دو نظمیں ۔۔۔ تنویر قاضی

 

ہاتھی کھلونے کی تشکیک

___________________________

 

سفید ہاتھی

ڈرے مہابت کو

گھُورتا ہے

کھلونا ہاتھی رکھا تھا کمرے کی کارنس پر

ذرا سرکتا، اُٹھاتا پاؤں

پھلانگتا ہانپتا گیا ہے

گلی کی جانب

گھروں میں بچوں کے کھیلنے کے کھلونے دیکھے

تو سارے ہاتھی چنگھاڑتے، روندتے

سڑک روک کر کھڑے ہیں

دبیز دلدل میں

شہر کا منجنیق ڈُوبا ہوا پڑا ہے

فریفتہ ہے

قفس

ابابیلوں کے سجل مرمریں بدن کا

پڑا ہے ماحول ذہن کے بَل شدید زخمی

یہ فیل پا جنگلی ہوا بے لباس کرتی

ہے روح در روح لہر ڈر کی

پہاڑیوں سے ہرے پرندے

ابھی اُڑے ہیں

جلے صنوبر کی راکھ لے کر

ملا کے اُن نو نہال اشکوں کی صاف شبنم

دلوں کا مرہم

ستارا معصوم انکھڑیوں کو دلاسہ دینے

پہنچ رہے ہیں

بنیرے بھرتے اُترتے

ڈھارس کے سبز تعویذ باندھنے کو

قدیم ورثے کے باغ سے غم زدہ کبوتر

٭٭٭

مایوسی کی ایک اور نظم۔۔۔۔۔۔ ۳

____________________________

 

یاس چبُوترا اور کرو اونچا

چھُوئے کنارا

عرش کا

مایوسی پھیلانا جتنی

میر تقی میر اور

ہمارے ناصر کاظمی کی جلتی پوروں

آنکھوں کے ڈوروں میں ہے

مقبوضہ رہنے دیں

شاعروں اور ادیبوں کی اکادمیاں

ایوانوں سے امدادی پیسوں میں اضافہ مت مانگیں

ڈھلوانوں کی پھسلن پر چلتے فنکار

لِکھ کر اپنی جبینوں پر انکار، سرِ محفل آتے ہیں

خوف ضروری ہے بِلی کو شیر بنا دیتا ہے

دھاڑ پنپنے دینا

خون کے دھبوں پر چلتے

پُر اسرار نشان رسائی دیں گے

ظلم کے اَن دیکھے اَن کہے فسانوں تک

نا اُمیدی کی سرسوں میں

سانپ کا گھر ہے

پھیلاؤ میں ڈر ہی ڈر ہے

وہاں پر ایک درخت بنا ڈالا ہے چڑیوں کی چہکار نے

جس کے گھونسلے میں

اک جلتا پر ہے

راکھ اُڑے گی ساتھ ہوا کے گلی گلی

شاید یہ اک اور سیاہ سفر ہے

یا پھر نئی مسافت کا کوئی نامہ بر ہے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے