ریت کا صحرا۔۔۔ پیغام آفاقی

جب ریت کا صحرا دیکھ کے ڈر جاتا ہے ادیب کا سینہ بھی

وہ لمحے اکثر آتے ہیں

جب ذہن کے سارے پردے اٹکے اٹکے سے رہ جاتے ہیں

جب شور مچاتی شاخ زباں سے سارے پرندے مر مر کے

گر جاتے ہیں

وہ لمحے اکثر آتے ہیں

جب آوازوں کے پنجر

اپنے سوکھے سوکھے ہاتھ لیے

میرے سر پر چھا جاتے ہیں

اور میں گھبرا سا جاتا ہوں

اک قبرستان کی تنہائی

اک بے معنی خالی رستہ

اور دو پاؤں کی خالی خالی تھکی تھکی سی چاپ

تو اپنے آپ سے بھی ڈر جاتا ہوں

جب ریت کا صحرا دیکھ کے ڈر جاتا ہے ادیب کا سینہ بھی

وہ لمحے اکثر آتے ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے