بدلتے رنگ ۔۔۔ اسلم جمشید پوری

یونیورسٹی کے کھلے سبزہ زار میں وہ سب ایک گروہ کی شکل میں بیٹھے تھے۔ نیچے دور تک پھیلی ہری گھاس اور اوپر پیلی پیلی دھوپ گویا ہرے رنگ کے شلوار جمپر اور پیلا دوپٹہ اوڑھے کوئی حسینہ لیٹی ہوئی ہو۔

’’یار، یہ کون ہیں۔‘‘ مو ہن نے اکرم کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ارے یہ میرے دوست، اصغر ہیں۔ دوبئی میں ایک کمپنی میں منیجر ہیں۔ آج ہی آئے تھے تو میں انہیں یونیورسٹی لے آ یا۔۔۔۔‘‘ وہ تھوڑی دیر کو رکا اور پھر اصغر سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنے دوستوں کا تعارف کرانے لگا۔

’’اصغر یہ موہن ہے۔ ہندی میں پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ یہ سیما ہے، سوری ڈاکٹر سیما ہے۔ ابھی ابھی تاریخ میں ڈاکٹر بنی ہیں اور یہ محسن ہے، ماس کام میں ایم اے پورا کیا ہے۔ ٹی وی کے پروگرام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں، تمہیں خبر ہی ہے کہ اردو میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں۔۔۔۔۔‘‘

’’او کے فرینڈز۔۔۔۔۔ اکرم میرا فاسٹ فرینڈ ہے۔ ویسے میرا تعلق امین آباد، لکھنؤ سے ہے۔ میں نے ایم بی اے کیا ہے اور دو سال سے گلف میں ہوں۔۔۔۔۔‘‘

تعارف کا سلسلہ ختم ہوا۔ چار دوستوں کی ٹو لی میں ایک اضافہ ہو گیا تھا۔

اصغر نے محسوس کیا تھا کہ سیما اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے دل کے تار میں ارتعاش سا ہو تھا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ اصغر اکثر یونیورسٹی آ جایا کرتا تھا کبھی اکرم کے ساتھ اور کبھی تنہا۔ سیما سے بات کرنے کی خواہش ایک دن اچانک خود بخود پوری ہو جائے گی اس نے سو چا بھی نہیں تھا۔ ایک دن وہ منہ میں سگریٹ دبائے اپنی ہی دھن میں یونیورسٹی میں گیٹ سے اندر داخل ہو رہا تھا کہ ایک نقرئی آواز نے اس کے قدم تھام لیے۔

’’اصغر صاحب، ہم بھی آ رہے ہیں۔۔۔۔۔‘‘

اصغر نے سیما کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ پیلے رنگ کی ساڑی میں بے حد دیدہ زیب لگ رہی تھی۔ لمبا قد، دراز گیسو، نکھرا نکھرا رنگ، سیاہ چشمے۔۔ گویا قیامت سج دھج کر سب کچھ تباہ و برباد کرنے نکلی ہو۔

’’جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیما جی۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘

’’ہاں۔۔۔۔ آئیے کافی لیتے ہیں __‘‘

’’چلیں‘‘

دونوں کینٹین پہنچ گئے۔ کافی کا آرڈر دیا اور ادھر اُدھر کے نظاروں میں گم ہو گئے۔ یونیورسٹی میں چہل پہل بڑھ گئی تھی۔ فروری کے آخری دن تھے۔ موسم خوش گوار ہو گیا تھا۔ ٹھنڈ رخصت ہو رہی تھی، گرمی اپنا بستر بچھانے کی تیاری میں تھی۔ راستے، ہرے بھرے لانس، کینٹین سب لڑکے لڑکیوں سے آباد تھے۔ بے شمار رنگوں کے پھریرے تھے جو اِدھر سے اُدھر اڑتے نظر آ رہے تھے۔ باتیں، قہقہے، موسیقی، شور شرابہ، ہارن کی آوازیں ______ سمسٹر ایگزام ختم ہوئے تھے اور نئے سمسٹر سے پہلے کے دن تھے۔ یہ دن موج مستی کے ہوتے ہیں۔ پڑھاکو سے پڑھاکو طالب علم بھی تفریح کے موڈ میں ہوتا ہے۔ فلم، خوش گپیاں، تفریح، کرکٹ میچ وغیرہ میں دلچسپی بڑھ گئی تھی۔

’’کافی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ بیرے کی آواز پر دونوں چونکے۔

’’ارے اصغر صاحب آپ کہاں کھو گئے ہیں؟‘‘

’’بس یونہی یونیورسٹی کا نظارہ کر رہا تھا ___اپنا زمانہ یاد آ رہا تھا۔ کیا زمانہ ہوتا ہے؟‘‘

’’اصغر صاحب۔۔۔۔۔۔۔‘‘

بھئی یہ صاحب واحب کا سلسلہ بہت ہو گیا۔ میں اصغر اور آپ سیما، بس اور کچھ نہیں __‘‘

’’او کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی اصغر صاحب۔۔۔۔۔ سوری اصغر۔۔۔۔ مجھے آپ کی مدد چاہئے۔‘‘

’’میں حاضر ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ بتائیں‘‘

’’سنا ہے گلف میں بھی ٹیچنگ کی پوسٹیں آتی رہتی ہیں، مجھے بھی باہر جانا ہے۔ آپ مجھے گائڈ کریں۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’ہاں۔۔۔۔ سیما۔۔۔۔ آپ جیسی لڑکیوں کے لیے بہت اچھے چانس ہیں۔‘‘

’’میں وا پس جا کر آپ کو مطلع کروں گا۔ آپ اپنے کاغذات وغیرہ تیار رکھیں۔‘‘

’’واقعی آپ ایسا کریں گے۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا ہے۔‘‘ سیما خوشی کے مارے کھلی جا رہی تھی۔

’’سیما۔۔۔۔۔ جب آپ سے دوستانہ تعلق ہو گیا تو سمجھو سب کچھ میری ذمہ داری۔ ڈن۔۔۔۔۔‘‘ اصغر نے ہاتھ آگے بڑھایا۔

’’ڈن‘‘

کہتے ہوئے سیما نے بڑی گرم جوشی سے اصغر کا ہاتھ تھام لیا۔ وفور جذبات سے مغلوب دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے میں یوں پیوست تھے گویا دو تھے ہی نہیں۔ دونوں کو ہاتھ چھڑانے کی جلدی نہیں تھی۔ ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا دونوں کو چھو کر گذرا اور دونوں کو ایک لطیف احساس کرا گیا۔ بیرا آ گیا تھا۔ اصغر نے پاکٹ سے پیسے نکال کر دئیے اور دونوں اٹھ گئے۔

’’اچھا سیما۔۔۔۔۔۔۔ پھر ملتے ہیں؟‘‘

’’جی۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گلف واپس کب جا رہے ہیں؟‘‘

’’اس منتھ کے لاسٹ میں۔ بس پندرہ دن بچے ہیں اور کام بہت زیادہ__‘‘

اور دونوں پھر ملنے کا وعدہ کر کے واپس ہو لیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیما ایک اوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے والد چودھری رتن لال کی لکھنؤ، لال باغ میں گاڑیوں کے پارٹس کی دکان تھی۔ وہ سنگھ وچار دھارا کے تھے اور لال باغ علاقے کے صدر بھی تھے۔ ان کے دو بچے سیما اور مدن تھے۔ سیما بڑی تھی اور مدن چھوٹا۔ مدن بی اے کر رہا تھا۔ سیما نے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ وہ کسی یونیورسٹی میں خاص کر غیر ملکی یونیورسٹی میں جاب کی خواہش مند تھی لیکن وہ اپنی اس خواہش کو دل ہی دل میں رکھتی کہ اس کے پوری ہونے کی امید، نا کے برابر تھی۔ یعنی امید کے پوری ہونے کے درمیان ’نا‘ حائل تھا۔ مگر جب سے اس کی اصغر سے ملاقات ہوئی تھی، اسے ’نا‘ کے ہٹ جانے کی امید ہو چلی تھی۔ یوں بھی اصغر اسے پہلی نظر میں ہی بھا گیا تھا۔ کیا خوبرو نوجوان تھا۔ تقریباً چھ فٹ لمبا قد، گورا رنگ، چہرے پر ہلکی سیاہ داڑھی۔ وہ اصغر کو دل ہی دل میں پسند کرنے لگی تھی۔ پسند کرنے سے پہلے اس نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اصغر اس کے مذہب کا نہیں ہے۔ ویسے پیار کرنے والے یہ باتیں سوچا بھی نہیں کرتے۔ سیما نے اصغر کو لے کر خیالی دنیا بھی بسانی شروع کر دی تھی۔ اگر اصغر کی مدد سے مجھے گلف کی کسی یونیورسٹی میں جاب مل جاتی ہے تو میں اور اصغر، اپنی دنیا الگ بسا لیں گے۔ مجھے جس طرح کے شہزادے کی تلاش تھی وہ اصغر ہی ہے۔ اپنے والد کو بھی سمجھا لوں گی۔ مان جائیں گے وہ۔ میں ان کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ وہ سوچتے سوچتے اپنی سیماؤں سے باہر چلی گئی تھی۔

دوسری طرف اصغر کا حال بھی سیما جیسا ہی تھا۔ اصغر کو امید نہیں تھی کہ اسے سیما جیسی خوبصورت ٹال فگر لڑکی یوں اچانک دوست کی شکل میں ملے گی۔ اصغر ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے والد شہر کے معروف عالم تھے جن کی تقریر سننے لائق ہوتی تھی۔ بحیثیت مقرر ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ گھر میں مذہبی ماحول تھا۔ تعلیم کے معاملے میں بھی ان کا گھر مثالی تھا۔ اصغر کے والد خود بھی اردو میں ایم اے تھے۔ اصغر کی والدہ نے بی اے کیا تھا۔ اصغر نے ایم بی اے میں یونیورسٹی ٹاپ کیا تھا۔ اس کے باوجود اصغر نے اپنے گھر کی روایتوں کو نہیں چھوڑا۔ ایم بی اے کرنے کے کچھ ماہ بعد ہی اسے گلف میں ایک بڑی کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی۔ گھر میں نئی روشنی کا استقبال بھی تھا اور اپنی تہذیب و روایت کی پاسداری بھی۔ وہ جب کبھی چھٹیوں میں آتا تو اکرم کے ساتھ گھومنے پھرنے کا پروگرام بنا لیتا۔ لکھنؤ کے تقریباً سبھی مقامات وہ گھوم چکے تھے۔ پہاڑوں کی بھی خوب سیر ہو چکی تھی۔ اکرم اکثر اسے یونیورسٹی چلنے کو کہتا مگر وہ ہمیشہ ٹال جاتا تھا۔

’’یار وہاں میں کیا کروں گا۔ وہاں تمہارے دوست ہوں گے۔۔۔۔ میں ان سے کیا بات کروں گا۔‘‘

لیکن اس بار اکرم اسے یونیورسٹی لے ہی آیا اور اپنے دوستوں سے ملاقات کرائی۔ اصغر کو یونیورسٹی کا ماحول بہت اچھا لگا۔ وہ اب اکرم کے ساتھ اور کبھی خود بھی ادھر آ نکلتا۔ سیما سے جان پہچان، ملاقات، دوستی جب مزید شدت اختیار کرنے لگی تو بے چینی اور اضطراب بڑھنے لگا۔ اب اکثر وہ دونوں ساتھ ہوتے۔ کبھی بھول بھلیاں میں گم ہوتے اور کبھی ایک دوسرے کو اچانک چھو لیتے۔ بارہ دری کے لان، کافی ہاؤس کی کرسی میزیں، حسین آ باد کے کیفے، سہارا مال، فن مال، گومتی نگر۔۔۔۔ سب ان کی موجود گی درج کر چکے تھے۔ وہ دونوں خود بھی ایک دوسرے کے دل سمندر میں کافی اندر تک اتر چکے تھے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ دونوں قربت کی سڑک پر مخالف سمتوں سے آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک اصغر کے واپس جانے کا دن قریب آ گیا۔ ویسے یہ اچانک تو نہیں تھا مگر دونوں، ایک دوسرے میں ایسے گم تھے کہ انہیں یہ احساس ہی نہیں تھا کہ ہر وصال کو ہجر ہے۔

’’ارے سیما۔۔۔۔۔۔۔۔ یار مجھے پرسوں واپس جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اصغر نے سیما کا ہا تھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔

’’اصغر۔۔۔۔۔۔۔ تم اتنی جلدی کیوں جا رہے ہو۔۔۔۔ ٹکٹ آگے بڑھوا لو نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہارے بغیر کیسے رہوں گی۔‘‘

’’جان۔۔۔۔ کمپنی اور چھٹی نہیں دے رہی۔ میں نے Try کیا تھا۔ مجبوری ہے ور نہ کون کافر ہو گا جو تم سے دور رہ کر سکون سے رہ پائے۔‘‘

’’اب باتیں نہ بناؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری جاب کا خیال رکھنا، میں کل تمہیں اپنے کاغذات دے دوں گی۔ گلف کی کسی بھی یو نیورسٹی میں۔۔۔۔۔ پھر ہم دونوں ہمیشہ کے لیے ایک ہو جائیں گے۔‘‘

اصغر کبھی سیما کے جذبات اور اپنی محبت کے بارے میں سوچتا اور کبھی اپنے گھر والوں کے بارے میں۔ غیر مذہب میں شادی کے لیے اس کے والدین کبھی تیار نہ ہوں گے۔ سیما کو لے کر وہ عجیب ادھیڑ بن میں تھا۔ ویسے سیما ہر طرح سے ایک اچھی بیوی بننے لائق تھی۔ اسے یہ بھی یقین تھا کہ اگر وہ سیما کے سامنے مذہب تبدیل کرنے کی بات رکھے گا تو وہ بھی مان لے گی۔ لیکن اسے اپنے والد سے بات کرنے میں ایک طرح کا ڈر محسوس ہوتا تھا۔ پھر بھی اس نے سوچا یہ بعد میں دیکھا جائے گا۔ وہ جب سے سیما کے قریب آیا تھا، اس کے ذہن میں ایک نئی دنیا آ باد ہو رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اصغر کو دبئی آئے کئی دن ہو گئے تھے۔ اس کا دل کام میں نہیں لگ رہا تھا۔ بلکہ ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا اس کا دل تو لکھنؤ میں چھوٹ گیا ہو۔ اس نے آتے ہی سیما کے لیے کام کی تلاش شروع کر دی تھی۔ سر دست ایک اسکول میں جگہ مل گئی تھی۔ اس نے سیما کے کاغذات جمع کرا دیے تھے۔ اسکول والوں نے سیما کا لکھنؤ میں ہی انٹرویو کرایا، سیما پاس ہو گئی تھی اور دو مہینے کے اندر سیما، اپنے ملک کی سیماؤں سے پرے، اپنے دوست، کی دنیا میں داخل ہو چکی تھی۔ سیما نے اسکول جوائن کر لیا تھا۔ کچھ دن بعد دونوں ایک مال میں ملے تھے۔

’’سیما۔۔۔۔‘‘ اصغر خوشی سے بے قابو ہو رہا تھا۔

’’جی۔۔۔۔۔۔۔ اصغر‘‘ دونوں مضطرب روحوں کی طرح ملے تھے۔ بھرے پرے مال میں گلے نہیں مل سکتے تھے۔ ہاتھ ضرور ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔

’’سیما مبارک باد!۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستان کے بعد آج مل رہے ہیں۔ اب آگے کیا کرنا ہے؟‘‘

’’اصغر۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کچھ نہیں کرنا، جو کرنا ہے وہ تمہیں ہی کرنا ہے۔‘‘

’’چلو شادی کر لیتے ہیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔۔۔۔‘‘

’’پر تمہیں اسلام میں داخل ہونا ہو گا۔ میں چاہتا ہوں کہ بنا کسی دباؤ کے تم اسلام قبول کرو۔ ویسے جو تم چاہو۔۔۔۔‘‘

’’اصغر مجھے تمہارے نام کے meaning پتہ ہیں (تم نے ایک بار بتایا تھا) تم صرف نام کے اصغر ہو۔ تمہارا دل بہت بڑا ہے۔ میں چاہوں تو سیما رہتے ہوئے بھی، ہم شادی کر سکتے ہیں۔ لیکن مجھے تم اور تمہارا مذہب پسند ہے۔ میں اپنی مرضی سے اسلام قبول کرتی ہوں۔‘‘

دو چار دن کی خانہ پُری کے بعد سیما سے ثنا بنی دلہن اپنے مجازی خدا اصغر کے یہاں آ گئی تھی۔ دو مذہب ہی ایک نہیں ہوئے تھے بلکہ ایسا لگ رہا تھا گویا زمین و آسمان کا ملن ہوا ہو۔ دو انسانوں کے اس ملن پر قدرت بھی مہربان تھی۔ برسوں بعد دبئی کے آسمان پر کالے کالے بادل نظر آئے اور اتنے ٹوٹ کے بر سے کہ سب کچھ جل تھل کر دیا۔ پیاسی روحوں کو قرار آ گیا تھا۔

دونوں نے اپنے اپنے گھر خبر کر دی تھی کہ انہوں نے شادی کر لی ہے۔ لکھنؤ میں تیز ہواؤں کے ساتھ زبردست طوفان آیا تھا۔ درخت، بجلی کے کھمبے، اشتہارات کے ہورڈنگس، ٹین کے چھپر سب اپنی جگہ چھوڑ رہے تھے۔ ایسا طوفان کہ جانے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ سب کچھ خاکستر کرنے پر تلا تھا۔

سیاسی اعتبار سے بھی لکھنؤ کی سر زمین طوفان سے ہم آہنگ ہوئی تھی۔ سنگھ کی حمایت وا لی پارٹی اقتدار میں آ گئی تھی۔ مسلمانوں کی حمایتی پارٹی کی بری طرح شکست ہوئی تھی۔ لال اور ہرے رنگ پر زعفرانی رنگ نے بازی مار لی تھی۔ پورے ملک میں زعفرانی جھنڈے لہرا رہے تھے۔ لکھنؤ زعفرانی رنگ کی کثافت کی سب سے بڑی شناخت بن کر ابھرا تھا۔ کیا شہر، کیا قصبہ اور دیہات ہر جگہ زعفرانی رنگ کے جلوے تھے۔ پورے صوبے کا ماحول تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا۔ عجیب و غریب قسم کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔

’’بھارت میں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہنا ہو گا۔‘‘

’’ایک ملک، ایک دھرم۔۔۔۔‘‘

’’دیش ایک، قانون ایک۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’لو جہاد نہیں اب۔ گھر واپس ہوں سب۔‘‘

شہر کا ما حول خراب کرنے کی بھی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ مسلمان لڑکوں کے ساتھ ہندو لڑ کی دکھائی دے جاتی تو بس سمجھو کہ آفت آ گئی۔ کہیں پتہ چلتا کہ کسی مسلم لڑ کے نے ہندو لڑ کی سے شادی کر رکھی ہے تو لڑ کے لڑکی دونوں کو زد و کوب کیا جاتا۔ شادی ختم کرا کر لڑ کی کو اس کے گھر بھیج دیتے۔ اس کے بر عکس اقلیتوں کی لڑکیاں اور عورتیں محفوظ نہیں تھیں۔ کہیں نقاب میں کوئی عورت نظر آ جاتی تو اسے پریشان کرنا عام سی بات ہو گئی تھی۔ سنگھ کے بڑے لیڈر اپنی آ بادی بڑھانے کے لیے اپنی قوم کو اکسا رہے تھے۔

’’ہم دو، ہمارے پانچ___‘‘

سوامی آنند اپنی زہریلی تقریر میں مسلمانوں کو برا بھلا کہتے اور ہندوؤں کو اپنی تعداد بڑھانے کے لیے حوصلہ دیتے۔

’’دیکھو بھائیو۔ ہم ہندوؤں کی تعداد اگر اسی طرح کم ہوتی رہی تو ہم اکثریت سے اقلیت میں بھی آ سکتے ہیں۔ اس لیے کچھ بھی کرو، زیادہ سے زیادہ اولادیں پیدا کرو۔‘‘

کچھ سنگھ والوں کی یہی ڈیوٹی تھی کہ وہ پتہ لگائیں کہ کس ہندو لڑکی نے مسلم لڑکے سے شادی کی ہے۔ کون کب مسلمان ہوا ہے اور کوشش کر کے ان کی گھر واپسی کرائی جائے۔ اس کے لیے جو بھی کرنا پڑے، کریں۔ ایسے ہی ایک ورکر کو خفیہ ذرائع سے علم ہو گیا کہ پارٹی کے پرانے ورکر رتن لال کی بیٹی نے کئی سال قبل گلف میں اپنے مسلم دوست سے شادی کر لی ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ رتن لال کے گھر فون کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ پارٹی کے بڑے چھوٹے لیڈران کی آمد بڑھ گئی۔ رتن لال عجیب کشمکش میں تھے۔ ایک طرف جگر کا ٹکڑا تھا تو دوسری طرف پارٹی۔ ایک بڑے لیڈر سے خفیہ میٹنگ میں کچھ باتیں طے ہو گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

سیما، اپنے والد کے فون پر حیران بھی تھی اور خوش بھی کہ ان کی شادی کی خبر کے کئی سال بعد اس کے والد کا فون آیا تھا۔ وہ تو مایوس ہو چکی تھی کہ اب وہ اپنے والدین اور بھائی سے کبھی نہیں مل پائے گی۔ اس کی شادی کو پانچ سال کا عرصہ گذر چکا تھا۔ اس دوران وہ ایک پیارے سے بیٹے احمر کی ماں بن چکی تھی۔ اس کے والد نے فون پر بڑی جذباتی باتیں کی تھیں۔

’’سیما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹی‘‘

’’جی پاپا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ آنسو سیما کی آنکھوں کی حدوں میں قید نہ رہ سکے۔

’’بیٹے تمہیں اپنے باپ، ماں اور بھائی کی یاد نہیں آتی۔ تم کتنی پتھر دل ہو گئی ہو۔‘‘ اُدھر آواز رندھ رہی تھی۔

’’نہیں پاپا۔۔۔۔ مجھے لگا آپ لوگ مجھے معاف نہیں کرو گے۔ پاپا میں تو آج بھی آپ لوگوں کے لیے تڑپتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ رو پڑی۔ سسکیاں دوسری طرف بھی پہنچ رہی تھیں۔

’’تو آ جاؤ نا۔۔۔۔۔۔۔ چھٹی لے لو۔ ایک دو مہینے کے لیے آ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب تمہیں مس کر رہے ہیں؟‘‘

’’وہ پاپا۔۔ ابھی آنے میں وقت ہے۔ وہ، اصغر کو چھٹی نہیں مل سکتی۔ انہیں دو مہینے کے لئے امریکہ جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’بیٹا پھر تو بہت اچھا ہے۔ تم اتنے دنوں کے لیے ادھر آ جاؤ۔۔۔۔‘‘ فون، سیما کی ماں نے لے لیا تھا۔

’’سیما بیٹے!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ روتے روتے بول رہی تھیں۔

کچھ دیر خاموشی بنی رہی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا اب خاموشی کو گویائی مل گئی ہو۔

’’جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں۔۔۔۔۔‘‘ آنسو رک نہیں پا رہے تھے۔

’’اچھا ماں میں آ رہی ہوں۔۔۔۔۔‘‘ اس نے ماں اور باپ کے آنسوؤں کو مایوس نہیں کیا اور طے کیا کہ وہ لکھنؤ ہو آئے گی۔

اس نے اصغر سے بات کی۔ اصغر نے کہا۔

’’ثنا، دیکھ لو۔۔۔۔۔ میں تمہیں منع نہیں کروں گا۔۔۔۔۔ مگر احمر کا خیال رکھنا۔۔۔۔ وہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔۔۔۔ اور ہاں ہمارے گھر بھی ہو لینا۔ میں ابو سے بات کر لوں گا۔ ویسے وہ ناراض تو ہیں لیکن میں سمجھا دوں گا۔ تمہیں پتہ ہے میری امی سے کبھی کبھار بات ہو جاتی ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے اصغر تم ہم دونوں ماں بیٹوں کے ٹکٹ کرا دو۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دن بعد وقت مقررہ پر سیما جو اب ثنا اصغر بن چکی تھی۔ اپنے بیٹے احمر کے ساتھ اپنے شہر، اپنے وطن یعنی لکھنؤ کے اموسی ائیر پورٹ پر پہنچ گئی تھی۔ ایئر پورٹ پر توقع سے زیادہ بھیڑ تھی۔ لگ رہا تھا کوئی سیاسی لیڈر آنے وا لے ہیں۔ سیما کا بھائی ایئر پورٹ آیا ہوا تھا۔ سیما اس سے مل کر بہت روئی۔ گھر پہنچ کر سیما کا پر تپاک استقبال ہوا۔ اس کے والد، والدہ بھی مل کر خوب روئے۔ برسوں بعد آنسوؤں کے باندھ، کھلے تھے۔

دو تین دن گھر پر سکون سے گذرے۔ ایسا سکون، جس کے لیے وہ برسوں سے تڑپ رہی تھی۔ تین سالہ احمر دو تین دن میں ہی اپنے ماموں اور نانا۔ نانی کو جاننے اور پکارنے لگا تھا۔

دو تین دن بعد اس نے جب اصغر کے گھر جانے کی بات کہی تو اس کے والد کا رخ بدل گیا۔

’’سیما۔۔۔۔۔۔۔ تم وہاں نہیں جاؤ گی۔۔۔۔‘‘

’’کیوں پاپا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ میری سسرال ہے۔‘‘

’’ہو گی۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے لیے تم کنواری سیما ہو، بس۔۔۔۔ آج سے تمہارا اصغر اور اس کے گھر والوں سے رشتہ ختم۔۔۔۔ اور ہاں سن لو۔۔۔۔۔۔۔ خاموشی سے گھر میں رہو۔۔۔۔۔۔۔ مجھے مجبور نہ کرنا کہ میں کوئی غلط قدم اٹھاؤں، کسی کو فون نہیں کرو گی۔۔‘‘۔ پھر وہ بیٹے کی طرف گھومے۔۔۔۔۔

’’اور تم اس کے موبائل اپنے قبضے میں کر لو۔ سم نکال کر توڑ دو۔ دھیان رکھو۔ گھر سے باہر نہ جائے۔۔۔۔‘‘

پھر انہوں نے بیٹے کے کان میں سرگوشی کی۔

’’سیما کے کاٹو تو خون نہیں۔ وہ بری طرح جال میں پھنس گئی تھی۔ اس نے ایسا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ وہ اصغر کو کیا جواب دے گی۔ اس نے احمر کو اپنی چھاتی سے لپٹا لیا تھا۔ اسی ادھیڑ بن میں نہ جانے رات کے کس پہر اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے خواب میں دیکھا، اس کا احمر لہولہان ہو رہا ہے۔ کسی نے اسے چاقو مارا ہے۔ معصوم احمر کی چیخیں گونج رہی ہیں۔ وہ مدد کو پکار رہی ہے۔۔۔۔۔ وہ اچانک گھبرا کر اٹھ گئی۔ اس نے اپنے پاس سو رہے احمر کو مضبوطی سے خود سے بھینچ لیا۔ سارا گھر سو رہا تھا۔ سیما کا دماغ جاگ رہا تھا۔ وہ اٹھی اپنی ضروری چیزیں سمیٹیں اور آہستہ سے احمر کو گود میں لے کر گھر سے با ہر آ گئی۔ با ہر آتے ہی اس نے ایک سمت کو دوڑنا شروع کر دیا۔ ہر آہٹ اس کے دل کی دھڑکنیں بڑھا دیتی۔ کچھ دوری پر اسے ایک آٹو رکشہ نظر آ یا اس نے پوچھا۔

’’امین آ باد چلو گے۔۔۔۔۔‘‘

’’جی میڈم۔۔۔۔۔۔۔‘‘

اور وہ انتہائی پھرتی سے آٹو میں بیٹھ گئی۔ ’’بھیا ذرا جلدی چلاؤ۔۔۔۔۔۔۔‘‘

دہشت اور خوف اس کے دل و دماغ پر طاری تھا۔ وہ جلد سے جلد اصغر کے گھر پہنچ کر احمر کو محفوظ کرنا چاہتی تھی۔ اس نے اصغر کا گھر تو نہیں دیکھا تھا مگر اسے علاقہ پتہ تھا۔ پھر اصغر کے والد بہت معروف تھے۔ وہ پتہ لگا لے گی۔ وہ کسی بھی طرح احمر کو دنیا سے بچانا چاہتی تھی۔ وہ اپنے گھر والوں سے بہت ڈر گئی تھی۔ اس نے آٹو امین آباد چوک پر چھوڑ دیا تھا۔ رات کے تین بج رہے تھے۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا جسے آوارہ کتے کبھی کبھار توڑنے کی کوشش کرتے اور پھر خاموش ہو جاتے۔ آدھے گھنٹے کی بھاگ دوڑ اور پوچھ تاچھ کے بعد اسے اصغر کے والد کا گھر مل گیا تھا۔ اس نے ڈرتے دل سے ہمت کر کے بیل بجائی۔ تھوڑے انتظار کے بعد دروازہ کھلا۔۔۔۔ ایک ادھیڑ عورت کی آواز آئی۔

’’کون ہے۔۔۔۔ اتنی رات میں۔۔۔۔ کیا کام ہے؟‘‘

سیما سمجھ گئی تھی کہ یہ اصغر کی والدہ ہیں۔

’’امی۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ آپ کی بہو۔۔۔۔۔‘‘

’’کون ثنا۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے اتنی رات کو۔۔۔۔۔ آؤ۔۔۔۔۔ آؤ بیٹا‘‘ وہ ثنا کو اپنے کمرے میں لے گئیں۔ وہ جہاں دیدہ عورت تھیں۔ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ اصغر کے ابو، اصغر کی شادی سے راضی نہیں ہیں۔ ٹھیک ہے سیما نے اسلام قبول کر لیا تھا مگر وہ بہت ناراض تھے۔ لہٰذا وہ ثنا کو لے کر اپنے کمرے میں آ گئیں جہاں کوئی نہیں تھا۔ اصغر کے ابو اپنے کمرے میں محو خواب تھے۔

رتن لال صبح اٹھے تو انہیں گھر کا صدر دروازہ کھلا ہوا نظر آ یا۔ وہ فوراً سیماکے کمرے میں لپکے مگر وہاں خالی پلنگ انہیں منہ چڑا رہا تھا۔ ان کے غصے کی انتہا نہ رہی۔ پل بھر میں ہی گھر جاگ گیا تھا۔ گھر کی بات پڑوس میں بھی پھیل چکی تھی۔ فون کھنکنے لگے۔ آدھا پون گھنٹے میں ہی پچاسوں نو جوان، لاٹھی ڈنڈے اور دوسرے ہتھیار لیے جمع ہو گئے تھے۔ رتن لال کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ سیما کہاں ہو گی۔ سارا پلان بن چکا تھا۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار قافلہ۔ امین آباد چوک پر پہنچ چکا تھا۔

’’جئے شری رام۔۔ جئے شری رام‘‘

’’لو جہاد نہیں چلے گا۔۔۔۔‘‘ نعروں کی گونج کے بیچ خون کے پیاسے لوگوں نے اصغر کا گھر گھیر لیا تھا۔

’’نکالو۔۔۔۔۔ سیما۔۔۔۔ کو نکالو۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

دروازے پیٹے گئے اور لمحہ بھر ہی میں پتھر برسنے لگے۔

محلے والوں کو کچھ بھی خبر نہیں تھی۔ اچانک ہونے والے حملے سے وہ بوکھلا گئے تھے۔ انہیں یہ سمجھتے دیر نہیں لگی کہ شاید اصغر اور سیما آ گئے ہیں۔ کچھ محلے والوں نے بھی جوابی کارروائی شروع کر دی۔ باہر ایک عجیب عالم تھا اور گھر کے اندر۔۔۔۔۔

اصغر کے والد بہت ناراض ہو رہے تھے۔ وہ سیما پر لال پیلے ہو رہے تھے۔

’’تم نے یہاں آ کر اچھا نہیں کیا۔ خدا کے لیے اب تم جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’ارے آپ ایسے کیسے بہو کو ان ظالموں کے حوالے کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ اسے مار ڈالیں گے۔‘‘ اصغر کی والدہ نے بہو کی حمایت کی۔

’’وہ تمہیں اور مجھے بھی مار ڈالیں گے۔ وہ ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ان کے سر پر خون سوار ہے۔‘‘

’’امی مجھے جانے دیں۔ آپ احمر کو رکھ لیں۔ اسے بچا لینا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے سیما نے اپنی آنسوؤں سے تر آنکھوں کے درمیان بیٹے کو چوما، آنسو کے قطرے چہرے سے نیچے پہنچ رہے تھے۔ اس نے ایک بار احمر کو اپنے سینے سے لگایا اور پھرتی سے دروازہ کھول کر با ہر آ گئی۔ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔

با ہر کھڑے دنگا کر رہے لڑکوں نے اسے پکڑ لیا۔ کچھ اندر گھسنے کی کوشش کرنے لگے مگر اندر سے دروازہ بند کیا جا چکا تھا۔ لڑ کے سیما کو کھینچتے ہوئے ایک طرف لائے۔ رتن لال کی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا۔ اس سے قبل کہ وہ کوئی قدم اٹھاتے، کسی نے سیما کے پیٹ میں چاقو گھونپ دیا، سیما کی چیخیں بلند ہو رہی تھیں اور خون بہہ رہا تھا۔ آس پاس کے لوگ اپنے گھروں میں دبک گئے تھے۔ اتنے میں کسی نے اصغر کے گھر کو آگ کے حوالے کر دیا۔ آگ نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے شعلے کافی بلند ہو گئے تھے۔ اندر سے چیخنے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔

’’احمر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احمر۔۔۔۔۔‘‘

چیختی ہوئی ادھ مری سیما جلتے ہوئے گھر میں گھسنا چاہ رہی تھی، اچانک وہ گر پڑی اور روح جسم کی سیماؤں سے نکل گئی۔

پولس کے سائرن سے کچھ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ آگ بجھانے والی گاڑیاں آ گئی تھیں۔ اصغر کا گھر بری طرح جل گیا تھا۔ اب بھی شعلے لہک رہے تھے۔ پولس اور آگ بجھانے والوں نے گھر کے اندر گھس کر اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ اصغر کی والدہ اور والد جل کر دم توڑ چکے تھے۔ ننھا احمر ڈرا سہما سا گھر کے ایک کونے میں دبکا کھڑا تھا۔ آگ وہاں پہنچنے سے پہلے بجھ چکی تھی۔ احمر بد حواس سا کھڑا تھا اس کے کپڑے کہیں کہیں سے جل گئے تھے۔ ایک پولس والا اسے اپنی گود میں اٹھا کر باہر لے آیا۔ باہر خون کی پیاسی نظریں، ہاتھوں میں چمچماتے ہتھیار بے قا بو ہو رہے تھے۔

باہر آتے ہی احمر کی نظر کچھ دوری پر کھڑے رتن لال پر پڑی۔ وہ پولس والے کی گود سے اتر کر، ان کی طرف دوڑا۔

’’نانو۔۔۔۔۔۔۔ مجھے بچا لو۔۔ نا۔۔ ن۔۔ و۔ و‘‘

لفظ اس کے حلق میں دم توڑ رہے تھے۔

احمر رتن لال کی ٹانگوں میں گھسا جا رہا تھا اور رتن لال کی آنکھوں کا خون، پانی بن کر باہر آنے لگا تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے