افسانہ: مہالکشمی کا پُل۔۔۔۔ کرشن چندر
مہا لکشمی، اسٹیشن کے اس پار مہالکشمی جی کا ایک مندر ہے۔۔ اسے لوگ ریس کورس بھی کہتے ہیں۔۔ اس مندر میں پو جا کرنے والے لوگ ہارتے زیادہ ہیں جیتتے کم ہیں۔۔ مہالکشمی اسٹیشن کے اس پار ایک بہت بڑی بدرو ہے جو انسانی جسموں کی غلاظت کو اپنے متعفن پانیوں میں گھولتی ہوئی شہر سے باہر چلی جاتی ہے۔۔ مندر میں انسان کے دل کی غلاظت دھلتی ہے اور بدرو میں انسان کے جسم کی غلاظت اور ان دونوں کے بیچ میں مہالکشمی کا پل ہے۔۔ مہا لکشمی کے پل کے اوپر بائیں طرف لوہے کے جنگلے پر چھ ساڑھیاں لہرا رہی ہیں۔۔ پل کے اس طرف ہمیشہ اس مقام پر چند ایک ساڑھیاں لہراتی رہتی ہیں۔۔ یہ ساڑھیاں کوئی بہت قیمتی نہیں ہیں۔۔ یہ لوگ یہاں ہر روز ان ساڑھیوں کو دھو کر سوکھنے کے لئے ڈال دیتے ہیں اور ریلوے لائن کے آر پار جاتے ہوئے لوگ مہا لکشمی اسٹیشن پر گاڑی کا انتظار کرتے ہوئے لوگ، گاڑی کی کھڑکی اور دروازوں سے جھانک کر باہر دیکھنے والے لوگ اکثر ان ساڑھیوں کو ہوا میں جھولتا ہوا دیکھتے ہیں۔۔ اور ان کے مختلف رنگ دیکھتے ہیں۔۔ بھورا، گہرا بھورا، مٹ میلا، نیلا، قرمزی بھورا، گہرا سرخ کنارا، گہرا نیلا اور لال۔۔ وہ لوگ اکثر انھیں رنگوں کو فضا میں پھیلے ہوئے دیکھتے ہیں۔۔ ایک لمحے کے لئے دوسرے لمحے میں گاڑی پل کے نیچے سے گزر جاتی ہے۔۔
ان ساڑھیوں کے رنگ اب جاذب نظر نہیں رہے۔۔ کسی زمانے میں ممکن ہے جب یہ نئی نئی خریدی گئی ہوں گی ان کے رنگ خوبصورت اور چمکتے ہوئے ہوں گے مگر اب نہیں ہیں۔۔ متواتر دھوئے جانے سے ان رنگوں کی آب و تاب مر چکی ہے اور اب یہ ساڑھیاں اپنے پھیکے سیٹھے روز مرہ کے انداز کو لئے بڑی بے دلی سے جنگلے پر پڑی نظر آتی ہیں۔۔ آپ دن میں انھیں سو بار دیکھئے یہ آپ کو کبھی خوبصورت دکھائی نہ دیں گی۔۔ نہ ان کا رنگ اچھا ہے۔۔ نہ ان کا کپڑا، نہ بڑی سستی گھٹیا قسم کی ساڑھیاں ہیں۔۔ ہر روز ان کے دھلنے سے کپڑا تار تار ہو جاتا ہے۔۔ ان میں کہیں کہیں روزن بھی نظر آتے ہیں۔۔ کہیں اُدھڑے ہوئے ٹانکے ہیں۔۔ کہیں بدنما چتلے داغ جو اس طرح پائدار ہیں کہ دھوئے جانے سے بھی نہیں دھلتے بلکہ اور گہرے ہوتے جاتے ہیں۔۔ میں ان ساڑھیوں کی زندگیوں کو جانتا ہوں۔۔ کیونکہ میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو ان ساڑھیوں کو استعمال کرتے ہیں۔۔ یہ لوگ مہا لکشمی کے پل کے قریب ہی بائیں طرف آٹھ نمبر کی چال میں رہتے ہیں۔۔ یہ چال متوالی نہیں۔۔ بڑی غریب سی چال ہے۔۔ میں بھی اسی چال میں رہتا ہوں۔۔ اس لئے آپ کو ان ساڑھیوں اور ان کے پہننے والوں کے متعلق سب کچھ بتا سکتا ہوں۔۔ ابھی وزیر اعظم کی گاڑی آنے میں بہت دیر ہے۔۔ آپ انتظار کرتے کرتے اکتا جائیں گے۔۔ اس لئے اگر آپ ان چھ ساڑھیوں کی زندگی کے بارے میں مجھ سے کچھ سن لیں تو وقت آسانی سے کٹ جائے گا۔۔ ادھر جو بھورے رنگ کی ساڑھی لٹک رہی ہے یہ شانتا بائی کی ساڑھی ہے۔۔ اس کے قریب جو ساڑھی لٹک رہی ہے وہ بھی آپ کو بھورے رنگ کی دکھائی دیتی ہے۔۔ مگر وہ تو گہرے بھورے رنگ کی ہے۔۔ آپ نہیں میں اس کا گہرا بھورا رنگ دیکھ سکتا ہوں کیونکہ میں اسے اس وقت سے جانتا ہوں جب اس کا رنگ چمکتا ہوا گہرا بھورا تھا۔۔ اب اس دوسری ساڑھی کا رنگ بھی ویسا ہی بھورا ہے جیسا شانتی بائی کی ساڑھی کا اور شاید آپ ان دونوں ساڑھیوں میں بڑی مشکل سے فرق محسوس کر سکیں۔۔ میں بھی جب ان کے پہننے والوں کی زندگیوں کو دیکھتا ہوں، تو بہت کم فرق محسوس کرتا ہوں۔۔ مگر یہ پہلی ساڑھی جو بھورے رنگ کی ہے اور شانتا بائی کی ساڑھی ہے اور جو دوسرے رنگ کی ساڑھی ہے اور جس کا گہرا بھورا رنگ صرف میری آنکھیں دیکھ سکتی ہیں وہ جیونا بائی کی ساڑھی ہے۔۔
شانتا بائی کی زندگی بھی اسی ساڑھی کی طرح بھوری ہے۔۔ شانتا بائی برتن مانجھنے کا کام کرتی ہے۔۔ اس کے تین بچے ہیں۔۔ ایک بڑی لڑکی ہے۔۔ دو چھوٹے لڑکے ہیں۔۔ بڑی لڑکی کی عمر چھ سال کی ہو گی۔۔ سب سے چھوٹا لڑکا دو سال کا ہے۔۔ شانتا بائی کا خاوند سیون مل کے کپڑے کھاتے میں کام کرتا ہوتا ہے۔۔ اسے بہت جلد جانا ہوتا ہے۔۔ اس لئے شانتا بائی اپنے خاوند کے لئے دوسرے دن کی دوپہر کا کھانا رات ہی کو پکا رکھتی ہے۔۔ کیونکہ اسے صبح خود برتن صاف کرنے کے لئے اور پانی ڈھونے کے لئے دوسرے گھروں میں جانا ہوتا ہے اور اب وہ ساتھ میں چھ برس کی بچی کو بھی لے جاتی ہے اور دوپہر کے قریب چال میں واپس آتی ہے۔۔ واپس آ کے وہ نہاتی ہے اور اپنی ساڑھی دھوتی ہے اور سکھانے کے لئے وہ پل کے جنگلے پر ڈال دیتی ہے۔۔ اور پھر ایک بہت غلیظ اور پرانی دھوتی پہن کر کھانا پکانے لگ جاتی ہے۔۔ شاید شانتا بائی کے گھر چولھا اسی وقت سلگ سکتا ہے جب دوسروں کے ہاں چولھے ٹھنڈے ہو جائیں۔۔ یعنی دوپہر کو دو بجے اور رات کو نو بجے۔۔ ان اوقات میں اِدھر اور اُدھر اسے دونوں وقت گھر سے باہر برتن مانجھنے اور پانی ڈھونے کا کام کرنا ہوتا ہے۔۔ اب تو چھوٹی لڑکی بھی اس کا ہاتھ بٹاتی ہے۔۔ شانتا بائی برتن صاف کرتی ہے۔۔ چھوٹی لڑکی برتن دھوتی جاتی ہے۔۔ دو تین بار ایسا بھی ہوا کہ چھوٹی لڑکی کے ہاتھ سے چینی کے برتن گر کر ٹوٹ گئے۔۔ اب میں جب کبھی چھوٹی لڑکی کی آنکھیں سوجھی ہوئی اور اس کے گال سرخ دیکھتا ہوں تو سمجھ جاتا ہوں کہ کسی بڑے گھر میں چینی کے برتن ٹوٹے ہیں۔۔ اس دن شانتا بھی میرے نمستے کا جواب نہیں دیتی جلتی بھنتی بڑبڑاتی چولھا سلگانے میں مصروف ہو جاتی ہے اور چولھے میں آگ کم اور دھواں زیادہ نکالنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔۔ چھوٹا لڑکا جو دو سال کا ہے دھویں سے اپنا دم گھٹتے دیکھ کر چیختا ہے تو شانتا بائی اس کے چینی جیسے نازک نازک رخساروں پر زور زور سے چپتیں لگانے سے باز نہیں آتی۔۔ اس پر بچہ اور زیادہ چیختا ہے۔۔ یوں تو یہ دن بھر روتا رہتا ہے کیونکہ اسے دودھ نہیں ملتا۔۔ اور اسے اکثر بھوک لگی رہتی ہے اور دو سال کی عمر میں ہی اسے باجرے کی روٹی کھانا پڑتی ہے۔۔ اسے اپنی ماں کا دودھ دوسرے بھائی بہن کی طرح صرف چھ سات ماہ نصیب ہوا۔۔ وہ بھی بڑی مشکل سے۔۔ پھر یہ بھی خشک باجری اور ٹھنڈے پانی پر پلنے لگا۔۔ ہماری چال کے سارے بچے اسی خوراک پر پلتے ہیں۔۔ وہ دن بھر ننگے رہتے ہیں اور رات کو گدڑی اوڑھ کر سو جاتے ہیں۔۔ سوتے میں بھی وہ بھوکے رہتے ہیں اور جب شانتا بائی کے خاوند کی طرح بڑے ہو جاتے ہیں تو دن بھر خشک باجری اور ٹھنڈا پانی پی پی کر کام کرنے جاتے ہیں اور ان کی بھوک بڑھتی جاتی ہے اور معدے کے اندر اور دل کے اندر اور دماغ کے اندر ایک بوجھل سی دھمک محسوس کرتے رہتے ہیں اور جب پگار ملتی ہے تو ان میں سے کئی ایک سیدھے تاڑی خانے کا رخ کرتے ہیں۔۔ تاڑی پی کر چند گھنٹوں کے لئے یہ دھمک زائل ہو جاتی ہے۔۔ لیکن آدمی ہمیشہ تو تاڑی پی نہیں سکتا۔۔ ایک دن پئے گا، دو دن پئے گا، تیسرے دن کے لئے تاڑی کے پیسے کہاں سے لائے گا۔۔ آخر کھولی کا کرایہ دیتا ہے۔۔ راشن کا خرچہ دیتا ہے۔۔ بھاجی ترکاری ہے، تیل اور نمک ہے، بجلی اور پانی ہے، شانتا بائی کی بھوری ساڑھی ہے، جو چھٹے ساتویں ماہ تار تار ہو جاتی ہے۔۔ کبھی سات ماہ سے زیادہ نہیں چلتی۔۔ یہ مل والے بھی پانچ روپے چار آنے میں کیسی کھدری نکمی ساڑھی دیتے ہیں۔۔ اس کے کپڑے میں ذرا جان نہیں ہوتی۔۔ چھٹے ماہ سے جو تار تار ہونا شروع ہوتا ہے تو ساتویں ماہ بڑی مشکل سے سی کے، جوڑ کے، گانٹھ کے، ٹانکے لگا کر کام دیتا ہے اور پھر وہی پانچ روپے چار آنے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔۔ اور وہی بھورے رنگ کی ساڑھی آتی ہے۔۔ شانتا کو یہ رنگ بہت پسند ہے اس لے کہ یہ میلا بہت دیر میں ہوتا ہے۔۔ اسے گھروں میں جھاڑو دینا ہوتی ہے۔۔ برتن صاف کرنا ہوتے ہیں۔۔ تیسری چوتھی منزل تک پانی ڈھوتا ہوتا ہے وہ بھورا رنگ نہیں پسند کرے گی تو کیا کھلتے ہوئے شوخ رنگ گلابی، بسنتی، نارنجی پسند کرے گی۔۔ وہ اتنی بیوقوف نہیں ہے۔۔ دو تین بچوں کی ماں ہے۔۔ لیکن کبھی اس نے یہ شوخ رنگ بھی دیکھے تھے۔۔ انھیں اپنے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ پیار کیا تھا۔۔ جب وہ دھاروار میں اپنے گاؤں میں تھی۔۔ جہاں میلوں میں اس نے شوخ رنگ ناچتے ہوئے دیکھے تھے۔۔ جہاں کہ باپ کے دھان کے کھیت تھے۔۔ ایسے شوک ہرے ہرے رنگ کے کھیت اور آنگن میں پیرو کا پیڑ جس کے ڈال ڈال سے تو وہ توڑ توڑ کے کھایا کرتی تھی۔۔ جانے اب وہ پیرؤوں میں مزا ہی نہیں ہے۔۔ وہ شیریں اور گھلاوٹ ہی نہیں ہے۔۔ وہ رنگ، وہ چمک ومک کہاں جا کے مر گئی۔۔ وہ سارے رنگ کیوں یک لخت بھورے ہو گئے۔۔ شانتا بائی کبھی برتن مانجھتے مانجھتے، کھانا پکاتے، اپنی ساڑھی دھوتے، اسے پل کے جنگلے پر لا کر ڈالتے ہوئے یہ سوچا کرتی ہے اور اس کی بوڑھی ساڑھی سے پانی کے قطرے آنسوؤں کی طرح ریل کی پٹری پر بہتے جاتے ہیں اور دوسرے دیکھنے والے لوگ ایک بھورے رنگ کی بدصورت عورت کو پل کے اوپر جنگلے پر ایک بھاری ساڑھی کو پھیلاتے ہوئے دیکھتے ہیں اور بس دوسرے لمحے میں گاڑی پل کے نیچے سے گزر جاتی ہے۔۔
جیونابائی کی ساڑھی جو شانتا بائی کی ساڑھی کے ساتھ لٹک رہی ہے گہرے بھورے رنگ کی ہے۔۔ بظاہر اس کا رنگ شانتا بائی کی ساڑھی سے بھی پھیکا نظر آئے گا۔۔ لیکن اگر آپ اسے غور سے دیکھیں گے تو اس پھیکے پن کے باوجود یہ آپ کو گہرے بھورے رنگ کی نظر آئے گی۔۔ یہ بھی ساڑھی پانچ روپے چار آنے کی ہے اور بڑی ہی بوسیدہ ہے۔۔ دو ایک جگہ سے پھٹی ہوئی تھی لیکن اب وہاں پر ٹانکے لگ گئے ہیں اور اتنی دور سے معلوم بھی ہوتے ہیں۔۔ ہاں آپ وہ بڑاٹکڑا ضرور دیکھ سکتے ہیں جو گہرے نیلے رنگ کا ہے اور اس ساڑھی کے بیچ میں، جہاں سے یہ ساڑھی بہت پھٹ چکی تھی، لگایا گیا ہے۔۔ یہ ٹکڑا جیونا بائی کی اس پہلی ساڑھی کا ہے اور اس دوسری ساڑھی کو مضبوط بنانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔۔ جیونا بائی بیوہ ہے۔۔ اس لئے وہ ہمیشہ پرانی چیزوں سے نئی چیزوں کو مضبوط بنانے کے ڈھنگ سوچا کرتی تھی۔۔ پرانی یادوں سے نئی یادوں کی تلخیوں کو بھول جانے کی کوشش کیا کرتی تھی۔۔ جیونا بائی اپنے خاوند کے لئے روتی رہتی ہے جس نے ایک دن اسے نشے میں مار مار کر اس کی ایک آنکھ کانی کر ڈالی تھی۔۔ وہ اس لئے نشے میں تھا کہ وہ اس روز مل سے نکال دیا گیا تھا۔۔ بڈھا ڈھونڈو اب مل میں کسی کام کا نہیں رہا تھا۔۔ گو وہ بہت تجربہ کار تھا لیکن اس کے ہاتھوں میں اتنی طاقت نہ رہی تھی کہ وہ جوان مزدوروں کا مقابلہ کر سکتا۔۔ بلکہ وہ تو اب دن رات کھانسی میں مبتلا رہنے لگا تھا۔۔ کپاس کے ننھے ننھے ریشے اس کے پھیپھڑوں میں جا کے ایسے دھنس گئے تھے جیسے چرخیوں اور اور اینٹوں میں سوت کے چھوٹے چھوٹے مہین تاگے پھنس جاتے ہیں۔۔ جب برسات آئی تو یہ ننھے ننھے اسے دمے میں مبتلا کر دیتے اور جب برسات نہ ہوتی تو وہ دن بھر اور رات بھر کھانستا۔۔ ایک خشک اور مسلسل کھنکار گھر میں اور کارخانے میں جہاں وہ کام کرتا تھا سنائی دیتی رہتیں۔۔ مل کے مالک نے اس کھانسی کی خطرناک گھنٹی کو سنا اور ڈھونڈو کو مل سے نکال دیا۔۔ ڈھونڈو اس کے چھ ماہ بعد مرگیا۔۔ جیونا بائی کو اس کے مرنے کا بہت غم ہوا۔۔ اگر غصّے میں آ کے ایک دن اس نے جیونا بائی کی آنکھ نکال لی۔۔ تیس سال کی شادی شدہ زندگی ایک لمحے کے غصّے پر قربان نہیں کی جا سکتی اور غصّہ بجا تھا۔۔ اگر مل مالک ڈھونڈو کو یوں بے قصور نوکری سے الگ نہ کرتا تو کیا جیونا کی آنکھ نکل سکتی تھی۔۔ ڈھونڈو ایسا نہ تھا۔۔ اسے اپنی بے کاری کا غم تھا۔۔ اپنی ۳۵ سالہ ملازمت سے برطرف ہونے کا غم تھا اور سب سے بڑا رنج اس بات کا تھا کہ مل مالک نے چلتے وقت اسے ایک دھیلا بھی نہیں دیا۔۔ ۳۵ سال پہلے ڈھونڈو خالی ہاتھ مل میں کام کرنے آیا تھا اسی طرح خالی ہاتھ واپس لوٹا۔۔ اور دروازے سے باہر نکلنے پر اور اپنا نمبری کارڈ پیچھے چھوڑ آنے پر اسے ایک دھچکا سا لگا۔۔ باہر آنے پر اسے ایسا معلوم ہوا جیسے ان ۳۵ سالوں میں کسی نے اس کا رنگ، سارا خون، اس کا سارا رس چوس لیا ہو اور اسے بے کار سمجھ کر باہر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا ہو اور ڈھونڈو بڑی حیرت سے مل کے دروازے کو اور بڑی چمنی کو دیکھنے لگا جو بالکل اس کے سر پر ایک خوفناک دیو کی طرح آسمان سے لگی کھڑی تھی۔۔ یکایک ڈھونڈو نے غم اور غصّے سے اپنے ہاتھ ملے۔۔ زمین پر زور سے تھوکا اور پھر وہ تاڑی خانے چلا گیا۔۔
لیکن جیونا کی ایک آنکھ جب بھی نہ جاتی۔۔ اگر اس کے پاس علاج کے لئے پیسے ہوتے۔۔ وہ آنکھ تو گل گل کر، سڑ سڑ کر، خیراتی ہسپتالوں میں ڈاکٹروں، کمپاونڈروں اور نرسوں کی بد احتیاطی اور گالیوں اور لاپروائیوں کا شکار ہو گئی۔۔ اور جب جیونا اچھی ہو گئی تو ڈھونڈو بیمار ہو گیا اور ایسا بیمار پڑا کہ پھر بستر سے نہ اٹھ سکا۔۔ ان دنوں میں جیونا اس کی دیکھ بھال کرتی تھی۔۔ شانتا بائی نے مدد کے طور پر اسے چند گھروں میں برتن مانجنے کا کام دلوا دیا تھا اور گو وہ اب بوڑھی تھی اور صفائی سے برتنوں کو صاف نہ کر سکتی تھی پھر بھی وہ آہستہ آہستہ رینگ رینگ کر اپنے کمزور ہاتھوں میں جھوٹی طاقت کے بودے سہارے پر جیسے تیسے کام کرتی رہی۔۔ خوبصورت لباس پہننے والی، خوشبو دار تیل لگانے والی بیویوں کی گالیاں سنتی رہی اور کام کرتی رہی کیوں کہ اس کا ڈھونڈو بیمار تھا اور اسے اپنے آپ کو اور اپنے خاوند کو زندہ رکھنا تھا۔۔ لیکن ڈھونڈو زندہ نہ رہا اور اب جیو بائی اکیلی تھی۔۔ خیریت اس میں تھی کہ بالکل اکیلی تھی اور اب سے صرف اپنا دھندا کرنا تھا۔۔ شادی کے دو سال بعد اس کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی۔۔ لیکن جب وہ جوان ہوئی تو کسی بدمعاش کے ساتھ بھاگ گئی اور اس کا آج تک کسی کو پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں ہے۔۔ پھر کسی نے بتایا اور پھر بعد میں بہت سے لوگوں نے بتایا کہ جیونا بائی کی بیٹی فارس روڈ پر چمکیلا، بھڑکیلا لباس پہنے بیٹھی ہے۔۔ لیکن جیونا بائی کو یقین نہیں آیا۔۔ اس نے اپنی ساری زندگی پانچ روپئے چار آنے کی دھوتی پہنے بسر کر دی تھی اور اسے یقین تھا کہ اس کی لڑکی بھی ایسا کرے گی۔۔ وہ ایسا نہ کرے گی اس کا اسے خیال بھی نہ آیا تھا وہ کبھی فارس روڈ نہیں گئی۔۔ کیونکہ اسے اس کا یقین تھا کہ اس کی بیٹی وہاں نہیں ہے۔۔ بھلا اس کی بیٹی وہاں کیوں جانے لگی۔۔ یہاں اپنی کھولی میں کیا نہیں تھا۔۔ پانچ روپے چار آنے والی دھوتی تھی، باجرے کی روٹی تھی، ٹھنڈا پانی تھا، سوکھی عزّت تھی اور یہ سب کچھ چھوڑ کے وہ فارس روڈ کیوں جانے لگی اسے تو کوئی بدمعاش اپنی محبت کا سبز باغ دکھا کے لئے گیا تھا۔۔ کیونکہ عورت محبت کے لئے سب کچھ کر گزرتی ہے۔۔ خود وہ تیس سال پہلے اپنے ڈھونڈو کے لئے اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر یہاں چلی آئی تھی۔۔ جس دن ڈھونڈو مرا اور لوگ اس کی لاش جلانے کے لئے لے جانے لگے اور جیونا نے اپنے سیندور کی ڈبیا اپنی بیٹی کی انگیا پر انڈیل دی جو اس نے بڑی مدّت سے ڈھونڈو کی نظروں سے چھپا کر رکھی تھی۔۔ عین اس وقت ایک گدرائے ہوئے جسم کی ایک بھکاری عورت بڑا چمکیلا لباس پہنے اس سے آ کے لپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔ اور اسے دیکھ کر جیونا کو یقین آ گیا کہ جیسے اب سب کچھ مر گیا ہے، اس کا پتی، اس کی بیٹی کی عزّت جیسے وہ زندگی بھر روٹی نہیں غلاظت کھاتی رہی ہے، جیسے اس کے پاس کچھ نہیں تھا، شروع ہی سے کچھ نہیں تھا۔۔ پیدا ہونے سے پہلے ہی اس سے سب کچھ چھین لیا گیا تھا۔۔ اسے نہتا، ننگا اور بے عزت کر دیا گیا تھا اور جیونا کو اس ایک لمحے میں احساس ہوا کہ وہ جگہ جہاں اس کا خاوند زندگی بھر کام کرتا رہا اور وہ جگہ جہاں اس کی آنکھ اندھی ہو گئی اور وہ جگہ جہاں اس کی بیٹی اپنی دوکان سجا کر بیٹھ گئی ایک بہت بڑا اندھا کارخانہ ہے جس میں کوئی ظالم جابر ہاتھ انسانی جسموں کے لئے گنّے کا رس نکالنے والی مشین میں ٹھونسا جاتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے توڑ مڑوڑ کر دوسری طرف پھینکا جاتا ہے اور یکایک جیونا اپنی بیٹی کو دھکا دے کر الگ کھڑی ہو گئی اور چیخیں مار مار کر رونے لگی۔۔
تیسری ساڑھی کا رنگ مٹ میلا ہے یعنی نیلا بھی ہے میلا بھی اور مٹیالا بھی ہے۔۔ کچھ ایسا عجیب سا رنگ ہے جو بار بار دھونے پر بھی نہیں نکھرتا اور غلیظ ہو جاتا ہے۔۔ یہ میری بیوی کی ساڑھی ہے۔۔ میں فورٹ میں دھنّو بائی کی فرم میں کلرکی کرتا ہوں۔۔ پینسیٹھ روپے تنخواہ ملتی ہے۔۔ سیؤن مل اور بکسریا مل کے مزدوروں کو بھی یہی تنخواہ ملتی ہے اس لئے میں بھی انہیں کے ساتھ آٹھ نمبر کی چال کی ایک کھولی میں رہتا ہوں، مگر میں مزدور نہیں ہوں، کلرک ہوں میں فورٹ میں نوکر ہوں، میں دسویں پاس ہوں، ٹائپ کر سکتا ہوں، میں انگریزی میں لکھ سکتا ہوں، میں اپنے وزیر اعظم کی تقریر جلسے میں سن کر سمجھ بھی لیتا ہوں آج تھوڑی دیر بعد ان کی گاڑی مہا لکشمی پر آئے گی۔۔ نہیں، وہ ریس کورس نہیں جائیں گے۔۔ وہ سمندر کے کنارے ایک شاندار تقریر کریں گے۔۔ اس موقع پر لاکھوں آدمی جمع ہوں گے ان لاکھوں میں میں بھی ایک ہوں۔۔ میری بیوی کو اپنے وزیر اعظم کی باتیں سننے کا بہت شوق ہے۔۔ مگر میں اسے اپنے ساتھ لے نہیں جا سکتا کیونکہ ہمارے آٹھ بچے ہیں اور گھر میں ہر وقت پریشانی سی رہتی ہے۔۔ جب دیکھو کوئی نہ کوئی چیز کم ہو جاتی ہے راشن تو روز کم پڑتا ہے اب نل میں پانی بھی کم آتا ہے، رات کو سونے کے لئے جگہ بھی کم پڑتی ہے اور تنخواہ تو اس قدر کم پڑتی ہے کہ مہینے میں صرف پندرہ دن چلتی ہے، باقی پندرہ دن سود خور پٹھان چلاتا ہے اور وہ بھی کیسے گالیاں بکتے جھکتے، گھسٹ گھسٹ کر کسی سست رفتار گاڑی کی طرح یہ زندگی چلتی ہے۔۔
میرے آٹھ بچے ہیں مگر یہ اسکول میں نہیں پڑھ سکتے، میرے پاس فیس کے پیسے کبھی نہ ہوں گے پہلے پہل جب میں نے بیاہ کیا تھا تو ساوتری کو اپنے گھر یعنی کھولی میں لایا تھا۔۔ تو میں نے سوچا تھا۔۔۔۔ ان دنوں ساوتری بھی بڑی اچھی اچھی باتیں سوچا کرتی تھی۔۔ گوبھی کے نازک نازک پتوں کی طرح پیاری پیاری باتیں، جب وہ مسکراتی تو سینما کی تصویر کی طرح خوبصورت دکھا کرتی۔۔ اب وہ مسکراہٹ نہ جانے کہاں چلی گئی ہے اس کی جگہ ایک مستقل تیوری نے لے لی ہے۔۔ وہ ذرا سی بات پر بچوں کو بے تحاشا پیٹنا شروع کر دیتی ہے اور میں تو کچھ بھی کہوں کیسے بھی کہوں، کتنی ہی لجاجت سے کہوں، وہ تو مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔۔ پتہ نہیں ساوتری کو کیا ہو گیا ہے۔۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے۔۔ میں دفتر میں سیٹھ کی گالیاں سنتا ہوں، گھر پر بیوی کی گالیاں سنتا ہوں اور ہمیشہ خاموش رہتا ہوں۔۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ شاید میری بیوی کو ایک نئی ساڑھی کی ضرورت ہے۔۔ شاید اسے صرف ایک نئی ساڑھی ہی نہیں، ایک نئے چہرے، ایک نئے گھر، ایک نئے ماحول اور ایک نئی زندگی کی ضرورت ہے۔۔ مگر اب ان باتوں کو سوچنے سے کیا ہوتا ہے۔۔ اب تو آزادی آ گئی ہے اور ہمارے وزیر اعظم نے بھی کہہ دیا ہے کہ اس نسل کو یعنی ہم لوگوں کو اپنی زندگی میں کوئی آرام نہیں مل سکتا۔۔ میں نے ساوتری کو اپنے وزیر اعظم کی تقریر جو اخبار میں پڑھی تھی سنائی تو وہ اسے سن کر آگ بگولہ ہو گئی اور اس نے غصّے میں آ کر چولھے کے قریب پڑا ہوا چمٹا میرے سر پر دے مارا، یہ زخم کا نشان جو آپ میرے ماتھے پر دیکھ رہے ہیں اسی کا نشان ہے۔۔ مگر آپ انھیں نہیں دیکھ سکیں گے۔۔ میں دیکھ سکتا ہوں میں سے ایک نشان تو اس مونگیا رنگ جارجٹ کی ساڑی کا ہے جو اس نے اوپیرا ہاؤس کے نزدیک بھنجی مل بھوندو رام پارچہ فروش کی دوکان پر دیکھی تھی۔۔ ایک نشان اس کھلونے کا ہے جو پچیس روپے کا تھا اور جسے دیکھ کر میرا پہلا بچّہ خوشی سے کلکاریاں مارنے لگا تھا لیکن جسے ہم خرید نہ سکے اور جسے نہ پا کر میرا بچّہ دن بھر روتا رہا۔۔ ایک نشان اس تار کا ہے جو ایک دن جبل پور سے آیا تھا جس میں ساوتری کی ماں کی شدید علالت کی خبر تھی۔۔ ساوتری جبل پور جانا چاہتی تھی۔۔ لیکن ہزار کوشش کے بعد بھی مجھے کسی سے روپے ادھار نہ مل سکے اور ساوتری جبل پور نہ جا سکی۔۔ ایک نشان اس تار کا ہے جس میں اس کی ماں کی موت کا ذکر تھا۔۔ ایک نشان۔۔۔۔۔۔۔ مگر میں کس کس نشان کا ذکر کروں ان سے چتلے چتلے، گدے گدے غلیظ داغوں سے ساوتری کی پانچ روپے چار آنے والی ساڑھی میں منتقل ہوتے جائیں گے۔۔
چوتھی ساڑھی قرمزی رنگ کی ہے اور قرمزی رنگ میں بھورا رنگ بھی جھلک رہا ہے یوں تو یہ سب مختلف رنگوں کی ساڑھیاں ہیں لیکن بھورا رنگ ان سب میں جھلکتا ہے۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ان سب کی زندگی ایک ہے، ان سب کی قیمت ایک ہے جیسے یہ سب زمین سے کبھی اوپر نہیں اٹھیں گی جیسے انہوں نے کبھی ہنستی دھنک، افق پر چمکتی ہوئی شفق، بادلوں میں لہراتی ہوئی برق نہیں دیکھی ہے۔۔ جیسے شانتا بائی کی جوانی ہے وہ جیونا کا بڑھاپا ہے وہ ساوتری کا ادھیڑ پن ہے جیسے یہ سب ساڑھیاں زندگیاں، ایک رنگ، ایک سطح، ایک تواتر، ایک مسلسل یکسانیت لئے ہوئے ہوا میں جھولتی جاتی ہیں۔۔
یہ قرمزی بھورے رنگ کی ساڑھی جھبّو بھیے کی عورت کی ہے اس عورت سے میری بیوی کبھی بات نہیں کرتی۔۔ کیونکہ ایک تو اس کے کوئی بچہ وچہ نہیں ہے اور ایسی عورت جس کے کوئی بچہ نہیں ہو، بڑی نحس ہوتی ہے وہ جادو ٹونے کر کے دوسرے کے بچوں کو مار ڈالتی ہے اور بد روحوں کو بلا کر اپنے گھر میں بسا لیتی ہے۔۔ میری بیوی اسے کبھی منہ نہیں لگاتی۔۔ یہ عورت جھبّو بھیّا نے خرید کر حاصل کی ہے۔۔ جھبّو بھیّا مراد آباد کا رہنے والا ہے۔۔ لیکن بچپن ہی سے اپنا دیس چھوڑ کر ادھر چلا آیا۔۔ وہ مراٹھی اور گجراتی زبان میں بڑے مزے سے بات کر سکتا ہے اسی وجہ سے اسے بہت جلد پور وائل کے گنی کھاتے میں جگہ مل گئی۔۔ جھبّو بھیّا کو شروع ہی سے بیاہ کا بہت شوق تھا۔۔ اسے بیڑی کا، تاڑی کا کسی چیز کا شوق نہیں تھا۔۔ شوق تھا تو صرف اس بات کا کہ اس کی شادی جلد سے جلد ہو جائے۔۔ جب اس کے پاس ستّر اسّی روپے اکٹھا ہو گئے تو اس نے اپنے دیس جانے کی ٹھانی تا کہ وہاں اپنی برادری سے کسی کو بیاہ لائے۔۔ پھر اس نے سوچا ان ستّر اسّی روپیوں میں کیسا ہو گا آنے جانے کا کرایہ بھی بڑی مشکل سے پورا ہو گا۔۔ چار سال کی محنت کے بعد اس نے یہ رقم جوڑی تھی۔۔ لیکن اس رقم سے وہ مراد آباد جا سکتا تھا جا کے شادی نہیں کر سکتا تھا۔۔ اس لئے جھبّو بھیّا نے یہیں ایک بدمعاش سے بات چیت کر کے اس عورت کو سو روپے میں خرید لیا۔۔ اسّی روپے اس نے نقد دئیے بیس روپے ادھار میں رہے جو اس نے ایک سال کے عرصے میں ادا کئے۔۔ بعد میں جھبّو کو معلوم ہوا کہ یہ عورت مراد آباد کی رہنے والی تھی۔۔ دھیرج گاؤں کی اور اس کی برادری ہی کی تھی۔۔ جھبّو بڑا خوش ہوا۔۔ چلو یہیں بیٹھے بیٹھے سب کام ہو گیا۔۔ اپنی ذات برادری کی، اپنے ضلع کی، اپنے دھرم کی عورت یہیں بیٹھے بٹھائے سو روپے میں مل گئی۔۔ اس نے بڑے چل چلاؤ سے اپنا بیاہ رچایا۔۔ اور پھر اسے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی لڑیا بہت اچھا گاتی ہے وہ خود بھی اپنی پاٹ دار آواز میں زور سے گاتا۔۔ بلکہ گانے سے زیادہ اُسے چلانے کا شوقین تھا۔۔ اب تو کھولی میں دن رات گویا کسی نے ریڈیو کھول دیا ہو۔۔ دن میں کھولی میں لڑیا کام کرتے ہوئے گاتی تھی۔۔ رات کو جھبّو اور لٹیا دونوں گاتے تھے۔۔ ان کے ہاں کوئی بچّہ نہ تھا اس لئے انہوں نے ایک طوطا پال رکھا تھا۔۔ لڑیا میں ایک اور بات بھی تھی۔۔ جھبّو نہ بیڑی پئے نہ سگرٹ، نہ تاڑی، لڑیا بیڑی، سگریٹ، تاڑی سبھی کچھ پیتی تھی۔۔ کہتی تھی وہ پہلے سب کچھ نہیں جانتی تھی مگر جب سے بدمعاش کے پلّے پڑی اسے یہ سب باتیں سیکھنا پڑیں اور اب وہ اور سب کچھ باتیں تو چھوڑ سکتی ہے مگر بیڑی اور تاڑی نہیں چھوڑ سکتی۔۔ کئی بار لڑیا نے تاڑی پی کر جھبّو پر حملہ کیا اور جھبّو نے اسے روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا۔۔ اس موقعہ پر طوطا بہت شور مچاتا تھا اور رات کو دونوں کو گالیاں بکتے دیکھ کر خود بھی پنجرے میں ٹنگا ہوا زور زور سے چلّا کر وہی گالیاں بکتا جو وہ دونوں بکتے تھے۔۔ ایک بار تو اس کی گالی سن کر جھبّو غصّے میں آ کر طوطے کو پنجرے سمیت بدرو میں پھینکنے لگا تھا۔۔ مگر جیونا نے بیچ میں پڑ کر طوطے کو بچا لیا۔۔ طوطے کو مارنا بڑا پاپ ہے۔۔ جیونا نے کہا ہمیں برہمنوں کو بلا کر پرایئسچت کرنا پڑے گا اور تمہیں پندرہ بیس روپے کھل جائیں گے۔۔ یہ سوچ کر جھبّو نے طوطے کو بدرو میں غرق کرنے کا خیال ترک کر دیا۔۔
شروع شروع میں تو جھبّو کو ایسی شادی پر گالیاں پڑیں۔۔ وہ خود بھی لڑیا کو بڑے شبہ کی نظروں سے دیکھتا رہا اور کئی بار اسے بلا وجہ پیٹا اور خود بھی مل سے غیر حاضر رہ کر اس کی نگرانی کرتا رہا۔۔ مگر آہستہ آہستہ لڑیا نے اپنا اعتبار ساری چال میں قائم کر لیا۔۔ لڑیا کہتی کہ کوئی عورت سچے دل سے بدمعاشوں کے پلّے پڑنا پسند نہیں کرتی۔۔ وہ تو ایک گھر چاہتی ہے چاہے وہ چھوٹا ہی گھر ہو، وہ ایک خاوند چاہتی ہے جو اس کا اپنا ہو، چاہے وہ جھبّو بھیّا ایسا شور مچانے والا ہی کیوں نہ ہو، وہ ایک ننھا بچہ چاہتی ہے چاہے وہ کتنا ہی بد صورت کیوں نہ ہو اور اب لڑیا کے پاس گھر بھی تھا اور جھبّو بھی تھا اور اگر بچہ نہیں تھا تو کیا ہوا۔۔ ہو جائے گا اور اگر نہیں ہوا تو بھگوان کی مرضی، یہ میاں مٹّھو ہی اس کا بیٹا بنے گا۔۔
ایک روز لڑیا اپنے میاں مٹّھو کا پنجرہ جھلا رہی تھی اور اسے چوری کھلا رہی تھی کہ اپنے دن کے سپنوں میں اس ننھے بالک کو دیکھ رہی تھی جو فضا میں ہمکتا ہمکتا اس کی آغوش کی طرف بڑھتا چلا آر ہا تھا کہ چال میں شور سا بڑھنے لگا اور اس نے دروازے سے دیکھا کہ چند مزدور جھبّو کو اٹھائے چلے آ رہے ہیں اور ان کے کپڑے خون سے بھرے ہوئے ہیں لڑیا کا دل دھک سے رہ گیا۔۔ وہ بھاگتی بھاگتی نیچے گئی اور اس نے بڑی پھرتی سے اپنے خاوند کو مزدوروں سے چھین کر اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور اپنی کھولی میں لے آئی پوچھنے پر پتہ چلا کہ جھبّو سے گنی کھاتے کی منیجر نے کچھ ڈانٹ ڈپٹ کی۔۔ اس پر جھبّو نے بھی اسے ہاتھ جڑ دئیے اس پر بہت واویلا مچا اور منیجر نے اپنے بدمعاشوں کو بلا کر جھبّو کی خوب پٹائی کی اور اسے مل سے باہر نکال دیا۔۔ خیریت ہوئی کہ جھبّو بچ گیا ورنہ اس کے مرنے میں کوئی کسر نہ تھی۔۔ لڑیا نے ہمت سے کام لیا اس نے اسی روز اپنے سر پر ترکاری اٹھا لی اور گلی گلی ترکاری بھاجی بیچنے لگی۔۔ جیسے وہ زندگی میں یہی دھندا کرتی آئی تھی۔۔ اس طرح محنت مزدوری کر کے اس نے اپنے جھبّو کو اچھّا کر لیا۔۔ جھبّو اب بھلا چنگا ہے مگر اب سے کام نہیں ملتا وہ دن بھر اپنی کھولی میں کھڑا مہالکشمی کے اسٹیشن کے چاروں طرف رولا بالا کارخانوں کی چمنیوں کو تکتا رہتا ہے۔۔ سیون مل، نیو مل، اولڈ مل، پورا مل، معراج مل، لیکن اس کے لئے کسی مل میں جگہ نہیں ہے۔۔ کیونکہ مزدور کو گالی کھانے کا حق ہے۔۔ گالی دینے کا حق نہیں ہے۔۔ آج کل لڑیا بازاروں اور گلیوں میں آوازیں دے کر بھاجی ترکاری فروخت کرتی ہے اور گھر کا سارا کام کاج بھی کرتی ہے۔۔ اس نے بیڑی تاڑی سب چھوڑ دی ہے۔۔ ہاں اس کی ساڑھی، قرمزی بھورے رنگ کی ساڑھی، جگہ جگہ سے پھٹتی جا رہی ہے۔۔ تھوڑے دنوں تک اور اگر جھبّو کو کام نہ ملا تو لڑیا کو اپنی ساڑھی میں پرانی ساڑھی کے ٹکڑے جوڑنا پڑیں گے اور اپنے میاں مٹھو کو چوری کھلانا بند کرنا پڑے گا۔۔
پانچویں ساڑھی کا کنارہ گہرا نیلا ہے۔۔ ساڑھی کا رنگ گدلا سرخ ہے لیکن کنارا گہرا نیلا ہے اور اس کے نیلے میں اب بھی کہیں کہیں چمک باقی ہے یہ ساڑھی دوسری ساڑھیوں سے بڑھیا ہے کیونکہ یہ ساڑھی پانچ روپے چار آنے کی نہیں ہے اس کا کپڑا اس کی چمک دمک کہے دیتی ہے کہ یہ ان سے ذرا مختلف ہے۔۔ آپ کو دور سے یہ مختلف نہیں معلوم ہوتی ہو گی مگر میں جانتا ہوں کہ یہ ان سے ذرا مختلف ہے اس کا کپڑا بہتر ہے، اس کا کنارا چمکدار ہے۔۔ اس کی قیمت پونے نو روپے ہے، یہ ساڑھی منجولا کی ہے یہ ساڑھی منجولا کے بیاہ کی ہے۔۔ منجولا کے بیاہ کو ابھی چھ ماہ بھی نہیں ہوئے ہیں۔۔ اس کا خاوند گذشتہ ماہ چرخی کے گھومتے ہوئے ہتّے کی لپیٹ میں آ کے مارا گیا تھا اور اب سولہ برس کی خوبصورت منجولا بیوہ ہے۔۔ اس کا دل جوان ہے، اس کی امنگیں جوان ہیں۔۔ لیکن اب وہ کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا خاوند مل کے ایک حادثے میں مرگیا۔۔ وہ پٹہ بڑا ڈھیلا تھا اور گھومتے ہوئے بار بار پھٹپھٹاتا تھا اور کام کرنے والوں کے احتجاج کے باوجود اُسے مل مالکوں نے نہیں بدلا تھا۔۔ کیونکہ کام چل رہا تھا اور دوسری صورت میں تھوڑی دیر کے لئے کام بند کرنا پڑتا، پٹہ کے تبدیل کرنے کے لئے روپیہ بھی خرچ ہوتا مزدور تو کسی وقت بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے اس کے لئے روپیہ تھوڑی خرچ ہوتا ہے لیکن پٹہ تو بڑی قیمتی شے ہے۔۔
جب منجولا کا خاوند مارا گیا تو منجولا نے ہرجانے کی درخواست دی جو نامنظور ہوئی کیونکہ منجولا کا خاوند اپنی عقل سے مرا تھا اس وجہ سے منجولا کو کوئی ہرجانہ نہ ملا اور وہ اپنی وہی نئی دلہن کی ساڑھی پہنی رہی جو اس کے خاوند نے پونے نَو روپے میں اس کے لئے خریدی تھی۔۔ کیونکہ اس کے پاس کوئی دوسری ساڑھی نہیں تھی جو وہ اپنے خاوند کی موت کے سوگ میں پہن سکتی۔۔ وہ اپنے خاوند کے مر جانے کے بعد بھی دلہن کا لباس پہننے پر مجبور تھی۔۔ کیونکہ اس کے پاس کوئی دوسری ساڑھی نہ تھی اور جو ساڑھی تھی وہ یہی گدلے سرخ رنگ کی پونے نو روپے کی ساڑھی جس کا رنگ گہرا نیلا ہے۔۔
شاید اب منجولا بھی پانچ روپے چار آنے کی ساڑھی پہننے گی۔۔ اس کا خاوند زندہ رہتا تب بھی وہ دوسری ساڑھی پانچ روپے چار آنے کی لاتی اس لحاظ سے اس کی زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں آیا مگر فرق اتنا ضرور ہوا کہ وہ ساڑھی آج پہننا چاہتی ہے۔۔ ایک سفید ساڑھی پانچ روپے چار آنے والی جسے پہن کر وہ دلہن نہیں بیوہ معلوم ہو سکے۔۔ یہ ساڑھی اسے دن رات کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے اس ساڑھی سے جیسے اس کے مرحوم خاوند کی مضبوط باہیں لپٹی ہیں جیسے اس کے ہر تار پر اس کے شفاف بوسے مدغم ہیں، جیسے اس کے تانے بانے میں اس کے خاوند کی گرم گرم سانسوں کی حدّت آمیز غنودگی ہے۔۔ اس کے سیاہ بالوں والی چھاتی کا سارا پیار دفن ہے۔۔ جیسے یہ ساڑھی نہیں ہے ایک گہری قبر ہے جس کی ہولناک پہنائیوں کو وہ ہر وقت اپنے جسم کے گرد لپیٹ لینے پر مجبور ہے۔۔ منجولا زندہ قبر میں گاڑی جا رہی ہے۔۔
چھٹی ساڑھی کا رنگ لال ہے۔۔ لیکن اسے یہاں نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اسے پہننے والی مر چکی ہے۔۔ پھر بھی یہ ساڑھی یہاں جنگلے پر بدستور موجود ہے روز کی طرح دھلی دھلائی ہوا میں جھول رہی ہے یہ مالی کی ساڑھی ہے۔۔ جو ہماری چال کے دروازے کے قریب اندر کھلے آنگن میں رہا کرتی تھی۔۔ مالی کا ایک بیٹا تھا سیتو، وہ اب جیل میں ہے۔۔ سیتو کی بیوی اور اس کا لڑکا یہیں نیچے آنگن میں دروازے کے قریب دیوار کے نیچے پڑے رہتے ہیں۔۔ سیتو اور سیتو کی بیوی اور اس کی لڑکی اور بڑھیا مائی یہ سب لوگ ہماری چال کے بھنگی ہیں۔۔ ان کے لئے کھولی بھی نہیں ہے اور ان کے لئے اتنا کھانا کپڑا بھی نہیں ملتا جتنا ہم لوگوں کو ملتا ہے۔۔ اس لیے یہ لوگ آنگن میں رہتے ہیں۔۔ وہ بڑا سوراخ جو آپ اس ساڑھی میں دیکھ رہے ہیں۔۔ پلّو کے قریب یہ گولی کا سوراخ ہے یہ کارتوس کی گولی مائی کو بھنگیوں کے ہڑتال کے دنوں میں لگی تھی۔۔ نہیں، وہ اس ہڑتال میں حصّہ نہیں لے رہی تھی۔۔ وہ بے چاری تو بہت بوڑھی تھی چل پھر نہ سکتی تھی۔۔ اس ہڑتال میں تو اس کا بیٹا سیتو اور دوسرے لوگ شامل تھے۔۔ یہ لوگ مہنگائی بھتّہ مانگتے تھے اور کھولی کا کرایہ مانگتے تھے یعنی اپنی زندگی کے لئے دو وقت کی روٹی کپڑا اور سر پر ایک چھت چاہتے تھے۔۔ اس ان لوگوں نے ہڑتال کی تھی۔۔
اور جب ہڑتال خلاف قانون قرار دے دی گئی۔۔ تو ان لوگوں نے جلوس نکالا اور اس جلوس میں مائی کا بیٹا سیتو آگے تھا اور خوب زور و شور سے نعرے لگاتا تھا اور پھر جب جلوس میں بھی خلاف قانون قرار دیا گیا تو گولی چلی اور ہماری چال کے سامنے چلی۔۔ ہم لوگوں نے تو اپنے دروازے بند کر لئے لیکن گھبراہٹ میں چال کا دروازہ بند کرنا کسی کو یاد نہ رہا اور پھر ہم کو اپنے بند کمروں میں ایسا محسوس ہوا گویا گولی ادھر سے ادھر سے چاروں طرف سے چل رہی ہو۔۔ تھوڑی دیر کے بعد بالکل سناٹا ہو گیا اور جب ہم لوگوں نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا اور باہر جھانک کر دیکھا تو جلوس تتر بتر ہو چکا تھا اور ہماری چال کے دروازے کے قریب بڑھیا پڑی تھی۔۔ یہ اسی بڑھیا کی لال ساڑھی ہے جس کا بیٹا سیتو اب جیل میں ہے اس لال ساڑھی کو اب بڑھیا کی بہو پہنتی ہے اس ساڑھی کو بڑھیا کے ساتھ جلا دینا چاہتے تھے مگر کیا کیا جائے تن ڈھکنا زیادہ ضروری ہے مردوں کی عزّت اور احترام سے بھی کہیں زیادہ ضروری ہے کہ زندوں کا تن ڈھکا جائے یہ ساڑھی جلنے جلانے کے لئے نہیں ہے۔۔ تن ڈھکنے کے لئے ہے۔۔ ہاں کبھی کبھی سیتو کی بیوی اس کے پلّو سے اپنے آنسو پونچھ لیتی ہے۔۔ کیونکہ اس میں پچھلے اسی برسوں کے سارے آنسو اور ساری امنگیں اور ساری فتحیں اور شکستیں جذب ہیں۔۔ آنسو پونچھ کر سیتو کی بیوی پھر اسی ہمّت سے کام کرنے لگتی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔ کہیں گولی چلی، کوئی جیل نہیں گیا بھنگن کی جھاڑو اسی طرح چلنے لگی۔۔
اے لو، باتوں باتوں میں وزیر اعظم صاحب کی گاڑی نکل گئی۔۔ وہ یہاں نہیں ٹھہری۔۔ میں سمجھتا تھا وہ یہاں ضرور ٹھہرے گی۔۔ وزیر اعظم صاحب درشن کے لئے گاڑی سے نکل کر تھوڑی دیر کے لئے پلیٹ فارم پر ٹھہریں گے اور شاید ہوا میں جھولتی ہوئی ان چھ ساڑھیوں کو بھی دیکھ لیں گے جو مہالکشمی کے پل کے بائیں طرف لٹک رہی ہیں۔۔ یہ چھ ساڑھیاں جو بہت ہی معمولی عورتوں کی ساڑھیاں ہیں۔۔ ایسی معمولی معمولی عورتیں جن سے ہمارے دیس کے چھوٹے چھوٹے گھر بنتے ہیں۔۔ جہاں ایک کونے میں چولھا سلگتا ہے۔۔ ایک کونے میں پانی کا گھڑا رکھا ہے اور ہر طاقچے میں شیشہ ہے، کنگھی ہے اور سندور کی ڈبیہ ہے، کھاٹ پر ننھا بچہ سو رہا ہے، الگنی پر کپڑے سوکھ رہے ہیں۔۔ یہ ان چھوٹے چھوٹے لاکھوں کروڑوں گھروں کو بنانے والی عورتوں کی ساڑھیاں ہیں۔۔ جنھیں ہم ہندوستان کہتے ہیں، یہ عورتیں جو ہمارے پیارے پیارے بچوں کی مائیں ہیں۔۔ ہمارے بھولے بھائیوں کی عزیز بہنیں ہیں، ہماری معصوم محبتوں کا گیت ہیں، پانچ ہزار سالہ تہذیب کا سب سے اونچا نشان ہیں۔۔ وزیر اعظم صاحب! یہ ہوا میں جھولتی ساڑھیاں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہیں، تم سے کچھ مانگتی ہیں، یہ کوئی بہت بڑی قیمتی چیز تم سے نہیں مانگتی ہیں۔۔ یہ کوئی بڑا ملک، بڑا عہدہ، کوئی بڑی موٹر کار، کوئی پرمٹ، کوئی ٹھیکا، کوئی پراپرٹی، یہ ایسی چیز کی تم سے طالب نہیں ہیں۔۔ یہ تو زندگی کی بہت ہی چھوٹی چھوٹی چیزیں مانگتی ہیں۔۔ دیکھئے یہ شانتا بائی کی ساڑھی ہے جو اپنے بچپن کی کھوئی ہوئی دھنک تم سے مانگتی ہے۔۔ یہ جیونا بائی کی ساڑھی ہے جو اپنی آنکھ کی روشنی اور اپنی بیٹی کی عزّت مانگتی ہے۔۔ یہ ساوتری کی ساڑھی ہے جس کے گیت مر چکے ہیں اور جس کے پاس اپنے بچوں کے اسکول کے فیس نہیں ہیں۔۔ یہ لڑیا ہے جس کا خاوند بے کار ہے جس کے کمرے میں ایک طوطا ہے جو دو دن سے بھوکا ہے۔۔ یہ نئی دلہن کی ساڑھی ہے جس کے خاوند کی زندگی چمڑے کے پٹّے سے بھی کم قیمت ہے۔۔ یہ بڑی بھنگن کی لال ساڑھی ہے جو بندوق کی گولی کو مل کی پھال میں تبدیل کرنا چاہتی ہے تا کہ دھرتی کے انسان کا لہو پھول بن کر کھل اٹھے اور گندم سنہرے خوشے ہنس کر لہرانے لگیں۔۔
لیکن وزیر اعظم صاحب کی گاڑی نہیں رکی اور وہ ان چھ ساڑھیوں کو نہیں دیکھ سکے اور تقریر کرنے کے لئے چوپاٹی چلے گئے، اس لئے اب آپ سے کہتا ہون کہ اگر کبھی آپ کی گاڑی ادھر سے گزرے تو آپ ان چھ ساڑھیوں کو ضرور دیکھئے جو مہالکشمی کے پل کے بائیں طرف لٹک رہی ہیں اور پھر آپ ان رنگا رنگ ریشمی ساڑھیوں کو دیکھئے جنھیں دھوبیوں نے اسی پل کے دائیں طرف سوکھنے کے لئے لٹکا رکھا ہے اور جو ان گھروں سے آئی ہیں جہاں اونچی اونچی چمنیوں والے کارخانوں کے مالک یا اونچی اونچی تنخواہوں کے پانے والے رہتے ہیں۔۔ آپ اس پل کے دائیں دونوں طرف دیکھئے اور پھر اپنے آپ سے پوچھئے کہ آپ کس کی طرف جانا چاہتے ہیں۔۔
دیکھئے! میں آپ سے اشتراکی بننے کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں، میں آپ کو جماعتی جنگ کی تلقین بھی نہیں کر رہا ہوں۔۔ میں صرف جاننا چاہتا ہوں کہ آپ مہا لکشمی کے پل کے دائیں طرف ہیں یا بائیں طرف۔۔
٭٭٭
تجزیہ
ہمارے نزدیک ترقی پسند تحریک کا پہلا نام بلا شبہ منشی پریم چند کا ہی ہے۔۔ جنہوں نے اس تحریک کی بنیاد ڈالی۔۔ جو اُس دور کی دبی کچلی عوام کی ضرورت تھی۔۔ منشی پریم چند نے اس تحریک کی بنیاد پڑنے سے پہلے ہی رجواڑوں اور زمینداروں کے طبقے کے خلاف لکھنا شروع کر دیا تھا۔۔ اُس دور میں وہ خود بھی ایک پچھڑے ہوئے گاؤں کا حصّہ تھے مظلوم انسانیت کو انہوں نے اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا اُن کے افسانے اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔۔ یہی وجہ ہے کہ افسانہ کفن ہو یا عید گاہ، پوس کی رات ہو یا گؤ دان (ناول)، آپ کو مشاہدات کی کمزوری کہیں نظر نہیں آئے گی۔۔ انہوں نے اس ماحول کو بھگتا، برداشت کیا، وہ سچّے ترقی پسند تھے۔۔ انہوں نے اپنے ہی تجربات اور حوادث کو قلمبند کیا۔۔ اُن کے تخلیق کردہ ادب کا یہی حسن تھا یہی قدرتی پن تھا۔۔ اُن کے مقابلے میں دوسرے افسانہ نگار مثلاً ہمارے استاد سعادت حسن منٹو اور کرشن چندر وغیرہ مہانگروں میں پلے بڑھے، کھاتے پیتے گھروں کے چشم و چراغ تھے۔۔ شعور سنبھال کر انہوں نے زندگی کی بدصورتی اور بھدا پن دیکھا اور اپنی حسّاس طبیعت کے بل بوتے لکھا۔۔ ترقی پسند تحریک کا بگل بجتے ہی اپنے موضوعات کا رُخ غریب، مزدور اور سماج کے دیگر پچھڑے ہوئے طبقوں کی طرف موڑ دیا۔۔ منٹو اپنے مزاج کے مطابق بازار حسن جہاں بہرحال اپنا آپ فروخت کرنے والے انسان ہی بستے تھے۔۔ جو محرومی اور کسمپرسی کی حالت میں جی رہے تھے کہ مسائل میں گھر گئے۔۔ کرشن چندر غربت اور افلاس کو انتہائی قریب سے دیکھنے کے مقصد سے بمبئی کی گندی بستیوں میں گھس گئے۔۔ فٹ پاتھوں پر پھسلی ہوئی زندگی کو کریدنے لگے اُن دنوں سماج پر بھوک اور افلاس کے بادل چھائے ہوئے تھے۔۔ انگریز کے زیر اثر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے غریب مزدوروں پر مظالم انتہا پر تھے۔۔ گندی بستیوں کے اپنے ذاتی مشاہدات کرشن چندر نے چن چن کر اپنے افسانوں کی زینت بنائے۔۔ در اصل جب کسی حادثے سے ہم دو چار ہوتے ہیں اُس کے کرب کو خود بھگتتے ہیں، اُس کا جب اظہار کرتے ہیں جب اُس کو الفاظ کا جامہ پہنا کر پیش کرتے ہیں تو اُس کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔۔ کسی حادثے یا واقعے کو ہم جب سن کر پڑھ کر یا دور سے دیکھ کر قلم بند کرتے ہیں اُس کی اور بات ہوتی ہے۔۔ ہم قاری کو متاثر تو کرتے ہیں مگر وہ قدرتی پن وہ کشش پیدا نہیں ہو سکتی جو خود بھگتے ہوئے کرب کی ہوتی ہے۔۔ کرشن چندر نے غربت اور ناداری خود نہیں بھگتے۔۔ اُن کی خواہشات نے سِسک سِسک کر دم نہیں توڑا۔۔ وہ ایک میڈیکل آفیسر کے چشم و چراغ تھے۔۔ بھوک اور افلاس کے سائے اُن سے دور ہی رہے۔۔ اچھے سکولوں میں تعلیم حاصل کر کے انہوں نے وکالت کی ڈگری اُس وقت حاصل کی تھی۔۔ جب میٹرک پاس بھی بہت کم لوگ ہوا کرتے تھے۔۔ شاید ترقی پسند تحریک سے پہلے انہوں نے تائی ایسری، شہزادہ اور بالکونی جیسے افسانے تخلیق کئے۔۔ تحریک کے زیر اثر انہوں نے دو فرلانگ لمبی سڑک، کالو بھنگی اور مہا لکشمی کا پل جیسے افسانے تحریر کئے۔۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ کرشن چندر نے اپنے ہم عصر قلمکاروں سے اثر نہیں لیا وہ ایک میان میں کئی کئی تلواریں ٹھونسنے کے عادی تھے۔۔ کالو بھنگی کو ہی لے لیں۔۔ کالو بھنگی ایک کردار ہے جس کو راوی اس قابل نہیں سمجھتا کہ اُس پر کچھ لکھا جائے اس افسانے میں کرشن چندر نے کمپاؤنڈر خلجی، نوراں، ریشماں، جانکی اور بختیار کی کہانیاں بیان کر ڈالیں اسی طرح ’’مہالکشمی کا پل‘‘ میں لوہے کے جنگلے پر لٹک رہیں چھ ساڑھیوں کی الگ الگ چھ کہانیاں بیان کر گئے۔۔ افسانہ بالکونی میں جس کا محور فردوس ہوٹل کی بالکونی ہے۔۔ جہاں غروب آفتاب کا منظر دیکھنے کے لئے ہوٹل کے مکیں آتے ہیں۔۔ اس افسانے میں کرشن چندر نے ہوٹل کے بہشتی عبد اللہ اور یوسف زمان خان، زمان خان، عبداللہ کا بیٹا، اوبرائن اور ماریا سب کا تعارف تفصیل کے ساتھ سب کی کہانیاں الگ الگ بیان کی ہیں۔۔ دو فرلانگ لمبی سڑک میں بھکاری، تانگے والا اور دوسرے لوگوں کے بارے میں بیان لکھے ہیں۔۔ ان کی کہانیاں اُن کے حالات بیان کئے ہیں۔۔
گستاخی معاف یہاں جی چاہتا ہے تھوڑی بہت گستاخی کر لی جائے۔۔ در اصل جہاں تک میں سمجھتا ہوں بیان کئے گئے عام واقعات اور اُنہیں واقعات کو افسانے کے طور پر پیش کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔۔ آپ چلتے چلتے اپنے کسی دوست کو کسی واقعے یا کسی حادثے کا حال بیان کر دیتے ہیں کہ میاں ایسے ہوا، ویسے ہوا، پھر یوں ہوا اور پھر یہ ہو گیا لیکن جب آپ اُن میں کسی واقعہ یا حادثے کو افسانے کی صورت میں ڈھال کر پیش کرتے ہو تو اس میں فنّی لوازمات کا شامل ہونا بہت ضروری ہے۔۔ تجسّس اور کہانی پن افسانے میں ہونا بے حد ضروری ہے۔۔ آپ کے افسانے کا کلائمیکس چونکا دینے والا نہیں تو پر اثر تو ہونا ضروری ہے تا کہ آپ کا افسانہ قاری کے ذہن پر کوئی چھاپ چھوڑے، کرشن جی نے اکثر افسانے اینٹی کلائمیکس ہی تخلیق کئے ہیں۔۔ اُن کا کوئی افسانہ دیکھ لیں اختتام پہ اُسے لا کر لا وارث چھوڑ دیتے ہیں، جیسے دادی ماں کہانی سناتے سناتے سو جائے۔۔ بس اُن کا مقصد اظہار تک ہی محدود رہا انہوں نے شاید کبھی قاری یا نقاد کے بارے میں نہیں سوچا۔۔ وہ اگر مقبول ہوئے تو اپنی خوبصورت لفاظی، شاعرانہ بیان اور طویل منظر نگاریوں کی وجہ سے۔۔ اُس دور میں گنے چنے لیڈنگ افسانہ نگار تھے اور پھر ہمارے نقاد حضرات کے قلم کا کمال جو افسانے کی تکنیک سے ناواقف تھے اور جن کا مقصد صرف تعریفیں کرنا ہی رہا جو آج تک قائم ہے۔۔ آج بھی ہمارا نقاد ماضی سے ہی لپٹا ہوا ہے، اُسی کے گن گان کر رہا ہے۔۔ کبھی یہ نہیں سوچتا کہ منٹو، بیدی، کرشن چندر نے اپنا دور لکھا اور عصر حاضر کے افسانہ نگار اپنا دور لکھ رہے۔۔ اُن پہ بھی نظر ڈال لیں۔۔
کرشن چندر اپنے ہم عصروں سے بھی متاثر نہیں ہوئے۔۔ اُن کے دور میں ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گرم کوٹ، لحاف، پرمیشور سنگھ جیسے افسانے لکھے جا رہے تھے جو افسانے کے سبھی لوازمات سے بھر پور تھے۔۔ انہوں نے اپنا وہی بیان اور لفاظی والا انداز قائم رکھا۔۔ اگر دیکھا جائے تو یہ درست ہے کہ جب افسانہ نگار سینئر ہو جاتا ہے تو وہ اپنے مقام کو قائم رکھنے کے لئے موضوعات کو اپنانے میں بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے۔۔
یہی وجہ ہے کہ بزرگی کے دور میں تخلیقی کام مختصر ہو جاتا ہے۔۔ افسانے بہت کم لکھے جاتے ہیں اگر کوئی افسانہ نگار بڑھاپے میں آ کر افسانے تخلیق کرتا ہے تو قدرتی طور پر اُس میں بڑھاپا بولنے لگتا ہے وہ خود کو حرفِ آخر سمجھتا ہے کہ جو اُس نے کہہ دیا وہ نمبر ون ہے۔۔ اُن کی کسی تنقید پر دھیان دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔
یہ مضمون (تجزیہ) میں کسی بڑے نقاد کی تعریفوں کے زیر اثر نہیں لکھ رہا ہوں بلکہ شاہکار افسانوں کو پڑھ کر جو محسوس کر رہا ہوں وہی رقم کئے جا رہا ہوں۔۔ یہ بات طے ہے کہ سچی اور کھری تنقید کرنے والوں کے دوست بہت کم اور دشمن زیادہ ہوتے ہیں۔۔ اپنا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔۔ بہر حال ہمیں بات مہا لکشمی کا پل کے بارے میں کرنی ہے۔۔ تو آئیے اس پہ نظر ڈالیں۔۔
پہلے تو افسانہ نگار نے مہالکشمی کے پل اور گرد و نواح کا جغرافیہ پیش کیا ہے پھر ہمیں بتایا ہے کہ مہا لکشمی کے پُل کے آہنی جنگلے پر چھ ساڑھیاں لٹک رہی ہیں۔۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ان کو پہننے والی خواتین قریبی چال میں رہتی ہیں۔۔ ظاہر ہے کہ کپڑے دھونے کے بعد سوکھنے کے لئے اپنے قریبی جگہ پر ہی کپڑے ڈالے جاتے ہیں۔۔ ان ساڑھیوں کی پیش کش افسانہ نگار نے اس طرح سے کی ہے جیسے یہ ساڑھیاں علاقے کی ایسی یادگار چیزیں ہیں جن کو نہ دیکھ کر آپ ایک بڑی نعمت سے محروم رہیں گے۔۔ ساڑھیوں کا پورا جغرافیہ رنگ، نئی خریدنے سے اب تک کی حالت، قیمت وغیرہ کا بیان ہے۔۔ افسانہ نگار جو راوی ہے ہمیں بتا رہا ہے کہ ابھی وزیر اعظم کی گاڑی آنے میں بہت دیر سے آپ انتظار کرتے کرتے تھک جائیں گے۔۔ اس لئے وقت گذارنے کی غرض سے آپ ان ساڑھیوں کی زندگی کے بارے میں سن لیں۔۔ راوی کہہ رہا ہے کہ اِدھر بھورے رنگ کی ساڑھی آپ کو بھوری دکھائی دے رہی ہو گی، مگر اسے یہ ساڑھی گہرے بھورے رنگ کی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ راوی اس ساڑھی کو اس وقت سے جانتا ہے جب اس کا رنگ چمکتا ہوا گہرا بھورا تھا۔۔ یہ ساڑھی شانتا بائی کی ہے اب شانتا بائی کے بارے میں بیان شروع ہو جاتا ہے وہ گھروں میں جا کر برتن مانجھنے پانی ڈھونے کا کام کرتی ہے۔۔ اُس کے تین بچے ہیں، بچوں کی عمریں بتائی گئی ہیں بڑی لڑکی چھ سال کی ہے شانتا بائی اُسے بھی اپنے کام پہ لے جاتی ہے۔۔ سب سے چھوٹا لڑکا ہے جو دو سال کا ہے جس کو شانتا بائی باجرے کی روٹی کھلاتی ہے۔۔ شانتا بائی کی ساڑھی سات مہینے چلتی ہے اس کے بعد پھر پانچ روپے سات آنے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔۔ وہ شوخ رنگ نہیں پہنتی۔۔ یہی بھورا رنگ اُسے پسند ہے۔۔ ان باتوں سے قاری کو کیا لینا دینا۔۔ بلاوجہ بات کو طول دینا یہ کون سی تکنیک ہوئی بہر حال شانتا بائی بھورا رنگ اس لئے پسند کرتی ہے کہ اُس پر لگے داغ دھبّے نظر نہیں آتے ہیں۔۔ اپنے گاؤں میں شوخ رنگ پہنتی تھی۔۔ جانے وہ چمک دھمک کہاں گئی، بھورا رنگ رہ گیا۔۔ دوسری ساڑھی جیونا بائی کی ہے جس کا شوہر ڈھونڈو بوڑھا ہے جو کھانسی کا مریض ہے۔۔ اُس کے مرض کو دیکھتے ہوئے مل مالک نے اُسے نوکری سے نکال دیا اُس کی ۳۵ سالہ پرانی نوکری ختم کر دی وہ خالی ہاتھ گھر لوٹ آیا۔۔ جیونا بائی کی کسی بات پہ ڈھونڈو اُسے پیٹ دیتا ہے اور اُس کی آنکھ پھوٹ جاتی ہے جس کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے جیونا بائی کانی ہو جاتی ہے۔۔ جیونا بائی کی ایک جوان بیٹی ہے جو فارس روڈ پہ جسم فروشی کا دھندہ کرتی ہے ڈھونڈو مر جاتا ہے۔۔ جیونا بائی کی لڑکی آتی ہے مگر جیونا بائی اُس کے گلے نہیں ملتی اور دنیا میں اکیلی رہ جاتی ہے۔۔ شانتا بائی کی مدد سے اُسے بھی کچھ گھروں میں برتن مانجھنے کا کام مل جاتا ہے۔۔ جھوٹی طاقت کے بودے سہارے پر جیسے تیسے خوبصورت لباس پہننے والی اور خوشبو دار تیل لگانے والی بیویوں سے گالیاں سن سن کر کام کرتی رہتی ہے۔۔ کیونکہ اُس نے اپنے آپ کو زندہ رکھنا ہے۔۔ تیسری ساڑھی کا رنگ مٹ میلا، نیلا ہے، یعنی مٹیالا جو بار بار دھونے پر بھی نہیں نکھرتا۔۔ یہ ساڑھی راوی کی اپنی بیوی کی ہے۔۔ وہ خود بھی آٹھ نمبر چال میں رہتا ہے۔۔ دسویں پاس ہے ۶۵ روپے ماہوار تنخواہ ہے، انگریزی لکھ لیتا ہے۔۔ وزیر اعظم کے جلسوں میں تقریر سن کر سمجھ لیتا ہے۔۔ اُس کو انتظار ہے کہ وزیر اعظم آج اِدھر آئیں گے اور سمندر کے کنارے ایک شاندار تقریر کریں گے۔۔ لاکھوں آدمی سنیں گے وہ بھی اُن کا حصّہ ہو گا۔۔ راوی کی بیوی کو بھی وزیر اعظم کی باتیں سننے کا شوق ہے۔۔ مگر وہ جلسے میں بیوی کو ساتھ نہیں لے جا سکتا کیونکہ اُن کے اپنے آٹھ بچے ہیں۔۔ ہر ماہ راشن کم پڑ جاتا ہے۔۔ تنخواہ صرف پندرہ دن چلتی ہے باقی دنوں میں سود خور پٹھان چلاتا ہے۔۔ زندگی ایسے ہی گھسٹ گھسٹ کر سست رفتار گاڑی کی طرح چل رہی ہے۔۔ آٹھ بچے ہیں۔۔ راوی جب اپنی بیوی ساوتری کو بیاہ کر لایا تھا۔۔ وہ گوبھی کے نازک نازک پتّوں کی طرح تھی۔۔ وہ مسکراتی تو سینما کی خوبصورت تصویر کی طرح تھی۔۔ اب اُس کی مسکراہٹ ہی جاتی رہی۔۔ اس کی جگہ مستقل تیوری نے لے لی۔۔ راوی کی بیوی کی ایک نئی ساڑھی، نئے چہرے اور نئے گھر، نئے ماحول کی ضرورت ہے۔۔ راوی نے بیوی کو بتایا کہ ہمارے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ موجودہ نسل کو یعنی ہمیں اپنی زندگی میں آرام نہیں مل سکتا۔۔ یہ سن کر وہ سیخ پا ہو گئی اور اُس نے لوہے کا چمٹا راوی کے سر پر دے مارا۔۔ راوی ماتھے کا نشان دکھا رہا ہے کہ یہ وہی چوٹ ہے۔۔ راوی کہتا ہے آپ کچھ نشانات دیکھ نہیں پائیں گے۔۔ جیسے بیوی نے جارجٹ کی مونگیا ساڑھی پسند کی۔۔ وہ خرید نہ سکا۔۔ ایک نشان اُس کا۔۔ ایک نشان چھوٹے بچے کا جس نے ۲۵ روپے کا کھلونا پسند کیا تھا وہ خرید نہ سکا۔۔ جبل پور سے تار موصول ہوئی کہ ساوتری کی ماں بیمار ہے۔۔ راوی اُسے ماں کے پاس بھیج نہ سکا اور ماں مر گئی یہ ساری باتوں کے نشان راوی کی محرومیوں کے ہیں جن کا اظہار راوی نے کیا ہے۔۔ ایسے نشانات نظر آنے والے نہیں۔۔
چوتھی ساڑھی قرمزی ہے جس میں سے بھورا رنگ جھانک رہا ہے۔۔ ساڑھیوں کے رنگوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھورا رنگ غریبوں کا خاص رنگ ہے جس میں سے میلا پن نہیں جھانکتا۔۔ شانتا بائی کی جوانی کا۔۔ جیونا بائی کے بڑھاپے کا اور راوی کی ادھیڑ عمری کا سب کا رنگ، زندگی ایک ہے۔۔ یہ قرمزی بھورے رنگ کی ساڑھی جھبّو بھیّے کی عورت کی ہے۔۔ جس کے کوئی بچہ نہیں۔۔ راوی کی بیوی اُس سے بات نہیں کرتی کیونکہ ایسی عورتیں خود بچہ پیدا کرنے کے لئے دوسروں کے بچوں کی بلی دے دیتی ہیں۔۔ جھبّو بھیّا مراد آباد کا رہنے والا ہے۔۔ اُسے شادی کرنے کا بڑا شوق تھا۔۔ جھبّو بھیّا مل میں کام کرتا تھا اُس سے ستّر اسّی روپے جمع کر لیئے تھے وہ مراد آباد جا کر شادی کرنے کا خواہش مند تھا۔۔ ایک بدمعاش سے بات چیت کر کے اُس نے سو روپے میں ایک عورت خرید لی وہ بھی مراد آباد کی رہنے والی تھی اور اُس کی برادری کی تھی۔۔ وہ عورت جس کا نام لڑیا تھا بہت اچھا گاتی تھی۔۔ بیڑی سگریٹ پیتی تھی، تاڑی بھی پیتی تھی۔۔ جھبّو نے ایک طوطا پال رکھا تھا جس کو وہ اپنا بچہ ہی سمجھنے لگی تھی۔۔ پہلے پہلے تو جھبّو کو اُس پر شک گذرا تھا مگر آہستہ آہستہ لڑیا نے اپنا اعتماد قائم کر لیا وہ ایک بچے کی خواہشمند تھی ایک دن کچھ مزدور جھبّو کو اُٹھا کر لائے۔۔ جھبّو کا منیجر سے جھگڑا ہو گیا اور منیجر نے اُسے بدمعاشوں سے خوب پٹوایا اور نوکری سے نکال دیا۔۔ لڑیا نے ترکاری بیچنا شروع کر دی اور بیڑی تاڑی سب کچھ چھوڑ دیا۔۔ محنت کر کے جھبّو کو اچھا کر لیا۔۔
پانچویں ساڑھی کا کنارہ گہرا نیلا، رنگ گدلا سرخ، یہ دوسری ساڑھیوں کی طرح پانچ روپے چار آنے کی نہیں پونے نو روپے کی ہے۔۔ یہ ساڑھی منجولا کی شادی کی ہے جو سولہ سال کی بیوہ ہے۔۔ جس کا شوہر ڈھیلے پٹے کی لپیٹ میں آ کر مارا گیا۔۔ غلطی مِل مالک کی تھی۔۔ وہ جان بوجھ کر اُسی پٹے سے کام کرواتا رہا۔۔ منجولا نے ہرجانے کے لئے بہت کوشش کی مگر اُسے جواب ملا کہ غلطی اُس کے شوہر کی تھی وہ غفلت سے کام لے گیا۔۔ منجولا کے پاس ایک ہی ساڑھی ہے۔۔ سفید ساڑھی خریدنے کے لئے اُس کے پاس پیسے نہیں۔۔
چھٹی ساڑھی کا رنگ سرخ ہے۔۔ اس کو پہننے والی اب اس دنیا میں نہیں۔۔ یہ ساڑھی مائی کی ہے اُس کا بیٹا سیتو اور بہو چال کے بھنگی تھے۔۔ جو کھلے آسمان کے نیچے چال کے ہی صحن میں رہتے تھے۔۔ وہیں بڑھیا کو گولی لگی۔۔ ساڑھی میں جو بڑا چھید نظر آ رہا ہے یہ اُسی کا نشان ہے۔۔ ہوا یوں کہ بھنگیوں کی ہڑتال ہو گئی وہ رہنے کے لئے اور کھانے کے لئے روٹی مانگتے تھے۔۔ ہڑتال غیر قانی قرار دے دی گئی ہڑتالیوں پر گولی چلی۔۔ سیتو کو پولیس پکڑ کر لے گئی جواب جیل میں ہے۔۔ سیتو کی بیوی اب جھاڑو چلاتی ہے یہی ساڑھی پہنتی ہے۔۔ چھٹی ساڑھی کے بیان پر راوی چونک اُٹھتا ہے۔۔ وزیر اعظم کی گاڑی نکل گئی وہ یہاں نہیں ٹھہری۔۔ راوی سوچتا تھا کہ وزیر اعظم یہاں ٹھہریں گے تھوڑی دیر پلیٹ فارم پر ٹہل کر درشن دیں گے۔۔ راوی کو اُمید تھی کہ شاید ہوا میں جھولتی ان ساڑھیوں کو بھی وہ دیکھیں گے۔۔ جو معمولی عورتوں کی ہیں جن سے چھوٹے چھوٹے گھر بنتے ہیں۔۔ یہ ان چھوٹے چھوٹے لاکھوں گھروں کروڑوں کو بنانے والی عورتوں کی ساڑھیاں ہیں جنھیں ہم ہندوستان کہتے ہیں۔۔ یہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزیں مانگتی ہیں یہ کوئی ملک بڑا عہدہ بڑی موٹر کار کوئی پرمٹ کوئی ٹھیکہ نہیں مانگتیں۔۔ راوی اب شاید وزیر اعظم سے مخاطب ہے کہ شانتا بائی اپنے بچپن کی دھنک مانگتی ہے۔۔ جیو نا بائی اپنی آنکھ کی روشنی اپنی بیٹی کی عزت مانگتی ہے، ساوتری کے گیت مر چکے، لڑیا کا خاوند بے کار ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ اختتام پہ راوی کہتا ہے کہ وزیر اعظم نے ان چھ ساڑھیوں کو نہیں دیکھا اور تقریر کرنے چوپاٹی چلے گئے اس لئے راوی ہم سے درخواست کر رہا ہے کہ اگر آپ ادھر آئیں تو مہالکشمی کے پل کے بائیں طرف لٹکتی ہوئی ان پھٹی پرانی ساڑھیوں کو ضرور دیکھیں۔۔ راوی کلائمیکس پہ کہتا ہے کہ پل کے دائیں طرف دھوبیوں سے دھُلی ریشمی ساڑھیاں بھی ہیں جہاں سرمایہ دار رہتے ہیں جب کہ راوی نے پورے افسانے میں نہیں بتایا کہ دائیں طرف سرمایہ داروں کی ریشمی ساڑھیاں ہیں۔۔ اختتام پہ اُسے سوجھا تو بیان کر دیا۔۔ آخر میں راوی کہتا ہے کہ میں آپ سے اشتراکی بننے کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ مہا لکشمی کے پل کے دائیں طرف ہیں یا بائیں طرف کے یعنی مل مالک سرمایہ دار یا موٹی تنخواہ پانے والے آفیسر ہیں یا غریب مزدور جو غریبی اور بھوک سے جھوجھ رہے ہیں۔۔
چھ ساڑھیاں دبی کچلی نچلے طبقے کی چھ عورتیں جن میں سے ایک اس دنیا میں نہیں رہی۔۔ یہ چھ عورتیں نہیں یہ ہندوستان کے عوام ہیں۔۔ غریب، نادار، مایوس اور دبے کچلے عوام۔۔ لگتا ہے کہ کرشن چندر نے ساڑھیوں کو غریب جنتا کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔۔ بھوکی ننگی بے بس جنتا، وزیر اعظم کی علامت سرکار کے طور پر استعمال کی گئی ہے۔۔ شاید راوی سٹیشن پر وزیر اعظم کی منتظر ہے کہ وہ یہاں رُکیں گے اور ساڑھیوں پہ نظر ڈالیں گے، اس بات کی طرف اشارہ ہے شاید کہ سرکار آ کر جھگّی جھونپڑی میں چالوں میں بسنے والے لوگوں کے مسائل کو دیکھیں گے اُس پہ غور کریں گے۔۔ وزیر اعظم کا نہ رُکنا سرکار کی عوام کے تئیں بے توجہی کا اشارہ ہے۔۔ شاید یہ لاپرواہی کی نشانی ہے۔۔ وزیر اعظم کا مہالکشمی پر نہ رُکنا اور جو ہو پر جا کر تقریر کرنا یعنی سمندر کے کنارے جو شاید عیش و عشرت اور رئیسی کی علامت ہے۔۔ غریبوں پر نظر نہ ڈالتے ہوئے امیروں کی طرف چلے گئے جیسے راوی نے ہم سے پوچھا کہ دائیں طرف کے یہ سوال تو آغاز میں ہی آ جانا چاہئے تھا کیونکہ اگر ہم دائیں جانب کے ہیں تو غریب عوام کی بات ہم کیوں سنیں گے۔۔۔۔۔۔؟
بہر حال سرکار کو یعنی وزیر اعظم کو وہاں جا کر ساڑھیوں کے میرا مطلب ساڑھیاں پہنے والیوں جن میں راوی کی بیوی بھی ہے جس نے آٹھ بچے پیدا کر کے اپنے لئے خود ہی مسائل کھڑے کر لئے، میرا مطلب غریب جنتا کے تمام مسائل سننے چاہیں تھے۔۔ اُس وقت تو ہمارا ملک نیا نیا جمہوری دنیا میں داخل ہوا تھا۔۔ آج جب لوگ جمہوریت کو سمجھ گئے۔۔ اپنے ووٹ کی قیمت سمجھ گئے، اب سرکار کہاں گندی بستیوں اور چالوں میں جا کر الیکشن کے دنوں کے علاوہ جا کر مسائل سنتی ہے۔۔ اُس کا حل ڈھونڈھتی ہے۔۔ چھ دہائیاں گذرنے کے بعد بھی ہم وہیں ہیں جہاں تھے۔۔ بلکہ ڈکٹیٹر شپ کے وقت کو لوگ سراہتے ہیں کہ اکیلی عورت زیور پہن کر رات کے وقت با حفاظت اپنی منزل تک چلی جاتی تھی۔۔ اس دور کی بات کریں گے تو ہم اصل موضوع سے بھٹک جائیں گے۔۔ در اصل غریبوں کا یہ سماج یہ بستیاں چھوٹی چھوٹی اکائیاں ہیں جن سے مل کر ہندوستان بنتا ہے۔۔ سرکار کی بے توجہی دیکھ کر یعنی وزیر اعظم کے نہ رُکنے کے بعد راوی عام آدمی سے اپیل کرتا ہے کہ اگر آپ کبھی مہالکشمی آئیں تو اس کے پل کو ضرور ملاحظہ کریں۔۔ اس پل کے بائیں طرف رہنے والوں کی ساڑھیاں لٹکتی ہوئی ملیں گی۔۔ آپ اُن کو ضرور دیکھیں۔۔ راوی آپ کو اس اس کے دائیں طرف کے نظارے کی بھی دعوت دے رہا ہے۔۔ جہاں دھوبیوں نے دھو کر ریشمی ساڑھیاں لٹکا رکھی ہیں۔۔ یہ اُن لوگوں کی ہیں جو کارخانہ دار، سرمایہ دار اور موٹی تنخواہیں پانے والے افسر ہیں۔۔ یعنی مہالکشمی کا پل ایک سماج ہے بوسیدہ اور پرانی ساڑھیاں بھوکی ننگی جنتا کی علامت ہے۔۔ جن کا تعلق بائیں جانب سے ہے یعنی بائیں بازو، بائیں بازو سے صاف ظاہر ہے، لال جھنڈا یعنی کمیونزم جس کے حق میں ترقی پسند تحریک بنی۔۔ یہ افسانہ افسانہ کم کمیونزم کا نعرہ زیادہ ہے۔۔ مسالے اکٹھے کر کے مکمل ترقی پسندی کا افسانہ بنا دیا گیا ہے۔۔ شاید تعریفیں کرنے والے نقادوں کا مزاج بھی ترقی پسند ہی تھا، جنہوں نے ایسے افسانوں میں غریب مزدور کے مظالم کو پڑھ پڑھ کر اسے شاہکار گردانتے رہے۔۔ ایسا نہیں کہ غریبوں کی کسمپرسی پر ہمارا دل نہیں پسیجتا۔۔ کیا کریں ہم اپنی سمجھ کے مطابق تجزیہ کرتے ہوئے اپنے قلم کو روک نہیں پاتے۔۔ تجزیہ منافقانہ نہیں کرنا چاہئے یہ ادب کے ساتھ میری نظر میں دھوکے کے مترادف ہے۔۔ اچھے ادب کی تعریف کمزور ادب پہ اُنگلی اُٹھنی ہی چاہئے۔۔ ہاں اگر میں غلط تجزیہ کر رہا ہوں تو مجھے نشانہ بنائیے مجھے غلط کہیئے۔۔ آپ اگر افسانے کے رموز سے واقف ہیں تو ’’مہالکشمی کا پل‘‘ دوسرے افسانہ نگاروں کی تخلیقات کے مقابلہ میں رکھ کر خود ہی فیصلہ کر لیں۔۔ افسانہ نگار کی ذہنی فکر کا مقصد محض ترقی پسندی کا گہرا رنگ دکھانا تھا۔۔ افسانہ نگار نے غریب عوام کی محرومیاں، دِقّتیں، نا انصافیاں، مجبوریاں، بھوک اور افلاس غرض کہ تمام مسالے بھر دئیے تا کہ یہ افسانہ مکمل تحریک کے مطابق ہو۔۔ سرکار کی عدم توجہی کا ماجرہ بھی بیان کر دیا۔۔ بائیں طرف رہنے والے غریب اور نادار لوگ ڈائریکٹ بائیں بازو کے حق اور نمائش کے لئے کھلا نعرہ ہے اِس نعرے بازی یہ بیانیہ لفاظی، واقعات سے افسانے کی تخلیق کرنے کے جوش میں افسانہ نگاری کی بندشوں اور اسلوب سے لاپرواہی کر ڈالی۔۔ میں ایسا سمجھتا ہوں ممکن ہے یہ میری خام خیالی ہو۔۔ افسانے میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن سے قاری کو کچھ لینا دینا نہیں۔۔ اگر وہ افسانے میں نہ بھی ہوتیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔۔ مثلاً شانتا بائی کے بچے، اُن بچوں کی عمر، وہ باجرہ کی روٹی کھاتے ہیں۔۔ شانتا بائی کی دن بھر کی مصروفیات کی تفصیل، شانتا بائی کے چولہے میں آگ کم دھواں زیادہ ہوتا تھا اور بہت کچھ جیونا بائی کی ساڑھی کا پورا جغرافیہ آدھے صفحے میں بیان کیا گیا ہے۔۔ پھر جیونا بائی ڈھونڈو کے بارے میں لمبی تفصیل، جھبّو بھیّا کی بیوی گاتی ہے، سگریٹ بیڑی پیتی ہے تاڑی بھی پیتی تھی، گانا بھی گاتی تھی۔۔ ایسی بہت سی باتوں کو اگر ہم جزئیات نگاری کے زمرے میں ہی شامل کریں تو آگے چل کر ان سب باتوں کا کوئی مصرف نہیں کوئی ذکر نہیں۔۔ ہم افسانہ نگار جزئیات نگاری کا سہارا اس لئے لیتے ہیں کہ وہ آگے آنے والے واقعات کی چھوٹی چھوٹی پیش بندیاں ثابت ہوں تا کہ افسانے میں کشش پیدا ہو۔۔ قاری کا ذہن بھٹکے نہیں۔۔ مگر یہاں ایسی باتیں بلا وجہ اور افسانے کو محض طول دینے کی غرض سے ٹھونس دی گئی ہیں۔۔ افسانے کے اختتام سے پہلے قاری کی یاد دہانی کے لئے مختصر سی سمری اُنہیں کرداروں کے بارے میں جن کی بے حد تفصیل افسانے میں بیان کی گئی ہے۔۔ شاید افسانہ نگار کو اس بات کا احساس ہو گیا ہو کہ افسانہ طویل ترین ہو گیا ہے۔۔ کردار اس قدر ابھرے ہیں کہ آپس میں الجھ گئے ہیں۔۔ قاری کرداروں کے نام حیثیت کو ذہن میں نہ رکھ پایا ہو۔۔ آخر میں مختصر خاکہ پیش کرنا سَمری کی صورت میں کس افسانہ نگار کی تکنیک ہے میں نہیں جانتا۔۔ واقعات کی اور حادثات کی بھر مار افسانے میں ایسے بھری ہوئی ہے۔۔ جیسے فلموں میں ہر قسم کا مسالہ بھر دیا جاتا ہے۔۔ شاید اس لئے ہو کہ کرشن چندر بھی فلموں سے وابستہ تھے۔۔ کل ملا کر افسانہ پڑھا جا سکتا ہے۔۔ شاید آئندہ ایسے افسانے تخلیق نہ ہوں۔۔ نقاد حضرات کو ’’مہالکشمی کا پل‘‘ جیسے افسانے خوبصورت لگتے ہیں دور حاضر کے افسانے کمزور محسوس ہوتے ہیں۔۔ کیا ہم مردہ پرست ہو گئے۔۔ (خدا نہ کرے)؟
٭٭٭