سید محمد اشرف کی کہانی روگ کے پاگل ہاتھی اور لکڑ بگھا اور مردے کا سکسر ۔۔۔ مشرف عالم ذوقی

’’ہاں سرکار۔‘‘ وہ رو رہا تھا۔ مرتے مرتے رو رہا تھا۔ گاؤں والے کہہ رہے تھے کہ جنگلی جانوروں کو انہوں نے کبھی روتے نہیں دیکھا، میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سرکار وہ مر رہا تھا، اس کا سینہ زور زور سے ہل رہا تھا اور آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار بے آواز بہہ رہی تھی۔‘‘
کپتان پولیس کرسی سے اٹھے، میز پر چڑھے اور چاروں ہاتھوں پیروں سے میز پر کھڑے ہو کر چھت کی طرف گردن اٹھا کر زور زور سے رونے لگے۔
—لکڑبگھا رویا (سید محمد اشرف)

ایک گھنا جنگل ہے۔ جنگل کی طرف جاتی ہوئی ایک گاڑی ہے۔ گاڑی پر شیشے چڑھے ہیں۔ اور اچانک گاڑی کو چاروں طرف سے پاگل جنگلی ہاتھی گھیر لیتے ہیں۔ چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا۔ گھنا جنگل اور باہر جنگلی ہاتھی۔ جائیں تو کہاں جائیں؟ یہ سید محمد اشرف کی کہانی روگ ہے۔ روگ یعنی پاگل ہاتھی۔
وہ لکڑ بگھا بھی تھا، پاگل ہاتھی بھی۔ ایک مٹی کی ہنڈیا تھی۔ مٹی کی ہنڈیا میں تیل رکھ کر کبھی وہ اپنے جسم کی مالش کرتا۔ کبھی ہنڈیا میں تیزاب رکھ کر ہوا میں اچھال دیتا۔ اور دیر تک میز پر چڑھ کر اور چاروں ہاتھوں پیروں سے میز پر کھڑے ہو کر چھت کی طرف گردن اٹھا کر زور زور سے لکڑ بگھے کی طرح رونے لگتا۔ پھر ایک دن لکڑ بگھا کو احساس ہوا کہ اب روگ یعنی پاگل ہاتھوں کی بھی ضرورت ہے۔ اور یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندوستان کے جمہوری نقشے پر لکڑ بگھے اور پاگل ہاتھیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔
کمال کا لکڑ بگھا تھا۔ اشارہ ہوا۔ سنجیو بھٹ غائب۔ اشارہ ہوا، ڈاکٹر ایوب غائب۔ اشارہ ہوا۔ ڈاکٹر کفیل غائب۔
مجھے کہانیوں کے شہنشاہ سید محمد اشرف کی کہانی روگ یاد آ رہی ہے۔ گاڑی کو گھیر کر پاگل ہاتھیوں کی فوج کھڑی ہے۔ اس گاڑی میں جو لوگ ہیں، ان کو پہچاننا مشکل نہیں ہے۔ اندھیرے کی شناخت بھی مشکل نہیں کہ ملک اندھیرے میں گم ہے۔ اور پاگل ہاتھیوں کے جھنڈ کو سمجھنے میں بھی کوئی دشواری نہیں۔ ان میں ایک بھوگی ہے۔ دنیا کا بھوگ لگانے والا۔

وہاں آگ جل رہی تھی۔ بہت سے مردے تھے اور ان کے درمیان ایک بھوگی تھا۔
بھوگی؟
بھوگی کہو یا تانترک۔ مردار کھانے والے تانترک۔ مگر اس دن پانسہ پلٹ گیا۔ اور یہ حقیقت میں ہوا۔ میں دیکھ سکتا تھا اور سب کچھ واضح تھا۔ کرکٹ گراؤنڈ تیار تھا۔ مردے نے سکسر مارا اور بال گراؤنڈ سے باہر بیٹھے بھو گی کے ٹھیک سر میں لگی۔ خون بہا مگر اتنا خون پھر بھی نہیں بہا جتنا کہ اس نے بہایا تھا۔
— وہی بھوگی نا؟ جس نے کہا تھا کہ مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر ریپ کرو۔
ہاں، مگر یہ قصّہ پرانا ہے۔
قصّہ پرانا نہیں ہوتا۔ وہ دیکھو۔
لیکن میں کیا دیکھ رہا تھا۔ ایک بڑی سی مٹی کی ہنڈیا۔ ایک سرخ ناک والا جوکر۔ ایک گائے۔ دیوار پر گوبروں کی قطار اور ان کے درمیان بھو گی کے رمیانے کی آواز۔
شعلوں کے درمیان ایک آواز تھی جو فضا میں تیر رہی تھی۔ اردو۔ مسلمان۔ اس ملک میں ضرورت ہی کیا ہے؟ کشمیر سے بھی اردو ختم۔ ڈوگری، ہندی، انگریزی سرکاری زبانیں۔ اردو کہیں نہیں۔ کیا اب بھی یہ جھوٹ ہے کہ ۲۰۱۵ سے ۲۰۲۰ کے درمیان ایک پستہ قامت مجسمہ نے طے کیا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ مسلمان ہی نہ ہوں گے تو اردو رہ کر کیا کرے گی؟
یہ اردو اور مسلمان کہاں سے آ گئے؟
اہ۔ وہیں سے، جہاں سے لکڑ بگھا آیا۔ پاگل ہاتھی آئے۔ مٹی کی ہنڈیا ائی۔ تیزاب آیا۔ خون کی بارش کرنے والا، سرخ ناک والا جوکر آیا۔
وہ اردو بولنے والا مردہ تھا۔ فرض کی ادائیگی کو ایمان سمجھتا تھا۔ لیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ مردے چلا نہیں کرتے۔ بولا نہیں کرتے۔ مردے کسی کی مدد بھی نہیں کرتے۔ پاگل تھا وہ۔ سکسر مار دیا، وہ بھی اس وقت جب ایک اسپتال میں معصوم بچے بغیر آکسیجن کے مر رہے تھے۔ سکسر مارنا تھا کہ دھوم مچ گئی۔ کچھ دیر کے لئے میڈیا کو بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کرے۔ قبر میں دفن ضمیر کچھ دیر کے لئے باہر آ گیا۔ وہ راتوں رات مسیحا بن گیا۔
ٹھیک یہی وقت تھا جب شمسان کے اندھیرے میں، جلتی ہوئی چتا کے شعلوں کے قریب اس بھوگی نے اواز سنی۔ مسیحا صرف تم ہو۔ کوئی مسلمان مسیحا کیسے ہو سکتا ہے۔ ہاں، کیسے ہو سکتا ہے؟
اس نے سکسر مارا ہے۔
میں اسے کیچ آؤٹ کروں گا۔
مگر کیسے؟
ایسے۔
اس نے مسیحا کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ مسیحا کا جرم ثابت ہو گیا۔ مسلمان ہمدردی نہیں دکھا سکتے۔ مسلمان ہمدردی دکھائیں تو یہ جرم ہے۔
اس کی داڑھی بڑھ گئی تھی۔ اس کے بیان کو اشتعال انگیز قرار دیا گیا تھا۔ مگر درمیان میں عدالت کی عمارت آ گئی۔ چھوٹی عمارت۔ کہا گیا، یہ مسیحا ہے۔ رہا کرو۔ بیان اشتعال انگیز نہیں تھا۔ بیان میں محبت کی خوشبو تھی۔
نا۔ بھوگی کو یقین نہیں تھا۔
ہم وہی کریں گے جو بھوگی کہیں گے۔ ڈی ایم نے کہا۔
چھوٹی عمارت کو اپنے وجود کا احساس تھا۔ یہ فیصلہ کوئی عجلت میں لیا گیا فیصلہ نہیں تھا۔ بڑی عمارت تک پہنچنے کی باری نہیں آئی۔ نیم شب اس کی رہائی کے پروانے پر دستخط ہو گئے۔ وہ گھر آیا تو دنیا بدل چکی تھی۔ ایک ننھا بچہ جس کو وہ بستر پر چھوڑ کر گیا تھا، اب چلنے لگا تھا۔ اب وہ ایک باپ تھا۔ بیٹوں کے ساتھ کھیلتا ہوا۔ ہنستا مسکراتا ہوا۔ مگر وہ واقف ہے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ اسے سیاسی پارٹی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس کا بیان آیا تھا، کہ پاگل ہاتھی اس کا انکاونٹر کر سکتے ہیں۔
وہاں آگ جل رہی تھی اور بہت سے مردے تھے۔ ایک مردہ میں بھی تھا۔
اور میں مردوں کے درمیان گھرا سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ کفیل مسیحا بنے۔ غائب کر دئے گئے۔ ڈاکٹر ایوب نے اخبار میں مسلمانوں کو متحد کرنے کے ارادے سے ایک اشتہار دیا اور غائب کر دے گئے۔ بہت کچھ غائب ہو رہا ہے۔ جمہوریت کی فصیل، سیکولر ازم کی کشتی، یہاں تک کہ جادو کے زور سے بحر الفت کو غائب کرنے والے بھی موجود ہیں۔ محبت غائب۔ اتحاد کی بانسری غائب۔ مجھے کچھ کچھ یاد آ رہا ہے۔ آزادی کے بعد کا یہ منظر پس منظر میرے لئے بھی نیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے لکھنؤ میں ایک نوجوان ابھی شیک مشرا نے ٹیکسی بک کرائی اور جب معلوم ہوا کہ ڈرائیور مسلمان ہے تو اپنی بکنگ کینسل کرا دی۔ ابھیشک وشو ہندو پریشد کا ممبر تھا۔ ایسے واقعات اب ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ لکڑ بگھے نے کہا۔ آپ مسلمان ہیں تو کرایے دار نہیں ہو سکتے۔ بہت سی کالونیوں میں کرایہ دار کی حیثیت سے مسلمانوں کا داخلہ تک ممنوع ہے۔ دادری میں فساد ہوا تو مسلمانوں کو دادری چھوڑنے کے لیے کہا گیا۔ یہی بات مظفر نگر میں ہوئی۔ کاس گنج، کانپور میں مسلمانوں نے جمہوریت کا جشن منانا چاہا تو زعفرانی بریگیڈ کو مسلمانوں کی حب الوطنی راس نہیں آئی۔ جمہوریت کے جشن میں شامل ہونے کا انعام یہ ملا کہ مسلمانوں کی گرفتاری ہوئی۔ ملک کی محبت کا مارا زعفرانی بریگیڈ شمبھو لال تو ہیرو ہی بن گیا۔ وہ ایک مسلمان کو دھوکے سے جنگل میں لے گیا۔ ہلاک کیا۔ لاش کے ٹکڑے کیے۔ پھر لاش کو جلا دیا اور اس کا با ضابطہ ویڈیو بنا کر انٹر نیٹ پر وائرل کیا۔ اس کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی۔
لکڑ بگھا جمہوریت کے نقشہ پر سوار لگاتار ہنس رہا تھا۔ مگر کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ در اصل لکڑ بگھا رو رہا ہے۔ لیکن میں یہ سب کیوں یاد کر رہا ہوں۔ ان واقعات کا سچ صرف ایک ہے۔ آپ مسلمان ہیں تو مجرم ہیں۔ آپ مسلمان ہیں تو زعفرانی تنظیمیں آپ سے دیش بھکتی کی امید نہیں کر سکتیں۔ آپ مسلمان ہیں تو اپنی حد مقرر کیجئے۔ جب آٹھ برس کی بچی آصفہ کی عصمت دری کا واقعہ مندر میں پیش آتا ہے تو بار کونسل جلوس نکالتا ہے۔ جس میں عورتیں بھی ہوتی ہیں اور بیان جاری ہوتا ہے ملزمین ہندو ہیں تو ان کے لئے سب جائز ہے۔ آصفہ کی عصمت دری اور قتل بھی جائز۔ وہ تو اچھا ہوا کہ جمہوریت کا تحفظ کرنے والے، ایسے لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، ورنہ ان لوگوں نے جرائم اور عصمت دری جیسے حادثوں کو بھی ہندو مسلم خانوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ محمد اخلاق، پہلو خان جیسے لوگ اس لئے مارے گئے کہ مسلمان تھے۔ گوری لنکیش، گووند، دابھولکر جیسے لوگ اس لیے ہلاک کیے گئے کہ سیکولر ذہن کے مالک تھے۔ کچھ لوگوں کو جنتی نفرت مسلمانوں سے ہے، اسے سے کہیں زیادہ ان سیکولر دانشوروں سے ہے۔ اور لکڑ بگھا غائب غائب کھیل رہا ہے۔
اس نے کہا۔ ملک میں ہر دن نفرت کی نئی نئی مثالیں سامنے آ رہی ہیں۔۔ میں بھول گیا تھا کہ میں پیشے سے ڈاکٹر ضرور ہوں لیکن کچھ عناصر نے اب پیشے کو بھی ہندو اور مسلمان میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک کہانی سنو گے۔
میں راضی تھا۔ ہاں سناؤ
ڈاکٹر نے لکڑ بگھے کے رونے کو یاد کیا اور کہانی شروع کی۔
وہ ٹوئیٹر پر کچھ بھی لکھتا، طوفان آ جاتا۔ اس کے ٹوئیٹ پر لکڑ بگھے اور روگ دونوں کی نظر تھی۔
لکڑ بگھے نے کہا۔ اس کے لکھنے سے طوفان آ جاتا ہے۔
روگ نے کہا۔ ہم لکھنے نہیں دیں گے۔ کسی مسلمان کو۔ وہ مسلمان کہتے کہتے چپ ہو گیا۔
ایک دن ٹوئیٹ کرنے والے کو مستی سوجھی۔ اس نے لکھا۔ اس چہرے سے۔ ہاں، بس اتنا ہی لکھا، اس چہرے سے۔ اور ٹوئیٹ کر دیا۔
لکڑ بگھے نے ٹوئیٹ پڑھا۔ یہ تو ہمارے بارے میں ہے۔ اس چہرے سے۔ مطلب۔ خنزیر کے چہرے سے؟ شیطان کے چہرے سے؟
پاگل ہاتھیوں نے کہا۔ اسے روکنا ہو گا۔ بڑی عمارت سے صلاح لی گئی۔ آئی ٹی سیل کی لومڑی بھی بولی۔ اسے روکنا ہو گا۔
اس کو پھر مستی سوجھی۔ چار دن بعد اس نے ٹوئیٹ میں لکھا۔ قتل۔ بس اتنا ہی لکھا۔
لکڑ بگھے، ہاتھی، لومڑی کی میٹنگ ہوئی۔ فیصلہ ہوا، اب سزا سنانے کا وقت ہے۔ پہلے اس نے لکھا۔ اس چہرے سے۔ اب قتل۔ یعنی ہمارا قتل ضروری ہے۔
جانور ننگے بادشاہ یعنی ننگی تنظیم کے سر براہ بھالو سے ملے۔ حکم صادر ہوا۔ انکاؤنٹر۔ اس سے پہلے کہ ہنڈیا کا تیزاب ختم ہو جائے۔
ڈاکٹر نے میری طرف دیکھا۔ آہ بھری۔ آپ کچھ لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ پھر جانتے ہو کیا ہوا؟
نہیں۔
لکڑ بگھے نے ٹوئیٹ کیا۔ دس لاکھ ڈس لائیک آ گئے۔ لائیک، ڈس لائیک کا آپشن دوسرے دن بند ہو گیا۔
مجھے اس وقت یہ دنیا لکڑ بگھوں کی دنیا لگ رہی تھی، جو آسمان کی طرف سر کیے رو رہے تھے۔
ڈاکٹر نے اس سلوک کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا کہ سورج مغرب سے بھی طلوع ہوتا ہے۔ کچھ تاجروں کی طرف سے یہ بیانات بھی آئے تھے کہ ہم مسلمانوں کو سودا نہیں دیں گے۔ مسلمانوں کو راشن نہیں دیں گے۔ گھر نہیں دیں گے۔ مسلم ڈرائیور کو برداشت نہیں کریں گے۔ یہ ملک کا نیا نظام ہے جس کو ڈاکٹر بھول کر اسپتال میں بچوں کو آکسیجن دینے کا کام کر رہے تھے۔ بھوگی نے ایک مسلمان کو زیرو بنانے کے لیے سیاست کے سارے ہتھکنڈے اپنا لیے۔ الزام لگایا۔ جیل میں بند کیا اور ڈاکٹر کو مسلمان ہونے کی ایسی سزا دی جس کا تصور کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک برس قبل جیل میں بند ڈاکٹر نے ایک لرزا دینے والا خط بھی لکھا تھا۔ خط میں ہندوستانی مسلمانوں کو تہ تیغ کیے جانے کی داستان بھی لکھی تھی۔ یہ خط صرف ایک ڈاکٹر کا نہیں تھا، یہ پہلو خان، محمد اخلاق، یا پچیس کروڑ کی آبادی میں شامل کسی بھی مسلمان کو خط ہو سکتا ہے۔۔ جن لوگوں نے اسپتال میں آکسیجن کی فراہمی معطل کی تھی،۔ وہ ضمانت پر رہا ہو گئے۔ جنھوں نے مشکل وقت میں بچوں کی جان بچانے کی کوشش کی وہ سلاخوں کے پیچھے چلے گئے۔ ڈاکٹر کے لیے جو آوازیں اٹھیں، وہ سیکولر آوازیں تھیں۔ یہ سیکولر، جمہوری قدروں کے محافظ در اصل ہماری دو طاقت ہیں جو مسلسل ہمارے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ پاگل ہاتھوں کی جماعت اس ملک میں اچھا کام کرنے والوں کو مذہب کے خانے میں ڈال رہی ہے اور مسیحا کو مسلمان بنا رہی ہے۔
اس کی داڑھی بڑھ گئی ہے۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے اس نے موت کا عکس دیکھا ہے۔ سانپ کی طرح بل کھاتی، سرسراتی ہوئی موت۔ لیکن اس نے حوصلہ نہیں کھویا ہے۔ وہ دوبارہ جنگ کے میدان میں ہے اور وہ جانتا ہے بگ برادر کی خوفناک آنکھیں اسے اب بھی دیکھ رہی ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ ایک راستہ سیاسی پارٹی سے ہو کر جاتا ہے۔ وہ خوفزدہ بھی ہے اور طاقتور بھی۔
سلسلۂ روز و شب تارِ حریرِ دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
توہے اگر کم عیار میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات موت ہے میری برات
جہاں برات موت ہو وہاں ایک کچھار نظر آتا ہے۔ نکلا ڈکارتا ہوا ضیغم کچھار سے۔
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات
آنی وفانیں تمام معجزہ ہائے ہنر
کارِ جہاں بے ثبات !کار جہاں بے ثبات
اور وہ آیا۔ اسے قید میں ڈالا گیا اور اس نے پوچھا۔ کیا ہم ایک ایسی گھٹن اور غلامی کا شکار نہیں، جہاں سارے راستے بند ہیں اور اس کے باوجود ہم میں سے بیشتر لوگ سکون اور سہولت پسند زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیوں؟ اس نے پوچھا حالات کا جبر ہمیں کب تک سہنا ہو گا؟ ایک ایسا نا خدا جس نے ہر اس شخص یا حکمران سے دوستی کی جو مسلم مخالف ہے۔۔ اسرائیل، امریکہ کے بعد یہ سلسلہ روہنگیا سے آگے بھی قایم ہے اور یہ سلسلہ کیا آگے بھی اسی طرح چلتا رہے گا؟ اس نے پوچھا۔ یاد کرو۔ جب روہینگیائی مسلمانوں کو نوبل انعام یافتہ حکمران کے اشاروں پر ملک بدر اور ہلاک کیا جا رہا تھا، ہمارے محافظ نے اس حکمران سے ملنے کے لئے یہی وقت مقرر کیا تھا۔ جب معصوم بچے، جوان نا بالغ لڑکیوں کی عصمت لوٹی جا رہی تھی، جب توپ کے گولوں سے انھیں اڑایا جا رہا تھا،۔ ایک خفیہ میٹنگ میں در بدری کے فرمان کی حمایت کی جا رہی تھی۔ جب اسرائیلی فتنہ فلسطین پر موت کی بارش کر رہا تھا، جب امریکی حکمران ٹرمپ مسلم ممالک پر پابندیاں عاید کر رہا تھا، ہمارے نا خدا ان حکمرانوں سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کر رہے تھے۔ اس نے پھر پوچھا۔ کیا اب بھی یہ خیال یا یہ سوچنا دشوار ہے کہ ہمارے نام نہاد نا خدا ہم سے انتقام کی سیاست کر رہے ہیں۔
اس کی آنکھیں نم تھیں۔ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ سچ بولنے والی گوری لنکیش کی زبان خاموش کر دی گئی۔ ایسے لوگوں کے نام موت کے فرمان جاری کر دیے گئے۔ لیکن کچھ لوگوں میں جرات تھی۔ بولنے کا حوصلہ تھا۔ موت کو گلے لگانے کی آزادی تھی۔ یہ آزادی اس لئے حاصل تھی کہ ان لوگوں نے ذہنی غلامی پر حق بات کو فوقیت دی تھی۔ آہ۔ اس نے آہستہ سے کہا۔ یہ وہ لوگ تھے جو ہمارے لئے بھی لڑتے رہے۔ ہمارے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا جواب دیتے رہے۔ لیکن ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم میں جرات اور حوصلے کی کمی کیوں ہے؟ اس نے کہا، اپنی قوم کا تجزیہ کرتا ہوں تو ایک سوئی ہوئی بد قسمت قوم کا تصور سامنے آتا ہے۔ قدیم مصر کی کہانیوں میں مردہ جسم محفوظ کو ممی میں محفوظ کرنے کی کہانیاں آپ نے بھی پڑھی ہوں گی۔ اہرام کی تعمیر کے عظیم دور میں یہ رسم تھی کہ ہرم کے وسط میں فرعون کی لاش ایسے کمرے میں رکھتے جسے ایک چٹان تراش کر بنایا جاتا۔ لاش دفناتے وقت مختلف رسومات ادا کی جاتیں۔
اس نے کہا، خیال آتا ہے کہ وقت اور حالات نے ہمیں انہی چٹانوں کے حوالے کر دیا ہے۔ ہم زندہ ممی ہیں۔ محافظ حکمرانوں نے مسلسل اذیت کے بعد ہمارے مردہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ آخری رسومات ادا کی جا چکی ہیں۔۔ لیکن نہیں۔ اب مردوں کو سکسر مارنا ہو گا۔ لکڑ بگھوں اور پاگل ہاتھیوں سے ٹکرانا ہو گا
جو نہیں سوچتے / جو نہیں بولتے۔ وہ مر جاتے ہیں۔
اس نے کہا، ہم مردہ نہیں ہیں۔
مردہ نہیں ہیں تو ہمیں جنگ کے لئے تیار ہونا ہو گا۔
عشق ہے ابن السبیل اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات
عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات
وہ خوفزدہ نہیں ہے اب وہ مقامات عشق کی سیر پر ہے۔ اور ضروری ہے کہ ہم عشق کے مضراب سے زندگی کا نغمہ تیار کریں۔
پلے گراؤنڈ سے آوازوں کا طوفان ابھرا۔ مردے نے سکسر لگا دیا تھا۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے