غزلیں۔۔۔ راحتؔ اندوری

دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں

سب اپنے چہروں پہ دہری نقاب رکھتے ہیں

 

ہمیں چراغ سمجھ کر بجھا نہ پاؤ گے

ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں

 

بہت سے لوگ کہ جو حرف آشنا بھی نہیں

اسی میں خوش ہیں کہ تیری کتاب رکھتے ہیں

 

یہ میکدہ ہے، وہ مسجد ہے، وہ ہے بت خانہ

کہیں بھی جاؤ فرشتے حساب رکھتے ہیں

 

ہمارے شہر کے منظر نہ دیکھ پائیں گے

یہاں کے لوگ تو آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

شہروں شہروں گاؤں کا آنگن یاد آیا

جھوٹے دوست اور سچا دشمن یاد آیا

 

پیلی پیلی فصلیں دیکھ کے کھیتوں میں

اپنے گھر کا خالی برتن یاد آیا

 

گرجا میں اک موم کی مریم رکھی تھی

ماں کی گود میں گذرا بچپن یاد آیا

 

دیکھ کے رنگ محل کی رنگیں دیواریں

مجھ کو اپنا سونا آنگن یاد آیا

 

جنگل سر پہ رکھ کے سارا دن بھٹکے

رات ہوئی تو راج سنگھاسن یاد آیا

٭٭٭

 

اگر خلاف ہیں ہونے دو جان تھوڑی ہے

یہ سب دھواں ہے کوئی آسمان تھوڑی ہے

 

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

 

میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن

ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

 

ہمارے منھ سے جو نکلے وہی صداقت ہے

ہمارے منھ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

 

جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے

کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے

 

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس کی کتّھئی آنکھوں میں ہے جنتر مَنتر سب

چاقو واقو چھُریا ں وُریاں خنجر وَنجر سب

 

جس دن سے تم روٹھیں مجھ سے روٹ ہے روٹ ہے ہیں

چادر وادر تکیہ وَکیہ بستر وِستر سب

 

مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی کہاں اب پہلی جیسی ہیں

پھیکے پڑ گئے کپڑے وَپڑے زیور وِیور سب

 

عشق وِشق کے سارے نسخے مجھ سے سیکھتے ہیں

حیدر ویدر منظر وَنظر جوہر وَوہر سب

٭٭٭

گھر سے یہ سوچ کے نکلا ہوں کہ مر جانا ہے

اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے

 

جسم سے ساتھ نبھانے کی مت امید رکھو

اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے

 

موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار

میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے

 

نشہ ایسا تھا کہ میخانے کو دُنیا سمجھا

ہوش آیا، تو خیال آیا کہ گھر جانا ہے

 

مرے جذبے کی بڑی قدر ہے لوگوں میں مگر

میرے جذبے کو مرے ساتھ ہی مر جانا ہے

٭٭٭

 

کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے

تیری ہر بات پہ آمین کہا ہے میں نے

 

تیری دستار پہ تنقید کی ہمت تو نہیں

اپنی پاپوش کو قالین کہا ہے میں نے

 

مصلحت کہیئے اسے یا کہ سیاست کہیئے

چیل کوؤں کو بھی شاہین کہا ہے میں نے

 

ذائقے بارہا آنکھوں میں مزا دیتے ہیں

بعض چہروں کو بھی نمکین کہا ہے میں نے

 

تو نے فن کی نہیں شجرے کی حمایت کی ہے

تیرے اعجاز کو توہین کہا ہے میں نے

٭٭٭

 

بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئیے

وہ پینا چاہتا ہے پلا دینی چاہئیے

 

اللہ برکتوں سے نوازے گا عشق میں

ہے جتنی پونجی پاس لگا دینی چاہئیے

 

یہ دل کسی فقیر کے حجرے سے کم نہیں

دنیا یہیں پہ لا کے چھپا دینی چاہئیے

 

میں پھول ہوں تو پھول کو گل دان ہو نصیب

میں آگ ہوں تو آگ بجھا دینی چاہئیے

 

میں خواب ہوں تو خواب سے چونکائیے مجھے

میں نیند ہوں تو نیند اڑا دینی چاہئیے

 

میں جبر ہوں تو جبر کی تائید بند ہو

میں صبر ہوں تو مجھ کو دعا دینی چاہئیے

 

میں تاج ہوں تو تاج کو سر پہ سجائیں لوگ

میں خاک ہوں تو خاک اڑا دینی چاہئیے

 

سچ بات کون ہے جو سرِ عام کہہ سکے

میں کہہ رہا ہوں مجھ کو سزا دینی چاہئیے

 

سودا یہیں پہ ہوتا ہے ہندوستان کا

سنسد بھون میں آگ لگا دینی چاہئیے

٭٭٭

 

 

جہالتوں کے اندھیرے مٹا کے لوٹ آیا

میں، آج ساری کتابیں جلا کے لوٹ آیا

 

یہ سوچ کر کہ وہ تنہائی ساتھ لائے گا

میں چھت پہ بیٹھے پرندے اڑا کے لوٹ آیا

 

وہ اب بھی ریل میں بیٹھی سسک رہی ہوگی

میں اپنا ہاتھ ہوا میں ہلا کے لوٹ آیا

 

خبر ملی ہے کہ سونا نکل رہا ہے وہاں

میں جس زمین پہ ٹھوکر لگا کے لوٹ آیا

 

وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا

میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا

٭٭٭

 

مسجدوں کے صحن تک جانا بہت دشوار تھا

دیر سے نکلا تو میرے راستے میں دار تھا

 

اپنے ہی پھیلاؤ کے نشے میں کھویا تھا درخت،

اور ہر معصوم ٹہنی پر پھلوں کا بار تھا

 

دیکھتے ہی دیکھتے شہروں کی رونق بن گیا،

کل یہی چہرہ تھا جو ہر آئینے پر بار تھا

 

سب کے دکھ سکھ اس کے چہرے پہ لکھے پائے گئے،

آدمی کیا تھا ہمارے شہر کا اخبار تھا

 

اب محلے بھر کے دروازوں پہ دستک ہے نصیب،

اک زمانہ تھا کہ جب میں بھی بہت خوددار تھا

 

کاغذوں کی سب سیاہی بارشوں میں دھل گئی،

ہم نے جو سوچا ترے بارے میں سب بیکار تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں

میں چاہتا تھا چراغوں کو ماہتاب کروں

 

بتوں سے مجھ کو اجازت اگر کبھی مل جائے

تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں

 

میں کروٹوں کے نئے زاویے لکھوں شب بھر

یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں

 

ہے میرے چاروں طرف بھیڑ گونگے بہروں کی

کسے خطیب بناؤں کسے خطاب کروں

 

اس آدمی کو بس اک دھن سوار رہتی ہے

بہت حسیں ہے یہ دنیا اسے خراب کروں

 

یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی ہے

کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں

٭٭٭

ماخذ:

دھوپ کا صندل، بر. قی مجموعہ، جمع و ترتیب: اعجاز عبید

کھیت سنہرے ہیں، برقی، جمع و ترتیب: اعجاز عب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے