وصیت ۔۔۔ دیوی ناگرانی

چھت اور مکان گھر نہیں ہوتے، ان میں ضرورت ہے ان دریچوں کی جہاں سے آتی جاتی تازہ ہوا تن من کو چھو لے، اور صرف اپنے لمس سے ہی سہلا کر زندہ ہونے کا احساس جگا دے۔۔ کبھی ایسی ہوائیں بھی ہوتی ہیں، جو بے رخی اور دھار دار ہوتی ہیں، تن من کو چھیدتی ہوئی جسم میں لرزش پیدا کرنے کے قابل، اور کبھی تو ٹھنڈک عطا کرتی ہوئی دل میں مٹھاس بھی بھر دیتی ہیں۔۔ رشتوں کی بنیاد بھی ایک ایسے ہی مدھر نرم و شبنمی محبت کی محتاج ہوتی ہے، جو اپنے پن کے لمس سے آغوش میں لے لے، جو عزت کی حدود میں رہ کر گھر کے اندر اندر باہر سکون بھر دے، اور راحت بھری دعاؤں سے اس آنگن کو گلشن بنا دے۔۔

درگاوتی آج تک ایک ایسی ہی پر سکون زندگی گزارتی ہوئی اب جس موڑ پر کھڑی ہے، وہاں وہ خود کو اکٹھی اور سالم حالت میں پا رہی ہے۔۔ دور دور تک جیسے اختیارات کے نام و نشاں بھی دھندلے پڑ چکے ہیں۔۔ اس صورت میں وہ خود کو بنٹی ہوئی، اور اپنی خاندانی ناؤ کو منجدھار میں پا رہی ہے۔۔

ابھی ایک سال ہی ہوا، شوہر درگیش چندر سہائے لمبی بیماری سے نجات پا کر چالیس سال کی شادی شدہ زندگی کے عرصے کا اس کا ساتھ چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو لئے۔۔ گھر میں بیٹا امیش، بہو سرلا اور پوتا راہل ہمیشہ آس پاس رہتے۔۔ شادی شدہ بیٹی میناکشی اپنی سسرال سے کبھی کبھار آ کر ماں کا حال چال پوچھ جاتی۔۔ سب ٹھیک تھا، کہیں کچھ کمی کا امکان ہی نہ تھا۔۔ پھر بھی نہ جانے کیوں آئے دن درگاوتی کی سوچ سمٹنے لگی، اس کے پھیلاؤ کا دائرہ دن بدن تنگ ہوتا جا رہا تھا۔۔ امیش کو لگنے لگا جیسے ماں نے اپنے دل کے دروازے بند کر دیئے ہیں۔۔ کیا والد کے نہ رہنے کی وجہ سے وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے؟ یا ان کے اپنے سلوک میں کچھ تبدیلی آئی ہے؟ اس بات کو لے کر وہ اور اس کی بیوی سرلا کچھ حد تک پریشان تو ہوئے، پر ماں سے کچھ پوچھنے کی ہمت نہ جٹا پائے۔۔

پہلے کبھی ایسا موقع ہی نہیں آیا، ماں کے ساتھ والد صاحب رہتے تھے۔۔ دونوں ہمجولی، دوست اور مشیر بن کر گھر کی، خاندان کی، اور رشتوں کی پاسداری کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے جی رہے تھے۔۔ اب ماں اکیلی ہے، شاید کسی کے ساتھ اپنا دل کھول نہیں پا رہی ہے۔۔ کام سے کام رکھتی ہے، وقت پر باورچی خانے بنانے میں سرلا کا ہاتھ بٹاتی ہے، کبھی راہل کی کتابوں کو پلٹتے ہوئے اسے کچھ سکھانے میں مدد کر دیتی ہے، بس! پھر ہر شام ڈھلے، کھانے کے فوراً بعد سب کچھ نمٹ جانے پر اپنے کمرے میں جا کر آرام کرتی۔۔

زندگی میں جب چھوٹی چھوٹی وارداتیں واقع ہوتی ہیں، تب آئی ہوئی تبدیلیوں کو ہلکے پھلکے لے کر قبول کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔۔ کبھی ہم ان سے جوجھتے ہیں، کبھی مسئلوں کا حل نکال پاتے ہیں تو کبھی نتیجہ نہ نکلنے پر جنگ لڑنے سے پہلے ہی ہار مان لیتے ہیں۔۔ اور کبھی ان حادثوں کو ہم زندگی کا حصہ مان لیتے ہیں، حالات سے سمجھوتہ کر کے جینے میں اپنی زندگی کی معنویت سمجھتے ہیں۔۔ اسی الجھن کے دور میں سمٹتی رہی درگاوتی، ‘کیا کرے اور کیا نہ کرے ‘ کی کشمکش میں خود اپنے آپ سے بھی دور ہوتی رہی۔۔ اس بات کا احساس اسے تھا، اور یہ تبدیلی سرلا کی آنکھوں سے بھی چھپی نہ رہ پائی۔۔ وہ بھی سوچتی رہی، شاید ماں تنہائی محسوس کر رہی ہے۔۔ بس وہ سوچتی ہی رہ جاتی، سوچنے اور کچھ کہنے کے درمیان میں اندیشہ پیدا ہو جاتا۔۔ ہر عمر کا اپنا ایک تقاضہ ہوتا ہے۔۔ ایک کی جگہ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا، اور سچ بھی تو ہے۔۔ بغیر ساتھی تنہا تنہا انسان، نہ کسی سے خود کو بانٹ سکے، نہ دل کی بات کہہ سکے۔۔ یقیناً دل کی دل میں رہے گی تو گھٹن کا ہونا لازمی ہے! اگر کمرے کے تمام در دریچے بند ہوں تو ہوا یا روشنی کا اندر جھانکنا ممکن کہاں ہو پائے گا۔۔ کوئی تو روشندان اندر اور باہر کی دنیا کے درمیان ہو، جو دائمی ہو، اور جہاں ہر کسی کے آنے جانے کا امکان باقی رہ پائے۔۔

ایک شام امیش اور سرلا دروازہ پر دستک دیتے ہوئے، ماں درگاوتی کے کمرے میں پہنچے۔۔ پلنگ پر بیٹھی ماں کے قدموں کے پاس سرلا نے جگہ بنا لی اور امیش ساتھ ہی بیٹھ گیا۔۔

’’ماں آپ سارا وقت اکیلی کمرے میں بیٹھی رہتی ہو، کچھ بتاتی بھی نہیں، کیا مجھ سے کوئی بھول ہو گئی ہے؟‘‘ سرلا نے بھرے گلے سے کہا۔۔

’’ماں، سرلا بہت پریشان ہے اور آپ سے بات کرنے کے لئے مجھ سے کہتی رہتی ہے۔ ‘‘ امیش نے سُر میں سُر ملاتے ہوئے بات آگے بڑھائی۔۔

درگاوتی سمجھ گئی کہ اس کا سمٹاو بچوں کی نظر سے چھپا نہیں ہے۔۔ ان کے دل کی چھٹپٹاہٹ سے وہ واقف تھی، اور یہ محسوس کر رہی تھی کہ آپ کے دماغ کی قید سے وہ خود کو بھی آزاد نہیں کر پا رہی تھی، یا یوں کہیں کہ آزاد ہونے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔۔ ’

’’ماں کچھ کہو تو جانیں۔۔ ہمیں فکر کھائے جا رہی ہے۔۔۔ !‘‘ سرلا کچھ اور کہنا چاہ رہی تھی لیکن درگاوتی نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے روک لیا۔۔ ’’ارے بہو جب مجھے کوئی فکر نہیں تو تم دونوں کس بات سے فکر مند رہے ہو، میں اپنے خاندان میں ہوں، تم سب میرے ساتھ ہو، مجھے اور کیا چاہیے۔۔۔ !‘‘

’’تو پھر آپ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اب امیش نے کہنا چاہا۔۔

’’بیٹے تم فکر نہ کرو، میں ٹھیک ہوں۔۔ جی ہاں ایک پریشانی گھن کی طرح مجھے دن رات کھائے جا رہی ہے۔۔ اپنے اندر کے جال میں الجھ رہی ہوں، پر کسی حل تک نہیں پہنچ پا رہی ہوں۔ ‘‘ ماں نے دل کے جھروکے کھولنے کی کوشش کی۔۔۔

’’کون سی ایسی بات ہے جو آپ ہم سے نہیں کہہ سکتیں ماں؟‘‘ امیش نے ماں کے گھٹنوں پر دونوں ہاتھ رکھ دیئے۔۔

’’بیٹے تمہارے والد نے ایک وصیت بنائی تھی، جو کچھ ماہ پہلے انہوں نے مجھے کچھ ہدایتیں دیتے ہوئے تھمائی تھی۔۔ اسی کو لے کر میں بہت پریشان ہوں، اور کچھ سوچ کر فیصلہ کرنا چاہتی ہوں۔۔ بس اور کوئی خاص بات نہیں۔ ‘‘ کہہ کر درگاوتی خاموش ہو گئی۔۔

’’میں آپ کے لئے چائے بنا کر لاتی ہوں‘‘ کہتے ہوئے سرلا باہر کی طرف گئی، یہ سوچ کر کہ شاید ماں بیٹے سے کچھ کھل کر بات کرے اور کچھ حل نکل آئے۔۔ امیش ماں باپ کا اکلوتا بیٹا، ایک بہن میناکشی جو شیوانند سے شادی کے بعد اپنے گھر خاندان میں بہت خوش ہے۔۔ ایسی کیا بات ہو گی جو آج والد صاحب کی بنائی وصیت ماں کی تشویش کا سبب بنی ہے؟ پر وہ چپ رہا، یہ سوچ کر کہ جانے اس کی کہی کون سی بات ماں کو غلط لگے اور بنتی بات بھی بگڑ جائے۔۔ اتنے میں سرلا چائے کے ساتھ اندر داخل ہوئی، تینوں نے بغیر کسی بات چیت کے چائے پی اب ماں نے خاموشی میں خلل ڈالتے ہوئے کہا ’’’چل بہو میں بھی کھانا بنانے میں تیرا ہاتھ بٹاتی ہوں۔۔ باقی باتیں تو ہوتی رہیں گی۔۔۔ !‘‘

اور جیسے ہلکے ہو کر دونوں باورچی خانے میں آئیں اور باتوں باتوں میں سب کام نمٹا لیا۔۔ بہت دنوں کے بعد سرلا کو یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ ماں کا دل ٹٹولنے میں امیش اور وہ اپنا پہلا کامیاب قدم اٹھا چکے ہیں، اور ادھر خود درگاوتی کو بھی ایک ہلکے پن کا احساس ہوا، جیسے وہ بھی من کے عقوبت خانے سے کچھ لمحے کے لئے ہی سہی، رہا ہو کر باہر کی کھلی ہوا میں آئی ہو۔۔

٭٭

 

کل کی ہی تو بات تھی۔۔ کس طرح بھولتی وہ اس لمحے کو، جب کسی ایسے ہی چورا ہے پر کھڑی اس کی اپنی ماں، اپنے حقوق کی مانگ کے لئے رونے دھونے اور آنچل پھیلانے کے سوا کچھ نہ کر سکی؟ درگاوتی کو گود میں لے کر، اسے اپنے والد کا نام دلانے کے لئے وہ یہاں وہاں، کہاں کہاں نہیں بھاگی دوڑی۔۔ پر ہوس کا درندہ، لفظوں سے رشتے تولتا رہا، تہمت پر تہمت لگاتا رہا، پر ماں کی جھولی میں اپنے ہی بچے کے لئے باپ کا نام تک نہ ڈال سکا۔۔ آج وہی منظر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔۔

اسے یاد آیا وہ زمانہ جب جد و جہد کی راہوں پر چلتے چلتے، وہ ماں کے گزرنے کے بعد ‘سگم ناری سنستھا’ کی چھتر چھایا میں پلی بڑھی، اور وہیں کام کاج سیکھتے سیکھتے اپنی مہارت سے وہاں کی اہم رکن بن کر اپنی خدمات دیتی رہی۔۔ جائز اور ناجائز ہونے کی ہر لکیر کو مٹاتی ہوئی نوجوان لڑکیوں کو ان کی عزتِ نفس کے لئے بیدار کرتی، نوزائدہ قتل کے خلاف پرچم لہراتی رہی۔۔ کس کی کیا مجال کہ کوئی لڑکی کو غیر اخلاقی کہہ کر نفرت کا کردار مان لے، اس کے حقوق سے محروم رکھنے کی سوچے، غیر قانونی قرار دے کر اس اولاد سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرے؟ غصہ کے دہلتے انگارے جیسی نفرت کا زہر بن کر اس کی رگوں میں بہنے لگتا۔۔ کوئی اخلاقی یا غیر اخلاقیات کی کشمکش ہوتی تو درگا زخمی شیرنی کی طرح شور مچاتی، الفاظ کے وحشی پنجوں سے اس درندے کو ہتک عزت اور غیر قانونی قرار دیے گئے بچے کے حقوق کے لئے لڑتی۔۔ پر وہ تو اس کے بچپن اور جوانی کا گزرا ہوا کل تھا، اور آج۔۔۔ !! اور آج وہ نیل کٹھ بنی اسی کل کے زہر کو گھونٹ گھونٹ پینے کے لئے اپنے آپ سے لڑ رہی ہے، اکیلی۔۔۔۔ تن تنہا!! آج وہ اپنے ہی گھر کی چوکھٹ کے دو را ہے کے اس موڑ پر کھڑی ہے۔۔ ایک طرف روہت اور مینا کشی اور دوسری طرف مادھوی، تینوں وراثت میں اپنا اپنا مشتمل مقام حاصل کرنے کے حق دار!! اخلاقیات غیر اخلاقی کس طرح ہو سکتی ہے؟ تعصب کے لئے کوئی مناسب وجہ بھی نہ رہی تھی۔۔ تینوں ہی تو اس کے اپنے بچے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔۔

شوہر درگیش چندر سہائے دونوں ہاتھ جوڑ کر مرنے سے پہلے اپنی غلطی کے لئے معافی طلب کرتے ہوئے، اس پر ایک اور ذمہ داری کا بوجھ ڈالتے ہوئے ایک ایسے راز سے پردہ اٹھا گئے کہ درگاوتی کو اپنی نظروں کے سامنے دھند کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔۔ سنی ہوئی بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی ممکن وجہ سمجھ بھی تو نہیں آ رہی تھی۔۔ سچ دن کی روشنی کی طرح سامنے تھا۔۔ اسی حقیقت کو آسانی کے ساتھ سامنے رکھتے ہوئے ایک دن بیماری کی حالت میں درگیش چندر نے کہا تھا ’’درگا آج مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ دل کا جذبہ بھی ایک دریا کی طرح ہے جس میں جب بھی سیلاب آتا ہے، تو کناروں تک کو پانی سے بھر دیتا ہے۔۔ ایسا ہی ایک طوفان میری زندگی میں بھی آیا جو مجھے جذبات کی رو میں بہا لے گیا۔۔ جب طوفان تھما تو مجھے میری زندگی کے بکھرے ہوئے تنکے دکھائی دیے۔۔ ایک احساس جرم دل میں پنپنے لگا اور میرے ذہن میں ایک ان چاہا درد ناسور بن کر بہنے لگا۔۔۔ !!‘‘

درگاوتی کی خاموشی نے جیسے مزید سننے کی خواہش کا اظہار کیا۔۔ درگیش نے بھی حوصلہ پا کر اپنے دل کے درد کو بہنے دیا۔۔ زندگی کا ہر مرحلہ پیچھے چھوڑتے ہوئے جب وہ درگیش چندر کے گھر کی عزت بنی، تب اسے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ کمزوری کے لمحے میں انسان کتنا معصوم ہو سکتا ہے۔۔ ایک ایسے ہی پل کی پیداوار وہ خود ہے اور پھر سگم ناری سنستھا کی منتظمہ ہونے کے ناطے دن رات انہی وجوہات کی بنا پر ہی تو وہ جوجھتی رہی تھی۔۔

’’یہ شادی کے پہلے کی بات ہے، کب مادھوی کی ماں ارونا میری زندگی میں بغیر آہٹ آئی اور بغیر کسی شور کے میرے دل کے تخت پر براجمان ہوئی اس کا مجھے پتہ ہی نہ چلا۔۔ چلتا بھی کیسے؟ اس عمر میں کہاں کسی کو ہوش ہوتا ہے، اور بھولے سے اگر دونوں میں سے کسی ایک کو بھی ہوتا، تو بھی کون سبھلنا چاہتا؟ اپھنتی ہوئی ندی باندھ توڑنے کے سوا کچھ بھی نہیں کرتی۔ ‘‘

ایسے ہی بے خودی کے عالم میں ارونا کو اس سچ کا پتہ چلا کہ وہ ماں بننے والی ہے۔۔ حمل ہو اور دایہ سے چھپا رہے یہ تو ممکن نہیں۔۔ درگیش کی ماں ساوتری آتے جاتے اس کا چہرہ، اس کا چلن دیکھتی اور سوالیہ نظروں سے اسے چھید دیتی۔۔ ارونا پھر بھی خاموش رہتی۔۔ ماں کی آنکھیں اب باریکی کے ساتھ ارونا کا پیچھا کرتیں۔۔ اپنے شک کو یقین میں تبدیل کرنے کے لئے نہیں، اپنی برسوں کی تجربے دار سوچ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے، اور من ہی من خدا سے اپنی شرم کی حفاظت کی دعا مانگتی۔۔ وہ عورت کی عزت کی حدیں جانتی تھی۔۔

ساوتری کا شوہر رگھو ناتھ سہائے ملیریا کے بخار میں چل بسا۔۔ پیچھے رہ گئی ساوتری اپنے بیٹے درگیش کے ساتھ۔۔ یہ مردوں کی دنیا میں اکیلا ہونا کیا ہوتا ہے، وہ خوب اچھی طرح جانتی تھی۔۔ درگیش اپنی ماں ساوتری کا اکلوتا بیٹا، ان دنوں کالج میں پڑھتا تھا۔۔ دن میں خود پڑھائی کرتا اور شام کو کچھ بچوں کو پڑھائی میں مدد کر دیا کرتا تھا، جس سے کچھ آمدنی ہو جاتی تھی۔۔ اسی آمدنی کی عوض وہ ارونا سے خدمات لے پایا تھا، پہلے ماں کے لئے، پھر اپنے لئے۔۔

ارونا نوجوان تھی، خوبصورت تھی، اپنے گٹھیلے بدن کو غربت کی آبرو کی جھینی چادر سے ڈھکنے کے لئے گھر گھر میں کام کرتی۔۔ کہیں برتن، کہیں کپڑے، تو کہیں صفائی۔۔ آس پاس کے گھروں میں ایک گھر درگیش چندر جی کا تھا، جہاں وہ صاف صفائی کا کام کیا کرتی، اور کبھی کبھار درگیش کی ماں کو بھی گھر کے کام میں مدد کر دیا کرتی تھی۔۔

وقت کا چکر چلتا رہا، کالج کی تعلیم مکمل کر کے درگیش چندر نے کچھ پیسوں سے ایک چھوٹی سی دکان خرید کر اپنے ذاتی بیوپار کی بنیاد ڈالی۔۔ ماں نے اس خوشحالی کو بے لوث انداز کے ساتھ سب میں تقسیم کیا۔۔ بیٹے کی کمائی میں برکت ہوئی تو ماں ساوتری نے بیٹے سے پوچھ کر سچ کا پتہ لگایا اور ارونا کو اپنے گھر کی عزت مان کر احترام کے ساتھ اپنا لیا۔۔ آخر اس کے پیٹ میں درگیش کا خون گردش کر رہا تھا، گھر کا وارث! گھر کے بہت سے کاموں کا بوجھ بھی اس پر ڈالتے ہوئے ساویتری نے ارونا سے کہا ’’بہو اب مجھ سے زیادہ کام نہیں ہوتا، سب کچھ تجھے ہی سنبھالنا ہے۔ ‘‘ کہتے ہوئے گھر کی چابیاں اس کے حوالے کر دیں۔۔

ارونا نے بھی اس فرض کی تعمیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جی جان سے ماں ساوتری اور درگیش کی خدمت میں لگی رہی۔۔

قدرت کے کھیل اپنے ہی ڈھنگ سے پورے ہوتے ہیں، کوئی شکایت نہیں، کوئی عرضی نہیں، بس قبول کرنا ہی بس میں رہ جاتا ہے۔۔ ایک دن دل کا دورہ پڑتے ہی اسپتال تک پہنچنے سے پہلے ساویتری کی زندگی کی لیلا ختم ہو گئی۔۔ گھر میں شور ختم ہو گیا جہاں کلکاریوں کو سننے کی چاہتیں پلیں، وہیں سناٹوں کا گھیرا سمٹنے لگا۔۔ کبھی کبھی شور سے زیادہ سناٹوں سے ڈر لگنے لگتا ہے۔۔

ماں چل بسی، ارونا جیسے ایک بار پھر یتیم ہو گئی۔۔ درگیش کا مکمل ساتھ ہوتے ہوئے بھی، نہ جانے کیوں وہ خود کو مکمل تنہا پاتی۔۔ دو ماہ بھی نہیں ہوئے تو اسے ایک دن ناقابل برداشت درد اٹھا۔۔ ہسپتال پہنچ کر ڈاکٹر اور نرسوں کی دیکھ بھال میں اس نے مادھوی کو جنم دیا۔۔ خوشی کے ساتھ دکھ کی خبر بھی ساتھ آئی لاکھ کوششوں کے بعد بھی ڈاکٹر ارونا کو نہیں بچا پائے۔۔ درگیش تو ہر طرح سے شکست کھاتا رہا، زندگی نے بھی اسے مات دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔

٭٭

 

’’ماں، کیا سوچ رہی ہو، بیٹھے بیٹھے کہاں کھو جاتی ہو؟‘‘ کمرے میں آتے ہی امیش کی آواز سے درگاوتی جیسے نیند سے جاگتے ہوئے اپنے ہی سائے سے ڈر گئی ہو۔۔

’’کیا کوئی ایسی بات ہے جو آپ مجھے بھی بتانا نہیں چاہتیں؟‘‘ امیش نے جب ماں کو خیالوں میں کھویا ہوا پایا تو اسے ٹٹولنے کے لئے کہہ دیا۔۔ وہ ماں کی بہت عزت کرتا تھا، اور اب پتا جی بھی نہیں رہے تو اسے لگا ماں اب اس کی ذمے داری ہو گئی ہے۔۔ ماں کی سوچ سے ناواقف رہ کر وہ بھی اب سوچ کے جال میں پھستا چلا جا رہا تھا اور ساتھ میں سرلا بھی۔۔ یہی وجہ ہے وہ دونوں ماں کے دل کی بات جاننا چاہتے تھے، وصیت میں لکھی وہ بات جو ماں کو بے چین کئے ہوئے تھی۔۔

’’بیٹے مجھے کچھ وقت دو، میں کسی نتیجہ پر پہنچتے ہی تمہیں اور بہو کو بتا دوں گی۔۔ ویسے بھی سچ سامنے ہے، اسے قبول کرنا یا نہ کرنا ہمارے ہاتھ میں ہے، لیکن جو حق سے، ضابطے کے مطابق، جس کو ملنا ہے، وہ تو اسے ملنا ہی ہے۔۔ میں نے تو زندگی کے بھلے برے دن تمہارے والد کے ساتھ بتائے، اب پوتے کے ساتھ اسی آنگن میں تم سب کے درمیان میں رہ کر ہنستے کھیلتے زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

امیش کو ماں کی یہ بات اچھی لگی، اور سرلا کو بھی یقین ہو گیا کہ ان کو لے کر ماں کے ذہن میں کوئی ملال نہیں ہے۔۔ پر وصیت میں ایسا کیا ہے جو ماں کو پریشان کر رہا ہے، انہیں کچوٹ رہا ہے، جسے وہ ابھی تک ان سے تقسیم کرنے کے لئے تیار نہیں؟ ان کے پاس بھی اب وقت کے انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا، اس لئے انہوں اس معاملے کو لے کر ماں سے پوچھنا بند کر دیا۔۔

درگاوتی اپنی سوچ کے بھنور میں مزید دھنستی جاتی۔۔ درگیش صرف اس کا شوہر نہیں، اس کی زندگی کا اہم حصہ تھا، جس کے ساتھ چالیس سال گزارتے اسے کبھی اس بات کا احساس ہی نہیں ہوا کہ ایک دن اسے اپنے شوہر کے پہلے محبت کی نشانی کو باغباں بن کر سیچنا پڑے گا۔۔ کیا تو اس وقت بھی وہی تھا، مگر انجانے میں۔۔

اسے یاد آیا ایک دن درگیش ایک ننھی جان کو ناری سنستھان کی صدر درگا کو یہ کہہ کر سونپ گئے ’’یہ مادھوی ہے، اس کی ماں نہیں ہے۔۔ میں اس کی ذمہ داری اٹھا نہیں پاؤں گا، اس لئے اس کی دیکھ بھال کا جتنا خرچ ہو گا وہ ہر مہینے آپ کے ادارے کو دیتا رہوں گا۔۔ یہ آپ کے پاس ہماری امانت ہے!‘‘ اور درگا نے بھی اس وعدے کو تب تک نبھایا، جب تک وہ خود اس کی بیوی بن کر اس کے گھر میں نہ آ گئی۔۔!

کہاں درگاوتی نے سوچا تھا کہ گزرا ہوا کل پھر اس کے سامنے آج بن کر کھڑا ہو جائے گا۔۔ سب آئینے کی طرح صاف تھا۔۔ آج اسی مادھوی کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے وہ اس طرح پابند ہو جائے گی۔۔۔۔۔ ! کس طرح اس فیصلے کو انجام دینے کے لئے وہ خود کو تیار کر پائے گی؟ کس طرح اس پر عمل کرے گی؟ کس طرح اپنے اکلؤتے بیٹے امیش سے کہے گی کہ اس کی چھوٹی بہن میناکشی کے سوا اس کی ایک اور بڑی بہن بھی ہے مادھوی!

وصیت میں درج ہے کہ درگیش چندر سہائے کی تمام جائداد کی وارث اس کی بیوی درگاوتی اور تین بچے بیٹا امیش اور بیٹیاں میناکشی اور مادھوی ہے۔۔ اس وراثت کے تمام حقوق درگاوتی کے ہاتھوں میں ہوں گے اور اس کی تقسیم کا جو بھی فیصلہ ہو گا وہ درگاوتی کا آخری فیصلہ ہو گا۔۔ ایک خاص ہدایت یہ بھی درج کی گئی ہے وصیت میں کہ ’’میری ماں نے ارونا کو اپنی چھت تلے پناہ دی تھی، میری تمنا ہے کہ میری بیوی درگاوتی ارونا کی بیٹی مادھوی کو اپنی بیٹی کی طرح اپنے آنچل میں پناہ دے۔ ‘‘

آج تمام سرحدوں پر درگاوتی کو انصاف اور نا انصافی کے درمیان کشمکش سے گزرنا پڑ رہا تھا۔۔ اپنی زندگی کے ساتھی کے ماضی کے کل کے ایک حصے کو سہارا دینا ہے، اس کو اپنے آنچل کے سائے میں پناہ دینی ہے، اس کی زندگی سے جڑے ہر پسند یا نا پسند کو اپنانا، ٹھیک اسی طرح جیسے وہ میناکشی کی ماں ہونے کے ناطے کرتی آئی ہے یہی تو چاہتا تھا اس کا شوہر درگیش چندر۔۔

جب تکلیف دیتا ہوا سچ سامنے ہو، تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ درد کون دیتا ہے، زندگی یا موت؟ جب درد مرنے والے کی زندگی کی وراثت بن جاتا ہے، تو پیچھے رہنے والے زندگی کی سزا بھگتنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔۔ دھیرے دھیرے دم توڑتے ہوئے درگیش چندر، درگاوتی کے سامنے ہی کمزور ہوتے رہے۔۔ درگاوتی کے ہاتھوں سے زندگی کا سرا پھسلتا رہا اور مٹھی میں تھاما ہوا ریت کا شیش محل چکنا چور ہوتا رہا۔۔

رشتوں میں اگر نبھانے سے زیادہ جھیلنے کی نوبت آ جائے، تو ملائم رشتوں میں جیسے ناگ پھنیاں اگ ہی آتی ہیں۔۔ اس وقت ان چاہے احساس کو دل میں جگہ دینی پڑتی ہے، یہی نہیں، زندگی کو دھکے مار کر چلانا پڑتا ہے۔۔ ایسے ہی ایک اپھنتے بھنور میں درگاوتی کی کشتی اس وقت ڈول رہی تھی۔۔ انسان کی ہمت توڑنے کے لئے کوئی وجہ ہو، یہ ضروری نہیں!

ایک رات کھانے کی میز پر درگاوتی نے بہو بیٹے کو کمرے میں آنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا ’’میں چاہتی ہوں کہ جو سچ میرے اندر روشن ہوا ہے، وہ پھر سے بادلوں کی دھند میں کھو جائے، اس سے پہلے تم دونوں سے بات کر لوں۔۔ اور پھر حقیقت کو تو ظاہر ہونا ہی ہے۔۔۔ !‘‘

اس رات امیش اور سرلا دروازہ کھٹکھٹا کر ایک بار پھر ماں درگاوتی کے کمرے میں پہنچے۔۔ پلنگ پر بیٹھی ماں کے قدموں کے پاس سرلا نے جگہ بنا لی اور امیش سرہانے بیٹھ گیا۔۔

ماں کے کچھ کہنے کے پہلے امیش نے پہل کی ’’ماں وصیت کو لے کر آپ کے دماغ میں جو بھی کشمکش ہے، آپ بغیر کسی جھجھک، پورے حق کے ساتھ ہم سے کہیں۔۔ یہ تو یقینی ہے کہ کچھ غیر معمولی ہی بات ہے جو آپ اتنی پریشان ہیں۔۔ آپ کے ہر فیصلے میں میں اور سرلا آپ کے ساتھ ہیں۔ ‘‘ سرلا بھی نم آنکھوں سے ساس کے پاؤں پر ہاتھ پھیرتی رہی۔۔

درگاوتی نے بانہیں پھیلا کر سرلا کو اپنے آنچل میں لے لیا۔۔ پیار بھرا آغوش ضبط کے باندھ توڑ کر خود کو ظاہر کرنے سے روک نہ پایا۔۔

درگاوتی نے بہو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’ہمارے خاندان میں اضافہ ہوا ہے بہو، اب تیری ایک نہیں دو نندیں ییں، چھوٹی میناکشی اور مادھوی اس کی بڑی بہن! تم دونوں سے میری ایک درخواست ہے، مجھ سے یہ عجیب غریب کہانیاں کی جنم پتری نہ پوچھنا، شاید میں نہ بتا جاؤں پھر؟‘‘

’’ماں۔۔۔۔۔۔۔ !‘‘ راہل کچھ کہہ کر بھی نہ کہہ سکا۔۔

’’سرلا تمہیں کچھ کہنا ہے؟‘‘ درگاوتی نے بہو کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا۔۔

’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ سرلا نے ساس کے پاؤں چھوتے ہوئے گردن ہلا کر نہیں کا اشارہ دیا۔۔

’’بیٹے، کبھی کبھی رشتوں کی سچائیاں ہمیں گھٹن بخشتی ہیں، پر میں یہی چاہوں گی کہ ہمارے خاندان کی پختہ دیوار میں کوئی دراڑ نہ آنے پائے۔۔ یہی تمہارے باپ کی آخری خواہش تھی اور اب میری بھی یہی مرضی ہے۔۔ جو سچ ہے اسے قبول میں جھجھک کیسی؟‘‘ کہتے ہوئے درگاوتی نے مختصر میں ساری بات بتاتے ہوئے، اپنی آنکھوں سے جھرتے آنسو ساڑی کے پلو سے پونچھ دیئے۔۔

امیش نے اٹھ کر ماں کو گلے لگایا، اس کے آنسو پونچھے اور سرلا نے پانی کا گلاس آگے بڑھایا۔۔ بے رکھ ہواؤں کی بھیڑ میں تھوڑا بہت انسانیت کا سبق پڑھنے والے انسانوں کے دلوں کے روشندان کھلے رہے۔۔ اندھیرا چھنٹ گیا۔۔ روشن ضمیر جگمگا اٹھے!

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے