غزل ۔۔۔ جمشید مسرور

 

ہوتا ہے زندگی کا دبے پاؤں گھومنا
ہونٹوں پہ تشنگی کا دبے پاؤں گھومنا

دیکھا ہے میں نے اور سمندر نے ایک ساتھ
ساحل پہ چاندنی کا دبے پاؤں گھومنا

کھو جانا بے نیازیئ پوشاک و شاک میں
پھر ریت پہ سبھی کا دبے پاؤں گھومنا

جُگنو بُجھا سکی نہ کبھی شام کی ہوا
جنگل میں روشنی کا دبے پاؤں گھومنا

وہ اک وفور سبزہ سے تاریک باغ میں
شب بھر کبھی کبھی کا دبے پاؤں گھومنا

تعمیر ریگزار ہو جیسے وہ گُلبدن
گرد اُس کے ہر کسی کا دبے پاؤں گھومنا

جیسے پُکارتا ہو پُجاری کو رات بھر
مندر میں مورتی کا دبے پاؤں گھومنا

جاری ہے مُدتوں سے مرے دل کے آس پاس
اک لمس مُلتوی کا دبے پاؤں گھومنا

وہ سیر شب کے بھید لیے ابر و باد میں
اصنام آزری کا دبے پاؤں گھومنا

مصر قدیم میں کہیں شہزادیوں کے ساتھ
مُجھ ایسے سامری کا دبے پاؤں گھومنا

بننے لگا شماتت ہمسایہ کا سبب
راتوں کو اک پری کا دبے پاؤں گھومنا

جمشید دُوب پر وہ ہمارا قیام شب
بے خواب نغمگی کا دبے پاؤں گھومنا
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے