میری عمر بارہ سال تھی۔ میرا لحن داؤدی بتایا جاتا اور نعت خوانی کی محفلوں میں بلایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں شعر و شاعری کے مرض نے بھی مجھے آ لیا تھا، اس لئے اسکول سے بھاگنے اور گھر سے اکثر غیر حاضر رہنے کی علّت بھی پڑ چکی تھی، جس کو میری زندگی کی ذلّت تصور کیا جانا گھرانے کے لئے لازمی تھا۔
میری منگنی لاہور میں میرے رشتے کی ایک خالہ کی دختر سے ہو چکی تھی۔ میرے خالو نے جب میری آوارگی کی داستان سُنی تو سیر و تفریح کے بہانے محترم نے جالندھر سے مجھے ساتھ لیا اور محض سیر و تفریح کا سبز باغ دکھا کر شہر گجرات کے قریب قصبہ جلال پور جٹاں میں پہنچ گئے۔ اصل سبب مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ہونے والے خسر اور فی الحال خالو میرے متعلق اپنے دینی مرشد سے تصدیق کرنا چاہتے تھے کہ آیا وہ بزرگ اُن کی بیٹی کی شادی مجھ جیسے آوارہ سے کر دینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں!
اُن کے قول کے مطابق میں تو اُس وقت اپنے خالو کا چہیتا نعت خواں تھا، مجھے پیش کیا گیا، یہ پُر انوار پیر و مرشد ایک کُہن سال بزرگ تھے۔ ان کے اردگرد مؤدب بیٹھے ہوئے دوسرے شرفاء سے پہلے ہی دن میں نے نعت سنا کر واہ واہ، سبحان اللہ جیسے تحسین آمیز کلمات سنے۔ بعد ازاں یہاں کھانے پینے کے لئے بہتر سے بہتر جو کچھ دسترخواں پر ہوتا، ایک خاص الخاص صوفی نما کارفرما میرے سامنے چُنتا۔ اردگرد کی سیرو تفریح کا انتظام تھا اور ہر روز نماز عشاء کے بعد میلاد کی بزم اور نعت خوانی کا اہتمام گرمی کا موسم تھا، پنکھا جھلنے والے موجود تھے، دو مہینے اسی جگہ گزرے، اس سال ساون سوکھا تھا، بارش نہیں ہو رہی تھی، لوگ بارش کے لئے میدانوں میں جا کر نمازِ استسقاء ادا کرتے تھے۔ بچے، بوڑھے، جوان، مرد و زن دعا کرتے، لیکن گھنگھور گھٹا تو کیا کوئی معمولی بدلی بھی نمودار نہ ہوتی تھی۔ یہ ہے پس منظر، اس واقعہ کا جسے میں عجوبہ کہتا ہوں۔ جسے بیان کر دینے کے لئے نجانے کیوں مجبور ہو گیا ہوں۔
پہلے یہ جان لیجئے کہ وہ محترم بزرگ کون تھے؟ مجھے یقین ہے کہ ان کا خاندان آج بھی جلال پور جٹاں میں موجود ہے۔ ان بزرگ کا نامِ نامی حضرت قاضی عبد الحکیم تھا، اَسیّ پچاسی برس کی عمر تھی۔ دور دور سے لوگ ان سے دینی اور دنیوی استفادہ کی غرض سے آتے تھے، یہ استفادہ دینی کم، دُنیوی زیادہ ہوتا تھا۔ آنے والے اور دو تین دن بعد چلے جانے والے، گویا ایک تسلسل امواج تھا کثرت سوداگروں اور تجارت پیشہ لوگوں کی تھی۔
یہ پیر پرست لوگ پھلوں اور مٹھائیوں کے ٹوکرے بھر بھر کر لاتے، ادب سے عرض معروض کرتے اور دیکھتے کہ پھل قصبے کی مساجد میں تعلیم پانے والے بچوں میں فوراً تقسیم ہو جاتے ہیں۔ یہ حضرات جب واپس جانے کی اجازت چاہتے تو ان کے لئے دعا کرنے والے پیرو مرشد یعنی حضرت قاضی صاحب جلال پور جٹاں کے بنے ہوئے دھُسّے بطور ہدیہ دے کر رُخصت فرماتے۔
چونکہ میری نعت خوانی کے سبب حضرت مجھے بسا اوقات اپنے مصلے کے بہت قریب بٹھائے رکھتے تھے، ایک دن ان کے کسی خاص نیازمند کے استفسار پر میں نے حضرت کا جواب سنا کہ:‘‘بھئی! یہ لوگ تاجر ہیں، دور سے آتے ہیں، واپس جاتے ہیں تو دُنیوی مفاد سے بھی تولتے ہیں، حساب کرتے ہیں تو یہاں آنے جانے اور اپنی کمائی گنوانے کے مقابلے میں دھُسّے ان کو زیادہ وزنی نظر آتے ہیں’’۔
میری طرف دیکھ کر حضرت نے کہا:‘‘برخوردار! تم رسول اللہﷺ کے اسمِ گرامی سے مجھے خوش کرتے ہو، تمہارے لئے میرے پاس بس دعائیں ہی ہیں۔ انشاء اللہ تم دیکھو گے کہ آج تو تم دوسروں کی لکھی ہوئی نعتیں سناتے ہو، لیکن ایک دن تمہاری لکھی ہوئی نعتیں لوگ دوسروں کو سُنایا کریں گے’’
اس وقت بھلا مجھے کیا معلوم تھا کہ سرکارِ دو عالمﷺ کے یہ محب صادق میری زندگی کا مقصود بیان کر رہے ہیں۔ بہرصورت یہ تو ان کی کرامتوں میں سے ایک عام سی بات ہے۔ جس عجوبے کے اظہار نے مجھ سے آج قلم اُٹھوایا، وہ کرامتوں کی تاریخ میں شاید بے نظیر ہی نظر آئے۔
ایک دن حضرت قاضی صاحب کے پاس میں اور اُن کے بہت سے نیاز مند بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن میں میرے خالو بھی تھے۔ یہ ایک بڑا کمرہ تھا اور حضرت مصلے پر بیٹھے تھے۔ ’’السلام علیکم‘‘ کہتے ہوئے کندھوں پر رو مال ڈالے، ساتھ آٹھ مولوی طرز کے معتبر آدمی کمرے میں داخل ہو کر قاضی صاحب سے مخاطب ہوئے۔ قاضی صاحب نے ’’وعلیکم السلام‘‘ اور ’’بسم اللہ‘‘ کہہ کر بیٹھ جانے کا ایما فرمایا۔ ہم سب ذرا پیچھے ہٹ گئے اور مولوی صاحبان تشریف فرما ہو گئے۔ ان میں سے ایک صاحب نے فرمایا
‘‘حضرت! ہمیں ہزاروں مسلمانوں نے بھیجا ہے۔ یہ چار صاحبان گجرات سے اور یہ وزیرآباد سے آئے ہیں۔ مجھے، آپ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر ٹیلر کے ساتھ والی مسجد کا امام ہوں عرض یہ کرنا ہے کہ آپ اس ٹھنڈے ٹھار گوشے میں آرام سے بیٹھے رہتے ہیں، باہر خلقِ خدا مر رہی ہے نمازی اور بے نمازی سب بارانِ رحمت کے لئے دعائیں کرتے کرتے ہار گئے ہیں، ہر جگہ نماز استسقاء ادا کی جا رہی ہے۔ کیا آپ اور آپ کے مریدوں کے دل میں کوئی احساس نہیں ہے کہ یہ لوگ بھی اُٹھ کر نماز میں شرکت کریں؟ اور آپ بھی اپنی پیری کی مسند سے اُٹھ کر باہر نہیں نکلتے کہ لوگوں کی چیخ پکار دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تاکہ وہ پریشان حال انسانوں پر رحم کرے اور بارش برسائے’’۔
مسکراتے ہوئے قاضی صاحب نے پوچھا:‘‘حضرات! آپ فقیر سے کیا چاہتے ہیں؟’’ تو اُن میں سے ایک زیادہ مضبوط جثے کے مولوی صاحب نے کڑک کر فرمایا: ’’اگر تعویذ گنڈا نہیں تو کچھ دعا ہی کرو، سُنا ہے پیروں فقیروں کی دُعا جلد قبول ہوتی ہے‘‘۔
یہ الفاظ مجھ نادان نوجوان کو بھی طنزیہ محسوس ہوئے، تاہم قاضی صاحب پھر مسکرائے اور جو جواب آپ نے دیا، وہ اس طنز کے مقابلے میں عجیب و غریب تھا۔ قاضی صاحب نے فرمایا:‘‘آپ کتوں سے کیوں نہیں کہتے کہ دعا کریں؟’’
یہ فرمانا تھا کہ مولوی صاحبان غضب میں آ گئے اور اور مجھے بھی ان کا غضب میں آنا قدرتی معلوم ہوا، چنانچہ وہ بڑبڑاتے ہوئے اُٹھے اور کوٹھری سے باہر نکل گئے۔ قاضی صاحب کے اردگرد بیٹھے ہوئے نیاز مند لوگ ابھی گم سم ہی تھے کہ مولوی صاحبان میں سے دو جو بہت جید نظر آتے تھے، دوبارہ کمرے میں داخل ہوئے۔ اُن میں سے ایک نے کہا:‘‘حضرت! ہم تو کتے کی بولی نہیں بول سکتے، آپ ہی کتوں سے دعا کرنے کے لئے فرمائیے’’
مجھے اچھی طرح یاد ہے اور آج تک میرے سینے پر قاضی صاحب کا یہ ارشاد نقش ہے‘‘حضرت پہلے ہی کیوں نہ کہہ دیا، کل صبح تشریف لائیے اور کتوں کی دعا ملاحظہ فرمائیے’’۔
مولوی صاحبان طنزاً مسکراتے ہوئے چل دئیے اور میں نے ان کے یہ الفاظ اپنے کانوں سے سنے‘‘یہ صوفی لوگ اچھے خاصے مسخرے ہوتے ہیں’’۔
جب مولوی صاحب چلے گئے تو میرے خالو سے قاضی صاحب نے فرمایا کہ ذرا چھوٹے میاں کو بلائیے۔ چھوٹے قاضی صاحب کا نام اب مجھے یاد نہیں، مہمانوں کی آؤ بھگت اور قیام و طعام کا سارا انتظام اُنہی کے سپرد تھا۔ انواع و اقسام کے کھانے اور دیگیں قاضی صاحب کی حویلی کی ڈیوڑھی اور صحن میں پکتی رہتی تھیں۔ ساتھ ہی ایک چھوٹی سی خوب صورت مسجد تھی، جس میں عشاء کی نماز کے بعد نعت خوانی ہوا کرتی تھی اور میں ذوق و شوق سے یہاں نعت خوانی کیا کرتا تھا۔
پیر صاحب یعنی بڑے قاضی صاحب کو میں نے اکثر دیکھا کہ مسجد میں جب نماز کے لئے صفیں بن جاتیں تو آپ خاموشی سے اپنی کوٹھری سے نکلتے اور نمازیوں کے جوتوں کے قریب ہو کر نماز ادا کرتے، پھر اپنے کمرے میں جا بیٹھتے۔ ہاں میں اپنے بیان سے بھٹک گیا تھا، میرے خالو ان کے چھوٹے بھائی کو لائے تو قاضی صاحب نے ان سے کہا:‘‘میاں کل صبح دو تین سو کتے ہمارے مہمان ہوں گے۔ آپ کو تکلیف تو ہو گی بہت سا حلوہ راتوں رات تیار کروا لیجئے۔ ڈھاک کے پتوں کے ڈیڑھ دو سو دَونے شام ہی کو منگوا کر رکھ لیجئے گا۔ ڈیوڑھی کے باہر ساری گلی میں صفائی بھی کی جائے۔ کل نمازِ فجر کے بعد میں خود مہمان داری میں شامل ہوں گا’’۔
چھوٹے قاضی صاحب نے سرجھکایا، اگرچہ ان کے چہرے پر تحیّر کے آثار نمایاں تھے۔ میرے لئے تو یہ باتیں تھیں ہی پُر اسرار لیکن میرے خالو مسجد میں بیٹھ کر قاضی صاحب کے دوسرے مستقل نیاز مندوں اور حاضر باشوں سے چہ می گوئیاں کرنے لگے کہ کل صبح واقعی کچھ ہونے والا ہے۔
میں نے تین چار کڑاہ حویلی کے صحن میں لائے جاتے دیکھے۔ یہ بھی دیکھا کہ کشمش، بادام اور حلوے کے دوسرے لوازمات کے پُڑے کھل رہے ہیں۔ سوجی کی سینیاں بھری رکھی ہیں۔ گھی کے کنستر کھولے گئے۔ واقعی یہ تو حلوے کی تیاری کا سامان ہیں۔
ناریل کی تریاں کاٹی جا رہی ہیں اور سب آدمی تعجب کر رہے ہیں کہ کتوں کی مہمان داری وہ بھی حلوے سے؟ مُرید لوگ کھُسر پھُسر کر رہے تھے کہ ہم نے تو کتوں کو حلوا کھاتے ہوئے آج تک نہیں دیکھا۔ قاضی صاحب کے بھتیجے، چھوٹے قاضی صاحب کے فرزند جو بعد میں قاضی صاحب کے داماد ہوئے، میرے ہم عمر تھے۔ نام محمد اکرام تھا۔ وہ اس روز شام کو مجھے اپنی زمینوں پر لے گئے۔ دریائے چناب تک قاضی صاحب کی زمینیں پھیلی ہوئی تھیں، بہت سے گھوڑے بھی اُن کی ملکیت تھے، لیکن بڑے قاضی صاحب ہمیشہ یہی فرمایا کرتے تھے کہ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، جو اُنہیں اللہ کے بندوں کی خدمت کے لئے تفویض کی گئی ہیں۔
ہمارے ساتھ ایک درویش بھی تھا، جسے ہماری حفاظت اور نگرانی بلکہ خدمت کے لئے بھیجا گیا تھا۔ ہم نے اس درویش سے پوچھا:‘‘کیا کل واقعی کتوں کی مہمان داری ہو گی اور کیا کتے دعا بھی کریں گے؟’’ میں یہ پوچھتا ہو اہنس بھی رہا تھا، مگر درویش نے ہمیں ہنسنے سے منع کر دیا اور کہا:‘‘کیا کتے خدا کی مخلوق نہیں ہیں؟ سب دُعا کرتے ہیں، خدا سب کی سُنتا ہے’’۔
قاضی صاحب کے بھتیجے نے کہا:‘‘چلو جی! کل ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے’’۔
شام کے وقت ہم زمینوں سے سیر کر کے واپس آ گئے تو دیکھا کہ حلوے تیار ہو رہے تھے۔ صبح ہوئی نمازِ فجر کے بعد میں نے دیکھا کہ قاضی صاحب قبلہ دو تین آدمیوں کو ساتھ لئے ہوئے اپنی ڈیوڑھی سے نکل کر گلی میں اِدھر اُدھر گھومنے لگے، چند ایک مقامات پر مزید صفائی کے لئے فرمایا۔ میری ان گنہگار آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس گلی میں دونوں طرف یک منزلہ مکانوں کی چھتوں پر حیرت زدہ لوگ کتوں کی ضیافت کا کرشمہ دیکھنے کے لئے جمع ہونا شروع ہو گئے تھے اور جلال پور جٹاں میں سے مختلف عمر کے لوگ اس گلی میں داخل ہو رہے تھے۔ وہ قاضی صاحب کو سلام کر کے گلی میں دیواروں کے ساتھ لگ کر کھڑے ہو جاتے اور جانے کیا بات تھی کہ یہ سب اونچی آواز میں باتیں نہیں کرتے تھے۔ کوٹھوں پر عورتیں اور بچے تھے۔ ہم دونوں یعنی قاضی صاحب کا بھتیجا محمد اکرام اور میں مسجد کی چھت پر چڑھ گئے اور یہاں سے گلی میں ہونے والا عجیب و غریب تماشہ دیکھنے لگے۔
درویش طرز کے چند آدمی حلوے سے بھری ہوئی سینیاں لاتے جا رہے تھے اور قاضی صاحب چمچے سے ان دَونوں کو پُر کرتے، پھر دونوں ہاتھوں سے دَونا اُٹھاتے اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر عین گلی کے درمیان رکھتے جاتے۔ جب پوری گلی میں حلوہ بھرے دَونے رکھے جا چکے تو اُنہوں نے بلند آواز سے دَونوں کو گنا مجھے یقین ہے کہ گلی میں دیواروں کی طرف پُشت کئے کھڑے سینکڑوں لوگوں نے قاضی صاحب کا یہ فقرہ ضرور سُنا ہو گا:‘‘کُل ایک سو بائیس ہیں’’۔
یہ کام مکمل ہوا ہی تھا کہ زور زور سے کچھ ایسی آوازیں آنے لگیں۔ جن کو میں انسانی ہجوم کی چیخیں سمجھا مجھے اعتراف ہے کہ اس وقت مجھے اپنے بدن میں کپکپی سی محسوس ہونے لگی میں نے گلی میں ہر طرف دیکھا تو عورتیں، بچے اور مرد گلی اور کوٹھوں سے چیخ رہے تھے۔
کیوں چیخ رہے تھے؟ اس لئے کہ ایک کتا، جس کو جب سے میں یہاں وارد ہوا تھا، حویلی کے ارد گرد چلتے پھرتے اور مہمانوں کا بچا کھچا پھینکا ہوا کھانا کھاتے اکثر دیکھا تھا، بہت سے کتوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے گلی کی مشرقی سمت سے داخل ہوا۔ جو بے شمار کتے اس کے پیچھے پیچھے گلی میں آئے تھے، ان میں سے ایک بھی بھونک نہیں رہا تھا۔ بھونکنا تو کیا، اس قدر خلقت کو گلی میں کھڑے دیکھ کر کوئی کتا خوف زدہ بھی نہ تھا اور نہ کوئی غرا رہا تھا۔ کتے دو دو تین تین آگے پیچھے بڑے اطمینان کے ساتھ گلی کے اندر داخل ہو رہے تھے۔ کتوں کی یہ پُر اسرار کیفیت دیکھ کر ساری خلقت نہ صرف پریشان تھی بلکہ دہشت زدہ بھی، پھر ایسی دہشت آج تک مجھے کبھی محسوس نہیں ہوئی۔
قاضی صاحب اگر اپنے ہونٹوں پر انگشت شہادت رکھ کر لوگوں کو خاموش رہنے کی تلقین نہ کرتے تو شاید گلی میں موجود سارا ہجوم ڈر کر بھاگ جاتا۔ اس گلی والا وہ کتا، جس کا ذکر میں کر چکا ہوں، قاضی صاحب کے قدموں میں آ کر دُم ہلانے لگا قاضی صاحب نے جو الفاظ ادا فرمائے وہ بھی مجھے حرف بہ حرف یاد ہیں۔ فرمایا:‘‘بھئی کالو! تم تو ہمارے قریب ہی رہتے ہو، دیکھو، انسانوں پر اللہ تعالیٰ رحمت کی بارش نہیں بر سا رہے۔ اللہ کی اور مخلوق بھی ہم انسانوں کے گناہوں کے سبب ہلاک ہو رہی ہے۔ اپنے ساتھیوں سے کہو، سب مل بیٹھ کر یہ حلوہ کھائیں۔ پھر اللہ سے دعا کریں اور رحمت اللعالمینﷺ کے صدقے بادلوں کو اجازت دیں تاکہ وہ پیاسی زمین پر برس جائیں’’
یہ فرما کر حضرت قاضی صاحب اپنی ڈیوڑھی کے دروازے میں کھڑے ہو گئے اور میں نے کیا سب ہی نے ایک عجوبہ دیکھا، خدارا یقین کیجئے کہ ہر ایک حلوہ بھرے دَونے کے گرد تین تین کتے جھک گئے اور بڑے اطمینان سے حلوہ کھانا شروع کر دیا ایک بھی کتا کسی دوسرے دونے یا کتے پر نہیں جھپٹا اور نہ کوئی چیخا چلایا جس وقت یہ سب کتے حلوہ کھا رہے تھے، ایک اور عجیب و غریب منظر دیکھنے میں آیا کہ وہ کتا جو اس گلی کا پرانا باسی اور ان تمام کتوں کو یہاں لایا تھا، خود نہیں کھا رہا تھا بلکہ گلی میں مسلسل ایک سرے سے دوسرے سرے تک گھومتا رہا، جیسے وہ ضیافت کھانے والے کتوں کی نگرانی کر رہا ہو یا میزبانی!۔
میں نے اسکول میں اپنے ڈرل ماسٹر صاحب کو طالب علموں کے گرد اسی طرح نگرانی کرتے وقت گھومتے دیکھا تھا۔ کالو کا اندازِ معائنہ بڑا پُر شکوہ تھا، جس پر مجھے اپنا ڈرل ماسٹر یاد آ گیا۔ کیونکہ ہم میں سے کوئی لڑکا ماسٹر صاحب کے سامنے منکتا تک نہیں تھا۔
تھوڑی دیر میں سب کتے حلوہ کھا کر فارغ ہو گئے۔ بے شمار لوگوں کے ہجوم میں سے صرف حضرت قاضی صاحب کی آواز ایک مرتبہ پھر سنائی دی، وہ فرما رہے تھے:‘‘لو بھئی کالو! ان سے کہو کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تاکہ خدا جلد ہی انسانوں پر رحم کرے’’۔
یہ سنتے ہی میں نے غیر ارادی طور پر ایک طرف دیکھا تو کل والے مولوی صاحبان ایک سمت میں کھڑے اس قدر حیرت زدہ نظر آئے، جیسے یہ لوگ زندہ نہیں ہیں۔ یا پھر سکتے کے عالم میں ہیں۔
اب شاید صبح کے نو دس بجے کا وقت تھا، ہر طرف دھوپ پھیل چکی تھی، تپش میں تیزی آتی جا رہی تھی، جب قاضی صاحب نے کالو کو اشارہ کیا، حیرت انگیز محشر بپا ہوا، تمام کتوں نے اپنا اپنا منہ آسمان کی طرف اُٹھا لیا اور ایک ایسی متحد آواز میں غرانا شروع کیا، جو میں کبھی کبھی راتوں کو سُنتا تھا جسے سُن کر میری دادی کہا کرتی تھیں:‘‘کتا رو رہا ہے، خدا خیر کرے’’ آسمان کی طرف تھوڑی دیر منہ کئے لمبی غراہٹوں کے بعد یہ کتے جو مشرقی سمت سے اِس کوچے میں داخل ہوئے تھے، اب مغرب کی طرف چلتے گئے۔ میں اور قاضی اکرام ہی نہیں، جلال پور جٹاں کے سب ہی مردو زن کتوں کو گلی سے رُخصت ہوتے دیکھ رہے تھے اور خالی دَونے آسمان کی طرف منہ کھولے گلی میں بدستور پڑے تھے۔ (یہ دستِ دعا تھے)
جونہی کتے گلی سے نکلے، قاضی صاحب کے ہاتھ بھی دعا کے لئے اُٹھ گئے اور ان کی سفید براق داڑھی پر چند موتی سے چمکنے لگے۔ یقیناً یہ آنسو تھے۔
پس منظر بیان ہو چکا، اب منظر ملاحظہ فرمائیے کیا آپ یقین کریں گے کہ میں جو آج (دسمبر 1970ء میں) ستر برس اور گیارہ مہینے کا بوڑھا بیمار ہوں، خدا اور رسولﷺ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بادل گرجا اور مغرب سے اس تیزی کے ساتھ گھٹا اُمڈی کہ گلی ابھی پوری طرح خالی بھی نہ ہوئی تھی مرد، عورتیں اور بچے بالے ابھی کوٹھوں سے پوری طرح اُترنے بھی نہ پائے تھے کہ بارش ہونے لگی ہم بھی مسجد کی چھت سے نیچے اُترے، پہلے مسجد میں گئے اور پھر حلوہ کھانے کا شوق لئے ہوئے حویلی کی ڈیوڑھی میں چلے گئے۔ دیکھا کہ وہی معتبر مولوی صاحبان چٹائیوں پر بیٹھے ہیں۔ حضرت قاضی صاحب حلوے کی طشتریاں ان لوگوں کے سامنے رکھتے جا رہے ہیں۔ وہ حلوہ بھی کھاتے جا رہے ہیں اور آپس میں ہنس ہنس کر باتیں بھی کر رہے ہیں۔ ایک کی زبان سے میں نے بھی یہ سُنا کہ‘‘حضرت یہ نظربندی کا معاملہ نہیں تو اور کیا ہے؟ جادو نعوذ باللہ’’
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قاضی صاحب قبلہ ان کی اس بات پر دیر تک مسکراتے رہے اور اِن بن بلائے مہمانوں کے لئے مزید حلوہ طلب فرماتے رہے۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور اندر مولوی صاحبان خوشی سے حلوہ اُڑا رہے تھے۔ قاضی صاحب کے جو الفاظ آج تک میرے سینے پر منقوش ہیں، میں یہاں ثبت کئے دیتا ہوں۔ قاضی صاحب نے کہا تھا: ‘‘کتے مل جل کر کبھی نہیں کھاتے، لیکن یہ آج بھلائی کے لئے جمع ہو گئے تھے۔ اللہ کے بندوں کے لئے دعا کرنے کے لئے وہ اتنے متحد رہے کہ ایک نے بھی کسی دوسرے پر چھینا جھپٹی نہیں کی ان کا ایک ہی امام تھا اس نے کھایا بھی کچھ نہیں۔ اب وہ آئے گا تو میں اس کے لئے حلوہ حاضر کروں گا’’
ایک مولوی صاحب نے کہا‘‘حضرت ہمیں تو یہ جادوگری نظر آتی ہے’’
قاضی صاحب بولے‘‘مولوی صاحب! ہم تو آپ ہی کے فتووں پر زندگی گزارتے ہیں۔ خواہ اسے جادو فرمائیں یا نظر بندی آپ نے یہ تو ضرور دیکھ لیا کہ کتے بھی اگر کسی نیک مقصد کے لئے جمع ہوں تو آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں’’
یہ سُن کر مولوی صاحبان جھینپتے نظر آئے۔ مجھے یاد ہے کہ مولوی صاحبان کو بھیگتے ہوئے ہی اس ڈیوڑھی سے نکل کر جاتے ہوئے میں نے دیکھا تھا۔
بخدا یہ عجوبہ اگر میں خود نہ دیکھتا تو کسی دوسرے کے بیان پر کبھی یقین نہ کرتا یاد رہے کہ میں وہی حفیظ جالندھری ہوں، جس کے بارے میں حضرت قاضی صاحب نے جلال پور جٹاں میں ساٹھ سال پہلے فرمایا تھا کہ‘‘حفیظ تیری لکھی ہوئی نعتیں دوسرے سُنایا کریں گے’’۔ الحمد للہ! نعت رسول اللہﷺ یعنی ‘‘شاہنامۂ اسلام’’ ساری دنیا کے اُردو جاننے والے مسلمان خود پڑھتے اور دوسروں کو بھی سُناتے ہیں۔
[زیر نظر قصہ حفیظ جالندھری کی کتاب‘‘نثرانے: حالات و خیالات ’’سے لیا گیا ہے]
٭٭٭