خاکی ابلیس۔۔۔۔ عبداللہ خان

گٹر کا گندا، بدبو دار، گہرے مٹیالے کا پانی، چہار سُو رواں دواں تھا۔ ، چہار سُو رواں دواں تھا۔۔ ہر کوئی اپنا دامن بچاتا ہوا، کبھی یہاں، تو کبھی وہاں، چھلانگیں لگاتا ہوا چلا جا رہا تھا۔۔ کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ شہر کے بلدیاتی نظام کو کسی کی نظر لگ گئی تھی یا پھر حرام کے مال نے سبھی کو اوندھے منہ سونے پر مجبور کیا ہوا تھا۔۔ کسی کو کسی کی پرواہ ہی نہیں تھی۔۔ کوئی کسی کا پرسانِ حال نہ تھا۔۔ کوئی کسی کا دکھ تکلیف کا درمان نہ تھا، شاید یہ ان صاحبِ اقتدار لوگوں کی سفاکیت ہی تھی کہ جو وہ عوام کو کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر سمجھتے تھے۔۔

ملامت سے بھرے جملے پوری شدت سے شہری انتظامیہ کے دفاتر کی طرف پھینکے جا رہے تھے، لاتعداد دکھی دلوں کی بے شمار لعنتیں، انتظامیہ کے کھاتے میں جمع ہوتی جا رہی تھیں۔۔

شیخ صاحب نماز پڑھنے گھر سے نکلے تو علاقے کے درمیانی راستے کو غلاظت سے بھرا پا کر وہ مغلظات بکیں کہ توبہ ہی بھلی۔۔ چلتے چلتے تمام تر کوششوں کے بعد جب مسجد پہنچے تو نماز کا وقت ہو چلا تھا۔۔ شیخ صاحب نے مجمع پر ایک نظر ڈالی اور امامت کرنے آگے بڑھ گئے۔۔

نماز کے اختتام پر انہوں نے رقت آمیز دعا مانگی۔۔

’’یا اللہ!!! ہم سب کو شیطان کے، ابلیس مردود کے شر سے بچا اور اپنی پناہ میں رکھ میرے مولا، آمین۔ ‘‘

دعا کے بعد شیخ صاحب، مجمع سے مخاطب ہو کر کہنے لگے۔۔

’’میرے بھائیو!!! ہمارے محلے کی یہ حالت جو آج آپ سب دیکھ رہے ہیں۔۔ یہ ان تمام سیاستدانوں کی وجہ سے ہے، وہ اپنی دوغلی چالیں چل کر، بڑے بڑے وعدے کر کے ہم سے ووٹ لیتے ہیں، پھر مکر جاتے ہیں۔۔ آج ہی کی دیکھئے، کل رات سے گٹر کا غلیظ پانی اور کچرا سارے محلے کو آلودہ اور بدبو دار کرتا رہا ہے۔۔ مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔ اب کی بار اگر کوئی ووٹ مانگنے آئے تو ڈنڈے اٹھا کر اس کو اِسی گٹر میں زندہ دفن کر دینا۔ ‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے شیخ صاحب۔۔ لیکن اس مسئلے کا کوئی حل تو بتائیں۔ ‘‘ شیدا حلوائی بولا، جس کی دکان اسی گلی میں واقع تھی، جو گٹر کی بد بو سے ’’معطر‘‘ ہو رہی تھی۔۔

’’حل یہ ہے کہ سب سے پہلے ایک کپڑے پر یہ الفاظ لکھ کر محلے کے سب سے مرکزی حصے پر لگا دئیے جائیں کہ اگر کوئی امید وار ووٹ مانگنے آیا تو اسے زندہ واپس جانے نہیں دیا جائے گا۔۔ اور دوسری بات یہ کہ اب یہ ہم کو خود ہی کرنا ہو گا کہ یہ گٹر میں کیا مسئلہ پیش آیا ہے۔۔ کیوں بند ہو گیا ہے یہ مردود۔ ‘‘

کپڑا لایا گیا اور اس پر جلی حروف میں لکھ کر محلے کے دروازے پر لگا دیا گیا۔۔

اب اِس گٹر میں اترنے کی غرض سے ایک خاکروب کی تلاش شروع ہوئی۔۔ بڑی مشکل سے ایک دبلا پتلا سا خاکروب راضی ہوا۔۔ دو ہزار پر بات طے ہوئی۔۔ خاکروب گٹر میں اترنے لگا۔۔ لیکن پانی اتنا زیادہ تھا کہ وہ اس کے سینے تک پہنچ گیا۔۔ بدبو کی وجہ سے وہ یکدم باہر نکلا اور اپنی سانسیں درست کرنے لگا۔۔

’’لگتا ہے اِس کے آگے والے سوراخ میں کچھ پھنسا ہوا ہے اور وہاں تک مجھے تیر کر جانا ہو گا۔۔ میں پانچ ہزار سے کم میں ڈبکی نہیں لگاؤں گا۔ ‘‘ خاکروب بولا۔۔

اس کی بات سن کر ایک شور امڈ پڑا۔۔

’’بہت زیادہ ہے۔ ‘‘

’’بہت ہی نا انصافی ہے۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ

لیکن تھا وہ بھی بہت ڈھیٹ۔۔ پورے پانچ ہزار پر بات پکی ہونے کے بعد ایک بڑا سا پلاسٹک کا تھیلا لایا گیا، جو اس نے اپنے سر اور منہ کے گرد لپیٹا اور گٹر میں اتر گیا۔۔ سب سانس روکے، دور دور کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔۔ بدبو کی وجہ سے سب نے منہ پر کپڑے لئے ہوئے تھے۔۔ تبھی اچانک گٹر میں ہلچل ہوئی اور خاکروب کے دونوں ہاتھ پانی سے بلند ہوتے چلے گئے۔۔ گٹر سے نکلتے ہوئے وہ خود بھی کچھ ہیجانی کیفیت کا شکار معلوم ہوتا تھا۔۔ اس کے ہاتھوں میں وہ کچھ تھا، جو گٹر کے سوراخ میں پھنسا ہوا تھا۔۔۔۔

باہر نکل کر اس نے اسے زمین پر آرام سے رکھا۔۔ سب نے دیکھا اور ایک دوسرے سے آنکھیں چرانے لگے۔۔ خاکروب بنا مزدوری لئے ایک طرف چل پڑا، شاید وہ ‘‘مادر زاد برہنہ ایک ننھا وجود‘‘ جس کو دنیا میں آنے کے کچھ ہی لمحوں بعد گٹر کے حوالے کیا گیا تھا، اس کے ضمیر کو بہت کچھ دے چکا تھا۔۔

شیخ صاحب کپڑے کے بینر کو اتارنے کا اشارہ کرنے لگے۔۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے