ایک چپ سی کہانی۔۔۔۔ محسن خان

شانتی ہمیشہ کی طرح سج دھج کر نکلی اور شام اپنے اڈّے پر پہنچ گئی … یہ بس اسٹاپ اس کی زندگی کی گاڑی چلانے میں بڑا مدد گار تھا بس دوست تھا … . وہ یہاں کھڑی ہو کر گاہکوں کو ڈھونڈنے لگتی … لیکن بہت دیر ہونے کے بعد جب کچھ نظر نہیں آیا تو وہ پریشان ہو گئی کیوں کہ کوئی گاڑی آج اس کے پاس آ کر نہیں رک رہی تھی اور سب گاڑیاں تیزی سے ایک طائرانہ نظر ڈال کر سڑک سے گذر رہی تھیں … … وہ کچھ دیر کے لیے پریشان ہو گئی کہ ایسا کیا ہو گیا ہے کہ ہفتہ کا دن جب گاہکوں کی اور کار والوں کی بھیڑ ہوتی ہے اور Weekend منانے والے گروپ بھی کئی بار اس کو لے جاتے ہیں اور ہفتہ بھر کام میں مصروف باپو لوگ بھی تبدیلی اور مستی کے لیے ہر ہفتہ آ جاتے ہیں لیکن آج کوئی بھی اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کر رہا تھا اور ٹریفک تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے … ایسے میں اس کو گرمی اور پیاس لگی تو اس نے پاس کی ہوٹل جا کر ایک پانی کا ٹھنڈا بوتل لیا اور چائے کے لیے بیرے کو کہا …

ہوٹل میں موجود لوگ اس کی طرف متوجہ تو ہو رہے تھے لیکن کام کی نظر سے کوئی نہیں دیکھ رہا تھا، وہ پریشان ہو گئی کہ کوئی اس کی طرف کیوں نہیں دیکھ رہا ہے جبکہ وہ ہمیشہ کی طرح بھڑکیلا لباس، چلن کو لاجواب بنانے والی سینڈل، ہاتھ میں فیشن ایبل پرس اور بڑا سا موبائیل اور تیز خوشبو والا سینٹ جو ایک ریگولر گاہک نے دیا تھا جس کی خوشبو اتنی تیز تھی کہ کہ دور دور کھڑے لوگ بھی اس خوشبو کو محسوس کرتے تھے اور اس نے شام ہی کو اپنے بالوں میں تازہ موتیا بہار کا گجرا سجایا تھا جس میں خوشبو اب بھی برقرار تھی اور وہ جب بھی ہوٹل میں داخل ہوتی کاونٹر سے لے کر ویٹر اور ہوٹل میں موجود بوڑھے اور منچلے سب اس کو ترچھی نگاہ سے دیکھتے اور معنی خیز اشارہ بھی کرتے تھے … بس شانتی ہنس کر خاموش ہو جاتی کیوں کہ مال اور کمال جب پھیکا ہو تو توجہ دینا پیٹ پر لات مارنے جیسا ہے اس لیے وہ چائے پی کر اپنے اڈہ پر کھڑی ہو جاتی … ہوٹل کے کاونٹر پر بیٹھنے والا اسے پسند تھا لیکن وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کو اپنے قریب آنے دیں کیوں اس سے کاونٹر پر کام کرنے والے نوجوان کی عزت ہوٹل مالک کی نظر میں گر جائے گی … اور اسے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔۔

لیکن … وہ اب بھی حیران و پریشان تھی کہ آج کیا ہوا ہے … آج سب اندھے کیوں ہو گئے ہیں؟۔۔ وہ آگے بڑھی تو ٹی وی پر دیکھا کہ وزیر اعظم قوم سے خطاب کر رہے ہیں اور سب لوگ خوشی خوشی اس کو دیکھ رہے ہیں … اس نے بھی سنا اور چائے بسکٹ کھا کر بس اڈہ پر آ گئی۔۔۔ وہ سمجھ گئی کہ وزیر اعظم نے جو کل ایک دن کا جنتا کرفیو لگایا ہے اس وجہ سے سب اپنے اپنے گھروں کو بھاگ رہے ہیں اور روزمرہ ضروریات کا سامان خریدنے میں مصروف ہیں … اسے کئی سالوں میں پہلی بار محسوس ہوا کہ لوگوں کے لیے گھر اور بھوک سب سے زیادہ اہم ہیں اور جب تمام چیزیں میسر ہو جاتی ہیں تو وہ اپنے من چاہے شوق پورے کرتے ہیں۔۔

وہ خیالوں میں ڈوب جاتی اگر ایک منچلا اس سے یہ نہ کہتا… ’’اے چھمیا گھر جا، اب آرام کر سالی جنتا کرفیو ہے اور نہ جانے کب تک چلے . چل چل …‘‘ ساری فکریں ایک لمحہ میں کوند گئیں اس وجہ سے موٹی گالی منہ کی منہ میں رہ گئی …

کافی رات تک انتظار کرتی رہی کوئی گاہک نہ ملا۔۔۔ مایوس ہو کر وہ بس اڈہ پر بیٹھ گئی جہاں اسی تھوڑی دیر نیند لگی اور وہ سو گئی۔۔۔ کچھ دیر بعد صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی پولیس کی گاڑیوں کا ہارن اور سیٹیوں کی آواز سے جاگی تو دیکھا ایک کانسٹبل لاٹھی لے کر اس کو گالی دے رہا ہے وہ ڈر سے بھاگ نکلی اور چلتے چلتے اس نے اپنے لیے سواری کا سوچا تو دیکھا کہ جنتا کرفیو کی وجہ سے سڑکیں ویران ہیں اور کوئی آٹو یا کیب نہیں ہے … وہ پیدل چلتے چلتے تھک گئی … اور کئی کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کر کے اپنے ایک کمرے کے مکان پر پہنچی … بستی کے لوگ بالکنیوں میں سے اس کو دیکھ کر طنزیہ فقرے کس رہے تھے اسے بہت دکھ ہوا یہ دکھ دہرا تھا اس میں کل رات کوئی گاہک نہ ملنے کا بھی … .درد کی بہت چبھن محسوس ہو رہی تھی … وہ اپنے کمرے میں پہنچی اور لوٹے سے پانی پیا … تھکن اتنی تھی کہ وہ دروازہ بند کیئے بغیر ہی سو گئی … شام کے وقت اچانک اس کے کانوں میں برتنوں کو پیٹنے کی گونج سنائی دی … . آواز اور شور شرابہ سے آنکھ کھولی تو دیکھا سب لوگ ناچ رہے اور بچے گھرکے برتن لا کر روڈ پر بجا رہے ہیں جس سے کسی موسیقی کے جشن کا سماں بند ھ رہا تھا … کسی گلی میں جلوس نکال رہا ہے تو کہیں ایک ہنگامہ برپا تھا … اسے بھوک محسوس ہوئی وہ بریڈ اور دودھ لینے کرانہ شاپ گئی وہاں دیکھا کہ پھر وزیر اعظم مخاطب ہے … وہ دلچسپی سے سننے لگی … 21 دن کے کرفیو کا سختی سے اعلان کیا گیا اور صرف دن میں ایک فرد کو شام چھ بجے تک بازار سے خریدی کی اجازت تھی جبکہ رات تمام مکمل کرفیو رہے گا … وہ سوچنے لگی کہ اس کتے کے پلے نے چیخ کر سچ کہا تھا … لیکن دھندہ کا کیا؟؟ … … یہ تو رات میں شروع ہوتا ہے … وہ کیا کرے گی؟؟۔۔

چند دن پہلے ہی اس نے دوسری ریاست میں مقیم ضعیف والدین کو پوری رقم روانہ کر دی تھی اور تھوڑے بہت جو پیسے جمع تھے دو دن پہلے اس کی سہیلی نے اپنی بہن کی شادی کے لیئے قرضہ لے لیا تھا اور وہ لالچی نہیں تھی اس کو امید تھی کہ ہفتہ کو پیسے مل جائیں گے اور ہر روز وہ کماتی ہے اس لیے بے فکر تھی … مگر آج اچانک ان حالات کی وجہ سے پریشان ہو گئی … دو تین دن اس نے کسی طرح خاموشی اختیار کی پھر ایک دن وہ بس اسٹاپ پر آ کر کھڑی ہو گئی … وہاں کے مقامی پولیس لوگ اس کو جانتے تھے وہ اس کو دیکھ کر من ہی من ہنس رہے تھے … شاید یہ کہنا چاہتے ہوں کہ ان حالات میں کون آئے گا …!!

وہ روز اڈہ پر جانے لگی۔۔ مگر اُسے کوئی گاہک نہ ملا … وہ بھوکے رہنے پر مجبور ہو گئی کیوں کہ بستی میں جو لوگ امداد دینے آتے پڑوسی لوگ اس کے پیشے کے بارے میں آگاہ کر دیتے جس کی وجہ سے اس کو کچھ نہیں ملتا … وہ خود دار بھی بہت تھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا نہیں چاہتی تھی … اس لیے بھوکا رہنا منظور کر لیا … جب پیٹ کی انتٹریاں چیخنے لگیں تو بس اسٹاپ کے قریب پڑے رہنے والے فقیروں کو حکومت نے اسکیم کے تحت تین وقت مفت کھانا کھلانا شروع کیا تو وہ بھی ان میں شامل ہو گئی … آج اس کو احساس ہو گیا کہ انسان عیاشی تب ہی کرتا ہے جب اس کو تمام طرح کے سکون میسر ہو … اگر نہیں تو کیوں نہیں کوئی بیٹھتا … . میرے پاس …

کھانا پینا ملے … اور دولت بھی ہو … تو بدن تبدیل کرتے ہیں یا بدن تلاش کرتے ہیں … ان حالات میں کوئی کیا سوچے گا جب ان کو، اپنے گھر والوں کے لیے راشن اور دیگر ضروری چیزوں کی پڑی ہے …

شانتی حالات سے مجبور اور گھر کا خرچ چلانے والی ایک آس میں اپنے اڈہ پر روزانہ کھڑی رہتی اس امید کہ ساتھ جلد ہی یہ کرفیو ہٹے گا اور وہ دوبارہ اپنے ضعیف ماں باپ کا سہارا بنے گی … مگر اس آس کو وائرس سے پیدا شدہ حالات نے مار ڈالا … اس پر آج رات نو بج کر نو منٹ پر دیوالی ہونے والی ہے …

پولیس والوں نے ہاتھ میں دئیے دیتے ہوئے اس سے کہا ’’جا اب ادھر مت آ، رات کو دئیے جلا … لے وہ سیٹھ دے گیا سب کے ہاتھ میں …‘‘ اس کے منھ سے بس اِتنا ہی نکلا ’’صاحب ان دئیوں اور میرے دئیے میں تیل کون ڈالے گا … کیونکہ مجھ پر ترس سب کو آتا ہے لیکن کوئی دیا نہیں جلاتا ہے … میں نے پچھلے چند دن اجالوں میں بھی اندھیرے جیسے کانٹے ہیں دیا زندگی کا ہو یا مٹی کا، تیل مانگتا ہے … فکر … . زندگی کا چاک چلاتی بھی ہے اور تھماتی بھی ہے، یہ فکر تھی کہ بچوں کے کھانے کی ذمہ داری نبھائے گئی اور میرے بدن کے لالہ زار سے دوری بنائی گئی … . یہ فکر میرے جینے کی مجھے روز اڈے پر لاتی گئی … کسی کے جینے اور میرے ہر دن مرنے کے درمیان کی ایک اور کہانی ہے … جو گلی والوں کے ساتھ ساتھ پولیس والوں کے چپ چہروں پر ہے …

نہیں کیا … نہیں …

ٹی وی پر خبریں کہنے والوں کے چہرے کی ایک چپ سی کہانی …

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے