‘ مجید صاحب نے کہا۔

’ادب کا تعلق آداب سے ہے نا۔۔۔ یہ کیسی بات ہوئی کہ گالیاں دے کر، گندی اور فحش باتیں کیے بنا ہم ادیب ہی نہیں ہو سکتے۔ یہ تو ایک غیر ضروری سی شرط ہے میرے خیال میں۔۔ اسے ہوا دینا کیا ٹھیک ہو گا؟‘ بولتے وقت اس کے کانوں کی لویں سرخ ہو گئی تھیں۔

تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر فدا فاضلی نے کہنا شروع کیا۔ ’ان صاحب کی بات پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔۔۔۔ داغ اور امیر مینائی دونوں ہی ہم عصر تھے، شاعری کرتے تھے۔ اب امیر مینائی تھے متشرع آدمی۔۔ ایک محفل میں انہوں نے داغ کے پاس جا کر سرگوشی کی۔۔ قبلہ! شعر آپ بھی کہتے ہیں، میں بھی۔۔ پھر کیا وجہ ہے کہ جتنی داد آپ لوٹتے ہیں، مجھے نہیں ملتی۔ جواب میں داغ مسکرائے اور فرمایا۔۔۔ مینائی صاحب۔۔۔ کیا کبھی آپ نے شام کے وقت پیالے کو لبوں سے لگایا ہے؟ امیر مینائی نے کہا۔۔ کبھی نہیں، داغ نے پھر پوچھا، کبھی دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں؟ امیر مینائی نے کہا، حق پرست ہوں حضور۔۔۔ داغ نے پھر پوچھا، رات کے کسی پہر کسی حسینہ کی انگڑائی ٹوٹتی دیکھی ہے؟ اب کی بار امیر مینائی نے شرم سے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔۔۔ استغفر اللہ۔۔۔ جواب میں داغ مسکرائے اور کہا اب بھی آپ کو سمجھ میں نہیں آیا کہ مجھے کیوں زیادہ داد ملتی ہے؟‘

نظیر روحانی کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر مجید صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کا اٹھنا تھا کہ محفل کو برخاست ہوتے دیر نہیں لگی۔

٭٭٭

 

لائبریری کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ اب مجید صاحب کے گھر کے بجائے دن کی بیٹھکیں وہیں ہونے لگیں۔ وسیم کو ابتدا میں اس ماحول سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی بلکہ اسے خوشی ہی ہوتی تھی۔ کاروبار کا تو اصول ہے کہ جتنے لوگ آئیں گے، اتنا ہی پروموشن ہو گا۔ چنانچہ وہ خوشی خوشی شروعات میں سبھی نئے آنے والے مہمانوں کی آؤ بھگت کرنے لگا، چائے بسکٹ، سموسے، بھجیے سے ان کی خاطر تواضع بھی ہوتی رہتی۔ ہر آنے والا لائبریری میں سجی ہوئی کتابوں کو بڑے غور سے دیکھتا، کچھ لوگ تو اٹھ کر کتابیں نکالتے، جھاڑ پونچھ کر ہر کتاب کو الٹتے پلٹتے، کچھ زیادہ ہی شوقین افراد وہیں کسی کتاب یا رسالے کی ورق گردانی کرتے ہوئے کسی غزل یا شاعری کے متعلق مضمون کو پڑھنا بھی شروع کر دیتے۔ مگر ان میں سے زیادہ تر ایسے تھے، جن کو کتابوں یا رسالوں سے اتنی ہی نسبت تھی کہ وہ ان کے درمیان بیٹھ کر خود کو پڑھا لکھا محسوس کرتے تھے۔ نفاست سے باتیں ہو رہی ہیں، ایک دری بچھی ہے، دو دیواروں پر صوفہ اور کرسیاں سجے ہوئے ہیں۔ شٹر کھلتے ہی سامنے کی دیوار پر چار خوبصورت الماریاں قرینے سے سجائی گئی ہیں اور ان میں علم و ادب کی اہم اور غیر اہم کتابیں سائز کے حساب سے ترتیب وار لگائی گئی ہیں۔ ایک الماری پر فارسی کے شاعر صائب کا دیوان دو جلدوں میں رکھا ہوا ہے، جس کے پہلے صفحے پر مجروح صاحب کے دستخط ہیں اور ساتھ ہی مجید صاحب کے لیے لکھا ہے، حق بہ حقدار رسید۔۔۔ کتابیں ہیں، لوگ ہیں، چہل پہل ہے، مباحثہ ہے۔۔۔ دیکھنے میں یہ سماں ایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے ہمیشہ سے سب کچھ یوں ہی تھا۔ مگر وسیم ہی جانتا تھا کہ اس نے دو ماہ پہلے ہی یہ دکان بڑی خاموشی سے کرایے پر لے لی تھی۔ اصول کے مطابق اس کا گیارہ مہینے کا پیشگی کرایہ بمع ڈپوزٹ بھی ادا کر دیا تھا۔ جب مجید صاحب سے کتابوں کو یہاں لا کر لائبریری کھولنے کی اجازت مل گئی تھی تو اس نے کس طرح مضافات کے ایک بازار جا کر وہ چار پرانی مرمت زدہ الماریاں اٹھوالی تھیں۔ انہیں مزدوروں کے ذریعے یہاں لانے اور دکان میں پینٹ وینٹ، صفائی، ستھرائی کا خرچ ملا کر ابھی تک کافی رقم اڑ چکی تھی۔ کتابیں اٹھوانا، ان کو سلیقے سے الماریوں میں سجانا۔ یہ مرحلہ تو ابھی باقی تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ وہ مزید رقم خرچ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اسی ادھیڑ بن میں وہ ایک دن قاری مستقیم کی بیوی کے پاس بیٹھا اپنے کچھ دستاویزات تیار کروارہا تھا کہ انہوں نے نئی دکان کا ذکر چھیڑ دیا۔ وسیم نے انہیں پوری صورت حال بتائی تو انہوں نے خاصا گمبھیر چہرہ بناتے ہوئے سوال داغا۔ ’یہ کتابیں اگر مجید صاحب کی نگرانی میں ان کے ہی بیٹوں کے ذریعے دکان میں منتقل کروا کر سٹ کروا دی جائیں تو کیا مناسب نہیں ہو گا؟‘

وسیم اس تجویز پر اتنا خوش ہوا کہ اس نے ہاتھ میں گھماتی ہوئی چابی کے دائرے کو ہوا میں ہی روک دیا اور چھلا کھٹ سے اس کی انگلی کے آخری سرے پر کٹی ہوئی بھیڑ کی گردن کی طرح جھول گیا۔ اب اسے راستہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے مجید صاحب کے آگے کچھ اس طرح بڑے چاپلوسانہ انداز میں یہ درخواست رکھی اور ان کے بیٹوں کو بھی باپ کے علمی بوجھ کو اٹھانے کی اخلاقی ذمہ داری کا ایسا احساس دلایا کہ تینوں بھائی اس چھوٹی سی حمالی پر راضی ہو گئے۔ مگر دو دن بعد جب اس حمالی کے فرض کو عمل میں لانا تھا، نجیب کے علاوہ کوئی اور بھائی میسر نہ آیا، چنانچہ اسی کو بائیک پر بٹھا کر وسیم قاری مستقیم کی دکان پر لے گیا۔ بڑے بڑے نیلے کارٹنوں کو ستلیوں کی مدد سے باندھا گیا تھا۔ قاری مستقیم کے یہاں پڑے پڑے ان پر دھول بھی جم گئی تھی، چنانچہ پہلے ایک جھاڑن کی مدد سے اوپری کارٹن کی صفائی کی گئی۔ کارٹن کو دیکھنے سے ہی پتہ چلتا تھا کہ اس کا وزن کم از کم بیس سے تیس کلو گرام ہو گا، بلکہ دو ایک کارٹن تو پچاس سے ساٹھ کلو کے بھی تھے۔ قاری مستقیم کی دکان سے نئی نویلی لائبریری کا راستہ قریب یہی کوئی بارہ پندرہ فرلانگ کا تھا۔ نجیب نے پہلے کارٹن کو دیکھ کر ایک لمبی سانس خارج کی اور وسیم کی مدد سے اس کتابی گٹھر کو اٹھا کر اس کی پیٹھ پر رکھ دیا گیا۔ لاغر نجیب کی ٹانگیں بوجھ کی دھمک سے پہلے تو ڈگمگائیں پھر کسی ضدی احتجاج کار کی طرح زمین میں دھنس سی گئیں۔ اس وقت وہ ایک ہلکا پیلا ٹی شرٹ اور گلابی مائل نیکر پہنے ہوئے تھا، جس میں سے اس کی کالی ٹانگیں لکڑی کی وارنش زدہ پھلیوں کی طرح چمک رہی تھیں۔ پہلا قدم دوسرا قدم بڑھاتے ہی وہ کچھ ڈگمگایا تو پیچھے سے وسیم نے سہارے کی ہتھیلی بڑھا کر کارٹن پر ٹیک دی۔ دکان کی دہلیز پار کر کے پچھلی جانب سے، ریل پٹریوں کے برابر نجیب دھیمے دھیمے قدم بڑھاتا ہوا کسی خمیدہ کمر، عمر دراز بوڑھے کی مانند چل رہا تھا۔ بوجھ نے اس کی پیٹھ پر اس قدر قبضہ جمایا ہوا تھا کہ وہ رکوع کی حالت میں آ چکا تھا۔ پندرہ بیس قدم چلنے کے بعد ماتھے پر پسینے کی چمک نمایاں ہو گئی تھی اور آنکھیں حلقوں سے ابلی پڑ رہی تھیں۔ برابر سے دھڑ دھڑ کرتی ہوئی ایک ٹرین بہت دھیمی رفتار میں گزر رہی تھی، نجیب ٹرین کو نہیں دیکھ رہا تھا مگر بمبئی کی اس لوکل کی نارنگی، پیلی دھاریاں اس کی آنکھوں کے یادداشت کے جزیرے پر ابھر آئی تھیں، اسے لگ رہا تھا کہ ٹرین ڈرائیور نے رفتار جان بوجھ کر دھیمی کر دی ہے تاکہ وہ ایک پتلے دبلے لڑکے کو، پیٹھ پر بھاری بوجھ اٹھائے دھیمے دھیمے چلتے ہوئے دیکھ کر لطف لے سکے اور جان سکے کہ یہ لڑکا اپنی منزل پر پہنچ بھی پائے گا یا اس سے پہلے ہی اس کی آنکھوں کے آگے ایک اندھیرا چمک کر اسے بوجھ کی اس بھاری نیلی عفریت کے نیچے کچل دے گا۔ نجیب کو لگا کہ یہ تماشہ صرف ٹرین ڈرائیور نہیں بلکہ لوکل کے کھلے ہوئے دروازوں پر لٹکے نوجوان، ساریوں میں ملبوس مراٹھی عورتیں اور کھڑکی سے چپکے بیٹھے بوڑھے، بچے سبھی شوق سے دیکھ رہے ہیں۔ ٹرین سست رفتاری اور سانپ جیسے لمبے بدن کے باوجود رینگتی ہوئی اس سے آگے نکل گئی اور وہ اپنی کمر پر کتابوں، کارٹن کی دفتیوں اور نیلی پنی کے ساتھ ساتھ وسیم کی سہارے کے لیے ٹکائی ہوئی ہتھیلی تک کا بوجھ الگ الگ اور بالکل صاف پہچان رہا تھا۔ فاصلہ پورا ہونے والا تھا۔ سات آٹھ قدم کی دوری رہ گئی تھی کہ وہ ایک دفعہ پھر لڑکھڑا کر سنبھلا اور دکان کے پاس پہنچ کر چبوترے پر کارٹن اتارنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ وسیم کی آواز گویا ندائے غیبی کی طرح کانوں میں گونجی۔

’اوٹے پر چڑھاؤ، چڑھاؤ اوٹے پر۔۔ شاباش!‘

اور اس نے ایک گہری سانس کھینچ کر زمین میں دھنسے ہوئے اپنے قدم کو بمشکل ہوا میں اتنا بلند کیا کہ وہ چبوترے پر جمایا جا سکے۔ دوسرا قدم بڑھاتے وقت اسے پورا یقین تھا کہ وہ اس بوجھ کو لے کر دھڑام سے نیچے گر پڑے گا، مگر تب تک وسیم نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی کارٹن کی پشت سے ٹکایا اور ہلکا سا دھکا لگایا۔ نجیب کو لگا جیسے کوئی اس کے ہلکے پھلکے وجود کو دھکیل کر ایک خلائی ٹرین میں سوار کر رہا ہو۔ دکان میں داخل ہوتے ہی اس نے دھڑ سے اپنی پیٹھ پر لدے ہوئے بوجھ کو زمین پر یوں پھینکا گویا اس عذاب سے اگر چھٹکارا نہیں پایا تو پران سدھار ہی جائیں گے۔ کارٹن زمین پر گرا اور دھول کا ایک مرغولہ اٹھا، وسیم کے کھانسنے کی آواز آئی۔ نجیب نے دکان میں رکھی ہوئی پلاسٹک کی ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے بس اتنا دیکھا کہ وسیم مٹھی منہ کے آگے جمائے کھوں کھوں کرتے ہوئے سڑک کی طرف جا رہا تھا۔ قریب تین، ساڑھے تین گھنٹوں کی طویل مشقت اور دس بارہ منٹ کے چند چھوٹے چھوٹے وقفوں سے گزر کر نجیب کو اس محنت سے چھٹکارا ملا۔ جب وہ آخری کارٹن رکھ کر دکان سے باہر نکلا تو اس کی حلق دھول اور پیسنے کی گندھ سے کڑوی ہوئی جا رہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے اسے دونوں ہاتھوں سے نچوڑ کر اس لائبریری کے چبوترے پر پٹخ دیا ہے۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہی اتنا سارا وزن ڈھوکر یہاں تک لایا تھا۔۔۔ وہ جو کہ اپنی دانست میں ایک نفاست پسند، عاشق مزاج، عروض داں اور اپنے وقت کا ایک عظیم شاعر تھا۔

٭٭٭

 

گل ادب کا نیا شمارہ شائع ہو کر آ گیا تھا اور عبد القادر اس کی کاپیوں کو مستقل گاہکوں کو روانہ کرنے کے بندوبست میں لگا ہوا تھا۔ ایک میوزک کمپنی نے اس سہ ماہی رسالے کے اخراجات اٹھانے کی ذمہ داری لے رکھی تھی۔ کمپنی کا مالک مشروب علمی جانتا تھا کہ اس کی سو کاپیاں مہاراشٹر اکادمی اور سو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کو روانہ کر دی جائیں گی۔ رسالے کے سو مستقل گاہک تھے۔ ان تمام کاپیوں کا حساب کرنے کے بعد ہی اس نے ہر تین ماہ پر ساڑھے تین، چار سو کاپیوں پر آنے والے خرچ کو اپنی جیب سے دینا منظور کیا تھا اور اس کے بدلے میں رسالے پر بطور پروپرائٹر اس کا نام بھی جلی حروف میں شائع ہوتا تھا۔ مشروب علمی اور عبد القادر دونوں ہی غیر عملی لیکن فکری طور پر گوڑھے مذہبی لوگ تھے۔ مشروب علمی کو ادب سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا، وہ تو یہ کام نیا نگر کے شعری و ادبی حلقے میں دھاک بٹھانے کی غرض سے کیا کرتا تھا۔ عبد القادر کو اس بات کا اطمینان تھا کہ اس نے محنت سے سو، سوا سو مستقل گاہک ایک ادبی اردو رسالے کے پیدا کر لیے تھے۔ ہندی، مراٹھی، گجراتی اور دوسری ہندوستانی زبانوں کے مقابلے میں دیکھنے پر یہ گاہک چاہے کچھ بھی معلوم نہ ہوتے ہوں مگر اردو کی چھوٹی سی ادبی دنیا میں اسے ایک بڑی کامیابی ہی کہا جا سکتا تھا۔ اس کے پاس متواتر اپنے مستقل گاہکوں کے خطوط بھی آتے رہتے اور ان میں پچھلے شمارے کی تعریف کے ساتھ اگلے شمارے کے بے صبری سے کیے جانے والے انتظار کی بھی جھلک ہوتی تھی۔ حالانکہ ’گل ادب‘ ابھی تک اپنے مستقل گاہکوں، قومی اور ریاستی اداروں کی امداد کے باوجود اتنی استطاعت نہیں پیدا کر سکا تھا کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جاتا اور اس کو مشروب علمی کی کوئی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ در اصل رسالے کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اس کی ترسیل بھی ایک بڑا مسئلہ تھی اور اس پر آنے والا خرچ اور خود رسالے کے ایڈیٹر عبد القادر کی ماہانہ تنخواہ نکالنے کے بعد مشروب علمی کے پاس پانچ دس ہزار کی رقم ہی پہنچ پاتی تھی۔ یہ حساب چاہے کتنا ہی مایوس کرنے والا کیوں نہ ہو مگر جب ایڈیٹر گل ادب نئے شمارے کی دو تین کاپیاں بغل میں دبائے نیا نگر کی گلیوں میں ایک آن سے نکلتا تو دو چار نظریں تو اس کی خوش خرامی اور ادب نوازی پر قربان ہو ہی اٹھتیں۔ ابتدائی ایک دو شماروں پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہوتا تھا کہ رسالے میں پرانی شائع شدہ تخلیقات و تحاریر شائع ہوئی ہیں مگر اس کا حل عبد القادر نے دوسری طرح نکالا تھا۔ عبد القادر نے اردو کے ایک بہت بڑے ادیب جو کہ محقق، ناقد، لغت نویس، شاعر، فکشن نگار اور عالمی سے لر کر اردو ادب تک کے نبض شناس بھی تھے، کی سرپرستی کسی طرح حاصل کی۔ اس کے لیے پہلے انہیں مستقل دس بارہ تعریفی خطوط بھیجنے پڑے۔ پھر کسی رسالے میں ان کی ہلکی سی بھی توہین پر چراغ پا ہو کر اپنی جانب سے جوابی مضمون لکھ کر بھیجنے کا سلسلہ بھی اسی نے شروع کیا۔ اس کے جوابی مضامین میں زیادہ تر مضمون لکھنے والوں کی ذاتی زندگی پر کیچڑ اچھالا جاتا۔ انہیں لچر، بے وقوف، جاہل اور نہ جانے کون کون سے خطابات سے نوازا جاتا۔ اچھی بات یہ تھی کہ یہ محنت اکارت نہیں گئی اور بہت جلد ان ناقد و محقق صاحب کی طرف سے عبد القادر کو ایک خط موصول ہوا، جس میں اس کی ادب شناسی کی ہلکی سی تعریف کے ساتھ اسے کئی طرح کی نصیحتیں بھی کی گئی تھیں، اس کے یہاں موجود املا و گرامر کی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی تھی اور اپنی طرف سے یہ عندیہ جتایا گیا تھا کہ اس کے رسالے کو ایک ایسے سرپرست کی ضرورت ہے جو کہ اس کی رسائی کچھ غیر مطبوعہ تخلیقات تک بھی کروا سکے اور اس کی ذمہ داری بخوشی وہ محقق و ناقد اٹھانے کے لیے تیار ہیں، جہاں اردو کے بائیس رسالے ان کی سرپرستی میں نکل رہے ہیں، ایک اور سہی۔ عبد القادر کو اپنی خوش قسمتی پر اس دن یقین نہیں آ رہا تھا، اس نے بھاگ کر وہ خط مشروب علمی کو دکھایا۔ مشروب علمی لاکھ ادب سے بے بہرہ سہی مگر خود ایڈیٹر کی زبانی ان ناقد و محقق صاحب کی تعریف وہ جس انداز میں پہلے کئی بار سن چکا تھا اس سے اسے اندازہ تو ہو گیا تھا کہ یہ شخص ادب کی کوئی بڑی کینن ہے اور گل ادب کو اس کی سرپرستی حاصل کروا دینا عبد القادر کا کینن شوٹ۔ ایڈیٹر گل ادب کی ذاتی زندگی بظاہر صاف ستھری دکھائی دیتی تھی مگر وہ حالات کا مارا ہوا ایک ایسا شخص تھا، جو عام زندگی میں بھی بات بات پر چڑ جاتا تھا۔ اس نے کبھی خود تو اپنے حالات زندگی پر بہت تفصیل سے روشنی نہیں ڈالی مگر لوگ بتاتے ہیں کہ بیچ شادی شدہ جیون میں جب اس کی دو میں سے ایک بیٹی پوری طرح سیانی ہو چکی تھی، بیوی اسے کسی بات پر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اس کی وجہ لوگوں پر روشن نہیں تھی، طرح طرح کے الزامات تھے، قیاس تھے جو عبد القادر کو محض اس وجہ سے جھیلنے پڑے کیونکہ اس کی بیوی اس سے ایک غیر معلوم اور پر اسرار جھگڑے کی بنیاد پر علیحدہ ہو گئی تھی۔ کوئی اسے لونڈے باز کہتا، کوئی کہتا کہ نامرد ہے۔ مگر اصلی وجہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھی۔ اس کی دو بھیڑیوں جیسی آنکھوں میں سے بائیں طرف کی آنکھ پتھر کی تھی اور اس پر سفید جھلی، قریب قریب بند پلکوں کی جھری سے جس طرح جھانکتی تھی، بڑی بھیانک معلوم ہوتی تھی۔ اس کی ایک بیٹی ابھی چھوٹی تھی اور اپنی ماں کے ساتھ ہی رہتی تھی، جبکہ دوسری بیٹی نیا نگر میں ہی موجود تھی، جس کے ساتھ عبد القادر رہا کرتا تھا، بیٹی کے شوہر اور بچوں کے ساتھ اس کے تعلقات کافی بہتر تھے اور وہ ایک اچھا شوہر رہا ہو یا نہ رہا ہو، مگر ایک اچھا باپ اور نانا بننے میں ضرور کامیاب ہوا تھا۔ رسالہ نکالنے سے بہت پہلے سنا ہے کہ وہ ریلوے کے کسی وبھاگ میں ایک چھوٹی موٹی پوسٹ پر تھا مگر وہ نوکری شاید اس کی ذاتی زندگی کی پریشانیوں اور محرومیوں کے سبب دن بدن اس سے دور ہوتی گئی اور بالآخر ایک دن اس کی غائب دماغی کے چلتے اسے ہمیشہ کے لیے چھٹی پر بھیج دیا گیا۔ فارغ البالی اس کے مزاج کا حصہ نہیں تھی، چنانچہ اس نے کچھ روز بعد طرح طرح کے دھندے اپنانے شروع کیے، جن میں سے ایک سکرپٹ رائٹر اور سٹوری نریٹر کا بھی تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں اور ماننے والے مانتے ہیں کہ دو تین سکرپٹ رائٹروں سمیت سنیما گھروں میں تین دن چلنے والی بالی ووڈ کی دو ایک حد درجہ پٹی ہوئی فلموں میں اس کا نام بھی پردے پر دیکھا گیا تھا۔ حالانکہ یہ بات اور ہے کہ اس کی شہادت کے لیے عبد القادر کے پاس لے دے کر ایک ہی جگری یار تھا، جو نیا نگر میں چائے کا ہوٹل چلاتا تھا اور جہاں اکثر ایڈیٹر کی ادبی و علمی بیٹھکیں ہوا کرتی تھیں، حالانکہ ادھر چند روز سے اس نے مجید صاحب کی لائبریری کا رخ کر لیا تھا۔ وہاں دن دن بھر وہ بیٹھتا اور مجید صاحب کی موجودگی میں بھی اپنے ادبی کارناموں اور معرکوں کا بیان بڑے دلچسپ پیرایے میں دانت پیس پیس کر اور الفاظ چبا چبا کر کیا کرتا۔ ایڈیٹر کسی کو کچھ بھی نہیں سمجھتا تھا، مجید صاحب کو تھوڑی بہت عزت دے دیا کرتا مگر وہ بھی احسان کی طرح، جسے وہ بسر و چشم قبول بھی کر لیتے۔ اس کے آگے بولنے کی مجال پہلے بھی لوگوں میں کہاں تھی جو کہ اب اس کا رسالہ نکلنے کے بعد اور ڈوب گئی تھی۔ طائر امروہوی، امانت مرزا اور قاری مستقیم تو دور کی بات رہے وہ نظیر روحانی کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتا تھا اور اکثر اس کا مذاق ’تاریخ نکالنے والا شاعر‘ کہہ کر اڑایا کرتا تھا۔ ایڈیٹر کسی نشست میں شرکت نہیں کرتا تھا، سالانہ مشاعرے میں شرکت کی اسے خواہش تو تھی اور سچ پوچھیے تو ابتدا میں اس کی فہرست میں اپنا نام شامل کروانے کے لیے اس نے کچھ تگڑمیں بھی کیں، مگر جب نام نہیں آیا تو اس نے جل کر مشاعرے کے خلاف ایک تگڑا اداریہ اپنے رسالے میں شائع کیا، جو پڑھا تو کم لوگوں نے، مگر اس کا شور خود اس نے اتنا مچایا کہ میرا روڈ کے سالانہ مشاعرے میں شرکت کے امکان کا دروازہ بھی اس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ در اصل وہ زود رنج انسان تھا، اس کے دل و دماغ میں کوئی ایسا غم، کوئی ایسی حسرت پل رہی تھی، جسے وہ عام طور پر ظاہر نہیں کرتا تھا، مگر اسی بیماری نے اس کو حد درجہ کا جھگڑالو بنا دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے دوست بہت کم تھے۔ جو آج دوست ہے، کل اسی سے کسی بات پر خفا ہو کر کسی اردو اخبار میں ایک خط گھسیٹ مارنا اور ایسی اول جلول باتیں کرنا کہ سامنے والے سے دوستی کے اعادے کا چھوٹا سا بھی راستہ کھلا نہ رہ جائے، اس کا وتیرہ تھا۔ سب سے پہلے وہ یوسف جمالی کے یہاں بیٹھا کرتا تھا، پورے ایک سال صبر سے انتظار کرنے کے باوجود جب اس کا نام مشاعرے میں نہیں آیا تو پہلے ان سے زبردست جھگڑا ہوا۔ پھر قاری مستقیم کے یہاں چند روز بیٹھک رہی۔ لیکن ایک روز کسی مسئلے پر بات بڑھ گئی اور وہ دکان یاران نکتہ داں بھی ایڈیٹر کا ٹھکانہ نہ رہی۔ وہ نشستوں میں جاتا نہیں تھا یا بلایا نہیں جاتا تھا اس پر بھی دو رائیں تھی۔ ایک دھڑا مانتا تھا کہ وہ پہلے پہل کچھ نشستوں میں بلایا گیا مگر غزل کے کسی بے بحر شعر پر ٹوکے جانے کے جواب میں بھڑک اٹھا۔ اس کا موقف تھا کہ وہ غزل کی شاعری کرتا ہی نہیں، چنانچہ اتنی دیر سے جس نثری نظم کو احباب غزل سمجھ کر سن رہے تھے، وہ اس نظم میں ردیف و قافیے کی تکرار پر پہلے تو حیران ہوئے پھر تنک گئے کہ ایڈیٹر انہیں بے وقوف سمجھتا ہے۔ چنانچہ بات کالر پکڑائی تک پہنچ گئی۔ ایسا ہی ایک دوسری نشست میں ہوا جہاں اس نے کسی نئے نویلے ترنم سے غزل پڑھنے والے شاعر کوکسی معمولی سے غیر مذہبی مضمون پر ٹوک دیا۔ نہ صرف ٹوک دیا بلکہ وہ شاعر سے ضد کرنے لگا کہ وہ اپنے اس گستاخانہ لہجے کے لیے برسر محفل معافی مانگے اور مصرعے میں اس کی بتائی ہوئی ترمیم کرے۔ شاعر نے جب معافی نہیں مانگی تو اس نے شاعر کو الو کے پٹھے کے خطاب سے نواز دیا اور اس کے جواب میں شاعر نے کھولتی ہوئی چائے اس کے منہ پر دے ماری۔ ہف ہف کرتا ہوا وہ اچھل کر لڑنے کے لیے تیار ہو گیا۔ ایڈیٹر کو اندازہ نہیں تھا کہ ادبی اختلاف جب جسمانی اختلاف بن کر کشتی کی شکل میں تبدیل ہو جائے تب کیا کیا جائے، چنانچہ جب تک وہ آستین چڑھاتا، اس نوجوان شاعر نے ایک زوردار لات ٹھیک اس کی ٹانگوں کے بیچ فوطوں کی ڈھیلی تھیلیوں پر جمادی۔ وہ اوئی آہ کہہ کر بل کھا گیا۔ اس کی ایک آنکھ ابل پڑی تھی، دوسری آنکھ جو عام حالات میں تقریباً بند ہی رہتی تھی، درد کی شدت سے تھوڑی اور کھل گئی تھی۔ حلق سے کچھ گھڑ گھڑاتی ہوئی چیخیں نکلیں اور وہ بے ہوشی کی کیفیت میں مغلظات بکتا ہوا زمین پر دھم سے گر گیا۔ نوجوان شاعر اس کے سینے پر بیٹھ ہی چکا تھا، مگر میزبان اور دیگر مہمانوں کی ٹیم نے مل کر بڑی مشکل سے اسے الگ کیا۔ اس دن تو ایڈیٹر کسی طرح سے بچ بچا کر وہاں سے بھاگ نکلا۔ مگر دوبارہ پھر کبھی نہ اس نے نشستوں کا رخ کیا اور نہ ہی کسی نے اسے اپنے یہاں بلا کر اچھی خاصی پر تکلف محفل کو اکھاڑے میں بدل دینے کی جرات دکھائی۔

٭٭٭

 

’اس حرامی کو میں نہیں چھوڑوں گا۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی میرے رسالے میں چوری کی غزل بھیجنے کی!‘ ایڈیٹر لائبریری میں بیٹھا ہوا غصے سے ابل رہا تھا۔ آس پاس چند اور لوگ بیٹھے تھے۔ نئے شمارے میں کسی نئے کشمیری شاعر کی ایک غزل شائع ہوئی تھی۔ مگر رسالہ جب شائع ہو کر آیا اور ایڈیٹر نے اس کی کاپیاں گاہکوں کو پوسٹ کرنے سے پہلے اپنے دوستوں یاروں میں تقسیم کیں تو مجید صاحب نے ورق گردانی کرتے ہوئے اس مسروقہ غزل کے بارے میں سوال کیا۔ مجید صاحب نے بتایا کہ یہ غزل تو اردو کی ایک مشہور شاعرہ کی ہے اور ان کے مجموعے میں شامل ہے۔ اگلے روز ثبوت کے طور پر انہوں نے لائبریری سے وہ کتاب ڈھونڈ کر ایڈیٹر کو دکھا بھی دی۔ مسئلہ یہ تھا کہ رسالے کا نیا شمارہ ابھی ابھی شائع ہو کر آیا تھا۔ بیس ایک کاپیاں ڈاک کے ذریعے بھیجی بھی جا چکی تھیں۔ ڈاک کی پہلی باقاعدہ لاٹ، جس میں اسی کاپیاں بندھی رکھی تھیں، بھیجے جانے کے لیے بالکل تیار تھی اور اگلے دن اسے پوسٹ آفس میں مقر رہ وقت پر پہنچایا جانا تھا۔ چونکہ اب کچھ ہو نہیں سکتا تھا اور اگلا شمارہ آنے میں ابھی پورے تین چار ماہ کا وقت تھا اس لیے ایڈیٹر اپنی کم علمی اور سبکی کے احساس سے پھنکا جا رہا تھا۔ مجید صاحب نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔

’کوئی بات نہیں، اگلے شمارے میں اعتذار شائع کر دینا۔ ہو جاتا ہے ایسا۔‘

ایڈیٹر اپنی ایک آنکھ سے فرش کو گھورے جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اس نے کہا۔ ’اب اتنی غزلیں اردو میں لکھی جاتی ہیں، کون سی غزل کس کی ہے، پتہ لگانا بھی تو مشکل کام ہے۔ یہ بھی تو نہیں کہ ہر شاعر کا اپنا اسلوب ہو۔ میں بہن چود یہ غزل وزل چھاپنا ہی اگلے شمارے سے بند کر دوں گا۔ سرپرست صاحب کی طرف سے اب الگ ڈانٹ سننی پڑے گی کہ یہ فیصلہ لینے سے پہلے میں نے ان سے پوچھا نہیں۔ اچھا اتفاق دیکھیے صاحب! میں نے صرف غزل کے معاملے میں ہی اپنی عقل چلائی، باقی سارے مضامین، افسانے، کلاسیکی ادب کا حصہ یہاں تک کے خطوط بھی انہیں دکھا کر ہی شائع ہونے کے لیے دیے۔ میں نے سوچا کہ بھئی ایڈیٹر ہوں تو غزل تو دیکھ ہی لوں، آخر میری بھی کچھ ذمہ داری ہے۔۔۔ اف میری بے عقلی۔۔۔ نہیں دکھایا تھا ان کو نہ دکھاتا، آُپ ہی سے پوچھ لیتا مجید صاحب۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔ گل ادب کے کسی شمارے میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔‘ جس پلاسٹک کی کرسی پر وہ بیٹھا تھا وہ اچانک دھسک گئی اور ایڈیٹر زمین پر آگرا۔ پتہ چلا کہ ایک پایا اکھڑ گیا ہے، چوتڑوں پر لگی دھول کو ہتھیلیوں کی مدد سے صاف کرتا ہوا وہ اٹھا اور اٹھ کر برابر رکھے لکڑی کے ایک سٹول پر بیٹھ گیا۔ مجید صاحب اور باقی کے دوست اسے دیکھ رہے تھے۔ نجیب بھی ایک کونے میں بیٹھا اس نئے شمارے میں غزلوں کے حصے کو دیکھ رہا تھا۔ وہ خوش تھا کیونکہ اسی شمارے میں اس کی دو غزلیں ایک ساتھ شائع ہوئی تھیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب گل ادب کا شمارہ جہاں جہاں جائے گا، لوگ اس کے نام سے واقف ہوں گے۔ اس کی شہرت اب صرف نیا نگر کی گلیوں تک ہی نہیں رہے گی، بلکہ وہ پورے ملک میں پھیلے گی، اس کا منفرد انداز، الگ لب و لہجہ ضرور بہت سے لوگوں کو متوجہ کرے گا۔ اسے یہ سوچ کر برا بھی محسوس ہو رہا تھا کہ گل ادب کا اگلا شمارہ شائع ہونے میں ابھی کافی وقت ہے، وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ مشاہیر ادب کے گل ادب کو لکھے گئے خطوط میں کون کون کہاں کہاں اور کیسے کیسے اس کا ذکر کرتا ہے۔

’کیا احوال ہیں دوستو!‘ ناظم عباسی کی پھولی ہوئی سانس سے الجھی ہوئی آواز نے اس کا دھیان توڑا۔ وہ ابھی ابھی لائبریری میں آئے تھے، ان کے ہاتھ میں بھی گل ادب کا نیا شمارہ تھا۔ وہ آ کر مجید صاحب کے برابر لگی کرسی پر بیٹھ گئے، جہاں پہلے ایک مقامی شاعر بیٹھا تھا مگر ناظم عباسی کی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے اس نے اٹھ جانا مناسب خیال کیا۔ مجید صاحب نے انہیں پورا معاملہ سمجھایا۔ پہلے تو انہوں نے ایڈیٹر کی طرف دیکھا اور اس کے بعد سنبھل کر گویا ہوئے۔

’ہو جاتا ہے میرے خیال سے ایسا۔ اس میں ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ اگلا شمارہ آئے تو معافی نامہ شامل کر دینا اور اس شاعر کو بلیک لسٹ کر دو۔‘

دوسری بار یہی مشورہ ملنے پر ایڈیٹر نے گہرا ہنکارا بھرا اور پیچھے موجود دیوار سے سر ٹکاتے ہوئے کہا۔

’اگلے شمارے سے کوئی غزل شائع ہی نہیں ہو گی۔‘

’غزل پر تمہارا غصہ ٹھیک نہیں۔‘ ناظم عباسی نے غزل کا مقدمہ لڑتے ہوئے کہا۔ ’اب یہ الگ بات ہے کہ اس معاملے میں تمیز کرنا تھوڑا مشکل ضرور ہے، مگر صاحب اسلوب غزل گویوں کو پہچاننا نا ممکن کام بھی نہیں۔‘

ایڈیٹر نے دانت چبوڑتے ہوئے کہا۔ ’صاحب اسلوب مائی فٹ۔۔۔ مجھے تو سالا کوئی فرق نظر نہیں آتا ان غزل گویوں میں۔ میر سے لے کر فدا تک سب ایک ہی جیسے لگتے ہیں مجھے۔ نہیں آپ ہی بتائیے، پچھلے دنوں میرے ایک فلمی دوست نے سوال کیا کہ بھائی یہ اچھی غزل اور بری غزل کی پہچان کیسے ہوتی ہے؟ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا، میں نے کہا ردیف اور قافیے سے۔ پھر تھوڑی دیر بعد اپنے ہی جواب سے مجھے الجھن ہونے لگی۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ کوئی شاعر کیا ایسا ہے؟ جس کے یہاں اچھے شعر نہ ہوں؟ یا کوئی ایسا غزل گو ہے، جس نے کبھی برا شعر نہ کہا ہو۔ ایک اسلوب؟ کہاں سے بنے گا اسلوب جب مضامین آپ کے ہاتھ میں نہیں ہیں، وہ تو قافیے اور ردیف مل کر طے کرتے ہیں، پھر بحر کا بھوت الگ سر پر سوار رہتا ہے۔ اسلوب تو تب وضع ہو جب یہ سب پچھڑے نہ ہوں۔ مجھے تو اکثر اوقات میر، فراق اور ناصر کے اشعار ایک ہی جیسے لگتے ہیں۔ یہ اکلوتی صنف ہے جو روایت سے آگے کا سفر نہیں کرتی بلکہ پیچھے کی طرف بھاگتی ہے۔‘

’یہ تو تم زیادتی کر رہے ہو عبد القادر!‘ ناظم عباسی نے بیڑی سلگاتے ہوئے کہا۔

’دیکھو! ادھر ادھر کی تو تم جانو۔۔۔ کیا میری غزل میں بھی تمہیں اسلوب کی سطح میں کوئی تجربہ نظر نہیں آتا؟‘

ایڈیٹر بھنایا ہوا بیٹھا تھا یا پتہ نہیں اسے موقع کی تلاش تھی، اس نے بغیر کسی مروت کے کہا۔ ’تم نے کیا کیا ہے؟ ضرب الامثال اور محاوروں کو نظم کر لینا کوئی شاعری ہوتی ہے؟ اگر یہ شاعری ہوتی ہے تو مجھے کہنے دو کہ فلمی شاعر یہ کام بہت پہلے سے کر رہے ہیں۔۔۔ ذہن پر زور ڈالوں تو ایک دو مثالیں تو ابھی مل جائیں گی۔‘

اس نے تھوڑا توقف کیا اور اس دوران اس کے ماتھے کی شکنیں مزید گمبھیر ہو گئی تھیں۔

’ہاں یہ دیکھو۔۔۔ وہ کیا گانا ہے۔۔ پانسے سبھی الٹ گئے دشمن کی چال کے، اکشر سبھی پلٹ گئے بھارت کے بھال کے۔۔۔ پھر وہ گانا ہے۔۔۔ میری آنکھ پھڑکتی ہے۔۔۔ دائیں یا بائیں؟ تیرا ساجن آنے والا ہے۔۔۔ تو محاورہ نظم کر لینا شاعری نہیں ہے۔۔۔ اب یہ بھی دیکھو کہ جدید غزل۔۔۔ وہ بھی اوٹ پٹانگ ہے۔۔۔ بلکہ پتہ نہیں مرغی یا بلی کی ٹانگ ہے۔۔۔ یہ جو آج کل کے شاعر لکھ رہے ہیں تجربے کے نام پر، اسے تو مجروح نے بہت پہلے لکھ دیا تھا، سی اے ٹی، کیٹ، کیٹ یعنی بلی، آر اے ٹی۔۔۔ ریٹ۔۔۔ ریٹ یعنی چوہا، دل ہے تیرے پنجے میں تو کیا ہوا۔۔۔ میری تو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ کیسے کوئی فرق کرے اس غزل گوئی اور فلمی شاعری میں۔‘ اس کی سانسیں یہ سب کہتے ہوئے پھولنے لگیں۔

اچانک ایک قرابت داری کے احساس کا لمحہ شاید اس پر غالب آ گیا تھا، جس نے اس کی زبان روک لی۔ ناظم عباسی اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ مجید صاحب زیر لب مسکرا رہے تھے۔ پھر انہوں نے ایک ادا کے ساتھ اپنی بات یوں شروع کی۔

’یہ بات بہت حد تک ٹھیک لگ سکتی ہے کہ غزل کی زیادہ تر شاعری میں فرق کر پانا مشکل ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل اوریجنل صنف نہیں ہے، ایک ترجمہ شدہ صنف سمجھ لیجیے اسے، تبھی تو آپ دکن کی شاعری کا مطالعہ کریں یا شمالی ہند کا، آپ کو فارسی شاعری کے اثرات ہی نہیں پورے پورے ترجمے مل جائیں گے۔ اور ان ترجمہ کرنے والوں میں قلی قطب شاہ بھی ہیں اور غالب بھی۔ بھئی ولی دکنی کو سعد اللہ گلشن نے یہی تو مشورہ دیا تھا کہ فارسی مضامین بیکار پڑے ہیں، انہیں استعمال کرو۔۔۔۔‘ سب لوگ ان کی باتیں غور سے سن رہے تھے۔

’مگر یہ ضرور ظلم ہو گا اگر ہم کہیں کہ اچھی اور بری غزل یا شعر میں فرق نہیں کیا جا سکتا۔ اچھا شعر تو میاں سنتے ہی پتہ چلتا ہے، بس فرق اتنا ہے کہ ہم غزل کی روایت، زبان، بیان، کیفیت، نکتہ آفرینی اور تغزل کی تعریفوں سے ٹھیک ٹھیک واقف ہوں۔ کبھی کبھی تو غزل کے ایک شعر کے مقابلے میں پورا پورا ناول ہیچ معلوم ہوتا ہے۔۔۔ وہ جو غالب نے کہا تھا، ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا۔ تو اس میں لاکھ تنافر کا عیب سہی، مگر کیا ایسا مصرع کوئی نو سکھیا یا فلمی شاعر کہہ سکتا ہے؟ ویسے تو فلمی شاعری کی اصلی مخالفت اس بنیاد پر نہیں ہے کہ وہ شاعری ہے یا نہیں۔ وہ تو اس بنیاد پر ہے کہ اس کے لیے شاعر کو اپنا قلم کوٹھے پر رکھنا پڑتا ہے۔ جیسا پروڈیوسر چاہے گا، ویسا لکھنا پڑے گا اور اچھی شاعری آن ڈیمانڈ نہیں ہو سکتی۔۔۔ کیا سمجھے میاں! اور یہ بات اب خود نئی نسل بھی سمجھ رہی ہے۔ میں کئی رسالوں میں دیکھتا ہوں کہ اب تو غیر مسلم لڑکے بھی بڑی اچھی اچھی غزلیں لکھ رہے ہیں۔‘

’لیکن استاد! ان لڑکوں کی غزلیں ایک قسم کا فریب معلوم ہوتی ہیں۔‘ ایک شاگرد نے نکتہ اٹھایا۔

مجید صاحب نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا تو اس نے وضاحت کی۔

’میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سبھی ایسے ہیں مگر غیر مسلم لڑکے جس تیزی سے شعر کہہ رہے ہیں کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اردو رسم الخط کو ختم کرنے کی سازش بھی ہو سکتی ہے اس کے پیچھے۔۔۔‘

مجید صاحب نے غصے سے منہ پھیر کر کہا۔ ’کیا بے ہودہ بات ہے۔‘

مگر ایڈیٹر نے ان کے شاگرد کی پچھ لیتے ہوئے کہا۔ ’سازش کی بات سے تو مجھے پوری طرح اتفاق نہیں ہے البتہ یہ بات ضرور کوفت پیدا کرتی ہے کہ کوئی دیوناگری میں غزل لکھ کر اسے اردو کی غزل کہلوانے پر اصرار کرے۔ ابھی پچھلے مہینے ہی میں نے دو غزلیں اس نوٹ کے ساتھ واپس کر دیں کہ یہ کوئی ہندی رسالہ نہیں ہے، مہربانی فرما کر اردو میں غزلیں بھیجیں، میں اردو کا مدیر ہوں، مجھے کوئی دوسری زبان نہیں آتی۔ اچھا سوچیے تو اتنی جرات آتی کہاں سے ہے۔ اب تو میں سنتا ہوں کہ میرا روڈ کے مشاعرے میں بھی لوگ دیوناگری میں غزلیں لکھ کر لاتے ہیں اور خوب پڑھتے ہیں اور سامعین اسے اردو غزل کہہ کر داد سے نوازتے ہیں۔‘

’یہ بات مانی جا سکتی ہے کہ اردو شاعری کرنے والوں کو اردو زبان اور رسم الخط تو سیکھنا ہی چاہیے۔ میں نے چند ایک غیر مسلم شاگردوں کو پہلے اردو پڑھنے کی ہی ہدایت کی تھی، پھر وہ لوٹ کر نہیں آئے۔‘ مجید صاحب نے گہرے فکر مند لہجے میں کہا۔ ’محنت سے جی چراتے ہیں اور کیا۔ بس پھری پھری مل جائے، کچھ کرنا نہ پڑے۔‘

اسی شاگرد نے جلے بھنے لہجے میں کہا۔

ایک دوسرا شاگرد جو اکثر مشاعروں کی نظامت بھی کرتا تھا کہنے لگا۔ ’راتوں رات اتنے غیر مسلم شاعروں کا پردے پر ابھر آنا مشکوک تو کرتا ہی ہے پھر سوال یہ بھی ہے کہ یہ لوگ نہ اردو رسم الخط جانیں، نہ اپنے شعروں کی تقطیع ہی کرنا جانیں، تو پھر اتنی ساری غزلیں یہ کہتے کیسے ہیں۔ میرا تو خیال ہے کہ ان سب کا مشترکہ استاد کوئی ایک ہی ہے، جو خاموشی سے انہیں لکھ کر دیتا رہتا ہے اور کیا پتہ بدلے میں کچھ لیتا لواتا بھی ہو یا پھر اس کی نیت کچھ اور ہو، واللہ اعلم بالصواب۔ اور پھر اس میں اردو والوں کا حق بھی مارا جاتا ہے۔‘

ناظم عباسی نے گمبھیر لہجے میں اس معاملے میں اپنا نظریہ پیش کیا، اس طرح گویا وہ ایڈیٹر سے اپنی بے عزتی کا بدلہ بھی چکا دینا چاہتا ہو۔

’مگر صاحب! زمانہ بھی تو بدل رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کل کو دیوناگری میں ہی ادبی رسالے شائع ہوا کریں۔‘

کسی نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ ہر طرف خاموشی تھی، چند سامعین جو بیٹھے تھے، اس امید میں تھے کہ کوئی کچھ بولے، نجیب اس بحث سے اکتا کر گل ادب میں شائع ایک شاعر کی خودنوشت کا باب پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔ ناظم عباسی اپنی بے عزتی کو دھوئیں کے کشوں میں اڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔ شام کے چھ بجنے آئے تھے، کسی بائیک کے باہر رکنے کی آواز آئی۔ یہ وسیم کی بائیک تھی۔ اس نے لائبریری میں داخل ہوتے ہی سبھی لوگوں کو دھیمے سے سلام کیا اور پھر میز کے سامنے بیٹھے ایک لڑکے سے پوچھا۔ ’کتنی کتابیں نکلیں؟‘ جواب میں لڑکے نے انگوٹھے کے اشارے سے ایک بھی کتاب کے ایشو نہ ہونے کی اطلاع دی۔ لائبریری کھلے دو ماہ ہو چکے تھے۔ اور اس پورے عرصے میں مشکل سے چار پانچ کتابیں ہی ایشو کرائی گئی تھیں، اور ان میں سے بھی دو مقر رہ میعاد سے زیادہ عرصہ گزر جانے پر بھی واپس نہیں آئی تھیں۔ وسیم کسی سے کچھ بولے بغیر باہر نکلا، اس نے بائیک سٹارٹ کی اور لائبریری میں بیٹھے لوگوں کی نظروں سے پل بھر میں اوجھل ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایڈیٹر بھی اسٹول سے اٹھ کر بغیر کچھ کہے دکان سے باہر نکل گیا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے