ادھر کئی برسوں سے اس خبر کے لیے ہم سب تیّار تھے۔۔ اسرار جامعی کی کسمپرسی اور بے بسی دیکھنا آسان نہیں تھا۔۔ محفلوں کو قہقہہ زار بنانے والا وقت کے ہاتھوں اس طرح طالبِ رحم بن کر تماشائے اہلِ کرم دیکھتا ہوا ملے گا، یہ سب کے لیے صبر آزما تھا۔۔ وہ ایک طویل مدّت تک خبروں میں نظر آتے رہے۔۔ پہلے اس کا رُخ ظریفانہ ہوتا تھا مگر ادھر ایک دہائی سے رہ رہ کر اُن کے سلسلے سے جو اطلاعات آتی تھیں، ان میں بہ قولِ شاعر ’درد و داغ و جستجوے آرزوٗ‘ کی کیفیت بڑھتی چلی گئی۔۔ اب بس قدرت کی آخری مہر کا انتظار تھا جو چار اپریل ۲۰۲۰ء کو وبائے کرونا میں محفوظ ہو گئی۔۔
اسرار جامعی نے ادب میں یوں تو ظرافت کے شعبے کو اپنے لیے منتخب کیا مگر قدرت نے ان کی ذات میں طربیہ کے بجائے المیہ کا حصّہ زیادہ رکھا۔۔ محفلوں کو قہقہہ زار بنانے والا شخص اندر سے اسی طرح نہیں تھا، جیسا وہ ظاہر میں اور محفلوں میں نظر آتا تھا۔۔ مائک پر انھیں دیکھنا جتنا خوش گوار تھا، انھیں قریب سے دیکھنا، سمجھنا، جاننا اسی قدر خود کو سوگوار کر دیتا تھا۔۔ یہ بات صرف اُن کے آخری دَور سے عبارت نہیں ہے۔۔ وہ عنفوانِ شباب کے بعد سے اسی طرح اندر ہی اندر مرتے اور گھُٹ گھُٹ کر جیتے رہے۔۔ مگر کمال یہ کہ کسی کو ایک ذرا احساس بھی ہو جائے۔۔ فراق گورکھ پوری نے کبھی کہا تھا:
زخم ہی زخم ہوں تمام فراقؔ
حقیقت میں اسرار جامعی کی ایسی ہی زندگی تھی۔۔ اندر سے زخموں سے چھلنی مگر باہر سے سجے دھجے اور قہقہہ مہر دوش۔۔ وہ تو کہیے کہ بڑھاپے میں بے وطنی مقدّر ہوئی اور وقت کے ہاتھوں ان کے درد و غم افشاں ہو گئے۔۔ ان کا دکھ دنیا کو معلوم ہو گیا۔۔
اسرار جامعی ایک خاصے سرمایہ دار گھر انے میں پیدا ہوئے۔۔ علم و ادب کی بھی شمع وہاں روشن تھی۔۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اسکول کی تعلیم کے لیے پہنچے اور ذاکر حسین اور پروفیسر مجیب کے قدموں میں پَل بڑھ کر جوان ہوئے۔۔ جامعہ کے بورڈنگ اسکول میں عام بچوں کی طرح پنسل سے ایک روز اپنا نام لکھ رہے تھے اچانک اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین گزرے۔۔ اسرار جامعی گھبرا گئے۔۔ ذاکر حسین نے انھیں پاس بلایا اور بچّے سے کہا دیوار پر لکھے اس نام کو بارش اور دھوپ مٹا دے گی۔۔ کیوں نہیں ایسا کچھ کام کر جاتے ہو جس سے تمھارا نام تاریخ میں درج ہو جائے۔۔ اُسے کوئی نہیں مٹا سکتا۔۔ استاد کا یہ سبق ایسا تھا جس نے بعد میں سیّد محمد اسرار الحق کو ہمیشہ کے لیے اسرار جامعی بنا دیا۔۔ جامعہ کے لاکھوں فارغین ہیں مگر انگلیوں پر گنے جانے والے افراد نے خود کو جامعی کے طور پر دنیا سے روٗشناس کرایا۔۔ اسرار جامعی اِن ہی میں سے ایک دُرِ نایاب تھے۔۔
۱۹۸۱ء کے آغاز میں اسرار جامعی سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔۔ اُس وقت اقبال انسٹی ٹیوٹ قایم کر چکے تھے۔۔ شہرت تو ان کے قدموں میں پہلے تھے۔۔ ادب کے علاوہ طالبِ علموں کی رہائش اور اردو ٹائپنگ انسٹی ٹیوٹ میں ان کی مشغولیت تھی۔۔ اس کا احاطہ اتنا بڑا تھا جس کی اُس وقت کی مالیت بھی کروڑوں کی تھی۔۔ جو ادیب و شاعر اُن سے بے تکلّف تھے، اُن کی خاطر تواضع بھی وہ خوب کرتے تھے۔۔ معلوم یہ ہوا کہ اُن کی جیبیں بھری ہوئی تھیں۔۔ پھر چند برسوں کے بعد میں مستقل طور پر عظیم آباد کا باشندہ ہوا تب اسرار جامعی سے راہ و رسم بڑھی اور پھر اُں کی پلٹتی ہوئی زندگی سامنے آئی اور معلوم ہوا کہ لاکھوں اور کروڑوں میں کھیلنے والے اسرار جامعی دیکھتے دیکھتے سڑکوں پر آ گئے۔۔ خاندانی مقدمہ جات اور جائیداد کی تقسیم میں وہ بے دخل قرار دیے گئے۔۔ اب نہ رہنے کی جگہ تھی اور نہ کوئی ذریعۂ معاش تھا۔۔
چند برسوں تک اِس پریشاں حالی کا استقلال کے ساتھ وہ مقابلہ کرتے رہے۔۔ کئی سو ایکڑ کی خاندانی زمین اور عظیم آباد میں پندرہ بیس کروڑ کی جائیداد کو چھوڑ کر ایک بریف کیس میں اپنے ظریفانہ کلام کو لے کر محض اپنے وطن میں بے آبروٗ ہونے سے بچنے کے لیے اچانک اسرار جامعی دہلی نکل گئے۔۔ معلوم ہوا کہ دہلی ایک مشاعرے کے لیے انھیں مدعو کیا گیا تھا مگر مشاعرے نے ان کی بے بسی کی لاج رکھ لی اور وہ عارضی سکونت کے لیے دہلی میں بسنے لگے۔۔ دیکھتے دیکھتے ۱۹۹۰ء کے بعد اسرار جامعی دہلی کی مجلسوں میں ایک لازمی وجود کی طرح نظر آنے لگے۔۔ صرف مشاعرہ نہیں سے می نار اور دوسری تقریبات میں بھی وہ موجود ہوتے تھے۔۔ دہلی کے دوسرے ادبا و شعرا کی طرح نہیں تھے جن میں صرف کلام پڑھنے یا مقالہ خوانی کے لیے جانے کا رواج تھا۔۔ اسرار جامعی نے اس ماحول میں مشہور و معروف ہونے کے لیے باوجود بہ طور سامع پہنچنے کا ایک سلسلہ قایم کیا۔۔ یہ بھی بتایا کہ ظرافت نگار صرف تماشا دکھانے اور ہنسنے ہنسانے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ وہ ہماری تہذیبی زندگی کا نہایت معقول اور ممتاز حصّہ ہوتا ہے۔۔
عظیم آباد میں اسرار جامعی کی ادبی اور علمی تربیت رضا نقوی واہی کی نگرانی میں ہوئی تھی۔۔ ساتویں دہائی میں وہ محفلوں میں اپنی پہچان بنانے لگے تھے۔۔ ادیبوں، شاعروں کے بیچ رہتے ہوئے ایسے واقعات آئے دن ہونے لگے تھے جن کو ایک مزاح نگار اپنی مخصوص عینک سے دیکھ سکتا تھا۔۔ اس زمانے میں ایک مشہور شاعر باضابطہ طور پر اپنی سسرال میں بسنے کے لیے آ گئے تو اسرار جامعی نے ’خانہ داماد‘ نظم لکھی۔۔ عبد المغنی نے ایک روز عید کے موقعے سے ان کے ساتھ حسب خواہ سلوک نہیں کیا تو انھوں نے ’قتّالِ اعظم‘ نظم کہی اور ان کی تنقید نگاری کو موضوع بناتے ہوئے اس پر وَار کیا۔۔ مطلب یہ کہ اپنے آس پاس کی ادبی زندگی سے انھوں اُسی طرح ادبی تخلیقات پیدا کیں جس طرح ان کے استاد رضا نقوی واہی کرتے تھے۔۔
دہلی کے پہلے قیام کے دوران اسرار جامعی کے کلام میں سیاسی موضوعات کا اچھا خاصا اضافہ ہوا۔۔ انھوں نے ٹاڈا پر جو نظم کہی وہ ان کی حیرت انگیز جرأت کا نمونہ ہے۔۔ اُس دوران ایک اور ادبی سلیقہ مندی ان کے اندر پیدا ہوئی۔۔ وہ ہر محفل میں حسبِ حال قطعات، چھوٹی چھوٹی پرچیوں پر لکھ کر محفل میں موجود چھوٹے بڑے افراد کو باضابطہ طور پر تقسیم کرنے لگے۔۔ بعد میں تو اُسے کمپوز کرا کے اور اس کی سینکڑوں کاپیاں بنا کر وہ اپنی جیب میں رکھتے تھے اور ہر ملاقاتی کو سلام کرنے سے پہلے تحفے کے طور پر اپنی پرچی پیش کر دیتے تھے۔۔ ہر محفل ان قطعات میں اضافے بھی ہوتے تھے۔۔ ملک کا شاید ہی کوئی بڑا اہلِ قلم ہو جو اُن کے طنز سے اور قطعات کا موضوع بننے سے محفوظ رہا ہو۔۔ کون ایسا شہر ہو گا جہاں اسرار جامعی پہلی بار پہنچے ہوں اور مشاعرے میں اس جگہ کی مناسبت سے اُن کی گُل افشانی نہ ہوئی ہو۔۔ موتی ہاری پہنچے تو سوال اُٹھا دیا کہ لفظ موتی کی جنسیت کی پھر سے تحقیق ہونی چاہیے۔۔ شیر گھاٹی پہنچے تو اُسے چنبل گھاٹی سے جوڑتے ہوئے یہ چسپاں کیا:
شیرگھاٹی ہو یا کہ چنبل ہو
اہلِ گھاٹی سے خوف آتا ہے
ان قطعات سے شمس الرحمان فاروقی ہوں یا گوپی چند نارنگ، اخترالواسع ہوں یا وہاب اشرفی کوئی محفوظ نہیں رہا۔۔ وہاب اشرفی نے کسی محفل میں کہا کہ ان کی کتابوں سے ان کے جسم کا وزن کم ہو گیا۔۔ جلد در جلد اور وزن دار کتابوں سے پر اسرار جامعی نے اپنے قطعہ میں یہ پھبتی کسی کہ وہاب اشرفی اپنی کتابوں سے ہلکے ہو گئے۔۔ عبدالمغنی نے اقبال کا نظامِ فن کتاب لکھی تو رسمِ اجرا کے موقعے سے ایک مکالماتی بند پیش کیا اور اقبال کی زبان میں کہلوایا:
جی چاہتا ہے سیکھ لوں اپنا نظامِ فن
۱۹۹۶ء میں دہلی کے قیام کے دوران اسرار جامعی کی پہلی کتاب ’شاعرِ اعظم‘ شایع ہوئی۔۔ ان کی شہرت کے اعتبار سے یہ نہایت مختصر مجموعہ تھا۔۔ پھر ۲۰۰۸ء میں ان کے قطعات کا مجموعہ ’طنز پارے‘ شایع ہوا۔۔ ان کا کلام اس قدر بکھرا ہوا ہے کہ اس سے کئی مجموعے تیار ہو سکتے ہیں۔۔ ان کی زندگی میں اتنی اُتھل پُتھل رہی کہ جس کی وجہ سے اپنے کلام کو جمع کرنے اور شایع کرنے کی باضابطہ تیاری نہیں کر سکے۔۔ ایک شاعرانہ لا اُبالی پن اور قدرت سے حاصل شدہ بے سر و سامانی نے ان کے ادبی کاموں میں بکھراؤ کے عناصر ڈال رکھے تھے۔۔ ان کے پاس ہر زمانے میں ایک بیگ یا بریف کیس ضرور ہوتا تھاجس میں ان کے قطعات اور مطبوعہ، غیر مطبوعہ پلندہ رہتا تھا۔۔ اشاعت پر گفتگو کیجیے تو ان کے پاس منصوبے بھی کم نہیں رہتے تھے۔۔ وہ چاہتے بھی تھے کہ ان کا کلام باضابطہ چھپے۔۔ وہ طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہوتے رہے۔۔ بہار اردو اکادمی نے ایک بار اُن کا مسودہ نامنظور کر دیا۔۔ دوسری بار صفحات کی کمی بیشی کا بہانہ کر کے آخر کار شایع کرنے سے انکار کر دیا۔۔ پہلا مجموعہ دہلی اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شایع ہوا۔۔ اگر اُن کی پرچیاں لوگوں تک بڑے پیمانے پر نہ پہنچی ہوتیں تو واقعتاً اُن کا کلام وقت کے ہاتھوں ضایع ہو جاتا۔۔ اسرار جامعی کو ایک زمانے میں حکومتِ دہلی سے کچھ وظیفہ ملنا شروع ہو گیا تھا مگر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ انھیں فوت شدہ کے خانے میں ڈال دیا گیا اور وہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے پھرے مگر کسی سے چارۂ مرگی نہ ہوئی۔۔ اخباروں میں اس سلسلے سے خبریں تو بہت شایع ہوئیں مگر اسرار جامعی کے حصّے میں دو کوڑی بھی نہ آئی۔۔ جب تک صحت ٹھیک تھی، کچھ مشاعروں سے آمدنی ہو جاتی تھی اور دال روٹی چل جاتی تھی مگر عمر نے جب زور کا وَار کِیا تو وہ نِڈھال اور بے یار و مددگار ہو گئے۔۔ دو چار مہینوں کے لیے کبھی عظیم آباد بھی چلے آتے تھے مگر پھر نئی بے سر و سامانی کے لیے دہلی نکل جاتے تھے۔۔ حقیقت یہ ہے کہ جامعہ کے علاقے بٹلہ ہائوس اور ذاکر نگر کے ادیبوں اور شاعروں اور جناب مشتاق ایڈوکیٹ نے انھیں آخری سہارا دیا اور یہ اچھا ہی ہوا کہ بہ قولِ غالب:
مجھ کو دیارِ غیر میں مارا وطن سے دوٗر
رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی شرم
اسرار جامعی ہمارے بیچ نہیں ہیں۔۔ ان کا بکھرا ہوا کلام جمع کیا جا سکتا ہے۔۔ اقبال کے سلسلے سے ان کی پیروڈیاں مکمل کتاب کے طور پر شایع ہو سکتی ہیں۔۔ ان کے قدر دان بھی کم نہیں ہیں۔۔ وفات اور ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے دہلی ان کا وطنِ ثانی ہے۔۔ یوں بھی دلّی اردو اکادمی نے ہی معاونت کی تھی تب جا کر ان کا پہلا مجموعہ شایع ہوا تھا۔۔ کاش وہیں سے ان کا کلیّات بھی چھپ جاتا اور اسرار جامعی مکمل طور پر ہمارے سامنے آ جاتے۔۔ اہلِ بہار نے ان کے ساتھ حقیقتاً انصاف نہیں کیا اور بہار اردو اکادمی نے بھی انھیں کسی بڑے انعام و اعزاز کے لائق نہ سمجھا۔۔ یہ بوجھ اسرار جامعی اپنے کلیجے میں لے کر گئے۔۔ کوئی بڑی مدد بھی ان کے آخری دور میں نہ کی گئی اور وہ راہیِ ملکِ عدم ہو گئے۔۔
٭٭٭