منٹو کے افسانے ’سبز سینڈل‘ کا تجزیہ ۔۔۔ عمار نعیمی

 

افسانہ سبز سیڈل۔۔۔۔ سعادت حسن منٹو

 

’’آپ سے اب میرا نباہ بہت مشکل ہے۔۔۔۔ مجھے طلاق دے دیجیے۔‘‘

’’لاحول و لا کیسی باتیں منہ سے نکال رہی ہو۔۔۔۔ تم میں سب سے بڑا عیب ایک یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً تم پر ایسے دورے پڑتے ہیں کہ ہوش و حواس کھو دیتی ہو۔‘‘

’’آپ تو بڑے ہوش و حواس کے مالک ہیں۔۔۔۔ چوبیس گھنٹے شراب کے نشے میں دھت رہتے ہیں۔‘‘

’’میں شراب ضرور پیتا ہوں لیکن تمہاری طرح بِن پئے مدہوش نہیں رہتا۔۔ واہی تباہی نہیں بکتا۔‘‘

’’گویا میں واہی تباہی بک رہی تھی۔‘‘

’’ یہ میں نے کب کہا۔۔۔۔ لیکن تم خود سوچو یہ طلاق لینا کیا ہے۔‘‘

’’بس میں لینا چاہتی ہوں۔۔۔۔ جس خاوند کو اپنی بیوی کا ذرہ بھر خیال نہ ہو اس سے طلاق نہ مانگی جائے تو اور کیا مانگا جائے؟‘‘

’’ تم طلاق کے علاوہ اور سب چیزیں مجھ سے مانگ سکتی ہو۔‘‘

’’آپ مجھے دے ہی کیا سکتے ہیں؟‘‘

’’یہ ایک نیا الزام تم نے مجھ پر دھرا۔۔۔۔ تمہاری ایسی خوش نصیب عورت اور کون ہو گی۔۔۔۔ گھر میں۔۔۔‘‘

’’لعنت ہے ایسی خوش نصیبی پر۔‘‘

’’اس پر لعنت نہ بھیجو۔۔۔۔ معلوم نہیں تم کس بات پر ناراض ہو۔۔ لیکن میں تمھیں خلوصِ دل سے یقین دلاتا ہوں کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔‘‘

’’خدا مجھے اس محبت سے پناہ دے۔‘‘

’’اچھا۔۔۔۔ چھوڑو ان جلی کٹی باتوں کو۔۔۔۔ بتاؤ، بچیاں اسکول چلی گئیں۔۔۔‘‘

’’آپ کو ان سے کیا دلچسپی ہے۔۔ اسکول جائیں یا جہنم میں۔۔۔۔ میں تو دعا کرتی ہوں مر جائیں۔‘‘

’’ کسی روز تمہاری زبان مجھے جلتے چمٹے سے باہر کھینچنا پڑے گی۔۔۔۔ شرم نہیں آتی کہ اپنی اولاد کے لئے ایسی بکواس کر رہی ہو۔‘‘

’’میں نے کہا میرے ساتھ ایسی بد کلامی نہ کیجیے۔۔۔ شرم آپ کو آنی چاہیے کہ ایک عورت سے جو آپ کی بیوی ہے اور جس کا احترام آپ پر فرض ہے، اس سے آپ بازاری انداز میں گفتگو کر رہے ہیں۔۔۔۔ اصل میں یہ سب آپ کی بری سوسائٹی کا قصور ہے۔‘‘

’’اور جو تمہارے دماغ میں خلل ہے اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’آپ اور کون؟‘‘

’’قصور وار ہمیشہ مجھے ہی ٹھہراتی ہو۔۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا تمھیں کیا ہو گیا ہے۔‘‘

’’مجھے کیا ہوا ہے۔۔۔۔ جو ہوا ہے صرف آپ کو ہوا ہے۔۔۔۔ ہر وقت میرے سر پر سوار رہتے ہیں۔۔ میں آپ سے کہہ چکی ہوں مجھے طلاق دے دیجیے۔‘‘

’’کیا دوسری شادی کرنے کا ارادہ ہے۔۔ مجھ سے اکتا گئی ہو؟‘‘

’’تھو ہے آپ پر۔۔۔۔ مجھے کوئی ایسی ویسی عورت سمجھا ہے؟‘‘

’’طلاق لے کر کیا کرو گی؟‘‘

’’جہاں سینگ سمائے چلی جاؤں گی۔۔۔۔ محنت مزدوری کروں گی۔۔ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالوں گی۔‘‘

’’تم محنت مزدوری کیسے کر سکو گی۔۔۔۔ صبح نو بجے اٹھتی ہو، ناشتہ کر کے پھر لیٹ جاتی ہو۔۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد کم از کم تین گھنٹے سوتی ہو۔۔۔۔ خود کو دھوکا تو نہ دو۔‘‘

’’جی ہاں، میں تو ہر وقت سوئی رہتی ہوں۔۔۔۔ آپ ہیں کہ ہر وقت جاگتے رہتے ہیں۔۔۔ ابھی کل آپ کے دفتر سے ایک آدمی آیا تھا وہ کہہ رہا تھا کہ ہمارے افسر صاحب کو جب دیکھو میز پر سر رکھے انٹا غفیل ہوتے ہیں۔‘‘

’’وہ کون تھا الو کا پٹھا؟‘‘

’’ آپ اپنی زبان درست کیجیے۔‘‘

’’بھئی مجھے تاؤ آگیا تھا۔۔۔۔ غصے میں آدمی کو اپنی زبان پر قابو نہیں رہتا۔‘‘

’’مجھے آپ پر اتنا غصہ آرہا ہے لیکن میں نے ایسا کوئی غیر مہذب لفظ استعمال نہیں کیا۔‘‘

’’انسان کو ہمیشہ دائرۂ تہذیب میں رہنا چاہیے مگر یہ سب آپ کی بری سوسائٹی کی وجہ سےہے جو آپ ایسے الفاظ اپنی گفتگو میں استعمال کرتے ہیں۔‘‘

’’میں تم سے پوچھتا ہوں، میری بری سوسائٹی کون سی ہے؟‘‘

’’وہ کون ہے جو خود کو کپڑے کا بہت بڑا تاجر کہتا ہے۔۔۔۔ اس کے کپڑے آپ نے کبھی ملاحظہ کیے۔۔۔۔ بڑے ادنیٰ قسم کے اور وہ بھی میلے چکٹ۔۔۔۔ یوں تو وہ بی اے ہے، لیکن اس کی عادات و اطوار اٹھنا بیٹھنا ایسا واہیات ہے کہ گھن آتی ہے۔‘‘

’’وہ مرد مجذوب ہے۔‘‘

’’یہ کیا بلا ہوتی ہے؟‘‘

’’تم نہیں سمجھو گی۔۔۔۔ مجھے بیکار وقت ضائع کرنا پڑے گا۔‘‘

’’آپ کا وقت بڑا قیمتی ہے۔۔۔۔ ہمیشہ ایک بات کرنے پر بھی ضائع ہو جاتا ہے۔‘‘

’’تم اصل میں کہنا کیا چاہتی ہو؟‘‘

’’میں کچھ کہنا نہیں چاہتی۔۔۔۔ جو کہنا تھا، کہہ دیا۔۔۔۔ بس مجھے طلاق دے دیجیے تاکہ میری جان چھٹے۔۔۔۔ ان ہر روز کے جھگڑوں سے میری زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔‘‘

’’تمہاری زندگی تو محبت سے بھرے ہوئے ایک کلمے سے بھی اجیرن ہو جاتی ہے۔۔۔۔ اس کا کیا علاج ہے؟‘‘

’’اس کا علاج صرف طلاق ہے۔‘‘

’’تو بلاؤ کسی مولوی کو۔۔۔۔ تمہاری اگر یہی خواہش ہے تو میں انکار نہیں کروں گا۔‘‘

’’میں کہاں سے بلاؤں مولوی کو؟‘‘

’’بھئی طلاق تم چاہتی ہو۔۔۔۔ اگر مجھے لینا ہوتی تو میں دس مولوی چٹکیوں میں پیدا کر لیتا۔۔ مجھ سے تم کو اس سلسلے میں کسی مدد کی توقع نہیں کرنی چاہیے تم جانو ، تمہارا کام جانے۔‘‘

’’آپ میرے لئے اتنا کام بھی نہیں کر سکتے؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘

’’آپ تو اب تک یہی کہتے آئے ہیں کہ آپ کو مجھ سے بے پناہ محبت ہے۔‘‘

’’درست ہے۔۔۔۔ رفاقت کی حد تک۔۔۔۔ مفارقت کے لئے نہیں۔‘‘

’’تو میں کیا کروں؟‘‘

’’جو جی میں آئے کرو۔۔۔۔ اور دیکھو مجھے اب زیادہ تنگ نہ کرو۔۔ کسی مولوی کو بلوا لو۔۔ وہ طلاق نامہ لکھ دے میں اس پر دستخط کر دوں گا۔‘‘

’’حق مہر کا کیا ہو گا؟‘‘

’’طلاق چونکہ تم خود طلب کر رہی ہو اس لئے اس کے مطالبے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

’’واہ جی واہ!‘‘

’’تمہارے بھائی بیرسٹر ہیں۔۔۔۔ ان کو خط لکھ کر پوچھ لو۔۔۔۔ جب عورت طلاق چاہے تو وہ اپنا حق مہر طلب نہیں کر سکتی۔‘‘

’’تو ایسا کیجیے کہ آپ مجھے طلاق دے دیں۔‘‘

’’میں ایسی بے وقوفی کیوں کرنے لگا۔۔۔۔ مجھے تو تم سے پیار ہے۔‘‘

’’آپ کے یہ چونچلے مجھے پسند نہیں۔۔۔۔ پیار ہوتا تو مجھ سے ایسا سلوک کرتے؟‘‘

’’تم سے میں نے کیا بد سلوکی کی ہے؟‘‘

’’جیسے آپ جانتے ہی نہیں۔۔۔۔ ابھی پرسوں کی بات ہے آپ نے میری نئی ساڑی سے اپنے جوتے صاف کیے۔‘‘

’’خدا کی قسم نہیں۔‘‘

’’تو اور کیا فرشتوں نے کیے تھے؟‘‘

’’میں اتنا جانتا ہوں کہ آپ کی تینوں بچیاں اپنے جوتوں کی گرد آپ کی ساڑی سے جھاڑ رہی تھیں۔۔۔۔ میں نے ان کو ڈانٹا بھی تھا۔‘‘

’’وہ ایسی بد تمیز نہیں ہیں۔‘‘

’’کافی بد تمیز ہیں۔۔۔۔ اس لئے کہ تم ان کو صحیح تربیت نہیں دیتی ہو۔۔۔۔ اسکول سے واپس آئیں تو ان سے پوچھ لینا کہ وہ ساڑی کا ناجائز استعمال کر رہی تھیں یا نہیں۔‘‘

’’مجھے ان سے کچھ پوچھنا نہیں ہے۔‘‘

’’تمہارے دماغ کو آج معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔ اصل وجہ معلوم ہو جائے تو میں کوئی نتیجہ قائم کر سکوں۔‘‘

’’آپ نتیجے قائم کرتے رہیں گے لیکن میں اپنا نتیجہ قائم کر چکی ہوں۔۔۔ بس آپ مجھے طلاق دے دیجیے۔۔۔۔ جس خاوند کو اپنی بیوی کا مطلقاً خیال نہ ہو اس کے ساتھ رہنے کا کیا فائدہ۔‘‘

’’میں نے ہمیشہ تمہارا خیال رکھا ہے۔‘‘

’’آپ کو معلوم ہے کل عید ہے؟‘‘

’’معلوم ہے۔۔۔۔ کیوں۔۔۔ ؟ کل ہی تو میں بچیوں کے لئے بوٹ لایا ہوں اور ان کے فراکوں کے لئے میں نے آج سے آٹھ روز پہلے تمھیں ساٹھ روپے دیے تھے۔‘‘

’’یہ روپے دے کر آپ نے بڑا میرے باپ پر احسان کیا۔‘‘

’’احسان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔ بات کیا ہے؟‘‘

’’بات یہ ہے کہ ساٹھ روپے کم تھے۔۔۔۔ تین بچوں کے لئے آرکنڈی چالیس روپے میں آئی۔۔ فی فراک درزی نے سات روپے لئے ۔۔۔۔ بتائیے آپ نے مجھ پر اور ان بچیوں پر کون سا کرم کیا؟‘‘

’’باقی روپے تم نے ادا کر دیے؟‘‘

’’ادا نہ کرتی تو فراک سلتے کیسے؟‘‘

’’تو یہ روپے مجھ سے ابھی لے لو۔۔۔ میرا خیال ہے ساری ناراضی اسی بات کی تھی۔‘‘

’’میں کہتی ہوں کل عید ہے۔‘‘

’’ہاں ہاں! مجھے معلوم ہے۔۔۔ میں دو مرغ منگوا رہا ہوں۔۔۔۔ اس کے علاوہ سویاں بھی۔۔۔ تم نے بھی کچھ انتظام کیا؟‘‘

’’میں خاک انتظام کروں گی!‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’میں چاہتی تھی کل سبز ساڑی پہنوں۔۔ سبز سینڈل کے لئے آرڈر دے آئی تھی، آپ سے کئی مرتبہ کہا کہ جائیے اور چینیوں کی دکان سے دریافت کیجیے کہ وہ سینڈل ابھی تک بنے ہیں یا نہیں۔۔۔۔ مگر آپ کو مجھ سے کوئی دلچسپی ہو تو آپ وہاں جاتے۔‘‘

’’لاحول و لا۔۔۔۔ یہ جھگڑا سارا سبز سینڈل کا تھا۔۔۔ ؟ جناب آپ کے یہ سینڈل میں پرسوں ہی لے آیا تھا۔۔۔ آپ کی الماری میں پڑے ہیں۔۔۔۔ آپ تو سارا وقت سوئی رہتی ہیں۔۔۔ آپ نے الماری کھولی ہی نہیں ہو گی۔

٭٭

 

تجزیہ

 

یہ کہانی ہے ایک ایسی عورت کی جو اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہتی ہے لیکن کیوں؟ نہ یہ بات شوہر سمجھ پاتا ہے اور نہ بیوی بتا پاتی ہے اور ہزار وجوہات تراشتی ہے کہ یہ وجہ ہے۔۔ شوہر پیار سے قائل کرتا ہے اور کہتا ہے یہ مسئلہ تو میں نے حل کر دیا تھا۔۔ وہ دوسری وجہ بتاتی ہے کہ اس وجہ سے میں تمھارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی وہ پھر اس کا تدارک کر دیتا ہے۔۔ بیوی کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیسے اپنے شوہر کو طلاق پر راضی کرے اور بالآخر وہ کہتی ہے کل عید ہے مجھے سبز سینڈل چاہیے اور شوہر کہتا ہے کہ وہ تو میں پہلے سے لے آیا ہوا ہوں۔۔

طلاق سے سبز سینڈل تک کی کہانی جو میاں بیوی کی شگفتہ نوک جھونک پر پھسلتی ہوئی قاری کے دل تک پہنچتی ہے۔۔ دراصل منٹو کو سمجھنا بعض اوقات قاری کے لئے مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ منٹو کی کہانیاں بظاہر کچھ نظر آتی ہیں لیکن پسِ پردہ کہانی کچھ اور ہوتی ہے۔۔ اس افسانے میں بھی قاری کو صرف ایک پہلو نظر آتا ہے لیکن اس کے پیچھے کی نفسیات سے وہ ناواقف ہی رہتا ہے۔۔

ایک عورت جسے اس کا شوہر ہر لحاظ سے مطمئن رکھتا ہے۔۔ اسے جو چاہیے وہ لا کر دیتا ہے بلکہ لا کر نہیں، وہ شے پہلے سے ہی گھر میں موجود ہوتی ہے۔۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ ایسی عورت اس مرد سے کیا چاہتی ہے؟ جی ہاں، آپ درست سمجھے ہیں۔۔ اگر آپ کو ابھی بھی سمجھ نہیں آئی تو یہ جان لیں آپ منٹو کا افسانہ پڑھ رہے ہیں۔۔ گویا کچھ کہا بھی نہیں اور منٹو نے سب کچھ کہہ بھی دیا۔۔ جناب پیٹ کی بھوک تو شوہر نے ختم کر دی لیکن جسم کی بھوک؟ کیا وہ ضروری نہیں ہے؟ جب اولاد ہو جاتی ہے تو میاں بیوی میں ایک لحاظ سے محبت تو بھرتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ جسمانی طور پر ایک دوسرے سے دور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔۔ پھر جہاں روز روز یا ہفتے بعد ہمبستری ہوتی تھی اب وہ عید اور ایسٹر جیسے تہواروں تک محدود ہو جاتی ہے۔۔ اب اگر کسی بیوی کو اس کا یہ حق عید والے دن بھی نہ ملے تو وہ پھر شوہر سے کیا طلب کرے گی؟

دوسری سب سے اہم بات جس کی نشاندہی منٹو نے اس افسانے میں کی ہے، وہ ہے مشرقی عورت کا رویہ۔۔ مشرقی عورتیں اپنے منھ سے شوہر کو ہمبستری کی دعوت نہیں دیتیں، کچھ نے تو اس کے لئے علامتیں مخصوص کر رکھی ہوتی ہیں۔۔ لیکن جس جوڑے نے یہ علامتیں نہ مخصوص کر رکھی ہوں تو ان کے لئے کیا حکم ہو سکتا ہے؟ یہاں مشرقی مرد بھی ایسی بیوی کو اچھے کردار کی مالکہ نہیں سمجھتے جو خود ہمبستری کی دعوت دیتی ہو۔۔

مجھے یاد ہے کہ ہماری سوسائٹی میں ایک شخص نے پہلی رات ہی اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی، صرف اس وجہ سے کہ اس کی بیوی نے کہا تھا کہ بیڈ کے بجائے ہم صوفے پر ہمبستری کرتے ہیں۔۔

منٹو کی سب سے خوبصورت بات ہی یہی ہے کہ وہ طنز کرتا ہے۔۔ وہ اس خوب صورتی سے باتوں کو بیان کر جاتا ہے کہ گویا کہا بھی کچھ نہیں لیکن سب کچھ کہہ بھی دیا۔۔ اس افسانے کو منٹو نے مکالماتی صورت میں لکھا ہے۔۔ پڑھتے ہوئے ایک سیکنڈ کے لئے بھی بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔۔ اور مکالمے اتنے برجستہ اور کردار کے مطابق ہیں کہ کہیں بھی جھول محسوس نہیں ہوتا۔۔ درج ذیل مکالمہ نمونے کے طور پر دیکھیے۔

’’تم طلاق کے علاوہ اور سب چیزیں مجھ سے مانگ سکتی ہو”

’’آپ مجھے دے ہی کیا سکتے ہیں؟‘‘

” ایک نیا الزام تم نے مجھ پر دھرا ہے۔۔ تمھارے جیسی خوش نصیب عورت اور کون ہو گی؟ ”

” لعنت ہے اییسی خوش نصیبی پر”

درج بالا مکالمہ پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ منٹو نے کتنی مہارت سے کرداروں کو ان کے کردار کے مطابق گفتگو کروائی ہے۔۔ یہی ایک کامیاب مکالمے کی دلیل ہے اور یہی اس افسانے کی خوب صورتی ہے۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے