وَبا میں ڈوبتا منظر
وہ ایک فوٹو گرافر تھا، شہر شہر، قریہ قریہ گھوم کر قدرتی مناظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرنا اُس کا من پسند مشغلہ تھا۔۔
اُسے بچپن ہی سے قدرتی مناظر سے عشق تھا، بارش ہوتی تو قطروں کی جلترنگ کو گھنٹوں سنتا رہتا جیسے یہ کوئی دلفریب ساز ہو، مٹی پر پڑتی بوندیں اُس کے اندر خوشبو کا طوفان اُٹھا دیتیں، پہاڑوں پہ جا کر اُس کا جی چاہتا کہ وہ وہیں بس جائے اور صحراوں کی راتیں اُسے پاگل کر دیتی تھیں۔۔ وہ سوچتا یہ دنیا کس قدر حسین ہے پھر جب وہ ساٹھ سال کا ہوا تو اُس نے کیمرے کا استعمال ترک کر دیا کہ اُسے محسوس ہونے لگ گیا تھا کہ دنیا جتنی حسین ہے اِسے کسی بھی کیمرے میں نہیں سمویا جا سکتا تو آدمی کو جتنا میسر ہو اُتنا اپنی آنکھوں میں محفوظ کر لے، وہ نگر نگر قدرت کے کرشمے دیکھنے کے لیے پھرتا رہتا۔۔۔۔
وہ شہر کے اُن پہلے سو لوگوں میں شامل تھا جو وبا کا شکار ہو کر ہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔۔
روز بروز اُس کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔۔۔۔ ایک سہ پہر جب اُسے محسوس ہوا کہ سانس کہیں اندھیرے میں گُم ہونے لگی ہے تو اُس نے ڈاکٹر سے کہا۔۔
’’کیا آپ میری آخری خواہش پوری کر سکتے ہیں؟۔۔۔۔ در اصل میں آخری بار سورج کو ڈوبتے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ ‘‘
وَبا میں دیا گیا اِنٹرویو
ڈاکٹر علی مہدی تہران کے ایک سرکاری ہسپتال میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے کہ شہر کو وبا نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔۔ وہاں اُن کے پاس جدید آلات کی کمی تھی اور مریض تھے کہ ہزاروں کی تعداد میں اِس وَبا کا شکار ہو کر ہسپتال میں داخل ہو رہے تھے۔۔
ایک شام ایک ٹی وی چینل نے ڈاکٹر علی مہدی سے انٹرویو لیا۔۔
’’ڈاکٹر صاحب اِس وبا میں آپ کے پاس مریضوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، آپ اِن حالات پر کیا کہیں گے؟‘‘ انٹرویو لینے والے صاحب نے سوال کیا۔۔
’’ہمارے پاس اب اتنے مریضوں کو بچانے کے لیے کوئی گنجائش نہیں، حتیٰ کہ ہسپتال کے برآمدے اور صحن بھی مریضوں سے بھر گئے ہیں، ہسپتال میں صرف تین وینٹی لیٹر ہیں، ہم کتنے مریضوں کو بچائیں؟‘‘
’’تو کیا آپ عمر کے حساب سے مریضوں کو بچانے کا سوچ رہے ہیں؟‘‘ اینکر نے پوچھا۔۔
’’دیکھیں یہ سوال سٹوڈیو میں بیٹھ کر پوچھنا بہت آسان ہے لیکن آپ یقین کریں ایک ڈاکٹر کے لیے یہ بہت مشکل کام ہوتا ہے، کل ہی ایک بزرگ جو اِس وبا کا شکار تھے اور سانس مشکل سے لے رہے تھے، ہم نے اُنہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا تھا۔۔۔۔ پھر آدھے ہی گھنٹے بعد ہمارے پاس کئی نوجوان تشویش ناک حالت میں لائے گئے۔۔۔ ‘‘
ڈاکٹر علی مہدی ایک لمحے کو رُکے، جیب سے رو مال نکال کر آنکھوں کے آگے کر لیا۔۔۔۔۔
’’میں جب بوڑھے سے وینٹی لیٹر اُتارنے لگا تھا تو اُس نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جو میں وَبا کے بعد بھی شاید کبھی نہ بھلا پاؤں‘‘
٭٭
پیچھا کرتی آوازیں
رات گئے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کمرے کی کھڑکی سے کوئی جھانک رہا ہے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد جب میں سونے کی کوشش کرتا ہوں تو ایک آواز سی آتی ہے، مجھے کوئی بلا رہا ہے۔۔۔۔ تین دن سے یہی سب کچھ ہو رہا ہے لیکن میں باہر نہیں جا سکتا۔۔۔۔
تین دن پہلے جب میں اِنجلا کو پھول دینے ہسپتال گیا تو وہ ایک الگ کمرے میں بند تھی، اُس سے ملنا منع تھا، میں نے شیشے کے پار کھڑے ہو کر ہاتھ ہلایا، وہ مجھے دیکھ رہی تھی، وہ اِتنی کمزور ہو چکی تھی کہ اگر وہ خود کو دیکھ پاتی تو نہ پہچانتی۔۔۔۔۔
اُس نے ہاتھ بلند کیا، جیسے وہ مجھے گڈ بائے کہہ رہی ہو یا شاید وہ مجھے بلا رہی تھی۔۔۔۔ معلوم نہیں لیکن میں اُس کے پاس نہیں جا سکتا تھا۔۔۔۔۔
٭٭
بھوک کا وائرس
جب سے شہر میں وائرس نے حملہ کیا تھا لوگ گھروں میں چھپ کر بیٹھ گئے تھے لیکن اَچھو کہاں جا سکتا تھا؟
وہ ایک مزدور تھا، روز شہر کے چوک پر بیٹھ کر رزق کا انتظار کرتا اور اب تو سڑکیں آدمیوں سے خالی ہو گئی تھیں۔۔
’’حکومت مزدوروں کے لیے رقم اور راشن کا انتظام کر رہی ہے، یونین کونسل کے دفتر میں جا کر اپنا نام لکھواو‘‘ ایک دن ایک پڑھے لکھے بابو نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اس سے کہا۔۔۔۔
’’اوہ تو نام لکھوانے سے راشن مل جائے گا؟‘‘
‘’’ہاں ہاں وبا میں راشن حکومت کے ذمے ہے، فوراً جاؤ‘‘
وہ اُسی وقت یونین کونسل کے دفتر جا پہنچا۔۔۔ وہاں لوگوں کی بھیڑ تھی۔۔ دور تک لمبی قطار، جیسے سارا شہر ہی غریب ہو، وہ قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔ وہاں یونین کونسل کے عملے کے علاوہ کسی نے بھی حفاظتی ماسک نہیں پہن رکھا تھا، شاید اِن غریبوں کا خیال تھا کہ بھوک سے بڑا کوئی وائرس نہیں۔۔۔۔ چار گھنٹے بعد اُس کا نمبر آ گیا، اُس نے نام اور شناختی کارڈ نمبر لکھوا دیا۔۔۔۔۔ اُسے کہا گیا کہ تین دن بعد آ کر پتا کرے۔۔۔۔
آج آٹھواں روز ہے، راشن معلوم نہیں کہاں رہ گیا ہے۔۔۔۔۔
٭٭٭