اِس بار بارشیں دسمبر تک چلیں۔۔ بارش ختم ہوتے ہی اچانک موسم ٹھنڈا ہو گیا۔۔ صبح ساڑھے گیارہ بجے میں نے کالج چھوڑا۔۔ گھر کے راستے میں پکّی سڑک سے نیچے اُترتی ایک چھوٹی سی سیڑھی سے اتر کر تنگ گلی سے ہوتی ہوئی،میں اپنے گھر کی جانب مڑی۔۔
’آج گھر جلدی جا کر جھاڑ پونچھ کرنے والی بائی کے آنے سے پہلے ذرا آرام کر لوں گی۔ ‘، میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ گلی میں پکّی عمروں کا مرد عورت کا جوڑا سامنے سے آتا دکھائی دیا۔۔ مرد نے سفید ملگجا سا کرتا پاجامہ پہن رکھا تھا۔۔ عورت کی ہلکی نارنجی لہریا ساڑی کمر میں کسی ہوئی تھی، اس کی کھلی رنگت پر مدھم سی مسکراہٹ بھلی لگ رہی تھی۔۔ دونوں باتیں کرتے ہوئے جارہے تھے۔۔ فریدہ نے مرد کی ہتھیلیوں میں کپڑے کی ایک پوٹلی دیکھی۔۔ مجھے اس میں ایک آدھ دن پہلے پیدا ہوئے بچّے کا گُمان ہوا۔۔
’’ارے اتنے چھوٹے بچّے کو کہاں لئے جارہے ہو؟ کس کا ہے یہ؟ ’’،میں نے ان سے پوچھا۔۔ اُن دنوں بچہ چوروں کی افواہ زوروں پر تھیں۔۔
’’ذرا دکھانا تو!‘‘ مرد اور عورت چلتے چلتے رک گئے۔۔ مرد نے اپنی ہتھیلی نیچی کر کے بچے کا چہرا دکھایا۔۔ ننھا فرشتہ ٹکر ٹکر آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔ موٹی سی ناک، بڑی بڑی آنکھیں، گہرے گلابی ہونٹ، گورا چٹّا، نو زاد۔۔۔۔
’’ساتویں مہینے کا ہے؟‘‘میں نے اندازہ لگایا۔۔
ہاں۔ ‘‘
’’کہاں لئے جا رہے ہو؟‘‘
’’کل رات ایک بجے اِس کے بچہ ہوا۔ ‘‘ مرد اپنے ساتھ والی عورت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بول رہا تھا، جو مفلر جیسا کوئی کپڑا اپنے کانوں پر لپیٹ رہی تھی۔۔
’’اسپتال میں ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔۔
’’نہیں گھر میں۔۔۔۔ ابھی سرکاری اسپتال لے گیا تھا، دکھانے کو۔ ‘‘
’’سب ٹھیک تو ہے؟‘‘
’’بچہ کمزور ہے۔۔ اس کو کانچ میں رکھنے کو بولا ہے۔ ‘‘
’’نگر پالیکا اسپتال میں انکیو بیٹر نہیں ہے کیا؟‘‘
’’نہیں ہے۔ ‘‘
’’پھر!!!‘‘،میں نے افسوس کے ساتھ حیرت بھی ہوئی۔۔ ہزاروں چھوٹے چھوٹے گاؤں، دیہات ہیں، وہاں کیا ہوتا ہو گا! یہ خیال مجھے پریشان کرنے لگا۔۔
’’ڈاکٹر نے چٹھی دے کر بیکری کے سامنے والے اسپتال میں بھیجا ہے۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔۔
’’سیتا رام اسپتال؟‘‘
’’ہاں۔ ‘‘
’’پھر رکھا کیوں نہیں؟‘‘
’’وہاں کی ڈاکٹرنی بولتی ہے، روز کا دو ہزار روپیہ لگے گا۔ ‘‘
’’کتنے دن رکھنا ہو گا؟‘‘
’’پندرہ دن۔ ‘‘
’’۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ڈاکٹرنی بولتی ہے، تیس ہزار روپیہ جمع کرا دو۔۔ پندرہ دنوں میں بالکل اچھا بچہ ہاتھ میں دو ں گی۔ ‘‘
’’رکھا کیوں نہیں؟‘‘
’’پیسہ کدھر ہے؟‘‘
’’۔۔۔۔ کیا کرتے ہو؟‘‘
’’پہلے بھنگار اٹھاتا تھا‘‘۔۔
’’اب کیا کرتے ہو؟‘‘
’’ردّی خریدتا ہوں۔ ‘‘
’’یہ کیا کرتی ہے؟‘‘میں نے عورت کی جانب اشارہ کیا۔۔
’’پہلے یہ کچرا چُنتی تھی۔۔۔۔ اب بھیک مانگتی ہے۔۔۔۔ منع کرتا ہوں پھر بھی سنتی نہیں۔ ‘‘
’’کتنے بچّے ہیں؟‘‘
’’بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔۔ دوسری دس سال کی۔۔۔۔ تیسری پانچ سال کی۔ ‘‘
میں گہری سوچ میں ڈوب گئی۔۔
’’چلو ایک کام کرو۔ ‘‘ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کس طرح ان کی مدد کروں!، ’’اتنی سخت سردی ہے۔۔۔۔ اتنا چھوٹا بچّہ۔۔۔۔ گھومنا ٹھیک نہیں نا!‘‘
میرا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔۔ کیا کہنا چاہ رہی تھی، کیا کہہ رہی تھی! ’’گھر لے جاؤ نہیں تو یہ کیسے بچے گا!‘‘میری بات اور کہنے کا انداز انہیں عجیب لگا۔۔ دونوں میرا منہ تکنے لگے۔۔ مجھے بھی جھینپ ہوئی کہ بچّے کو پیدا ہوئے ابھی ایک دن بھی نہیں ہوا کہ میں اس کے نہ بچنے کی بات کرنے لگی تھی۔۔ میں نے ان سے نظریں ہٹائیں اور کھڑے کھڑے سوچنے لگی۔۔
’کیا کروں؟۔۔۔۔ خالی انسانیت کی باتیں کرنے سے کیا ہوتا ہے! کچھ کیا نہیں تو یہ سچ مچ نہیں بچ پائے گا۔۔۔۔ کیا کروں؟‘، ذہن میں تیزی سے سماج سیوا کرنے والے اداروں کا خیال آنے لگا۔۔
’’میں کچھ کوشش کرتی ہوں۔ ‘‘ میں نے اس سے کہا، ’’تم ایسا کرو، اپنی بیوی کی گود میں بچّہ دے کر اسے اس دیوار پر بٹھا دو اور میرے ساتھ چل کر میرا گھر دیکھ لو۔۔ لوٹ کر بیوی اور بچے کو گھر چھوڑ کر میرے گھر آ جاؤ۔۔۔۔ تب تک میں دیکھتی ہوں کہ میں تمہارے لئے کیا کر سکتی ہوں۔ ‘‘
وہ دونوں ایک دوسرے سے صلاح و مشورہ کرنے لگے۔۔ میں ذرا سا آگے بڑھ آئی تھی، پلٹ کر پوچھا، ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘مجھے خیال آیاتھا کہ ان کا نام تو میں نے پوچھا ہی نہیں۔۔
’’میں یوسف اور یہ میری بیوی صابرہ۔ ‘‘
مجھے ان پر بڑا رحم آ رہا تھا۔۔
’’۔۔۔۔ میں اُس بچّے کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘ گھر پہنچ کر اس نے اپنے شوہر کو فون کیا۔۔
چلی جاؤ ان کے ساتھ کلمبولی کے ایم جی ایم اسپتال۔۔۔۔ ایڈمٹ کروا آؤ، فریدہ میڈم!‘‘ وہ ہنس کر بولے۔۔
میں چپ ہو گئی۔۔ تو انہوں نے بیوی کے موڈ کا اندازہ کیا اور بولے،
’’اسپتال کا پتہ بتا دو اور کچھ پیسے دے کر ان کو بھیج دو۔ ‘‘
’’کیا وہ جا پائیں گے؟‘‘
’’یہ بھی مجھے ہی بتانا ہو گا؟‘‘
’’ہماری میونسپلٹی تو مہاراشٹر کی اے کلاس میونسپلٹی ہے نا!۔۔۔۔ پھر بھی ایک ڈھنگ کا اسپتال نہیں ہے۔ ‘‘
’’کیوں سرکاری اسپتال کے سامنے کی کھلی زمین نہیں دیکھی کیا؟ وہاں ایک ہائی فائی اسپتال بنانے کے پلان کا نشان لگا ہوا ہے۔ ‘‘
’’رشوت خوری کے چکّر میں نہیں بنا ہو گا نا!‘‘
’’ایک انجینئر کا قتل ہونے کے بعد سے کام بند ہو گیا۔ ‘‘
’’تو آپ جیسے بزنس مین کیوں نہیں بنا لیتے، ایک اچھا اسپتال؟۔۔۔۔ علاج کے لئے لوگوں کو ساٹھ ساٹھ کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے!‘‘ وہ اس بات کو اتنے ہلکے پھلکے ڈھنگ سے لے رہے تھے کہ مجھے ہی غصہ ہی آیا۔۔
’’پھر تو وہ پرائیویٹ اسپتال ہو گا نا!۔۔۔۔ اور وہ بہت سے ہیں۔۔۔۔ جنہیں تم پتّھر دل کہتی ہو!۔۔۔۔ کہو گی کہ غریبوں کے کام کے نہیں۔۔۔۔ ہے نا فریدہ میڈم؟‘‘
مجھے یاد آیا، سندر نام کا میرا ایک پرانا طالب علم، سرکاری اسپتال میں وارڈ بوائے ہے۔۔ میں نے اسے فون کیا اور حالت بتائی۔۔
’’سندر، یہ لوگ بڑے غریب ہیں۔۔ سرکاری اسپتال میں آج کل کچھ نہ کچھ خرچ تو آتا ہی ہے۔۔ ان کی حالت۔۔۔ ‘‘
’’آپ ایسے کیجئے۔۔ ان کو میرے پاس بھیج دیجئے۔۔ میں ان کو چھٹی لکھوا دوں گا۔۔ تو علی باغ کے سرکاری اسپتال میں بچّے کا علاج فری ہو جائے گا۔ ‘‘
’’کیسا اسپتال ہے یہ؟ وہاں انکیو بیٹر تو ہے؟‘‘
’’ہاں۔۔ اسی کے لئے تو وہ مشہور ہے۔ ‘‘
’’بچّے کو لانے کی ضرورت نہیں نا؟‘‘
’’اس کو چیک کر کے ہی چٹّھی دیں گے نا!‘‘
’’وہ کچھ دیر پہلے ہی وہاں سے بچّے کو چیک کروا کر لائے ہیں۔۔۔۔ اچّھا کوئی بات نہیں میں اس کو تمہارے پاس بھیج دیتی ہوں۔ ‘‘
کوئی ساڑھے بارہ بجے یوسف بیوی بچے کو گھر چھوڑ کر لوٹا تو میں نے اسے ذرا سے شکایتی لہجے میں کہا ’’بڑی دیر لگا دی بھائی؟‘‘، پھر میں نے ایک پیپر پر سندر کا پورا نام اور کام لکھ کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔۔
’۔۔۔۔ اب فوراً گھر جاؤ اور بیوی اور بچے کو لے کے سرکاری اسپتال چلے جاؤ۔۔ اس آدمی سے ملو اور چٹھی لے کر آؤ۔۔ پھر علی باغ کے سرکاری اسپتال میں تم اپنے بچے کا بِنا پیسوں کے علاج کر پاؤ گے۔۔ وارڈ بوائے سندر سے چٹھی لے کر سیدھے میرے پاس آنا اور مجھ سے سفر وغیرہ کے پیسے لے کر فوراً علی باغ کے لئے نکل جانا۔ ‘‘
یوسف چلا گیا۔۔ میراجی چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ جا کر خود اس کی مدد کروں مگر بے بس تھی۔۔ کالج سے گھر لوٹ کر کھانا تیار کرنا اور بائی کے ساتھ مل کر گھر کی صفائی کرنی تھی۔۔ تین ساڑھے تین بجے سے پہلے تو میں بستر سے پیٹھ بھی لگا نہیں سکتی تھی۔۔ اِس پر اس دن میرا بھانجا کسی کام سے یہیں آیا ہوا تھا۔۔ اور کھانا ہمارے ساتھ کھانے والا تھا۔۔
دوپہر کے کھانے کے بعد بچا ہوا کھانا چھوٹے برتن میں نکال کر میں نے فرج میں رکھا اور جھوٹے برتن بائی کو دے رہی تھی کہ ایک دم یاد آیا۔۔
’’ارے عجیب آدمی ہے۔۔ ساڑھے تین بج رہے ہیں۔۔ اب تک نہیں آیا۔ ‘‘ میں نے سندر کو فون لگایا۔۔
’’میڈم میں اس کا رستہ دیکھ کر کھانا کھانے گھر چلا گیا تھا۔ ‘‘
’’ابھی نہیں آیا؟‘‘
’’نہیں‘‘۔۔
’’آ جائے تو ذرا ایک مسڈ کال دے دینا۔ ‘‘
’’آپ ہماری ڈین ڈاکٹر سے بات کریں گی؟‘‘ سندر نے پوچھا۔۔
’’ہاں، کراؤ۔ ‘‘ ڈین ڈاکٹر سے میں نے تفصیل سے بات کی تو وہ بولیں،
’’اِس اسپتال میں انکیوبیٹر کی سہولت نہیں۔۔ علی باغ کے سرکاری اسپتال لے جانا ہی ٹھیک ہے۔ ‘‘
’’آپ کا اپنا اسپتال بھی ہے اس میں انکیوبیٹر ہے؟‘‘
’’ہاں۔ ‘‘
’’اس کی فیس کیا ہے؟‘‘
’’میں ا بھی کچھ نہیں بتا سکتی۔۔ میرے پتی ناسک گئے ہوئے ہیں۔۔ وہ بچوں کے ڈاکٹر ہیں۔۔ انہیں کو پتہ ہے۔ ‘‘ ڈین ڈاکٹر نے شاید کنگال مریض سے بچنے کی کوشش کی تھی۔۔
شام چھے بجے میں نے دو بارہ سندر کو فون کیا۔۔ وہ بولا، ’’میں ابھی آپ کو فون کرنے ہی جا رہا تھا۔۔ وہ ابھی ابھی میرے پاس سے علی باغ کے سرکاری اسپتال کے لئے سفارشی خط لکھوا کر لے کرگیا ہے۔ ‘‘
’’اچّھا! اتنی دیر سے آیا؟‘‘
’’آپ نے کہا تھا، اسی لئے میں یہاں اتنی دیر تک رکا ہوا تھا۔۔ ورنہ کب کا نکل جاتا۔ ‘‘ اس نے احسان جتایا۔۔
’’شکریہ سندر۔ ‘‘ وہ خوش ہوا، بولا۔۔
’’میں نے اس سے کہا تھا کہ ایمبیولینس لے کر نہ جائے۔۔ ہزار بارہ سو روپئے لگ جائیں گے۔۔ بس سے جائے گا تو سو روپیوں میں پہنچ جائے گا۔ ‘‘
’’اچّھا، اب وہاں سے نکلا ہے، تو سیدھے میرے پاس آئے گا۔۔۔۔ لیکن ٹھنڈ بڑھ رہی ہے۔۔ اِس وقت بھیجوں یا کل صبح؟‘‘
’’صبح ہی بھیجئے۔ ‘‘
’’شکریہ سندر!‘‘ میرے دل کو سکون آیا۔۔
اُس شام یوسف میرے پاس نہیں آیا۔۔ مجھے بے چینی ہونے لگی۔۔ جی چاہا، کاجوواڑی کی جھونپڑ پٹّی میں جا کر اس کو ڈھونڈوں۔۔ کہا تو اس نے یہ تھا کہ پہاڑی شروع ہوتے ہی کچھ گھر چھوڑ کر اُس کا گھر ہے۔۔ میں نے گھڑی دیکھی۔۔ رات کے نو بج رہے تھے۔۔ ہمارے گھر سے اس کا گھر صرف دس منٹ کے فاصلے پر ہے، مگر اس وقت جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔۔ رات کے وقت جھگّی جھونپڑ پٹیّوں کے لوگ دن بھر کی مزدوری کے بعد تھوڑا یا پھر خوب پی کر گھر لوٹتے ہیں۔۔ میں نے دیسی دارو کی تیز بدبو اپنی سانسوں میں محسوس کی۔۔ اور خود کو وہاں نہ جانے پر راضی کر لیا۔۔ پھر سوچنے لگی کہ کاجوواڑی کے کسی طالب علم یا اپنے شوہر کے کسی مزدور کو فون کر کے پتہ کر لوں۔۔ ایک لڑکی کا خیال آیا، جو کالج کے آخری سال میں تھی۔۔ دراصل ہمارا کالج کاجوواڑی کی پہاڑی سے بالکل سٹا ہوا ہے۔۔ کاجوواڑی، جنگلاتی علاقے میں آتا ہے…. یعنی سرکاری جائیداد! ووٹ بینک ہونے کی وجہ سے جب کبھی اس علاقے کو، جھونپڑیوں سے پاک کرنے کا پروگرام بنتا ہے، یہاں کی عورتیں بیلن لے کر نیتا کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔۔ اور وہ انہیں یقین دلاتا ہے کہ ان کے گھر کو ٹوٹنے نہیں دے گا۔۔ پوری پہاڑی پر بنے ہوئے گھروں کی، پتہ نہیں کس طرح پٹّے کی رسیدیں بھی موجود ہیں! یہاں کم سے کم دو ڈھائی سو گھر ہوں گے۔۔ کچھ لوگوں نے پکّے گھر بھی بنا لئے ہیں۔۔ ایسے پکّے گھر والوں نے مل کر اپنا ایک ذاتی پاخانہ بنا لیا، جس کی ایک ایک چابی بھی وہ اپنے پاس رکھتے ہیں۔۔ باقی لوگوں کے لئے اس کا بند و بست ہائی وے کے قریب پرانے پولس سٹیشن کے پڑوس میں نگر پالیکا کے بنائے ہوئے شوچالیہ میں ہے۔۔ چھوٹے چھوٹے بچّے پرانے ممبئی پونا ہائی وے کے کنارے کا جوواڑی سے لگی چھوٹی سی برائے نام سڑک پر صبح آرام سے فارغ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔۔
’’کیا کیا جائے؟‘‘ میں نے اپنے شوہر سے پوچھا، ’’بچّے کو پوری رات گھر میں رکھنا تو خطرے سے خالی نہیں ہے۔۔ ایک دو دنوں کے لئے اپنے یہاں کے ہی، دن کے دو ہزار والے اسپتال کے انکیوبیٹر میں رکھوا دیتے ہیں۔ ‘‘
’’کچھ فائدہ نہیں۔۔ پھر پرائیویٹ اسپتال والے کسی نہ کسی بہانے کئی دنوں تک روکے رکھیں گے۔۔ تم تگڑی آسامی جو ہو!‘‘
صبح تین بجے ہی میری آنکھ کھل گئی۔۔ مجھے بے چینی تھی۔۔ بچّے کو جلد ہی اسپتال پہنچانا تھا۔۔ ’کتنی خوشی ملے گی مجھے، جب اس بچّے کو ہنستا، کھیلتا، بڑھتا دیکھوں گی۔۔ ہمارے سماج میں بیٹوں کا پیدا ہونا کتنی خوشی لاتا ہے۔۔ کیسے عجیب لوگ ہیں! کیا اسے پتہ نہیں تھا کہ اس کی بیوی کے یہاں بچّہ ہونے والا ہے کہ نو مہینوں میں اس نے کچھ پیسے نہیں جٹائے!‘ میں نے پلان بنایا کہ صبح پہلے یوسف کے گھر جاؤں گی۔۔ روپئے دے کر انہیں جلدی نکلنے کو کہوں گی۔۔ …. مگر صبح ہلکی سی ورزش کر کے، شوہر کے لئے ناشتہ تیار کرنے، خود تیار ہو کر ایک کپ چائے پی کر نکلتے نکلتے ساڑھے سات بج گئے۔۔ کالج کی پہلی گھنٹی پونے آٹھ بجے ہوتی ہے۔۔
’اِس وقت جاؤں گی تو کالج کے لئے دیر ہو جائے گی۔۔ اور پھر گھر ڈھونڈنا بھی تو پڑے گا۔ ‘ میں نے اپنے آپ سے کہا۔۔
چوتھا لیکچر فاؤنڈیشن کورس کا تھا۔۔ لیکچر میں صرف دو لڑکے موجود تھے۔۔ سپورٹس شروع ہو رہے تھے۔۔ اور اُس کے ادگھاٹن کا دن تھا۔۔ طلباء باہر پلے گراؤنڈ کی ریلنگ سے لگے کھڑے تھے۔۔ لیکچر کے دورا ن میں نے دونوں سے اُس سات مہینوں میں پیدا ہونے والے بچّے کی بات کی اور کہا، ’’یہ لوگ بے پروا ہیں۔۔ دوسری بات یہ ہے کہ پتہ نہیں اُن کو سمجھ میں آئے گا کہ نہیں! کس بس میں بیٹھیں، کس میں نہیں! تم لوگ میرے ساتھ چلو اور انہیں علی باغ کی بس میں بٹھا کر ہی اپنے گھر جاؤ۔ ‘‘
میں دونوں لڑکوں کو لے کر یوسف کے گھر کی طرف نکل پڑی۔۔ گھر ڈھونڈھنے میں تکلیف نہیں ہوئی۔۔ یوسف نے بتایا تھا، کاجوواڑی کے چھوٹے سے گیٹ میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف اُن کا گھر تھا۔۔
وہیں ایک جھونپڑے کی عورت سے، جو بال بناتی عورت سے میں نے پوچھا،
’’یوسف کہاں رہتا ہے؟‘‘ وہ کنگھی ہاتھ میں لے کر سوچنے لگی۔۔
’’جس کے گھر پرسوں بچہ ہوا ہے۔۔۔ ‘‘۔۔ اس نے وضاحت کی۔۔ اس نے کنگھی سے سامنے کی طرف اشارہ کیا۔۔
میں آگے بڑھی۔۔ کاجوواڑی کے اس حصّے میں بے حد غریبی دکھائی دی۔۔ جھونپڑے ایک دوسرے سے لگے ہوئے تھے۔۔ ان کے درمیان تنگ گلیاں تھیں۔۔ پہاڑی کے اس چھور پر جھونپڑے کے سامنے کچھ بچّے اور تین عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔۔ پیشانی پر بندی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے مسلمان لگیں ورنہ تو وہ ساجھے کلچر کا نمونہ ہی تھیں۔۔ ان کے پیچھے ذرا سی دوری پر گندی چٹائیوں سے بنا کھلی چھت کا باتھ روم تھا، جس میں کوئی نہا رہا تھا۔۔ چٹائی کے نیچے سے صابن کا گندا پانی پتّھروں کے درمیان سے بہتا اپنا راستہ بناتا ہوا پہاڑی کی ڈھلانوں میں کہیں گم ہو رہا تھا۔۔ بغل میں ایک چھوٹا سا ٹین کے پترے کی چھت اور بانس کی لکڑیوں کی دیواروں کا بنا جھونپڑا تھا۔۔ میں نے جھونپڑے میں سرسری نظر دوڑائی۔۔ دیواروں پر مٹّی لپی ہوئی تھی۔۔ دیوار میں لگے ہوئے لکڑی کے ٹکڑے پر کچھ صاف دھلے چمچماتے برتن سلیقے سے لگے ہوئے تھے۔۔ اُسی کے نیچے مٹّی کا چولہا تھا جس کے پاس کچھ سوکھی لکڑیاں پڑی تھیں۔۔ جھونپڑے میں دروازے کے قریب ایک کھاٹ پڑی ہوئی تھی۔۔ کھاٹ کے پیچھے جھونپڑے کو دو حصّوں میں تقسیم کرتا ہوا ایک پردہ رسّی سے باندھ کر لٹکا دیا گیا تھا۔۔
’’بچّہ کیسا ہے؟‘‘ میں نے یوسف کی بیوی صابرہ کو اسی کھاٹ کے پائنتی ایک پیر موڑ کر بیٹھے دیکھ کر پہچانا اور پوچھا۔۔ مگر صابرہ کے بجائے جھونپڑے کے باہر بیٹھی ہوئی عورتوں میں سے گھنگھریالے بالوں والی ایک موٹی سی عورت نے جو بے ترتیب سی ساڑی پہنے تھی جواب دیا۔۔
’’مر گیا‘‘۔۔
’’کب؟؟‘‘ میری اندر کی سانس اندر رہ گئی۔۔
’’آج صبح، چھے بجے‘‘۔۔
میں افسوس سے زمین میں گڑی جارہی تھی۔۔
’’کل تم گھر کیوں نہیں آئیں؟ میں نے صابرہ سے پوچھا۔۔ وہ چپ رہی مگر گھنگھریالے بالوں والی بولی،
’’اِن لوگوں نے اسپتال کی چِٹھّی گُما دی۔۔ اور آپ کا گھر بھی نہیں ملا۔ ‘‘
’’گھر نہیں ملا؟‘‘
’’گھر تو میں نے یوسف کو دکھا دیا تھا۔ ‘‘
’’یوسف نے صابرہ کو آپ کے گھر کا راستہ سمجھا دیا تھا مگر اس کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا۔۔ وہ چاہتا تھا کہ صابرہ جائے مگر یہ تو۔۔۔ ‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘، گھنگھریالے بالوں والی کے بار بار بات چیت میں حصہ لینے سے مجھے لگا، وہ یوسف کے گھر کی ہی ایک فرد ہے۔۔
’’میں بھی یوسف کی عورت ہوں۔ ‘‘
مجھے عجیب سا محسوس ہوا۔۔
’’ذرا بچّے کا چہرا دکھاؤ۔ ‘‘ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی یوسف کے گھر میں داخل ہوئی۔۔
کھاٹ پر پڑی ہوئی سفید چادر سرہانے کھسکا کر صابرہ نے مجھے بچّے کا چہرہ دکھایا۔۔ میرا دل بری طرح دھڑکا، کل یہ بچّہ جس طرح دکھائی دے رہا تھا، یاد آیا، شاید زندہ رہنے کی خواہش ظاہر کر رہا تھا۔۔ اس کے پھولے ہوئے گال دب چکے تھے۔۔ رنگ سنولا ہو گیا تھا۔۔۔۔ پاس پڑوس کتنا بے حس ہے!۔۔۔۔ کہ ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہو گا!‘ میں نے دل میں سوچا۔۔
’’تمہارا آدمی کہاں ہے؟‘‘
’’حافظ جی کو بولنے گیا ہے، میّت کے کام کے لئے۔ ‘‘ گھنگھریالے بالوں والی بولی۔۔
تبھی اچانک، دو سال کا بچّہ تیزی کے ساتھ گھنگھریالے بالوں والی عورت کی جانب دوڑتا ہوا آیا۔۔ وہ پیر پسار کر بیٹھی ہوئی تھی۔۔ بچّے کو دیکھ کر اس نے فوراً آلتی پالتی مار لی۔۔ بچہ دوڑ کر اس کے پاؤں پر لیٹ گیا۔۔ اور وہ بچّے کو دودھ پلانے لگی۔۔ اُسے اپنے کپڑوں کی سدھ کہاں تھی! مجھے شرم محسوس ہوئی۔۔ اب میں اُس کے اور اپنے طلباء کے درمیان آ گئی۔۔ اس کے دل نے کہا، ’بچّے کو بچانے کے لئے کچھ پیسہ خرچ کرنا چاہتی تھی، وہی شاید اس کی میّت میں کام آ جائیں۔ ‘
’’میّت کے لئے پیسوں کی ضرورت ہو گی۔ ‘‘ میں نے پرس سے پیسے نکالتے ہوئے صابرہ سے کہا۔۔
’نہیں۔۔۔۔ میّت کے لئے پیسے مت دو۔۔ میں تو یہاں بیٹھی ہوں۔ ‘‘ گھنگھریالے بالوں والی عورت کی بات سے میں اچنبھے میں تھی۔۔
’’تم پہلی بیوی ہو یا دوسری؟‘‘ میں نے پوچھا۔۔
’’میں پہلی ہوں۔ ‘‘
میں نے اسے غور سے دیکھا۔۔ یوسف کی دونوں بیویوں میں عمر یا شکل و صورت میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آیا۔۔
’’تمہارے بچّے نہیں تھے، اِسی لئے اُس نے دوسری شادی کر لی؟‘‘
’’میرےَ مرَد کو اِس سے پیار ہو گیا تھا۔۔ اِسی لئے اِس کے ساتھ بھاگ گیا تھا۔۔ اس وقت تو میرا پہلا بچّہ میرے پیٹ میں تھا۔ ‘‘
’’میّت کے لئے نہ سہی کچھ خرچ کے لئے تو دینے دو اِسے۔ ‘‘ میں نے گھنگھریالے بالوں والی عورت سے صابرہ کو پیسے دینے کی اجازت مانگی۔۔
’’میرے پاس میرے بچّے کے کام کے لئے پیسہ ہے۔۔ یہ میرا حق ہے۔۔ میں تو اس کو اور میرےَ مرَد کو بہت بولی تھی کہ میں خرچہ کرنے کو تیّار ہوں، مجھے لڑکا دے دو۔۔ پھر میں اسے اسپتال لے چلتی ہوں لیکن اس نے ایک نہیں سنی، جیسے کہ بچّہ بڑا ہو کر میرا ہی سہارا بننے والا تھا۔ ‘‘ گھنگھرالے بالوں والی عورت جب ایسا کہہ رہی تھی، تب مجھے اُس کے چہرے پر بڑی بیوی ہونے کا ٹھسّہ دکھائی دیا۔۔
میں نے پرس میں سے پانچ سو روپئے کا نوٹ نکال کر صابرہ کے ہاتھ میں رکھنا چاہا۔۔ تو وہ ایک دم کھڑی ہو گئی اور بولی
’’تم روپئے کیوں دے رہی ہو، وہ میرا بھی تو بچّہ تھا۔۔ وہ میری سوَت ہے تو کیا ہوا، ہے تو وہ میرے مرد کی بیوی ہی۔۔ میرا مرد اسے چاہتا ہے، کیا یہ کم ہے۔۔ میرے پاس روپیہ ہے۔ ‘‘
میں حیرت سے اُسے دیکھتی رہی اور سست چال سے چلتی ہوئی گھر پہنچی۔۔ دروازے پر کام والی بائی میرا انتظار کر رہی تھی۔۔
٭٭٭
شکریہ فیس بک