غزلیں ۔۔۔ فیصل عجمی

یہ آسمان کوئی فسانہ تو ہے نہیں

ہم اس کو دیکھتے ہیں، گرانا تو ہے نہیں

 

پہنیں گے خاکدان کا زربفت پیرہن

یاروں نے اس کا دام چکانا تو ہے نہیں

 

مٹھی میں ایک زہر ہے، دنیا کہیں جسے

سب سے چھپائے پھرتے ہیں، کھانا تو ہے نہیں

 

مانگا ہے عشق بھی من و سلویٰ کے نام پر

اترے گا آسماں سے، کمانا تو ہے نہیں

 

دوچار لوگ ہیں جو مری آستیں میں ہیں

میرے خلاف سارا زمانہ تو ہے نہیں

 

گھر جانا چاہتے ہیں کہ مدت ہوئی گئے

کہنے کی اور بات ہے، جانا تو ہے نہیں

 

کہتا ہوں عشق سے کہ مری جان چھوڑ دے

لگتا ہے مان جائے گا، مانا تو ہے نہیں

 

کیا علم، چار سُو سے نکل جائے کس طرف

آوارگی کا کوئی ٹھکانہ تو ہے نہیں

٭٭٭

 

 

عمر خیرات ہو گئی میری

در بدر ذات ہو گئی میری

 

ملنے آئے گی چاندنی بن کر

دھوپ سے بات ہو گئی میری

 

خود کو کھویا بھی اور بھلایا بھی

مات پر مات ہو گئی میری

 

اپنے سائے سے خود گریزاں ہوں

اب یہ اوقات ہو گئی میری

 

ایک آنسو بھی رونما نہ ہوا

ختم برسات ہو گئی میری

 

میں بناؤں گا خُوب دنیا کو

جب یہ بد ذات ہو گئی میری

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے