اِدھر اُدھر ۔۔ ایک تجزیہ ۔۔۔۔ بیگ احساس

اِدھر اُدھر۔۔۔۔ حمید سہروردی

 

اُس کی ٹیبل پر کاغذات بے ترتیب پڑ ے ہوئے تھے۔ کچھ کتابیں کُھلی ہوئی تھیں اور کچھ اِدھر اُدھر رکھی ہوئی تھیں۔ اس کے سر کے اوپر ٹیوب لائٹ اپنی زندگی جی رہا تھا۔ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اس کے لئے زندگی کے انکشافات کرنے میں مدد دے رہا تھا۔ پتہ نہیں وہ کیا تحریر کر رہا تھا۔ لکھتے لکھتے اس نے بائیں ہاتھ کی طرف رکھے ہوئے دودھ کے گلاس کی طرف اپنا بایاں ہاتھ بڑھایا۔ گلاس ہاتھ میں نہیں آیا بلکہ ٹیبل پر سے نیچے زمین پر گر گیا اور اس کے ٹکڑے زمین پر پھیل گئے۔۔۔۔۔اس نے گلاس کے ٹکڑے کھڑکی سے باہر گلی میں پھینک دیے۔ اور دودھ سے بھرے ہوئے فرش کو کپڑے سے صاف کر کے پھر سے کرسی پر بیٹھ گیا۔

پتہ نہیں آج کیوں اُس نے اپنے روزانہ ملنے والے دوست سے روکھے پھیکے انداز میں بات کی تھی۔ روزانہ ملنے والے دوست نے اس کے روّیہ سے یہ نتیجہ نکال لیا تھا کہ وہ ان دنوں بہت مصروف ہو گیا ہے یا اپنی گھریلو زندگی کے بہت سے معاملات سے ذہنی انتشار کا شکار ہو گیا ہے۔ دوست نے زیادہ باتیں کرنا ضروری نہیں سمجھا اور جلد ہی اپنے اپنے راستوں پر ہو لے ۔

کرسی پر بیٹھے ہوئے اس نے سگریٹ کی ڈبیہ اور ماچس اٹھا لی اور اس کی نظر میں سامنے دیوار پر لگے ہوئے عمر خیام کی رباعی کی تشریح لئے ہوئے کیلنڈر کی طرف اٹھیں۔ ٹھیک ہے کہہ کر وہ تاریخ دیکھنے لگا۔ بارہ تاریخ کو یہاں سے جانا ہو گا۔ سگریٹ کا گہرا کش لیتے ہوئے اس نے کرسی سے پشت لگا دی اور پھر آہستہ آہستہ بڑبڑانے لگا۔

’’سب کچھ لمحوں میں بدلتا ہے اور لمحوں ہی میں سنورتا ہے۔ کوئی کب تک جتن کر کے اس کے حوالے کرتا رہے گا۔‘‘

سگریٹ کا ایک گہرا کش لے کر اس نے پین ہاتھ میں اٹھا لیا۔ پین بہت دیر سے کُھلا پڑا ہوا تھا اور پنکھا بھی چل رہا تھا۔۔۔۔۔ پین کی نب پر انک سوکھ گئی تھی۔ کچھ لکھا نہیں گیا۔ شاید تساہلی تھی کہ بیزاری، اس نے پین کو جھٹک کر لکھنے کی کوشش نہیں کی۔

کیوں اس نے اچانک روتے ہوئے کہا تھا کہ تم میر ی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔۔ مجھے تمہارے پاس آئے ہوئے ایک ہفتہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔ ہر وقت کام کام کی رٹ لگائے رہتے ہو۔۔۔۔۔۔آخر میں تمھارے پاس اس لئے تو آئی ہوں کہ تم سے باتیں کروں۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ ادھر دو ماہ سے تمھاری طبیعت خراب چل رہی ہے۔ یہاں آ کر یہ تو میں نے دیکھا کہ تم روزانہ دوا کھاتے رہتے ہو۔ وہ بھی بھابھی کے کہنے پر۔ کیا تم اپنے آپ کے دشمن ہو۔ ایسا کیوں کرتے ہو بھیّا۔۔ اپنی صحت کا خیال رکھو۔ وہ روتی رہی۔

اس نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ تم روتی کیوں ہو۔ کیا میں مر جاؤں گا۔ تم روتی کیوں ہو۔۔۔ اور کیا تمھارے آنسو میری بیماری کو یا میر ے کام کو کم کر سکتے ہیں۔ دور کر سکتے ہیں۔ تم روؤ نہیں میری بہنا۔۔ اتنا کہہ کر اس نے وہ ٹیبل پر رکھی ہوئی چائے کی پیالی اٹھا کر اپنی بہن کو دی تھی اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔ ’’تم روتی ہو تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔‘‘ بہن چائے کی پیالی لینے کے بجائے اس کی گود میں سر رکھ کر ہچکیاں لے لے کر رونے لگی۔ اس کے رونے کی آواز سُن کر اس کے بچٓے آہستہ آہستہ قدم رکھتے ہوئے اپنی ممی اور ماما کے قریب آئے اور ممی کو روتے ہوئے دیکھ کر دونوں لڑکیاں اور لڑکا زور زور سے رونے لگے۔

اس نے کرسی سے اٹھ کر دونوں لڑکیوں اور لڑکے کو اپنے پاس بلا لیا۔ دونوں لڑکیوں کو ٹیبل پر بٹھایا اور لڑکے کو گود میں لے کر کہنے لگا۔

پیارے بچو! روتے کیوں ہو۔ کیا میں مرنے والا ہوں۔ ارے ارے تمھیں دیکھ کر میں کتنا خوش ہوتا ہوں۔ مگر بچے اپنی ماں کو روتا دیکھ کر ماما کی باتوں سے بے اثر ہی رہے۔

ٹیبل پر رکھی ہوئی چائے ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اس نے اپنی بچی کو آواز دی۔ دیکھو بیٹا یہ چائے لے جاؤ اور دوسری گرم چائے لے آؤ۔ کیوں بہنا تم گرم چائے پیوگی نا۔۔۔ ارے تم ہنسیں کیوں نہیں۔۔۔ میری پیاری بہنا۔

بہن نے ایک ہچکی لی اور زور سے رونے لگی۔ اس کے رونے کی آواز سُن کر اس کی ماں بھی دیوان خانے میں چلی آئی۔ کیوں کیا ہو رہا ہے۔ کیوں رو رہی ہو بیٹی؟ بہن نے جواب نہیں دیا۔۔ ساڑی کے پلّو سے آنکھیں پونچھنے لگی اور اس کی دونوں لڑکیاں اور لڑکا حیرت زدہ کبھی وہ اپنی ممی کو کبھی اپنی نانی کو اور کبھی ماما کو دیکھ کر وقفہ وقفہ سے رونے لگتے ہیں۔

اس کی نظریں زمین میں دھنسی ہوئی تھیں۔ ماں، بہنا کے قریب بیٹھی ہوئی ہے اور بارہا ایک ہی سوال کر رہی تھی کہ بیٹی کیوں رو رہی ہو۔ اور بہنا ہے کہ بت بنی بیٹھی ہوئی ہے۔ تینوں خاموش ہیں ، ماں ، بیٹا اور بیٹی اور تینوں بچے بھی بڑوں کی خاموشی کو گمبھیر بنائے ہوئے ہیں۔۔ اچانک ماں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور خاموش چہرہ متفکر، پیر کے انگوٹھے سے زمین کریدنے لگا۔ بہنا نے اپنی لڑکیوں سے کہا کہ بچیو تم جا کر باہر آنگن میں کھیلو۔ دیکھتی نہیں کہ ماما کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ پھر اپنے لڑکے سے کہا جاؤ۔ بیٹا تم بھی باجی کے ساتھ کھیلو۔ لڑکا ماما کی گود سے اُترا اور اپنے کرتے سے آنسو پونچھتے ہوئے کچھ دیر وہیں کھڑا رہا پھر اپنی بہنوں کے ساتھ کمرے سے نکل کیا۔

ماں نے روتے ہوئے کہا۔۔۔ کیوں بیٹا تمھیں کونسا روگ لگا ہوا ہے کہ تمھاری بیوی ہر خط میں یہی لکھتی ہے۔ تمھاری اس سال طبیعت گرتی جا رہی ہے اور ہر وقت کھوئے کھوئے سے رہتے ہو۔ کہیں کسی آسیب کا سایہ تو نہیں ہوا۔ تم بہت چھوٹی عمر سے راتوں کے جاگنے اور سڑکوں اور گلیوں میں آوارہ گردی کے عادی رہے ہو۔ بہو کہہ رہی تھی کہ تم یہاں بھی یہی سب کچھ کرتے رہے ہو۔ تم کسی عامل سے ملتے تھے یا نہیں؟ وہ خاموش ہی رہا۔۔۔

ماں نے پھر کہا۔ تم کچھ کہتے کیوں نہیں؟

ماں، میں کیا کروں۔ میں خود نہیں جانتا۔ کیا کچھ ہو رہا ہے۔ میں کیوں موم کی طرح پگھلتا جا رہا ہوں۔ اس نے دھیرے سے کہا۔

اسی لے تو کہتی ہوں۔ تم کسی اچھے عامل کو بتاؤ۔ تمھیں ضرور کوئی آسیب کا سایہ ہوا ہے۔

تم نہیں جانتی ہو۔ میں ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔

ہاں میں جانتی ہوں۔ ماں نے روتے ہوئے کہا۔ تمھارا اگر بس چلے تم مجھ پر بھی یقین نہیں رکھو گے۔

ماں تم سمجھتی کیوں نہیں۔ وہ جھنجھلا گیا۔ آسیب واسیب سب ہماری سمجھ کا چکّر ہے۔ میں تم بن کر اپنے آپ کو نہیں سوچ سکتا۔

ہاں ہاں میں جانتی ہوں۔ تم نہیں مانو گے۔ مگر۔۔۔۔۔

ایسی بات نہیں ہے ماں۔ تم میری بات کو سمجھو۔ بیماری معمول ہے تم سب اتنے پریشان کیوں ہو۔ دیکھو میں بھلا چنگا ہوں۔ تم فکر مت کرو۔

پلنگ پر لیٹی اس کی بیوی نے اندر کمرہ میں سے کہا۔ میں ہر وقت کہتی ہوں کہ رات جاگا نہ کرو۔ مگر یہ کسی کی بات مانیں تب نا۔

ارے تم کیا کہہ رہی ہو۔ خاموش لیٹی رہو۔ دیکھو تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ڈاکٹر نے تمھیں آرام کرنے کے لئے کہا ہے۔

ماں۔۔ اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے کہنے لگی۔ چپ رہو۔ تمھاری وجہ سے میری بہو بھی بیمار ہو گئی۔

کیا کہہ رہی ہو ماں۔ ایسا نہیں کہو۔ میری وجہ سے، کیوں ثمینہ، ماں جو کہہ رہی ہے کیا یہ سچ ہے؟

میں کیا کہوں۔

تم بھی ان کے ساتھ ہو گئی ہو۔۔؟

بہنا پھر رونے لگی۔ بھیّا تم گھر چلو۔

کیا یہ گھر نہیں ہے۔۔۔ تم۔۔۔۔

ماں نے بیچ میں ہی اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ تم دونوں بیمار ہو۔ تم دونوں کی یہ حالت دیکھ کر تمھارا لڑکا پریشان نہ ہو جائے اور وہ اپنے پوتے کو گود میں لے ۔ میرا لاڈلا ، میرا پیارا کہتے ہوئے اس کے گالوں پر چٹ چٹ پیار لینے لگی۔

لڑکا کھلونے دیکھ کر دادی سے کہنے لگا۔ پپٓا لائے ہیں۔

اچھا تمھارے پپا کھلونے بھی لائے ہیں۔ تمھارے پپٓا کو کیا ہوا ہے۔

لڑکے کے لےے دادی کا یہ سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ لڑکا دادی کی گود سے اٹھ کر اس کی بہنا کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہو گیا۔

بہنا بد ستور رو رہی ہے۔

ماں نے بہنا سے پوچھا۔ بیٹی تو اتنا کیوں رو رہی ہے۔ تیرا بھیّا اچھا ہو جائے گا۔

پیاری بہنا تمھیں رونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ میں بیمار نہیں ہوں۔ خدا کے واسطے تم رونا بند کرو۔

بہنا اور زور زور سے رونے لگی۔

ماں نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ تم نے وطن سے آتے وقت بار بار کیوں بھیّا کے پاس آنے کے لئے کہا تھا۔ اسی لئے تم یہاں آ کر روتی رہو گی۔ دیکھو بیٹا تمھارے پاس آنے کے لئے یہ بے چین تھی اور جس رات یہاں آنے کا ارادہ تھا۔ تمھاری بہنا سوئی ہی نہیں تھی۔

اس نے کرسی پر سے اُٹھ کر اپنی بہنا کے سر پر ہاتھ رکھا اور بڑی شفقت سے کہنے لگا۔ بہنا تم رو رہی ہو۔ ارے کیا تمھارا بھیّا مر جائے گا۔ چل چل میری پیاری بہنا نا رو، نا رو ، دیکھ میں تیرے لئے کیا لایا ہوں۔

نہیں بھیا مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ وہ بدستور روتی رہی۔

بھیّا وہیں فرش پر بہن کے بازو بیٹھا۔ چھوڑو تم میری بیماری کو۔ میں بیمار نہیں ہوں۔۔ بھیّا۔۔۔۔بھیّا۔ بھیّا بھر ہو زور زور سے رونے لگی۔ تم سمجھتے ہو۔ بھیّا۔ مگر میں کیا سمجھوں۔۔۔۔۔ !

ہاں بیٹی تم اتنا کیوں رو رہی ہو اور خود ماں بھی رونے لگی۔

اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے چہرے کو بھی صاف کیا اور اندر کمرہ میں جہاں اس کی بیوی پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی چلی گئی۔

پوچھا کیا تم نے ان سے کچھ کہا تھا۔ بہنا مسلسل کیوں رو رہی ہے؟

نہیں میں نے ان سے کچھ بھی نہیں کہا۔ بیوی نے تعجب کرتے ہوئے کہا۔۔۔ پھر بہنا کیوں رو رہی ہے۔

باہر سے اس کا لڑکا روتے ہوئے اندر کمرہ میں چلا آیا۔ پپٓا پپٓا وہ پم پم نہیں دے رہی ہے۔

اچھا اچھا ہم تمھیں ایک اور پم پم لا کر دیں گے۔ تم چپ رہو۔ اُس کا لڑکا اس کے پیروں سے لپٹ گیا اور پم پم کی رٹ لگاتا رہا۔

اُدھر دیوان خانہ میں دونوں ماں اور بیٹی آہستہ آہستہ باتیں کر نے لگیں۔ بہنا بدستور روتے ہوئے اپنی بات کہہ رہی تھی۔

وہ آنگن میں رکھے ہوئے پانی کے مٹکے سے پانی لے کر پینے لگا۔ اُسے راحت سی محسوس ہوئی اور اس نے نل کے قریب جا کر اس کی ٹونٹی کھول دی۔ پانی نل سے گرنے لگا۔ اس نے نل کی ٹونٹی بند کر دی۔ اور ٹنکی کے نل کی ٹونٹی کھول دی۔ پانی ٹنکی میں آواز کے ساتھ گرنے لگا۔

ماں بیٹی سے کہنے لگی۔ تم کچھ بھی کہو۔ اُسے ضرور کسی آسیب کا سایہ ہوا ہے۔ خاموش خاموش رہتا ہے۔ دیکھو تو جب پچھلی چھٹیوں میں گھر آیا تھا۔ تو اس کی صحت کتنی اچھی تھی مگر اب تو آدھا اُتر گیا ہے۔

اُس کے اور بہنا کے بچّے نل کی ٹونٹی کھول کر پانی میں کھیلنے لگے۔ بچّوں کے کپڑے گیلے ہو گئے۔ اس کی بیوی پلنگ پر لیٹے لیٹے بچوّں سے کہنے لگی۔ وہاں سے ہٹ جاؤ سردی لگ جائے گی۔

وہ بیوی کے پلنگ کے پاس کھڑا ہوا تھا۔ اُس نے بچّوں سے کچھ بھی نہیں کہا۔

ہاں بیٹی۔ ضرور کوئی آسیب کا سایہ ہوا ہے۔

ماں ایک بات کہوں تم بُرا تو نہ مانوں گی۔

میں تیری بات کا بُرا کیوں مانوں گی۔

ماں جب ہم یہاں آ رہے تھے نا۔ اس رات میں سو نہیں سکی تھی۔ ایسے نہیں ہے۔

ماں میری آنکھ کچھ دیر کے لئے لگ گئی تھی۔ میں ہڑبڑا کر اُٹھی تھی۔

کیوں کیا ہوا تھا۔ بیٹی۔ تم نے مجھ سے کیوں نہیں کہا تھا۔

ماں مجھے ڈر لگ رہا تھا۔۔۔۔۔

ڈر کس بات کا۔۔۔

ماں کیا کہوں ، کیسے کہوں۔ اب بھی مجھے ڈر لگ رہا ہے۔

مگر کیوں۔۔۔۔

کیا کہوں ماں۔۔بھیّا، بھیّا کو میں نے۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہوا۔۔۔ ایسا کیوں کر رہی ہو۔ بیٹی کہو۔ کیا کہنا چاہتی ہو۔

نہیں ماں ، میں بھیّا کے بارے میں ایسا نہیں سوچ سکتی۔ نہیں میں کچھ نہیں کہوں گی۔

بہنا پھر رونے لگی۔

کہتی کیوں نہیں ہو بیٹی رو کیوں رہی ہو۔

وہ بھیّا۔۔۔۔میری آنکھ لگ گئی نا۔ جب۔ جب میں نے دیکھا۔ بھیّا ٹیبل پر رکھا ہوا دودھ۔ نہیں ماں۔۔۔ میں نہیں کہوں گی۔۔۔۔

کہہ بھی دے بیٹی کیا آسیب کو دیکھا تھا۔

نہیں ماں۔۔وہ دودھ۔۔۔۔۔ دودھ ٹیبل پر رکھا ہوا۔ بلّی نے پی لیا۔ بھیّا باہر دالان میں پانی پینے کے لئے گئے ہوئے تھے۔ اور بلّی دیکھتے ہی دیکھتے تڑپ تڑپ کر مر گئی۔

بہنا بدستور رونے لگی ہے۔

پلنگ پر لیٹی ہوئی اس کی بیوی زور سے چیخی۔۔۔۔۔۔اور اُٹھ بیٹھی۔ نہیں۔ ایسا ہرگز نہ کہو۔

اور وہ اس نے بہنا کے قریب آ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور زیرِ لب مُسکرا دی۔۔

٭٭

 

اِدھر اُدھر ۔۔۔ ایک تجزیہ

 

’’ادھر اُدھر‘‘ اپنے عنوان کی طرح مختصر اور خوب صورت افسانہ ہے۔ یہ حمید سہروردی کے دوسرے افسانوں سے قدرے مختلف افسانہ ہے۔ حمید سہروردی نے اس افسانے میں اپنی منفرد پر اسرار فضا سازی کو برقرار رکھا ہے لیکن اس کا اسلوب تکنیک طرز ادا ایسا ہے جس سے اردو کا قاری مانوس ہے۔ ہمارا قاری اسی بیانیہ کا برسوں سے عادی ہے۔ افسانے ختم کرنے کے بعد اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایتی افسانہ نہیں ہے۔ کئی باتوں کے لئے اسے دوسری اور تیسری قرات کرنی پڑتی ہے افسانہ دودھ بھرے گلاس کے ٹوٹنے سے شروع ہوتا ہے۔ اور دودھ بھرے گلاس پر ختم ہوتا ہے۔ اس طرح دائرہ بناتے بناتے افسانہ قاری پر اپنی گرفت مضبوط کرتا جاتا ہے۔

کہانی کا مرکزی استعارہ ’بیماری‘ ہے۔ مرکزی کردار بیمار ہے۔ اس مرد کردار سے جڑے تین نسوانی رشتے ماں ، بہن اور بیوی کے ہیں۔ مرکزی کردار خود نہیں جانتا کہ وہ کیوں موم کی طرح پگھلتا جا رہا ہے۔ بہن کو اپنی بھابھی یعنی مرکزی کردار کی بیوی پر شک ہے۔ ماں توہم پرست ہے وہ بیماری کی وجہ آسیب کا سایہ سمجھتی ہے۔ بیوی اس کا علاج کروا رہی ہے۔ کوئی نہیں جانتا یہ بیماری کیا ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے۔ آخر میں افسانہ نگار بیوی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر کر ایک خلش میں مبتلا کر دیتا ہے اور شک کا تیر نیم کش جگر کے پار نہیں ہوتا۔

کہانی کردار کہانی کے واقعات سے پورے وجود کے ساتھ ابھرتے ہیں۔ کرداروں کی ذہنی و قلبی کیفیات منکشف ہونے لگتی ہیں۔ مرکزی کردار پڑھنے لکھنے سے دلچسپی ہے۔ غالباً ادبی ذوق بھی رکھتا ہے کیوں کہ اس کے گھر میں ایسا کیلنڈر ہے جس پر عمر خیام کی رباعی کی تشریح ہے۔ وہ اپنی بے پناہ مصروفیت یا گھریلو معاملات کی وجہ سے ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ وہ کم عمری سے جاگنے اور سڑکوں و گلیوں میں آوارہ گردی کرنے کا عادی ہے۔ اب بھی راتوں میں جاگتا ہے۔۔ سگریٹ پیتا ہے۔ لکھنے میں اتنا مصروف ہوتا ہے کہ دودھ پینے کی فرصت بھی نہیں ہوتی لکھتے لکھتے ہاتھ بڑھاتا ہے گلاس گر کر ٹوٹ جاتا ہے فرش پر دودھ پھیل جاتا ہے۔ گلاس کے ٹکڑے وہ خود چن کر باہر پھینکتا ہے۔ دودھ کو بھی وہی صاف کرتا ہے۔ شاید بیوی کی بیماری کی وجہ سے یا خوف کی وجہ وہ بیوی کو تکلیف نہیں دیتا۔ گھر میں کوئی ملازم بھی نہیں ہے۔ وہ ذہنی خلفشار کی وجہ سے دوستوں سے روکھا برتاؤ کر تا ہے۔ وہ بہن سے پیار کرتا ہے اس کے رونے سے پریشان ہو جاتا ہے۔ اسے ہر طرح منانے کی کو شش کرتا ہے۔ ماں کی عزت کرتا ہے۔ جب ماں یہ کہتی ہے کہ اس کی وجہ اس کی بیوی بیمار ہو گئی ہے۔ تو وہ چونکتا ہے اور بیوی سے تصدیق کرتا ہے۔ اپنے بیٹے کا خیال رکھتا ہے۔۔ بہن کے بچوں کے ساتھ بھی اس کا سلوک اچھا ہے۔ اسے بارہ تاریخ کو کہیں جانا ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ سب کچھ لمحوں میں بدلتا ہے اور لمحوں ہی میں سنورتا ہے۔ وہ کاہل ہے کچھ لکھنا چاہتا ہے لیکن نب پر سیاہی سوکھ گئی ہے وہ تساہل کی وجہ سے پیں کی سیاہی چیک نہیں کرتا۔ تساہل ہی کی وجہ سے وہ دوا وقت پر نہیں کھاتا۔ بحیثیت مجموعی وہ ایک نارمل انسان ہے۔ دوسرا اہم کردار بہن کا ہے۔ جو روتے روتے کہانی میں داخل ہوتی ہے۔۔۔ کوئی نہیں جانتا وہ مسلسل کیوں رو رہی ہے۔ بہن کے رونے کی وجہ پوچھنے میں کہانی آگے بڑھتی ہے پرتیں کھلتی ہیں۔ کہانی کے اختتام تک بہن آنسو بہاتی رہتی ہے۔ وہ اپنے بھائی کی مزاج پرسی کے لیے وطن سے ماں اور بچوں کے ساتھ سفر کر کے آئی ہے۔ وہ ہفتہ بھر سے بھائی کے گھر میں ہے۔ اس کا بغور مشاہدہ کررہی ہے۔ اس کا گم سم رہنا دوائی وقت پر نہی کھانا۔ نویں دن وہ بھائی کو پکڑ لیتی ہے اور رونے لگتی ہے کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ اتنا رو کیوں رہی ہے۔ آخر میں وہ اپنا خواب بیان کرتی ہے کہ ٹیبل پر دودھ کا گلاس رکھا ہوا ہے۔ بھیّا پانی پینے کے لئے گئے ہوئے تھے تو بلّی نے وہ دودھ پی لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ اس خواب سے وہ خوفزدہ ہے وہ بھائی کے بارے میں ایسا سوچنا بھی نہیں چا ہتی۔ لاشعور میں کہیں بھابھی کے بارے میں بد گمانی ہے۔ ممکن ہے اسی بدگمانی نے وہ خواب دکھلایا ہو۔ بہن کا یہ شک کہانی کی فضا ء میں تناؤ پیدا کرتا ہے

ماں ایک عام سی متوسط طبقے کی عورت ہے۔ اسے اپنے بیٹے کی فکر تو ہے لیکن ویسی تشویش نہیں جیسی بہن کو ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے ذہن میں بہو کے متعلق کوئی بد گمانی نہیں ہے۔ اسے بہو سے بھی ہمدردی ہے بیٹے کی بے راہ روی اور بیماری نے بہو کو بھی بیمار کر دیا ہے۔ اپنے پوتے کی بھی فکر ہے کہ دونوں کی یہ حالت دیکھ کر وہ بھی کہیں بیمارنہ ہو جائے۔ وہ توہم پرست ہے اور اسے پورا یقین ہیکہ بیٹے پر کسی آسیب کا سایہ ہے وہ اپنی بیٹی کے مسلسل رونے سے پر یشان بھی ہے رقیق القلب ہے اس لئے بیٹی کو روتا دیکھ کر خود بھی رونے لگتی ہے

بیوی کا کردار پوری طرح اُبھر کر نہیں آتاہے۔ اپنی ساس کو وہی خطوط کے ذریعہ اپنے شوہر کے بارے میں بتاتی ہے کہ وہ کھو یا کھویا رہتا ہے اس کی صحت گرتی جا رہی ہے۔ پورے افسانے میں اس کے تین چار مکالمے ہیں۔ جس میں وہ شوہر کے رات میں دیر تک جاگنے کی شکایت کرتی ہے۔ جب اس کا شوہر پوچھتا ہے کہ کیا وہ اس کی وجہ سے بیمار ہو گئی ہے تو کہتی ہے ــ ’میں کیا کہوں ‘ پھر کہانی کے اختتام پر اپنی نند سے خواب سن کر چیخ اٹھتی ہے پھر زیرِ لب مسکرا دیتی ہے۔۔ یہ مسکراہٹ معنی خیز بھی ہو سکتی ہے اور طنزیہ بھی۔

یہ افسانہ نفسیاتی حقیقت نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ مرکزی کردار کی بیماری کا ردّ عمل کرداروں کی نفسیات کو ابھارتا ہے۔ اس بیماری نے سب کو الجھا رکھا ہے۔ یہ ایک متوسط طبقے کا خاندان ہے۔ گھر چھوٹا ہے دیوان خانے اور کمرے میں اتنا کم فاصلہ ہے کہ دیوان خانے میں کی جانے والی گفتگو کمرے میں سنائی دیتی ہے۔ گھر میں فریج نہیں پانی کا مٹکہ ہے۔ بچے کھلونوں کے لئے لڑ رہے ہیں۔ پانی کی ٹونٹی کھول کر کھیلنے لگتے ہیں۔ گھر میں کسی ملازم کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ کرداروں کی گفتگو میں بھی مقامی رنگ ہے۔ کہانی کی سب سے بڑی خوبی جزئیات نگاری ہے۔ مرکزی کردار کے کمرے اور گھر کی تفصیلات بچوں کا ماں کو روتے دیکھ کر کچھ سمجھے بغیر رونے لگنا۔ بچوں کو بڑوں کے درمیان سے ہٹا کر انھیں کھیلنے کے لئے بھیج دینا۔ ایک حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں اس کی صحت کتنی اچھی تھی مگر اب آدھا اتر گیا ہے ، بھیا وہیں فرش پر بہنا کے بازو بیٹھا۔۔ بہن چائے کی پیالی پینے کے بجائے جیسی زبان افسانے کا ماحول اور فضا بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔۔ حمید سہروردی کا یہ افسانہ رشتوں کی نزاکت کا ایک عمدہ افسانہ ہے۔

(جدید ادب، جرمنی، شمارہ ۹، جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ء)

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے