غزلیں ۔۔۔ محمد صابر

رقص کرتے ہوئے سائے کا سراپا رکھ لے

آدمی سوچ میں رہتا ہے کہ کیا کیا رکھ لے

 

میں مداری ہوں مرا کام تماشہ کرنا

اس کی مرضی ہے وہ جس وقت تماشہ رکھ لے

 

چکھ کے باقی کا یہاں پھینک دیا ہے میں نے

جس نے رکھنا ہے بڑے شوق سے دریا رکھ لے

 

اس میں کچھ لوگ بچا رکھے ہیں اس سے کہنا

دل مرا چھوڑ کے بندے کا بقایا رکھ لے

 

میں نے ویسے بھی محبت میں فنا ہونا ہے

میں تو کہتا ہوں کہ مجھ کو مری لیلی رکھ لے

 

خط ہیں اس پوٹلی میں پیار کی کچھ یادیں ہیں

کام آئیں گی اکیلے میں یہ اشیا رکھ لے

 

میں جسے ہاتھ لگاتا ہوں بنا دیتا ہوں

لے مرے ہاتھ سے نکلی ہوئی دنیا رکھ لے

 

نیند کو مار بھگا ہجر میں چوکنا ہو

جاگنے کیلئے تو آنکھ میں کانٹا رکھ لے

 

 

علم کو پیٹ کی مجبوریوں سے اونچا رکھ

یا خدا دیس کے بچوں کا تو بستہ رکھ لے

 

دسترس میں میں ہمیشہ کے لیے آیا ہوں

اب جہاں جیس بھی رکھنا ہے تو ویسا رکھ لے

 

شعر کہتا ہوں کہ کچھ دیر رہوں باقی میں

درد لکھتا ہوں کہ کچھ یاد زمانہ رکھ لے

 

یہ الگ بات کہ ردی میں کہیں دب جائیں

یہ الگ بات کہ عرضی کو مسیحا رکھ لے

 

اب تو یوں ہو کہ میں تقسیم ہو کے رہ جاؤں

بد دعا دے کہ مجھے زندگی آدھا رکھ لے

 

وہ اشارے سے بتاتا ہے کہ دل رکھنا ہے

پھر وہ چٹکی سی بناتا ہے کہ اتنا رکھ لے

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھ چلتی ہو تو عریاں نہیں کرتے سر جی

اس طرح گھر کو پریشاں نہیں کرتے سر جی

 

فائدہ کچھ نہیں ہے انگلیاں اٹھانے کا

چاند سے دست و گریباں نہیں کرتے سر جی

 

لوگ کہتے ہیں کہ عادت ہے بنا لی اب تو

آپ پینے سے گریزاں نہیں کرتے سر جی

 

ہر شکایت پہ یہ ماتم تو نہیں ہو سکتا

روز مر مر کے تو حیراں نہیں کرتے سر جی

 

کشتیاں باندھ کے برہم نہیں کرتے پانی

اس طرح تلخیاں افشاں نہیں کرتے سر جی

 

بوجھ موسم کا اٹھایا نہیں کرتے سر پر

پیڑ تو دھوپ کا ساماں نہیں کرتے سر جی

 

ٖچیخ واجب ہے ضروری ہے اگر جینا ہے

صرف کاسے کو نمایاں نہیں کرتے سر جی

 

نام ور لوگ ہیں سب شہر میں رہنے والے

بات اس شہر کے انساں نہیں کرتے سر جی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے