چوٹ، نوٹ کی ۔۔۔ حنیف سیّد

عروسِ فطرت بھرپور جوانی کا جام پیے، سولہ سنگار کیے، سیکڑوں ارمان لیے، چاندی کی ڈولی میں سوار، لیے انکھیوں میں پیار، اپنے سجنا کے دوار، ہولے ہولے کھسک رہی تھی۔ اُس کے خوابوں کا شہزادہ چاند ابلقِ ایام کی لگامیں کسے، ستاروں کے درمیاں بسے، کہکشاں نما راستے پر اپنی منزل کی جانب گامزن تھا، اچانک اسپ ایام لڑکھڑایا، باگیں چھوٹیں، شہزادہ منہ کے بل، اور روح پرواز۔ پھر تو عروس فطرت کی جوانی کے ہاتھوں سے جام چھوٹے، سارے خواب ٹوٹے، ارمان روٹھے۔ اور پھر جیسے ساری دنیا کو روشنی سپلائی کرنے والا ٹرانسفارمر ہی اُڑ گیا ہو۔ پھر تو ساری دنیا میں گھنگور اندھیرا۔ رات ہی رات، کالی کالی، ایک دم سیاہ، چاروں طرف۔ ایسے میں مَنْ دانا کے مطابق: اُن کے چہرے پر جیسے ہی گرما گرم پانی جیسی بدبو دار دھار گری، وہ سوتے سے چونک کر لحاف اچھالتے ہوے اُٹھ بیٹھے۔ دیکھا، تو دو کتّے لپک کر کہرے کی دبیز چادر میں سما چکے تھے، ایک وہ، جو اُن کے لحاف میں سویا ہوا تھا۔ اور دوسرا وہ، جس کے پیشاب کی دھار سے اُن کی آنکھ کھلی تھی۔ مَنْ دانا نے جلدی سے سرکے نیچے سے پیوند لگی چادر کھینچی، اپنے بھیگے اور بدبو دار چہرے کو صاف کیا اور چادر، پیروں کی جانب پھینک کر پانی کی جستجو میں کھڑے ہو گئے۔ پھر اُن کو احساس ہوا کہ کچھ اور بھی کتّے ادھر ادھر سے کھسک رہے ہیں۔ جب اُن کو کہرے کی دھند میں کچھ دکھائی نہ دیا تو انھوں نے پاکٹ سے موبائل نکال کر ٹائم دیکھا، رات کے چار بیس ہو چکے تھے۔ پھر پیروں سے اپنے جوتے ٹٹولے، نہ ملے تو موبائل کی ٹارچ آن کر کے اِدھر ادھر دیکھا نہ ملنے پر افسوس کے ساتھ لمبی سرد سانس کھینچی اور آسمان کی جانب دیکھ کر، کچھ بدبدائے، پھر آنکھیں چار کر کے پانی کی ٹنکی کا دوبارہ جائزہ لیا جو اُن کے شمار سے پرے تھی، پھر سوئے ہوئے لوگوں کی لمبی لائن کا جائزہ لے کر اپنی جگہ کے حذف ہو جانے کے اندیشے سے چپ چاپ اسی لحاف میں دبک کر ماضی میں غرق ہو گئے۔

مَنْ دانا سے میری ملاقات دو سال پیشتر عجیب طور سے ہوئی تھی۔ مَیں اپنا موبائل ٹھیک کرانے خاور الکٹرانک پر گیا تھا۔ وہاں اُن کے بیٹے نے میرا موبائل سرسری طور پر دیکھنے کے بعد کاؤنٹر پر پڑے اخبار کا کونا پھاڑ کر موبائل نمبر لکھ کر مجھے دیتے ہوئے کہا تھا: ’’اس نمبر پر پہلے پتا کر لینا، تب آنا۔‘‘ حالاں کہ ایک صاحب اور بھی جو میرے بعد آئے تھے، اپنا موبائل فوراً ٹھیک کروانے کی اَڑ لیے ڈٹے تھے۔ درخواست تو میری بھی فوراً ٹھیک کروانے کی لگی تھی، بوڑھا ہونے اور پانچ کلو میٹر دور سے آنے کے انکلوزر کے ساتھ۔ پر اس کو میرے ہی بڑھاپے کے پیپرویٹ تلے داب دیا گیا تھا۔

بہ ہر حال تقریباً پندرہ روز بعد فون لگایا، تو مَنْ دانا نے اُٹھایا۔ میرا موبائل تو کیا ہی ٹھیک ہوا۔ مگر وہ ایک اچھے شخص سے ملاقات کے بہانے آ دھمکے، جون کی چلچلاتی دھوپ میں۔ بات چیت کے درمیاں میں نے موبائل کے بارے میں کئی بار دریافت بھی کیا، لیکن وہ کسی نہ کسی بات کو لے کر ٹال گئے، اور جب میں زیادہ پیچھے پڑا تو انھوں نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ میں بیٹے کی دکانداری میں دخل نہیں دیتا۔ بہ ہر حال میں جب موبائل لینے دکان پہنچا، تو اُن کے بیٹے نے دو سو روپے لے کر موبائل مجھے سونپ دیا، اور جب میں نے چیک کیا تو ویسا ہی تھا، یعنی کہ جوں کا توں۔ شکایت کی تو جواب ملا: چارج ہو گا تب ہی تو چلے گا، نا۔۔ ۔۔ ؟ بہ ہر حال شک اور خفّت کی ملی جلی سلوٹیں ماتھے پر جمائے گھر آ گیا اور جب چارج کرنے پر بھی نہ چلا، تو پھر پہنچا۔ صاحب زادے بولے: ’’چھوڑ جاؤ۔۔ ۔۔! دیکھ لوں گا۔‘‘ پھر تو ایسا دیکھا انھوں نے کہ مجھے سات پشتیں دکھائی دے گئیں اُن کی۔ آخر ایک دن انھوں نے یہ کہتے ہوئے موبائل پھر میرے سپرد کر دیا کہ اِسے لیے جاؤ۔۔ ۔۔! کسی روز دہلی سے پارٹ لا کر ڈال دوں گا۔ ریپیئرنگ کے دو سو روپے، وہ جو مجھ سے لے چکے تھے وہ، نہ انھوں نے دیے، اور نہ ہی میں نے خیالتاً واپس مانگنے کی ہمت کی۔ بات چوں کہ خاص اہم نہ تھی، لہٰذا میں نے مَنْ دانا سے ذکر کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ ویسے بھی وہ بیٹے کی دکانداری میں دخل نہ دینے کا اعلان کر کے اپنا دامن چھڑا چکے تھے۔ ہاں یہ یقین ہے کہ وہ ہر بار کی رپورٹ سے پوری طرح واقف تھے۔ حالاں کہ میں نے کبھی اس گندگی میں کوئی اینٹ اس لیے بھی نہ اچھالی کہ میں اپنے کچھ زخموں کے مرہم بن جانے کی توقع سے اپنی پریشانیاں کا رونا ان کے رو بہ رو اس امید سے روتا رہا کہ شاید کبھی کوئی ایسا راستہ نکل آئے، جس سے میری بے کاری دور ہو سکے۔ ایک دن میں نے ہمت کر کے اپنے بے روزگار ہونے کی بات کہہ ہی ڈالی اُن سے۔ جس کے لیے وہ فوراً اپنی ایک دکان، اِس شرط پر دینے کو تیار ہو گئے کہ میں اُن کی دکان بنوا کر اس میں کوئی کام ڈال لوں۔ چوں کہ میں اپنے موبائل کی ریپیئرنگ کے معاملے میں ان کی خصلت سے دوچار ہو چکا تھا، لہٰذا میں نے اپنی صحت ٹھیک نہ ہونے کا بہانہ لے کر دکان بنوا کر کوئی کام کرنے والا راستہ کاٹ لیا۔ لیکن وہ پیچھے پڑ گئے۔ بہ ہر حال میں اِس شرط پر تیار ہو گیا کہ دکان وہ خود بنوائیں، خود موبائل لائیں، میں ان کے بیٹے کے ساتھ بیٹھ جاؤں گا۔ وہ میری اِس شرط پر راضی ہو گئے۔ اور جب تین ماہ کے قریب بیٹھنے پر بھی مجھے کچھ نہ ملا، تو میں بنا برتن کھٹکائے، اپنی بیماری کا بہانہ لے کر بیٹھ رہا۔

من دانا کی خصلت میں تھا کہ وہ دوسروں کے پٹاروں میں سانپ بچھو دکھا کر، اپنا الّو سیدھا کرنے کے ارادے سے دوسروں کی کٹی پتنگ کے گرد اپنی پتنگ منڈراتے لے جاتے اور دوسرے کی کٹی پتنگ کو اپنی پتنگ میں پھانس کر آہستہ آہستہ کھینچ لاتے۔

میری بیٹیوں کے داخلے انھوں نے ہی کروائے تھے، ہم درد بن کر۔ لیکن بھاری ڈونیشن کے ساتھ۔ یہ پتا مجھے بعد میں لگا کہ میں اُن کے ذریعے داخلے نہ کرواتا، خود کوشش کرتا، تو بہت کم میں نمٹ جاتا۔

ایک بار اُن کی بہو کا پرس، تھری وہیلر میں رہ گیا، مَنْ دانا کی ایک کال پر، پرس گھر آ گیا۔ لیکن جب چوبیس ہزار روپے کے ساتھ میری اٹیچی تھری وہیلر میں رہنے کی اطلاع ان کو ملی تو انھوں نے فون پر مجھ سے خود رابطہ کر کے اٹیچی کے متعلق تفصیلی معلومات تو کر لی، لیکن میرے بار بار گڑگڑانے پر بھی ٹس سے مس نہ ہوئے، اور جب مَیں نے خود چھان بین کی، تو اٹیچی تو مل گئی، لیکن سامان کے متعلق پتا چلا کہ میرا کوئی دوست پہلے ہی رقم بٹا لایا۔ اس زخم کی ٹیس اتنی تیز اُٹھی کہ مَیں نے تلخ کلامی کر ڈالی مَنْ دانا سے، لیکن اُن کی شخصیت پانی پڑے بیگن جیسی ہی رہی۔ ہاں دو چار روز کے لیے غائب ضرور ہو گئے، مگر پھر آ دھمکے۔ اُن کا کہنا تھا کہ تعلقات ہموار رکھنے میں ہی عافیت ہے۔

مَن دانا محلے کے سب سے رئیس انسان تھے، اُن کا کہنا تھا: ’’محلے میں سب سے زیادہ رقم میرے ہی پاس ہے۔ لکھ پتی تو ہوں ہی۔ اور اب بخار چڑھا ہے کروڑ پتی بننے کا۔‘‘

’’مگر کرو گے کیا: اتنی رقم۔۔۔؟‘‘ ایک روز سردی میں کپکپاتے آئے تو مَیں نے پوچھ لیا۔

’’میرے سامنے والے نے اپنی بیٹی کی شادی میں دیوروں اور جیٹھوں کو ٹو وہیلرز دی ہیں، جناب۔‘‘

’’اورآپ نندوئیوں کو بھی دیں گے۔۔۔؟‘‘

’’جی ہاں۔۔ ۔ !وہ تودوں گا؛ مگر ٹو وہیلرز نہیں: فور وہیلرز۔‘‘ مَنْ دانا نے ؛سامنے چائے لیے کھڑی میری چھوٹی بیٹی کے بجھے بجھے چہرے سے دیکھنے کے انداز کو بڑے غور سے دیکھ کر کہا، اور مَیں نے دیکھا اُن کے دیکھنے کا انداز، بڑے ہی غور سے۔

’’انکل آپ تو کانپ رہے ہیں، اتنی سردی میں، اِنر اور موزے وغیرہ تو پہن لیے ہوتے۔‘‘ میری بیٹی نے کہتے ہوئے، شرما کر میرے چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے مَنْ دانا پر چوٹ کی، اور میں خوشی سے اچھل پڑا۔

’’ہے ہی کہاں سردی اتنی۔۔۔؟‘‘ مَنْ دانا نے اپنی کپکپی پر کنٹرول کرنے کی نا کام کوشش کی، جس کو دیکھ کر میری بیٹی مسکرا دی اور میرا سینہ پھول گیا۔

مَنْ دانا میرے یہاں تو آتے رہے، لیکن اپنے یہاں کبھی نہ بلایا مجھ کو، کبھی اتفاقاً اُن کی طرف گیا بھی۔ پہلی بات تو یہ کہ وہ گھر پر ہی نہ ہوتے، اور ہوتے بھی، تو کسی سے نہ ہونے کا کہلوا دیتے، یا فون پر کہیں اور ہونے کی اطلاع دیتے، اور اگر کبھی دھوکے سے مل بھی جاتے تو وہ کبھی نماز کے بہانے، کبھی دودھ لینے کے بہانے، کبھی کسی کی دوا لینے کے بہانے، تو کبھی کچہری کی تاریخ کے بہانے، نکل جاتے۔ کسی بچّے کی سال گرہ میں ایک بار بلایا بھی، تو ایسا روکھا رویّہ اپنایا کہ بس یعنی کہ تقریناً ایک گھنٹہ تو باہر کھڑا رہا، پھر شرمائے سٹّے اُن کے بیٹے نے بیٹھک کھول دی، مگر وہ خود منہ پھلائے رہے۔ آخر کو مَیں دوبارہ واپس آنے کا بہانہ بنا کر اِس تہیّے کے ساتھ اُٹھ آیا کہ اگر فون آ بھی گیا، پھر بھی نہ جاؤں گا۔ مجھے جیسا کہ یقین تھا کہ فون نہ آئے گا اور نہ ہی فون آیا۔ مجھے لگا کہ وہ خرچ بچانے کے باعث مہمان نوازی سے کتراتے تھے۔ حالاں کہ اُن کے پاس پیسے کی کمی نہ تھی۔ پھر بھی رقم پیدا کرنے اور بچانے میں مہارت حاصل تھی اُن کو۔ یہاں تک کہ وہ کسی کو زیادہ تر اپنے موبائل سے کال نہ کرتے، اگر کرتے بھی، تو مس کال۔ پھر اُس کے فون آنے کا بے صبری سے انتظار کرتے۔ مہمان کو زیادہ دیر کبھی نہ بٹھاتے، اور جب بھی کسی کو چلتا کرنا ہوتا، وہ اپنا کوڈ بولتے، اندر سے کسی نہ کسی کے اشارے پر بجلی رانی کھسک لیتیں یا اندر سے آواز آتی: بازار نہیں جانا ہے کیا۔۔۔۔؟۔‘‘

اسکوٹر پر بھلے بیوی ہی کیوں نہ بیٹھی ہوتی اور کہیں بھی معمولی چڑھائی آ جاتی، تو پٹرول زیادہ خرچ ہونے کے سبب فوراً اسکوٹر روک کر بیوی کو اتار دیتے۔ اور خود پیدل اسکوٹر چڑھاتے۔ راستہ گلی کسی شناسا کو دیکھ بھی لیتے، تو پٹرول کے خرچے کی وجہ سے راستہ کاٹ جاتے۔ کسی نے آوازیں دے کر روک بھی لیا، تو اسے بٹھا کر پہلے پٹرول پمپ پہنچتے، اس سے پٹرول بھرواتے، پھر اسکوٹر اسٹارٹ ہوتا، ورنہ نہیں۔ ایک بار میں نے کلر پرنٹر خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ بولے: ’’میرا لے لو، نیا ہے، بالکل سے‘‘

’’تمھارے پاس نیا۔۔۔۔؟‘‘

’’ہاں ہاں بالکل ہی نیا، جہیز میں ملا تھا، ایک کو۔‘‘

’’ہے کتنے کا۔۔۔۔؟‘‘

’‘’آپ بیس ہزار، صرف آپ کے لیے۔‘‘

’’دس کا تو نیا آتا ہے۔‘‘

’’ہے بھی تو اوریجنل، یعنی کہ اصلی پرزوں کا۔ اب کہاں آتے ہیں ایسے۔۔۔؟ اب تو ایسے آتے ہیں کہ آج لاؤ، کل خراب۔‘‘

ایک بار میں ان کے ہی کسی کام سے ان کے ہم راہ کورٹ گیا۔ وہ مجھے ایک وکیل کے پاس بٹھا کر کسی کام کے بہانے نکل لیے۔ ان کے بعد میں بھی چہل قدمی کے لیے نکل پڑا، دیکھا تو دیوار کی آڑ میں آم چوس رہے تھے۔

بیٹے کی شادی کے ولیمے میں خصوصی مہمانوں کی ٹیبل پر اُن کے اپنے لوگ جمے رہے۔ جب کوئی اہم مہمان آ یا، تو اُن کے اشارے پر اُن کے اپنے لوگ جگہ دے کر خصوصی ڈشیں پیش کر دیتے۔ اور عام لوگوں کے لیے آرڈنری کھانا ٹیبلوں پر سجا ہی تھا۔

بیٹی کو بھی معمولی طور سے بیاہ دیا، بنا جہیز کے۔

من دانا کی باتوں کو لے کر میرا اکثر من موٹاؤ ہو جاتا اور وہ ناراض ہو کر کھسک بھی لیتے، لیکن ان کا یہ مون برت زیادہ دنوں اس لیے نہ چلتا، کہ وہ سیاست اور قوم پرستی پر بحث کرنے کے عادی تھے جب تک اس ٹاپک پر جم کر بات نہ کر لیتے، اُن کی روح پیاسی رہتی، ان کا خیال تھا: ’’ہمارے سیاسی، مذہبی رہبر، ہمیشہ لالچی رہے، جہاں بھی انھیں روٹی کا ٹکڑا دکھائی دیا، دم ہلنے لگی اُن کی۔‘‘ جب بھی اِس ٹاپک پر بحث چھڑتی، اُن کا چہرہ لال ہو جاتا، ہونٹ، کپکپانے لگتے، آنکھیں چڑھ جاتیں۔ جسم پسینہ پسینہ ہو جاتا۔ مجھے ہی ڈر کر ٹاپک کلوز کرنا پڑتا۔

نوٹ بندی کے بعد بینک سے نوٹ بدلنے کی لائن میں لگے ہونے کی آج یہ اُن کی دوسری رات تھی، پہلے دن تو اتنی لمبی لائن تھی کہ دھکا مکی میں کئی بار لائن سے باہر جا گرے تھے وہ، بانسٹھ سال کی عمر میں۔ اور جب جیسے تیسے لائن کچھ آگے بڑھی تو رات کے آٹھ بج گئے اور بینک بند ہو گئی۔ حالات کے تحت دوسروں کی طرح رات وہیں گزارنے کی ٹھان کر گھر پر فون کر کے لحاف، گدّا اور کھانا منگوا کر کھایا پیا اور وہیں پڑ رہے، بے چارے۔ حالاں کہ اُن کے پاس پیسے کی کمی نہ تھی، لیکن پانچ سو اور ہزار کے نوٹ تو بند ہو چکے تھے، بیوی بچوں میں کھنگالنے پر بھی سو سو کے نوٹوں کی گنتی چوبیس سے آگے نہ بڑھ سکی۔ مگر ان میں ہونا کیا تھا، سب سے ضروری الٹرا ساؤنڈ تھا، پوتے کا۔ اس کے علاوہ روز مّرا کے اخراجات۔ جس کے شمار نے اُن کی نیند اُڑا رکھی تھی۔ آج کا کھانا بِنا نمک کا آیا تھا، گھر سے۔ کیوں کہ کل شام کی افواہ نے بازار میں نمک کو گلہڑی کا پھول بنا دیا تھا۔ یہی سب شمار کرتے ہوئے انھوں نے رات، لائن میں ہی گزارنا مناسب سمجھ کر جیسے تیسے رات کاٹ لی تھی۔ کل کے دن، تو اُن کی قسمت پر پتھر ہی پڑ گئے تھے، لائن میں دن بھر کی دھکا مکی کے بعد جب ونڈو کے قریب پہنچے، تو ان کو لگا کہ شام ہوتے ہوتے ان کا نمبر آ جائے گا۔ لیکن قسمت کا لکھا کہاں جاتا۔۔۔؟ جب بیس بائیس افراد اُن سے آگے تھے، تو بینک کنگال ہو گئی، یعنی نوٹ ختم ہو گئے۔ من دانا کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ پھر بھی اُنھوں نے اپنے لڑکے کو فٹافٹ فون کیے کہ کہیں نہ کہیں سے کچھ رقم کا انتظام کرے۔ لیکن جہاں جائے بھوکا، وہیں پڑے سوکھا۔ یعنی سب کو اپنی اپنی پڑی تھی۔ نوٹوں کی کمی کے باعث سارے دھندے، ساری دکانیں بند تھیں۔ لہٰذا یہ دوسری رات بھی انھوں نے لائن میں ہی گزارنے کی ٹھان لی۔ حالاں کہ اِس عمر میں ایسے بد مزاج موسم سے ہاتھ ملانا اُن کے بس کا نہ تھا۔ پھر پچھلی رات کے موسم نے تو بڑے اطمینان سے ان کا مزاج پوچھ لیا تھا۔ حالاں کہ اُن کا دل چاہ رہا تھا کہ بستر وستر یہیں چھوڑ کر گھر بھاگ جائیں۔ لیکن آگے آنے والے وقت سے آنکھ ملانا اُن جیسے سمجھ دار کے بس کا نہ تھا۔ اِس لیے انھوں نے اپنا بدبو دار چہرہ لیے وہیں رات گزار لینے میں ہی آفیت سمجھی۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اُن کی قسمت اچھی نکلی اور وہ تیسرے دن بینک سے نوٹ لے کر اپنا بوریا بسترا بغل میں دبا کر ننگے پاؤں میرے یہاں یہ سوچ کر آ دھمکے کہ اگلے روز رقم جمع کرنے کے لیے انھیں پھر لائن لگانا تھی، اسی لیے بستر اتنی دور اپنے گھر لے جانا مَنْ دانا کی دانائی سے پرے تھا۔ اُن کی حالت دیکھ کر پہلے تو مَیں سمجھا: ڈاڑھی بڑھائے، بال الجھائے، بستر دبائے، کوئی پاگل گھُس آیا، غور سے دیکھنے پر مسکراہٹ نے میرے ہونٹوں پر دستک دینے کی جرات کی ہی تھی کہ اُن کی پیشانی کے بل نما ڈنڈے اور ابرو کے خنجر میرے پیچھے دوڑ پڑے، اور مَیں نے لپک کر اُن کے پیوند لگے لحاف کی جانب یہ کہتے ہوئے ہاتھ بڑھا دیا: ’’لائیے مَنْ دانا بھائی۔۔! لحاف مجھے دیجیے۔۔!‘‘ میرے کہنے پر اُنھوں نے لحاف کھڑے سے میرے ہاتھوں میں چھوڑ دیا۔ ان کے ننگے پیر دیکھ کر چاہتا تھا کہ اُن کے جوتوں کے متعلق سوال کروں، لیکن اُنھوں نے چپ رہنے کے اشارے کے ساتھ باتھ روم کا رُخ کیا۔ لیکن جب مَیں نے انھیں بتایا: ’’دو روز سے چھٹّی رقم نہ ہونے کے باعث پانی والا، پانی نہ لایا۔ سامنے میدان کے نل سے پانی منگوا رہا ہوں، ذرا رُک جائیے۔‘‘ یہ سنتے ہی دھڑام سے میرے صوفے پر گرے اور چائے کا مطالبہ کر ڈالا۔ جواب میں مَیں نے معذرت کر لی: ’’چھٹّی رقم نہ ہونے کے باعث دو روز سے چائے بِنا دودھ کے چل رہی ہے۔‘‘ تو اُن کا چہرہ اُتر گیا۔ اُن کی حالت کو دیکھتے ہوئے مَیں نے ناریل کے چند ٹکڑوں کے سہارے اُن کو اِس لائق کر لیا کہ وہ کچھ احوال بیان کر سکیں۔ کچھ بتانے سے پیشتر انھوں نے دو ہزار کا ایک نوٹ نکال کر چینج کرنے کو کہا۔ اور مَیں نے جب اُن کا نوٹ تھام لیا تو اُن کے چہرے پر بشاشت ناچنے لگی۔ اور جب مَیں نے اپنی جیب سے دو ہزار کا نوٹ نکال کر مسکراتے ہوئے چینج کر کے ان کی جانب بڑھایا تو ان کا مُنہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور اُن کے چہرے کی بشاشت حیرت کے سمندر میں فنا ہو گئی۔ اور وہ میرے اس مذاق پر لڑنے مرنے کو تیار ہو گئے۔ پھر اُنھوں نے کچھ سوچ کر نارمل ہوتے ہوئے پوچھا: ’’گھر تک پہنچوا سکتے ہو مجھ کو۔۔۔؟‘‘

’’لڑکے کو فون کرو۔۔۔! لے جائے۔‘‘

لڑکے کو تو لائن میں لگا آیا ہوں۔

’’تو کسی اور کو فون کرو نا۔۔۔!‘‘

’’پیسے ہوں، موبائل میں تب نا۔‘‘

’’ڈلوا لو۔‘‘

’’چھٹّے مانگے گا وہ، دوں گا کہاں سے۔۔؟۔‘‘

’’رکشے تو چل رہے ہیں نا۔۔ ۔۔ ؟‘‘

’’یہی پرابلم ہو گی نا۔۔۔! وہاں بھی۔ میرے پاس تو دو ہزار کا نوٹ ہے۔‘‘

اتنی مدد تو کر ہی دوں گا آپ کی۔‘‘ مَیں نے سو کا ایک نوٹ نکال کر اُن کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’کیا اس سے زیادہ نہیں کر سکتے مدد۔۔۔۔؟‘‘ اُنھوں نے نوٹ سنبھالتے ہوئے پوچھا۔

’’گنجایش نہیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔ اور وہ منہ بنا کر اگلے روز آنے کا کہہ کر سرک لیے۔

اگلی شام نو بجے اُن کا لڑکا بستر لینے آ گیا، میرے دریافت کرنے پر اُس نے بتایا: ’’پاپا تو صبح نو بجے ہی آ کر لائن میں لگ گئے تھے۔ لیکن اب بینک بند ہو چکا ہے سولہواں نمبر ہے، اس لیے آج مجھے پھر رکنا پڑے گا۔‘‘

نوٹ بندی سے لوگوں کی زندگی اتھل پتھل ہو گئی تھی۔ رات کا ایک بجا تھا من دانا کی زندگی کی کہانی میرے ذہن میں فلمی پردے کی طرح چل رہی تھی۔

رات ایک بجے من دانا نے بھرائی آواز میں بسکتے ہوئے فون پر بتایا کہ بینک کی لائن میں رات ان کے بیٹے کی موت ہو گئی۔ اور میں نے فوراً بینک پہنچ کر لاش کو ان کے ہمراہ ان کے مکان تک پہنچوایا۔

لیکن مجھے حیرت ہے تو یہ کہ تدفین کے بعد من دانا نے جو میڈیا کو جو نیوز دی اس میں صاف طور سے لکھا، ’’بیٹے کی موت رات بینک کی لائن میں نہیں بلکہ مکان پر ہوئی۔‘‘

٭٭٭33

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے