غزلیں ،۔۔ شاہین

 

 

دل لہو ہے نہ مری آنکھ تر افسوس نہیں

اک خلش سی ہے کہیں کچھ مگر افسوس نہیں

 

اپنے پس ماندگاں میں ہوں فقط میں باقی

اب کوئی بھی جو نہیں نوحہ گر افسوس نہیں

 

سرگرانی تھی مکینوں میں در و بام کے بیچ

اب جو کم کم ہے غمِ بام و در افسوس نہیں

 

اپنے بچوں کی خوشی چھوت کا آزار سہی

ہاتھ پکڑے ہوئے جاؤں جدھر افسوس نہیں

 

منزلِ شوق تک آ ہی گئے ہم تم آخر

طے ہوا بے سر و ساماں سفر افسوس نہیں

 

دشمنی کر کے وہ بے چَین رہا ہائے غریب!

دوستی اب بھی ہے میرا ہنر افسوس نہیں

 

ڈھیریاں بھی تو ہیں یہ اپنے ہی خار و خس کی

اب جو فتنہ ہے مرا ہی شرر افسوس نہیں

 

حوصلہ میری اکھڑتی ہوئی سانسوں کا تھا

بے زرہ جسم کی پس پائی پر افسوس نہیں

 

اتنے دل شعر میں شاہین دھڑکتے ہیں مرے

ٹوٹ جائیں بھی کچھ اِن میں اگر افسوس نہیں

٭٭٭

 

 

(وبائی شب و روز کی نذر)

 

گھر کہ تبدیل ہوئے جاتے ہیں زندانوں میں

اب تو ملتے نہیں دیوانے بیابانوں میں

 

عِلم آوارۂ وحشت ہے دبستانوں میں

حرفِ دل سر بگریباں ہے سخن دانوں میں

 

کسی آہٹ پہ گماں تک نہیں دلداری کا

رسمِ ماتم بھی ہے موقوف عزا خانوں میں

 

خیر مقدم ہوا یوں ختمِ سفر پر اب کے

آ کے شامل ہیں قرنطین کے مہمانوں میں

 

ڈر ہے تنہائی نہ طوفان کا، بس جھومتا ہے

شاخ پر ایک ہی پتّا ہے نگہبانوں میں

 

دل کو آباد کئے رکھتا ہے دل میں ترا غم

جیسے ریوڑ کوئی پامیر کے میدانوں میں

 

اب تو دن رات کا پیمانہ ہے قہوے کا سرور

روشنی دل کی بھری ہوتی ہے فِنجانوں میں

 

اعتبارِ غمِ ہستی بھی ہمیں تھے شاہین

ہم کہ شاید تھے یہاں آخری نادانوں میں

٭٭

 

پامیر میں جسے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے دل کے معاملات مویشیوں کی قسم اور تعداد سے طے ہوتے ہیں۔ (بحوالہ نیشنل جیوگرافک، فروری ۲۰۱۳ء)

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے