غزل ۔۔۔ نجمہ ثاقب

 

چھتوں پہ بازو دراز کر کے لہو سے اپنے بنا کے گارا

میں باپ تھا سو پسر کی خاطر بنا میں رکھا وجود سارا

 

لہو گرے گا تو خاک ٹپکے ہوئے لہو کا حساب لے گی

اسی لے تو مرے عدو نے مجھے سمندر میں لا اتارا

 

میں اپنے پرچم کی دھجیوں کو اٹھا کے دشمن کی راہ لوں گا

غنیم کی صف میں جا کے اس کی سپاہ کر دوں گا پارہ پارہ

 

جہاں کہو گے وہاں رکوں گا، جہاں چلو گے وہیں چلوں گا

مگر یہ مشکل ہے لا کے رکھوں تمہارے ہاتھوں پہ چاند تارا

 

میں ہجرتوں کے سفر سے واپس چلا بھی آیا تو یاد رکھنا

نئی زمینوں کی چاہ مجھ کو اٹھا کے لے جائے گی دوبارہ

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے