اُستاد فضل حسین شرر کا سفید موتی ۔۔۔ علی اکبر ناطق

وہ ہمارے گھر کے بالکل قریب ہی رہتا تھا لیکن یہ بات میں نہیں جانتا تھا۔ مَیں نے تو اُسے صرف سکول میں دیکھا۔ اُس دن بالکل یہی موسم تھا، اکتوبر کے پہلے دس دن گزر چکے تھے اور دھوپ میں گرمی نہیں تھی۔ وہ کھلے گراونڈ میں کُرسی پر بیٹھا، اتنا پُر سکون تھا، جتنا کوئی خزاں رسیدہ درخت ہو سکتا ہے۔ پُشت کو کرسی پر ٹکا کر، دونوں پاؤں زمین پر سیدھے رکھے، اُس کی نظریں آسمان کی بلندی پر دائرے میں اُڑتی اُن چار عدد چیلوں پر تھیں، جو ہر چکر کے بعد مزید بلند ہو جاتیں اور اب نُقطوں کے برابر رہ گئی تھیں۔ مَیں اُس کے پیچھے چُپکے کھڑا دیکھتا رہا۔ مجھے یقین تھا، مَیں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ جب وہ سفید موتی جیب سے نکالے گا تو میں ضرور دیکھ لوں گا لیکن کافی دیر کھڑے رہنے کے باوجود ایسا نہ ہوا۔ وہ ہر طرف سے ساکت، دونوں بازو کُرسی کی دستیوں پر رکھے بیٹھا رہا۔ اُس کی نظریں چیلوں سے ہٹ کر، سکول کی چار دیواری سے باہر، آموں کے باغ کی طرف مُڑ گئیں، جہاں رنگ رنگ کے پرندے سبز پتوں میں جھول رہے تھے اور تین بچے اُچھل اُچھل کر آم کی موٹی شاخوں سے اُلٹے سیدھے لٹکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مَیں دل ہی دل میں اُس پر تلملانے لگا۔ آخر وہ کیوں اپنا ہاتھ جیب کی طرف لے جا کر انڈے کے برابر کا سفید موتی نہیں نکالتا۔ اِسی بے دھیانی میں آگے ہوتا گیا اور نہ جانے کب اُس نے میرے قدموں کی چاپ سُن لی۔ اُسی وقت اُس نے مُڑ کر دیکھا۔ میں دو قدم پر تھا، اُس کے دیکھتے ہی بھاگ اُٹھا اور ہانپتا ہوا کلاس میں آ گیا، جو ایک دوسرے گراونڈ میں گھاس کے فرش پر بیٹھی تھی۔ کلاس میں داخل ہو کر مَیں لڑکوں کے درمیان میں بیٹھ گیا۔

سکول کافی بڑا تھا، بہت بڑا، لیکن چار دیواری چھوٹی تھی، اتنی چھوٹی کہ تین فٹ کا بچہ مضافات کو دیکھ سکتا تھا۔ سامنے کی مسجد کے اُونچے منار اور اُن کے سفید گُنبدوں پر بیٹھے یا اُڑتے ہوئے کبوتر ایک طرح سے سکول کا حصہ تھے۔ چار دیواری کے ارد گرد ہری فصلوں کے پھیلے ہوئے کھیت اور بڑے باغوں کے سیاہ جھرمٹوں کا سایا سکول میں چلا آتا اور گراؤنڈوں کی سبز گھاس سے مل کر اُس میں طلسم سا پیدا ہو جاتا، پھر وہ طلسم دھوپ کو اپنے حصار میں لے لیتا۔

مُجھے سکول میں دوسرا سال تھا۔ اِس عرصے میں کبھی نہیں دیکھا، وہ اساتذہ کے پاس بیٹھا ہو یا اُس نے سٹاف روم کا رُخ کیا ہو۔ بس کسی گراؤنڈ کے دُور کونے میں کرسی پر خموش بیٹھا، آسانی سے نیلے، بھورے یا کالے بادلوں والے آسمان کو دیکھتا رہتا یا کبھی کبھی کتاب کھول کے پڑھنے لگ جاتا، جو وہ گھر سے لانا نہ بھولتا۔ ایسا بھی ہوا کہ سکول کے مغربی کونے میں، جہاں ایک چھوٹا سا پلاٹ تھا، چہل قدمی شروع کر دیتا۔ اُس میں چوکیداروں نے سبزیاں کاشت کر رکھی تھیں۔ وہ اُن کا رکوع کی حالت میں ہو کر اور اپنی لاٹھی کو سبزیوں کی جڑوں میں مار مار کر باریکی سے جائزہ لیتا پھرتا، مگر چوکیداروں سے بول چال کو راہ نہ دیتا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا، یہ کون ہے؟ کلاس لیتے یا بچوں کو پڑھاتے مَیں نے اُسے نہیں دیکھا لیکن میرے لیے حیرانی کی بات یہ تھی کہ سکول کے اُستاد اور لڑکے اُس کو اُستاد کے لقب سے ہی منسوب کرتے۔ پتا نہیں کیوں؟

اُن دنوں کلاسیں بھی گراؤنڈ میں لگتی تھیں، کھُلے آسمان تلے۔ ایسا نہیں کہ کمرے نہیں تھے۔ بس استاد اور بچے گراؤنڈ کو ہی ترجیح دیتے۔ اِس کے باوجود کہ اُس کو مَیں نے کبھی پڑھاتے نہیں دیکھا، پھر بھی سکول سے ناغہ نہ کرتا۔ سو کنال رقبے کے سکول میں، وہ کبھی ایک کونے میں ہوتا، کبھی دوسرے میں۔ مَیں جب تک ایک نظر اُسے دیکھ نہ لیتا، طبیعت بے قرار رہتی۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ اُس کے پاس ایک انڈے کے برابر سفید رنگ کا موتی ہے اور اُس موتی میں ایک جِن بند ہے۔ وہ جِن اُسے لوگوں کے راز اور غیب کی باتیں بتاتا ہے اور گیت بھی سناتا ہے۔ اُس جِن نے اِسے بہت سارا خزانہ بھی دیا تھا، جو اِس نے اپنے گھر میں گڑھا کھود کر چھپا رکھا ہے۔ یہ موتی وہ ایک ڈبیا میں چھپا کے دائیں جیب میں رکھتا ہے اور کسی کو نزدیک نہیں آنے دیتا، نہ خود کسی کے قریب جاتا ہے۔ کئی لڑکوں نے اُس کے بیٹوں سے موتی کے بارے میں پوچھا لیکن وہ بھی اِتنا ہی بے خبر تھے جتنا عام لڑکے۔ اُن کا کہنا تھا، اُن کی والدہ نے ابا جی کے برتن، کمرہ اور بستر الگ کر رکھا ہے اس لیے اُن کو اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں۔ اِتنا ضرور ہے کہ اُس کے پاس بوسیدہ کتابوں کا ایک ڈھیر ہے، جس میں عجیب و غریب نہ سمجھ آنے والی باتیں درج ہیں۔ شاید سفید موتی اُن کتابوں میں چھُپا کر رکھ دیا ہو اور وہاں جا کر ہم نے نہیں دیکھا۔

میری شدید خواہش تھی، مَیں وہ موتی دیکھوں لیکن جِن سے ڈرتا تھا۔ دو تین بار یہ ضرور ہوا کہ وہ کرسی چھوڑ کر جیسے ہی چہل قدمی کے لیے اُٹھا، مَیں بھاگ کر کُرسی کے پاس گیا مگر مجھے وہاں گھاس کے تنکوں کے سوا کوئی چیز نظر نہ آئی۔ کُرسی کو ہلا کر اُس کے پایوں کے نیچے دیکھنے کی جرات اِس لیے نہ ہوئی، کہیں نیچے جِن نہ بیٹھا ہو۔ اُس کے پاس جِن کے موجود ہونے کی ایک اور دلیل بھی تھی کہ اُس سے سب سکول کے اُستاد ڈرتے تھے اور اُس کا نام آتے ہی با ادب ہو جاتے حالانکہ اِتنا کمزور تھا کہ دس سال کا بچہ بھی اُسے چت کر لے۔ بالکل ہڈیوں کا ڈھانچا، چلتے ہوئے اکثر لڑکھڑا جاتا۔ سٹاف روم میں چائے بنتی تو چوکیدار اُس کے لیے بھی لے آتا، جسے وہ بغیر شکریے کے قبول کر لیتا۔

جس دن مَیں نے اُس کے پیچھے جا کر دیکھنے کی کوشش کی، یہ اُس سے دوسرے دن کی بات ہے۔ مَیں اپنی کلاس میں بیٹھا ریاضی کی ایک مشق کر رہا تھا کہ لنگڑا چوکیدار، جو اُسے چائے دے کر آیا تھا، نے میرا نام لیا اور کہا، مُنشی فضل حسین بلاتے ہیں۔ اُس وقت میری عمر محض آٹھ سال تھی۔ مَیں مردہ ٹانگوں کے ساتھ اُٹھ کر چوکیدار کے پیچھے چلنے لگا۔ بھاگنے کی طاقت اول تو تھی نہیں، دوم اُس کا جِن مجھے ایک قدم نہ بھاگنے دیتا۔ چند لمحوں میں ہم وہاں جا پہنچے اور آج یہ پہلا دن تھا، جب مَیں اُس کے اتنا قریب کھڑا تھا کہ اُس سفید انڈے کے برابر موتی کی خوشبو لے سکتا تھا لیکن اب اُس کا خیال ڈر کی وجہ سے محو ہو گیا۔ چوکیدار جا چکا تھا۔ پچاس قدم کے دائرے میں اب نہ تو کوئی کلاس تھی، نہ لڑکا تھا، نہ اُستاد۔ فقط وہ تھا اور مَیں مجرموں کی طرح سامنے کھڑا تھا۔ مجھے اس بات کی حیرانی بالکل نہیں تھی کہ اُس نے میرا نام کیسے جانا، ظاہر ہے جِن کے لیے یہ کوئی مشکل بات نہیں تھی۔

اُس کے چہرے کی بجائے وہاں باریک ہڈیاں تھیں لیکن اُن کے اُوپر جلد اتنی نرم اور سفید تھی کہ ہڈیاں بُری معلوم نہیں ہوتی تھیں۔ ہاتھوں کی ناڑیں نیلی اور ماس کے نیچے کی تہیں ہڈیوں کو مزید واضح کر رہیں تھیں۔ آنکھیں چمکدار تھیں مگر زیادہ ہی اندر کو دھنس چُکی تھیں، جن پر سیاہ ہلکے پڑے تھے۔ بال سر پر موجود تو تھے مگر اِتنے کم کہ کنپٹیوں کی درزیں صاف دیکھ سکتا تھا۔ سر پر دو پلًی ٹوپی جما کر آتا لیکن وہ چلتے وقت ہی سر پر رکھتا تھا، جیسے ہی کُرسی پر بیٹھتا، ٹوپی اُتار دیتا۔ مجھے اُس سے آنکھیں ملانے میں مشکل پیش آ رہی تھی اور مَیں مسلسل سکول کی دیوار کے ساتھ ساتھ کچی سڑک پر جاتے اُس چرواہے کو دیکھ رہا تھا، جو بے شمار بھیڑوں کو ہانکتا، نہر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بھیڑوں کے گزرنے سے غبار اور بُو کی ہلکی لہر ہمارے ناکوں کو چھونے لگی۔ یہ بھیڑیں اور چرواہا اتنی خاموشی سے گزر رہے تھے جیسے ان کے قدموں کے نیچے روئی بندھی ہو۔ اُسی لمحے مَیں نے سوچا، یہ چرواہا کیسا آزاد ہے کہ اُسے منشی فضل نے اپنے سامنے حاضر نہیں کیا۔

’بیٹے بیٹھ جاؤ‘

یہ آواز منشی فضل حسین کی بجائے کہیں غیب سے آئی تھی، جسے سُنتے ہی مَیں گھاس پر بیٹھ گیا اور پہلی دفعہ میری نظر نے اُس چھڑی کو غور سے دیکھا، جو کُرسی کے دائیں پائے سے سہارا دے کر کھڑی کی تھی۔ چھڑی کا قبضہ اِتنا ملائم تھا کہ میرا جی چاہا، اُسے پکڑ کر دیکھوں اور اُس پر ہاتھ پھیروں مگر اِس پر عمل کرنا نا ممکن تھا۔ مَیں بیٹھ گیا اور اُس کی ٹانگوں کے درمیان، جو پتلون کے اندر صندل کی دو لاٹھیاں محسوس ہو رہی تھیں، سے جگہ بنا کر کُرسی کے چار پایوں کے درمیان دیکھنے لگا، جہاں خلا کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

’کس درجے میں بیٹھتے ہو؟‘

’اُستاد جی، تیسرے درجے میں ہوں، ماسٹر خالق صاحب پڑھاتے ہیں۔

’کیا کچھ پڑھا؟‘

اس کا جواب نہیں تھا۔ مَیں ایک تنکے سے محض زمین کُریدنے لگا اور کچھ نہ بولا۔

’تم جانتے ہو مَیں کون ہوں؟‘

مَیں اِس بات پر بھی چُپ رہا اور انگلیوں سے گھاس کی جڑیں اُکھاڑنے لگا۔ مجھے یقین تھا، کل والے واقعے کی وجہ سے بلایا ہے اور کچھ ہی لمحوں بعد اُس بات کی پُرسش ہونے والی ہے چنانچہ اُسی کا جواب سوچنے لگا۔

’بیٹا آپ میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ اچھا، یہ بتاؤ، تمھیں کوئی شعر آتا ہے؟‘

’جی اُستاد جی، آتا ہے۔‘ اُس کے لہجے کی ملائمت نے میرے اندر حوصلہ پیدا کر دیا تھا۔

’چلو کوئی شعر سناؤ۔‘

’ہوئی شیر سے جب پسر کی لڑائی

سکندر کے بیٹے نے گولی چلائی

سکندر کا بیٹا کھڑا رہ گیا

لہو کا پیالہ بھرا رہ گیا‘

’واہ، کمال کر دیا تُو نے، یہ کس کے شعر ہیں؟ کہاں سے یاد کیے؟‘

اس بات کا بھی میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور نہ یہ پتا تھا کب اور کیسے یاد ہو گئے اس لیے پھر چُپ ہو رہا۔

’اچھا کوئی اور سناؤ۔‘

’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا‘

’شاباش، بہت ہی خوب۔ اچھا، اس شعر کا تو آپ کو پتا ہو گا، کس کا ہے؟‘

’جی اُستاد جی‘ اب میں جلدی سے بولا ’یہ مولوی عنایت کا شعر ہے۔‘ اِس میں کوئی شک نہیں تھا کہ مَیں نے سینکڑوں بار اُس کی زبان سے سُنا تھا، جب وہ جامع مسجد کے سپیکر پر چندہ مانگتے ہوئے ایک لمبی نعت پڑھتا تھا۔ اُس میں مجھے صرف یہ شعر ہی یاد رہ گیا تھا اور یہ کتنا اچھا ہوا کہ مَیں نے منشی کو صحیح صحیح جواب دے دیا۔

’اچھا، میرے نزدیک آؤ۔‘

مَیں تھوڑا سا آگے ہو گیا۔ مَیں جانتا تھا، لڑکے دُور کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں اور میرے انجام کے بارے میں فیصلہ کن بات پر نہیں پہنچ پا رہے۔ سب کو یقین تھا، منشی فضل حسین کے جِن کے شکنجے میں پھنس چکا ہوں۔

’اور نزدیک ہو جاؤ۔‘

مَیں اور نزدیک ہو گیا۔ اُس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کاندھے پر تھپکی دی۔ مَیں نے محسوس کیا، اُس کے ہاتھ کا وزن کاغذ سے زیادہ نہیں تھا۔ اِس شفقت کے سبب میرے اندر پنپتا ہوا تجسس بے اختیار زبان پر آ گیا۔ ’اُستاد جی، لڑکے کہتے ہیں، آپ کے پاس انڈے برابر سفید موتی ہے۔‘

’ہاں بیٹا وہ ٹھیک کہتے ہیں‘ ماسٹر فضل حسین رواں آواز میں بولا۔ ’میرے پاس موتی ہے لیکن یہاں کوئی اُس کے دیکھنے کا اہل نہیں اس لیے اُس کو چھپا کے رکھتا ہوں۔ کل تم میرے پیچھے وہ موتی دیکھنے کے لیے کھڑے تھے؟‘

مَیں سر ہلا کر رہ گیا اور وہ ہلکا سا مسکرا دیا۔

’اگر مَیں نے دکھایا اور تم لے کر بھاگ گئے؟‘

’اللہ کی قسم، نہیں لے کر بھاگتا‘ مَیں نے بچکانہ اصرار کے ساتھ کہا

وہ ہنس دیا اور ٹوپی اُٹھا کر سر پر لے لی، جو اُس کی جھولی میں پڑی تھی، پاؤں میں جوتے اڑسنے لگا۔ یہ تیاری گویا اُس کے اُٹھنے اور کسی طرف جانے کی تھی۔

’اچھا، ہم ایک کام کرتے ہیں، میرے ساتھ آؤ۔‘

لاٹھی، اُسے آپ عصا بھی کہہ سکتے ہیں، اُس کے ہاتھ میں تھی، جسے اُس وقت پکڑنے کی شدید خواہش مجھ میں پیدا ہوئی۔ پاؤں میں پتلی ریکسین کے جوتے تھے۔ اُن کے اندر پاؤں کے علاوہ مزید بھی جگہ تھی۔ مَیں اُس کے پیچھے چلنے لگا۔ مجھے کیا معلوم، وہ کدھر جا رہا تھا؟ لیکن یہ سفر اُسی سکول کے گراؤنڈ میں ہونے کے باوجود، جہاں مَیں روز دوڑتا تھا، آج ایک طلسماتی سا ہو گیا۔ میری نظریں اُس کی لاٹھی پر تھیں، جو بغیر آواز پیدا کیے، سیدھی آگے چلی جاتی تھی اور مَیں عادتاً اُس کے نشانوں پر پاؤں رکھتا ہوا بڑھ رہا تھا۔ یہ میرے لیے ایک کھیل تھا۔ ہم نے ایک گراؤنڈ کو کراس کیا پھر دوسرے کو، پھر تیسرے کو۔ اُس کے بعد جنوبی سمت میں ایک دیوار کے ساتھ کھڑے آسمان قامت پیپل کے نیچے آ گئے، جس کی جڑیں دیوار میں اِس طرح گھل مل کے دُور تک نکل گئی تھیں کہ دیوار کی بوسیدہ اینٹیں مُڑ تُڑ کر اُس کے تنے کا حصہ بن چکی تھیں۔ بہت سی جڑیں زمین میں موٹی اور گول چوکیوں کی شکل میں اِدھر اُدھر اُبھری ہوئی تھیں۔ اِن کے نیچے بلیوں اور خرگوشوں نے اپنے ڈربے بنا رکھے تھے۔ شاخوں اور پتوں نے ایک دنیا کو گھیرا ہوا تھا۔ گراؤنڈ کا چوتھائی حصہ اِس کی لپیٹ میں تھا اور پرندے اِتنے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ یہی وہ پیپل تھا، جس کے بارے کسی کو شک نہیں تھا کہ اس پر بھوت اور جِن رہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص دن کے بارہ بجے یا رات کے بارہ بجے اِس کے تنے کے گرد سات چکر لگا کر جڑوں میں پیشاب کر دے تو اُسی وقت چڑیلیں اُس کی گردن توڑ دیتی ہیں۔ چنانچہ ابھی تک کسی کو ایسا کرنے کی جرات نہیں ہوئی تھی۔

منشی فضل حسین نے مجھے ایک بھاری اور اُبھری ہوئی جڑ پر بیٹھنے کو کہا، جو ایک بڑی چوکی سی بن گئی تھی۔ میں اُس کی حکم عدولی کیے بغیر آرام سے بیٹھ گیا۔ لڑکے دُور جھرمٹ بنا کر دیکھ رہے تھے۔ مَیں کانپنے لگا کہ مجھے جنوں کو پکڑوانے کے لیے لے آیا۔ مَیں ایک ہی دم پسینے سے شرابور ہو گیا۔

’اِس جگہ کو پہچان لو۔ روزانہ مَیں تمھیں یہیں پر تین گھنٹے تک کچھ منتر پڑھاؤں گا۔ جب تک وہ منتر تم یاد نہیں کر لیتے، مَیں وہ سفید موتی تم کو نہیں دکھا سکتا۔ کیا تم کو منظور ہے؟‘ منشی فضل حسین نے لاٹھی سے اُس جڑ پر ٹھوکر لگاتے ہوئے کہا،

سچ تو یہ تھا کہ ابھی مَیں موتی کو بھول کر اپنی جان چھڑانے کے چکروں میں تھا۔ کجا منتر یاد کرتا پھروں لیکن جِنوں کا خوف مجھ پر اتنا سوار تھا کہ انکار کرنا میرے بس سے باہر تھا۔ چنانچہ مَیں نے اوپر نیچے سر ہلا دیا۔

’بس کل سے سکول کی کتابیں اور منتر سب کچھ یہیں دو گھنٹے تک تم کو پڑھاؤں گا۔ تم اپنی کلاس میں جانے کی بجائے یہیں آ جایا کرنا۔ اگر نہیں آؤ گے تو تمھارے پیچھے جِن کو لگا دوں گا۔‘

اُس کے بعد حکم ہوا کہ اب گھر چلا جاؤں۔ میں اسی انتظار میں تھا، حکم ملتے ہی اُلٹے پاؤں بھاگا اور گھر آ گیا، جو سکول سے سو قدم کے فاصلے پر تھا۔ گھر آ کر میں نے سارا واقعہ اپنی والدہ کو سنایا لیکن وہ بجائے پریشان ہونے کے ہنستی رہی۔ اُس نے کہا، ’بیٹا یہ استاد فضل حسین ہمارا پڑوسی اور تمھارے ابا کا گہرا دوست ہے، بڑا اچھا اُستاد ہے، تمھیں پڑھائے گا۔ تیرے ابا نے اس کی منت کی ہے۔ ماسٹر صاحب سے جی لگا کر سب کچھ سیکھنا۔‘

’اب یہ دوسروں کو کیوں نہیں پڑھاتا؟ سارا دن خالی بیٹھا رہتا ہے۔‘

’بیٹے جِن نے اس پر سایا کیا ہوا ہے، جس کی وجہ سے وہ زیادہ دیر پڑھا نہیں سکتا۔‘

میری سمجھ میں والدہ کی باتیں نہیں آئیں لیکن چُپ ہو گیا۔ دوسرے دن صبح آٹھ بجے بستہ لے کر سکول پہنچا اور ارادہ کیا کہ اپنی کلاس کی طرف جاؤں، اُسی لمحے اُس نے مجھے دیکھ لیا۔ پیپل سکول کے مرکزی گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی جنوبی دیوار کے ساتھ تھا، جو سامنے ساٹھ ستر قدم پر موجود تھی۔ اُس کے اور گیٹ کے درمیان کوئی شے حائل نہیں تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اُس نے لاٹھی ہلا دی چنانچہ میں اُس کی طرف چلا گیا۔

’لے بیٹا، آج منتر کا پہلا سبق شروع کرتے ہیں لیکن پہلے ایک ایک سوال آپ کی درسی کتابوں کا ہو جائے‘ اُس نے میرے ہاتھ سے بستہ لے کر اُسے ٹٹولتے ہوئے کہا۔ مَیں نیچے اُسی جڑ کی چوکی پر بیٹھ گیا، جس پر کل بیٹھنے کو کہا گیا تھا۔ اِس کے بعد ڈیڑھ گھنٹے تک اُس نے مجھے اس طرح درسی کتب پڑھائیں گویا باتیں ہو رہی ہیں۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ اُس نے کچھ پڑھایا تھا، ہاں جو باتیں کیں وہ سب یاد ہو گئیں۔ پھر اچانک کہا، اب آپ کو منتر سکھائیں گے اور دو چھوٹے سے قاعدے نکال لیے، جن کی زبان کچھ عجیب سی تھی لیکن اُس کو پڑھنے میں مزا آتا تھا۔ دو منتر وہیں بیٹھے بیٹھے یاد بھی کرا دیے۔ اُن کا نام اُس نے امیر خسرو کی پہیلیاں بتایا اور سختی سے منع کیا کہ ’کسی کو اس منتر کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ بتاؤں ورنہ سارا اثر زائل ہو جائے گا، ایک اور بات کا دھیان رہے، جس دن یہ موتی مَیں نے تیرے حوالے کیا، اُس کے بعد زندہ نہیں رہوں گا۔ اس لیے پہلے تمام منتر سیکھ لو اُس کے بعد موتی لینا، کہیں کام ادھورا رہ جائے اور جِن تم پر چڑھ دوڑے اس لیے جلدی نہیں کرنا۔ شیطان تمھیں بار بار بہکائے گا مگر تم اُس کی باتوں میں نہ آنا۔‘

یہ باتیں جاری تھیں اتنے میں ایک طوطے نے اُوپر سے بیٹ پھینکی کہ اُستاد جی کی پوری ناک اور دامن کا کُرتہ سُرخ رنگ کی بیٹ سے بھر گیا، جس کے اندر پیپل کی گوہلوں کے چھوٹے چھوٹے بیج صاف دلفریبی دکھا رہے تھے۔

’او تیرا ستیا ناس، نالائق جگہ بھی نہیں دیکھتے‘ ماسٹر فضل حسین نے ہش ہش کرتے ہوئے اُوپر کی طرف دیکھا۔

’اُستاد جی آپ فکر نہ کریں، میں کل کو غلیل لے کر آؤں گا، ایک ایک کو تاک تاک کر ماروں گا‘ میں نے ماسٹر کی خوشامد کی اور ایک کچی مٹی کا ٹکڑا اُٹھا کر اُوپر پھینکا۔

’نا بیٹا، اِن کو مارتے نہیں، یہ پرندے خدا کی اولاد ہیں، انہیں مارو گے تو خدا ناراض ہو گا اور وہ بھی تمھیں مارے گا۔‘

’استاد جی خدا تو نہیں مارتا، مَیں نے پہلے بھی کئی بار اِنہیں غلیل سے مارا ہے۔‘

’اچھا یہ بتاؤ، تمھیں کبھی بخار ہوا ہے؟‘

’کئی بار، ایک دفعہ تو بے ہوش ہو گیا تھا۔‘

’بس یہی خدا کی مار ہے، وہ تھپڑوں سے تھوڑی مارتا ہے؟ بلکہ کل سے تم ایک اور کام بھی کرو۔ گھر سے روزانہ ایک روٹی اِن کے لیے لاؤ اور اُس کے ٹکڑے کر کے ان کے آگے پھینکا کرو۔ ہم اِن کے گھر آ کر بیٹھے ہیں، اُس کا معاوضہ بھی تو اِن کو دینا ہے۔‘

استاد جی کی بات پر مَیں کھلکھلا کر ہنس دیا۔ ’یہ کوئی ان کا گھر تھوڑی ہے؟‘

’تو اور کس کا گھر ہے؟ کبھی تم نے انسانوں کو درختوں پر رہتے دیکھا اور پرندوں نے کبھی مکان بنائے؟‘

’نہیں تو۔‘

’اگر نہیں تو پھر میری بات پر ہنسنے کی کیا تُک ہے؟ بھئی خدا نے درخت اِن پرندوں کے لیے ہی بنائے ہیں۔ یہ تو اِن کی مہربانی ہے کہ ہمیں سائے میں بیٹھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اگر ہمارے سروں پر ٹھونگے مار مار کر نکال باہر کریں تو ہم ان کا کیا بگاڑ لیں گے؟ انسان تو اتنا کم ظرف ہے، اِن درختوں کو سرے سے ہی کاٹ کر اپنا سایا اور ان کا گھر تباہ کر دیتا ہے۔‘

بات کچھ کچھ میری سمجھ میں آ رہی تھی۔ واقعی استاد جی سچ کہتے تھے۔ ان کا ٹھونگا بہت بُرا ہوتا ہے۔ مجھے فوراً وہ واقعہ یاد آ گیا جب میرے سر کی ٹِنڈ کو ابھی دو دن ہی ہوئے تھے اور میں باہر صحن میں کھڑا جلیبی کا ٹکڑا کھا رہا تھا تو ایک کوئے نے ٹنڈ پر وہ زور کا ٹھونگا مارا کہ خون نکل آیا اور جلیبی ہاتھ سے گر گئی، جسے دوسرا کوا جلدی سے جھپٹ کر لے گیا تھا۔

مَیں نے کہا، ’اُستاد جی یہ کوئے بہت بُرے ہوتے ہیں، بہت سخت ٹھونگا مارتے ہیں۔‘

میری بات پر ماسٹر فضل حسین کی ہنسی نکل گئی۔ وہ بولا، ’اسی لیے تو میں کہتا ہوں، ہر ایک پرندے کا نام یاد کر کے اُن کو دوست بنا لو۔‘

’یہ میرے دوست کیسے بنیں گے؟ یہ تو ڈر کے اُڑ جاتے ہیں۔‘

’جب تم اِن کو غلیل سے مارو گے تو کیا آ کر تمھارے گلے ملیں؟‘

اتنے میں تفریح کی گھنٹی بجی اور میں نے للچائی نظروں سے ماسٹر کی طرف دیکھا مگر اُس نے ایک اور کام کیا، اُٹھ کر کھڑا ہو گیا اور کہا، میرے ساتھ آؤ۔ مجھے کیاریوں اور پھولوں کے پاس لے آیا اور ایک شاخ کو جھکا کر خوبصورت پھول کو میرے سامنے کیا، ’یہ کیا ہے؟‘

’یہ پھول ہے‘ میں نے فوراً جواب دیا۔

’اور اِس کی پتیوں کے اندر کیا ہے؟‘

اب پھر میرا علمی سرمایہ ختم ہو گیا۔ پتیوں کے اندر کیا ہو سکتا تھا، کچھ بھی نہیں تھا، میں کیا جواب دیتا؟

میں نے مسکرا کر کہا ’کچھ بھی تو نہیں ہے۔‘

’کیوں کچھ نہیں ہے؟ اس کی پتیوں کے اندر جو نیلے پیلے اور گلابی ریشے نظر آتے ہیں، یہ اصل میں خدا کی روحیں ہیں اور جو ہلکی ہلکی خوشبو سونگھ رہے ہو، جسے تم دیکھ نہیں سکتے، یہ خدا ہے۔ یہی وجہ ہے، انسان جتنے زیادہ پھول اور درخت لگاتا ہے، اللہ اُس سے اتنا ہی خوش ہوتا ہے اور اُسے بڑے بڑے سفید موتی دیتا ہے۔‘

اس کے بعد وہ مجھے دیر تک ایک ایک پھول کی کہانی بتانے لگا، جن کے اندر جنوں اور پریوں کے مسکن تھے۔ اب مجھے یاد آیا کہ یہ جو بار بار پھولوں اور درختوں کی طرف دیکھتا رہتا تھا، در اصل یہی راز تھا۔ مجھے دوسرے لڑکوں پر ہنسی آئی، جن کو اس بات کا پتا نہیں چل سکا تھا کہ اصل میں ماسٹر فضل حسین کے ہاتھ یہ موتی اور جِن کیسے لگا۔

تمام لڑکے کھیل چھوڑ کر ہمارے نزدیک آ گئے لیکن اتنا نزدیک بھی نہیں کہ ماسٹر کی باتیں سن سکیں بلکہ ایسے فاصلے پر، جہاں سے خطرہ بھانپتے ہی بھاگ سکیں۔

یہ وقت ایسے گزرا کہ مجھے پتا ہی نہ چلا، کب تفریح ختم ہوئی اور کب لڑکے اپنی کلاسوں میں چلے گئے۔ میں اُس وقت چونکا جب منشی نے کہا، ’اب تم کو اجازت ہے، گھر چلے جاؤ‘ اور میں گھر چلا آیا۔

اب کیا تھا، مَیں سب کچھ خوش خوش یاد کرنے لگا اور جی ہی جی میں انڈے برابر سفید موتی کے خواب دیکھنے لگا۔ پھر یہ خواب راتوں کو بھی آنے لگے۔ کئی بار ایسے ہوا، مَیں خواب میں موتی کو لیے چھپاتا اور بھاگتا پھر رہا ہوں لیکن نیند سے بیدار ہوتے ہی اپنے خالی ہاتھ دیکھ کر مایوس ہو جاتا۔ اسی عالم میں مجھ پر دن اور مہینے گزرنے لگے۔ پہیلیاں پڑھیں، کلیلہ و دمنہ پڑھی، بیتال پچیسی اور بیتال بتیسی حفظ کی۔ کچھ منتر جلدی یاد ہو جاتے تھے اور کچھ دیر میں۔ خاص کر جو شعروں میں تھے، وہ منٹوں میں حفظ ہو جایا کرتے۔ دن مہینے اور مہینوں نے چار سال کا منہ دیکھ لیا۔ پیپل کی جڑ، جس پر میں بیٹھتا تھا، وہ گھِس کر ماسٹر فضل حسین کی لاٹھی کی طرح سفید، چمکدار اور ملائم ہو گئی۔ مجھے ایک ایک جڑ کا حلیہ اور نقشہ اتنا ازبر ہو گیا کہ ذرا سی تبدیلی کو فوراً بھانپ لیتا اور پیپل کی شاخیں اور اُن پر پرندوں کے گھونسلوں کی تعداد تک یاد ہو گی۔ اب مجھے لاٹھی کی مٹھی کو بھی بلا اجازت چھونے میں جھجک نہ تھی اور میں کئی بار اُس کو پکڑ کے چلا بھی تھا۔

ہم دونوں شام کے وقت قصبے کے مضافات میں نکل جاتے۔ وہ آگے آگے مَیں پیچھے پیچھے۔ باغ، فصلیں، چرواہے، گائیں اور بھینسیں اور اُن کے گلے میں بجتی ہوئی گھنٹیاں، کوئلوں اور فاختاؤں کے نغمے اور قصبے سے جنگلوں کی طرف شام کو اُڑ اُڑ کر جاتے ہوئے ہزاروں پرندے اور کھیتوں سے واپسی پر کسان بیلوں کی جوڑیاں ہنکاتے ہمارے راز داں تھے اور ہم اُن کے۔ پانچ سال گزر گئے۔

دن کیا، رات کیا، مَیں منتر پڑھتے تھکتا نہیں تھا۔ ایسی ہُڑک لگی کہ بعض دفعہ ساری رات جاگتا اور جادو کے ملکوں کی سیریں کرتا۔ آنکھیں سُرخ ہو جاتیں۔ منتر ختم ہونے میں نہیں آتے تھے۔ الف لیلہ، امیر حمزہ کا عمرو عیار، سامری جادو گر اور قصہ چہار درویش، طوطا کہانی، قصہ حاتم طائی، مثنوی سحر البیان اور زہرِ عشق کے منتروں نے وہ رونق پیدا کی اور ایسے ایسے سفید موتی دکھا دیے کہ اُن کے آگے اُستاد جی کے موتی کی کچھ حیثیت نہ رہی۔ اِن منتروں کے علاوہ درسی کتابوں میں بھی لڑکے تو ایک طرف، اُستادوں کے کان کاٹنے لگا۔ ہزاروں ہی شعر، تاریخی قصے، اور حکایتیں یوں زبان سے پھسلنے لگیں کہ سبحان اللہ۔ مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ اُستاد فضل حسین کی کھانسی اور خون کی تھوکیں بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ وہ لکڑی کی چھوٹی چھوٹی پٹیوں کی قینچی نما کرسی، جس کو تہہ بھی کیا جا سکتا تھا، پر اُسی طرح اکڑوں بیٹھا، مجھے میر اور انیس کی ساحری تک لے گیا۔

ایک دن جب ہم شام کو ٹہلتے ہوئے ذرا ٹیوب ویل کے کنویں تک پہنچے، جس کی نال سے ٹھنڈا پانی شرّاٹے بھر بھر کر ایک حوض میں گر رہا تھا، اُس نے مجھ سے کہا ’اب وہ موتی تمھارے حوالے کرنے کا وقت آ گیا ہے، جس کا تم سے وعدہ کیا تھا۔‘ میں ہنس دیا کیونکہ اب جان چکا تھا کہ موتی کی حقیقت کیا تھی۔ اُس کے پاس کوئی موتی نہیں تھا۔ اُسی وقت اُسے ایک شدید کھانسی کا دورہ پڑا، جس میں بہت دیر تک ہلکان ہوتا رہا اور کھانسی کے ساتھ خون کے چھینٹے پھینکتا رہا۔ یہ ٹی بی کی آخری اسٹیج تھی۔ بڑی مشکل سے مَیں اُسے گھر تک لایا۔ جب اُس کی طبیعت سنبھلی تو اُس کی بیگم نے کہا، ’بیٹا اب تم چلے جاؤ۔ آپ کے اُستاد اب ٹھیک ہیں۔‘ مَیں گھر چلا آیا۔ اُسی رات وہ مر گیا۔ جنازہ ہوا اور پاس کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔ دوسرے دن مَیں نے کہیں سے پیپل کا پودا قبر کے سرہانے لگا کر اُسے پانی دے دیا۔

اُس کے بعد میرا دل اسکول میں نہیں لگا اور مَیں والد سے ضد کر کے دوسرے اسکول میں داخل ہو گیا لیکن چھُٹی کے بعد اور شام کے قریب، جب ہر شے پُر سکون ہو چکی ہوتی اور میرے ہم عمر گراسی گراونڈ میں کھیل رہے ہوتے، مَیں اُس پیپل کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور ناغہ نہ کرتا۔ پرندوں کو روٹیاں ڈالتا اور اُن کے ساتھ مل کر نغمے گاتا۔ اُس ملائم اُبھری ہوئی جڑ پر بیٹھ کر کچھ منتروں کا ورد کرتا۔ اب میں خود بھی اتنا ہشیار ہو گیا کہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ساحری کے خزینے اپنے پاس جمع کرنے لگا۔ مَیں چاہتا تھا، زیادہ نہیں تو اپنے قصبے میں کوئی مجھ سے بڑا جادو گر نہ ہو۔ موتیوں کا ایک بے بہا خزانہ میرے پاس اکٹھا ہو گیا، کہ اُس طرح کا ایک بھی میرے کسی کلاس فیلو کے پاس نہیں تھا۔ باغوں، کھلیانوں، ہواؤں، چرواہوں اور جانوروں کے گلے میں بجتی ہوئی گھنٹیوں اور ہلوں سے تلپٹ ہوتی زمینوں سے کیڑے مکوڑے چُنتی لالیوں سے اور ہوا میں قلا بازی کھاتے پرندوں سے میری دوستی پکی ہوتی گئی۔ مَیں خود منتر بنانے لگا، جو گائے بھی جا سکتے تھے اور پڑھے بھی جا سکتے تھے۔ یہ منتر پڑھتا پڑھتا مَیں دوسرے علاقے میں چلا گیا، جہاں مجھے اپنے دور کا سب سے بڑا جادو گر مان لیا گیا۔ اب وہ جِن مکمل طور پر میرے قبضے میں تھا۔ زندگی کے اڑتیس سال نکل گئے اور میں منجھا ہوا گھاگ جادو گر ہو گیا۔ میرے پاس کئی نایاب موتی تھے، جو مجھ سے کوئی چھین نہیں سکتا تھا۔ ایک دن کافی عرصے بعد واپس اُسی قصبے میں آیا، جو اب شہر بن چکا تھا۔

بالکل وہی دن تھے، وہی موسم تھا، مَیں بھی وہی تھا، سکول بھی وہی تھا لیکن وہ پیپل نظر نہیں آ رہا تھا۔ بالکل اِسی جگہ پر تھا، جہاں دیو ہیکل بھدی عمارت کھڑی تھی اور اُس کی پیشانی پر انتہائی سیاہ عبارت میں پرنسپل ڈیپارٹمنٹ لکھا تھا۔ مَیں پیپل کی جڑوں کو بوسہ نہیں دے سکتا تھا، وہ میری دسترس سے باہر تھیں۔ پرندے غائب تھے، پھولوں کی کیاریوں کی جگہ پکی روشیں بن گئیں۔ سکول کے مضافات غائب ہو کر دور نکل گئے۔ چاروں طرف اُونچی اور بڑی دیوار تھی جس کے اُوپر لوہے کا جنگلا تھا، اُس کے باہر چروا ہے اور بھیڑوں کی بجائے موٹروں اور رکشوں کی چنگھاڑیں اور کثیف دھوئیں کے مرغولے تھے۔ باغوں اور کھلیانوں کو بجری اور لوہے کی عمارتیں کھا گئیں۔ لڑکوں کی تعداد بہت زیادہ اور اُن کی پوشاکیں بدل چکی تھیں۔ اُن کے ہاتھوں میں نوٹس کے بھاری رجسڑ تھے۔

اِتنے بڑے سکول میں نہ کسی استاد کو پتا تھا، نہ پڑھنے والے کو، کہ یہاں کوئی اُستاد فضل حسین بھی تھا، جس کے پاس انڈے برابر سفید موتی تھا۔ نہ کسی کو پتا تھا کہ مَیں کون ہوں؟ اُستاد، طلبا اور سکول کے در و دیوار میں سے مجھے کوئی نہیں پہچانتا تھا، نہ مَیں کسی کو۔

مَیں دبے پاؤں وہاں سے نکلا، سیدھا قبرستان کا رُخ کیا اور اُستاد فضل حسین کی قبر پر جا پہنچا، قبر کے سرہانے کھڑا پیپل کا درخت اب تناور اور گھنا ہو چکا تھا۔ اُستاد فضل حسین کی قبر کے علاوہ ارد گرد کی بیسیوں قبروں پر بھی اُس کی چھاؤں تھی اور شاخوں پر سینکڑوں پرندے چہک رہے تھے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے