ادبی تنقید میں ہم سب نے مختلف دبستان تنقید کا مطالعہ کیا ہو گا اور یہ بات بہت بہتر طور سے جانتے ہیں کہ تنقیدی منصب سنبھالنا اتنا بھی آسان نہیں۔ تخلیق اگر کمزور ہوتی ہے تو تخلیق کار کو نقصان پہنچتا ہے۔ اور اس سے اسے پذیرائی نہیں ملتی۔ مگر جب تنقید کمزور ہوتی ہے تو اس سے ادب کو نقصان پہنچتا ہے۔ آج کل فیس بک پر ادب کی ترویج کے رواج نے ایک عجیب سی فضا قائم کرد ی ہے، جہاں اگر کسی بات کی کمی نظر آ رہی ہے تو وہ ہے ذمہ داری کی کمی کا احساس۔ جب ذمہ داری کے احساس کا فقدان ہو تو وہاں کوئی بھی مثبت تبدیلی کے امکان صفر ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک جب فیس بک پر بہت کم ادبی گروپ تھے، ان پر ادبی مباحث اور گفتگو کا انداز مشفقانہ، مدبرانہ، دوستانہ ہوا کرتا تھا، کسی کو کسی پر برتری جتا نے کا شوق نہیں تھا، کو ئی کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ جو بڑے تھے ان کا ایک احترام تھا، جو چھوٹے تھے ان میں سیکھنے سمجھنے کا شوق تھا۔ اس لئے کھل کر گفتگو ہوتی کھل کر نئے لوگوں کو بھی سراہا جاتا، سخت سے سخت تنقید بھی ہوتی اور بڑوں پر نئے لکھنے والے بھی اپنی رائے احترام کے دائرے میں کھل کر دیتے، چاہے وہ نا پسندیدگی کا ہی اظہار ہو۔ اور ادبی فورم ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ ہم ہر تخلیقات پر تبصرے کرتے تھے، اپنے اپنے تاثرات بیان کرتے تھے مگر نقاد ہونے کا کوئی دعوی کبھی کسی نے نہیں کیا۔ باضابطہ نقاد انگلیوں پر چند گنے چنے لوگ تھے جن کی بڑی قدر تھی۔ یہ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ تاثراتی تنقید اعلی درجے کی تنقید نہیں ہوتی اس لئے ساری باتیں، سارے مباحث سیکھنے اور سمجھنے کے لئے ہوتی تھیں۔ . تاثراتی تنقید اعلی درجے کی تنقید کیوں نہیں ہوتی اس کے لئے یہ اقتباس شیئر کرنا چاہوں گی۔ ..۔
” تاثراتی تنقید نگار مطالعے کے حاصل اور اپنے اثرات کو پیش کرنا ہی تنقید کا اصول مانتا ہے۔ لیکن اس تنقید کی بنیادی خامی یہ ہے کہ اس میں ادبی تنقید کے بنیادی مقصد یعنی ادب میں تعین قدر کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور اس طرح یہ تنقید بہت محدود ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ تاثراتی تنقید اپنے آپ کو انھیں حالات میں متصور کر کے نگاہ تخیل سے ان تاثرات کو بے نقاب کرتی ہے جن کے زیر اثر تخلیق معرض وجود میں آئی۔ علاوہ ازیں کسی ضابطے اصول اور معیار کے فقدان کے بنا پر نقاد مختلف النوع تاثرات کو بیان کرتا ہے جس کی وجہ سے ایک ہی فن پارے میں مختلف اچھے برے تاثرات ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں ان مختلف النوع تاثرات کی وجہ سے قاری الجھ جاتا ہے اور فن پارے کو سمجھنے کے بجائے مزید الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاثراتی تنقید تفہیم و تفسیر کے بنیادی مقصد کو پورا نہیں کرپاتی۔ وہ صرف فن سے حاصل ہونے والی لذت و اثر پر زور دیتی ہے۔ تاثراتی تنقید پر اظہار خیال کرتے ہوئے کلیم الدین احمد فراق گورکھپوری کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
"تاثراتی تنقید کو تنقید کہنا صحت سے دور ہے انگریزی میں پیٹر نے اس رنگ میں تنقید لکھی تھی اور کچھ دنوں تک یہ رنگ کافی مقبول ہو گیا تھا لیکن بہت جلد یہ حقیقت ظاہر ہو گئی کہ یہ غیر ذمہ دارانہ قسم کی چیز ہے۔ اس میں لکھنے والا اپنے ذاتی تاثرات کو بیان کرتا ہے جس کا اس فنی کار نامے سے کوئی تعلق یا لگا نہیں ہوتا جس کے متعلق وہ لکھتا ہے۔ یہ تاثرات لکھنے والے کی شخصیت، اس کی دماغی ساخت اس کی معلومات، اس کی سلاست روی یا بے راہ روی اور اسی قسم کی بہت سی متعلق اور غیر متعلق چیزوں سے وابستہ ہوں گے۔ پھر کسی دو شخص کے تاثرات ایک طرح کے نہیں ہو تے۔ معلوم نہیں آپ نے پیٹر کی مونا لزا پر تنقید پڑھی ہے یا نہیں یہ تاثراتی تنقید کی اچھی مثال ہے۔ آپ کو بہت کچھ لکھنے والے کے متعلق معلوم ہو جاتا ہے لیکن مونالزا کے متعلق کچھ بھی نہیں۔ صرف یہی پتہ چلتا ہے کہ پیٹر کو یہ تصویر پسند تھی اور اس نے اس کے جذبات کو بھڑکایا تھا وہ اپنے معنی مونا لِزا میں پروتا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتاتا کہ اس تصویر کا مخصوص حسن کیا ہے اور اگر یہ تصویر اچھی ہے تو کیوں اچھی ہے اور پھر وہ اس کی تکنیک کے بارے میں بھی کوئی تسلی بخش بات نہیں کہتا ہے۔ تاثراتی تنقید کی یہی مخصوص کمی ہے کہ اس کا مرکز نقاد کی شخصیت ہوتی ہے فنی کار نامہ نہیں ہوتا۔ اس میں تعلق ہوتا ہے بے تعلقی نہیں ہوتی۔ فوری جذبات کا ابھار ہوتا ہے تو ازن نہیں ہوتا۔ ضبط نہیں ہوتا، احتیاط نہیں ہوتی اس میں اضطراری کیفیت ہوتی ہے باقی رہنے والا احساس حسن و صداقت نہیں ہوتا۔ ” (اشارات تنقید۔ ڈاکٹر سید عبداللہ)
مگر آج فیس بک کے ادبی فورم تنقید اور تبصرے کی جو کھتونی کر رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ تنقید ایک نئے رجحان کا آغاز کر چکی ہے اب یہ تاثراتی تنقید کے منصب سے بھی نیچے سرک آئی ہے اور یہ کس طرف جا رہی ہے اس کے لئے کچھ باتیں یہاں وہاں سے کوٹ کرنا چاہوں گی کہ شاید ہما رے ادب کے ذخیرے کی طرف رجوع کرنے کا خیال خام پیدا ہو اور ادب کی ترویج سے پہلے اپنی فکر کو مہمیز کرنے کا رواج ترقی پائے۔ کیونکہ فیس بک کی تنقید ان تمام اصولوں کو مد نظر نہیں رکھتی جو ایک اعلا اور معیاری تنقید کے لیے لازمی ہے۔ اعلا اور معیاری تنقید کسی گروہ بندی کی قائل نہیں ہوتی اور معروضی انداز میں معروضی انداز فکر اپناتی ہے۔ اپنے ایک مضمون میں ٹی ایس ایلیٹ تنقید کے منصب سے بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ۔ ..
"جب میں تنقید کا نام لیتا ہوں تو یقیناً اس سے یہاں میری مراد تحریری لفظوں کے ذریعہ کسی فن پارے کی تفسیر و تشریح سے ہے نہ کہ ان تحریروں سے جسے میتھیو آرنالڈ اپنے مضمون میں مراد لیتا ہے میں چند معروضات پیش کروں گا۔ ۔
"میں سمجھتا ہوں کہ تنقید کے کسی بھی نمائندے نے یہ لچر مفروضہ پیش نہیں کیا کہ تنقید خود
اپنے اندر ایک مقصد رکھنے والی سرگرمی ہے۔ میں اس بات سے ان کار نہیں کرتا کہ فن اپنے علاوہ بھی کچھ اور مقاصد کا اعادہ کر سکتا ہے لیکن خود فن کے لیے ان مقاصد سے باخبر ہو نا ضروری نہیں ہے اور فن در حقیقت اپنا منصب وہ جو کچھ بھی ہو اقتدار کے مختلف نظریات کے مطابق زیادہ بہتر طریقے پر ان سے بے اعتنائی برت کر ہی انجام دے سکتا ہے۔ بر خلاف اس کے تنقید کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ کسی مقصد کا اظہار کرے جسے سر سری طور پر یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ فن پارے کی توضیح اور اصلاح مذاق کا کام انجام دے اس طرح نقاد کا کام بالکل واضح اور مقرر ہو جاتا ہے اور اس بات کا فیصلہ بھی نسبتاً آسان ہو جاتا ہے کہ آیا وہ اسے تسلی بخش طور پر انجام دے رہا ہے یا نہیں اور یہ کہ عام طور پر کسی قسم کی تنقید مفید ہے اور کس قسم کی مبہم اور بے معنی۔ لیکن اس بات کی طرف ذرا سی توجہ دینے سے ہم دیکھتے ہیں کہ تنقید فائدہ بخش سر گرمی کا ایک سیدھا سادہ باضابطہ دائرہ عمل ہونے کے علاوہ کہ جس سے ظاہر داروں کو فوراً بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ سنڈے پارک کے بحث و مباحثہ کرنے والے حجتی مقرروں سے زیادہ بہتر نہیں ہے جنہیں اپنے اختلافات کا بھی اندازا نہیں ہوتا۔ میرے خیال میں یہاں اس بات کا اقرار کیا جائے گا ایسے موقعے پرخاموشی کے ساتھ باہمی سمجھوتہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ نقاد کو اگر اپنے وجود کا جواز پیش کرنا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی تعصبات اور چکروں سے جن کے ہم سب شکار ہیں نکلنے کی کوشش کرے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ معاملہ اس کے بر عکس ہے تو ہم اس شبہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ نقاد کی روزی دوسرے نقادوں سے انتہائی مخالفت اور تشدد پر منحصر ہے۔ یا پھر اپنے بے معنی جھوٹی انوکھی اور عجیب باتوں پر جن پر وہ پہلے سے کار بند ہے اور جن پر وہ صرف خود مبنی یا کاہلی کی وجہ جما رہنا چاہتا ہے ” (ایلیٹ کے مضامین۔ جمیل جالبی )
ایلیٹ کے مضمون کے اس طویل اقتباس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تنقید سنڈے پارک کا بحث و مباحثہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا علم ہے جس سے ادب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ گویا نقاد ایک ماہر کی حیثیت سے ادب کے بارے میں اپنی رائے دیتا ہے اور تشریح و تفسیر پیش کرتا ہے۔ تخلیق کی تشریح و تفسیر پیش کرتے وقت نقاد کے سامنے کچھ اصول ہوتے ہیں جن کی روشنی میں وہ ادب کا تجزیہ پیش کرتا ہے۔ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ یہ تنقیدی اصول بدلتے ہیں اور تنقید کی نئی دبستان کھل جاتی ہے۔ مگر فیس بک کی تنقید جو ذاتی عناد اور مفاد کی بنیاد پر ہو رہی ہے وہ آنے والے وقت میں ایک بہتر سبق کے طور پر کبھی بھی یاد نہیں رکھی جائے گی۔ اس لئے اب بھی وقت ہے یہاں ہونے والے تبصرے کو ایک قاری کی ذاتی پسند ناپسند کے طور پر ہی دیکھیں ہر کس و ناکس کو نقاد کے منصب پر فائز نہ کریں تو یہ مسئلہ کسی حد تک حل ہو جائے گا۔
٭٭٭