چل گوئیاں سنگ بیٹھیں ۔۔۔ ڈاکٹر شائستہ فاخری

دن ڈھل رہا تھا اور درختوں پر آ کر رین بسیرا کرنے والے پرندوں کا شور مجھے دور سے سنائی دے رہا تھا۔۔ ڈوبتے سورج کی سرخ روشنی میں سیاہی مائل رنگ آہستہ آہستہ گھلنے لگا تھا۔۔ فضا کا شور میرے اندر کے مہیب سناٹے کو دور کرنے میں ناکام تھا۔۔ میں اس وقت بالکنی پر بیٹھی دور تک پیلے نیلے آسمان پر اپنی گم شدہ چیزوں کو تلاش رہی تھی۔۔ تکتے تکتے نگاہیں تھک جاتیں توفرش پر ٹک جاتیں۔۔ اپنے خواب بھی تو ہم آسمان کی بلندی پر بیٹھ کرسجاتے ہیں اور جب یہ خواب گر کر چکنا چور ہو جاتے ہیں تو ان کی کر چیاں زمین سے بٹورتے ہیں۔۔ میری آنکھوں میں نہ اب کوئی خواب بچا تھا، نہ دامن میں سمیٹی گئی کرچیاں۔۔

اب صرف ایک انتظار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف انتظار۔۔۔۔۔۔۔

اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔۔ آہٹ جانی پہچانی تھی۔۔ میں نے بغیر دروازے کی طرف دیکھے کہا۔۔ ’’آ جاؤ‘‘ کُسم اندر آ گئی۔۔

’’کب تک دستک دیتی رہو گی؟ کبھی بغیر دستک دیے بھی آ جایا کرو‘‘۔۔

’’بیگم صاحب۔۔ ان ہاتھوں کو دروازے پر دستک دے کر داخل ہونے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ ‘‘ یہ کہ کر وہ میرے سامنے میز پر رکھے خالی چائے کے کپ اُٹھا کر چلی گئی۔۔

کُسُم میری زندگی میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔۔ فطرتاً وہ نیک عورت ہے۔۔ نرم مزاج، کم گو، اس نے میری زندگی کے اتار چڑھاؤ کا ایک لمبا سفر دیکھا ہے۔۔ کُسُم کی زندگی بھی میرے لئے ایک بند کتاب نہیں ہے۔۔ ہم دونوں ہی عورتیں ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں مگر دونوں ہی اپنی اپنی حد میں بندھے خاموش رہتے۔۔ ہاں دو موقعے ایسے آئے تھے جب کُسُم ٹوٹ کر بکھری تھی۔۔ میرے پیروں کو پکڑ کر زار و قطار روئی تھی۔۔ بچوں کی طرح ہاتھ پیر مار مار کر زمین پر لوٹی تھی۔۔ میں نے اس کے آنسو پونچھے، دلاسہ دیا، سمجھایا بجھایا۔۔ وہ سنبھل گئی۔۔ اس نے گیلی آنکھیں دامن سے خشک کر لیں اور چپ چاپ میری خدمت میں لگ گئی۔۔ ایک موقعہ تب آیا جب اس کا نو عمر اکلوتا بیٹا دوستوں کی غلط صحبت میں پڑ کر بمبئی بھاگ گیا اور دوسرا موقعہ تب آیا جب اُس کا شوہر خدا کو پیارا ہو گیا۔۔ وہ اکیلی رہ گئی۔۔ ہم لوگوں کے بھروسے۔۔ پچھلے سولہ برسوں سے وہ میرے گھر میں ملازمہ تھی۔۔

ان دنوں کی ایک ایک بات مجھے یاد ہے جب پوری کوٹھی کی لگام میرے ہاتھ میں ہوا کرتی تھی۔۔ میرے ناز نخرے اُٹھانے کے لئے میرا شوہر موجود تھا۔۔ میں اٹھلاتی اتراتی زندگی کی بھر پور خوشیوں میں جی رہی تھی۔۔ ایک شام میرے شوہر مرحوم اعجاز احمد کے پاس ان کا ایک خاص آدمی آیا۔۔ ساتھ میں کُسُم تھی۔۔ اس شخص نے میرے شوہر کو یقین دلایا کہ کُسُم ایک شریف خاندان کی ایماندار عورت ہے۔۔ اگر گھر کے کام کاج میں اسے آپ لوگوں کی سرپرستی مل جائے توا س کی زندگی عزّت سے کٹ جائے گی۔۔

معاملہ میرے سامنے لایا گیا۔۔ میں نے اوپر سے نیچے تک کُسُم پر ایک کڑی نگاہ ڈالی۔۔ دبلی پتلی، اکہرے بدن کی لگ بھگ تیس سال کی عورت، لمبا قد، سانولی رنگت پر تیکھے ناک نقشے، نگاہیں نیچی کئے وہ فرش کو تک رہی تھی۔۔ چہرے پر مایوسی اور غربت کی ساری لکیریں موجود تھی۔۔ میرے گھر کئی ملازم پہلے سے موجود تھے۔۔ ضرورت نہ ہونے کے باوجود اعجاز کے کہنے پر میں نے کُسُم کو اپنی خدمت کے لئے رکھ لیا۔۔ کُسُم کا صرف ایک ہی کام تھا، وہ میری ہر ضرورت کا خیال رکھے۔۔ میرا ہر کام وقت پر پورا کرے۔۔ اس نے بھی مجھے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔۔ پچھلے سولہ برسوں سے وہ میرے ساتھ سائے کی طرح تھی۔۔ میرے شوہر نے کوٹھی کے پیچھے بنے سرونٹ کوارٹر میں رہنے کے لئے اسے ایک کمرہ بھی دے دیا۔۔ کُسُم اپنے شوہر کے ساتھ رہنے لگی۔۔ اس کے شوہر نے میرے باغیچے میں مالی کا کام سنبھال لیا۔۔

ان دنوں جب کُسُم کی میرے گھر میں آمد ہوئی۔۔ میرا بیٹا امان صرف پانچ سال کا تھا جبکہ کُسُم کی کوکھ سے جنما بچہ دو سال کا۔۔ میں نے کُسُم سے سختی سے کہہ رکھا تھا کہ اپنے بیٹے کو کمرے میں بند رکھا کرو یا کوٹھی کے باہر کھیلنے کے لئے بھیجا کرو۔۔ خبردار! وہ میرے بیٹے امان کے ساتھ کھیلنے نہ پائے۔۔ مگر میں یہ بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ میرے اندر ایک رحم دل عورت بھی ہے جسے میں تھپک تھپک کر سلائے رہتی ہوں۔۔ جذبات کا مظاہرہ کرنا مجھے پسند نہیں تھا۔۔ میں اسے مڈل کلاس عورتوں کی دھروور مانتی تھی جو اپنے ہر دکھ سکھ کی حصہ داری چاہتی ہیں۔۔ نہ ان سے ایک قطرہ آنسو سنبھلتا ہے، نہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کو وہ چھپا سکتی ہیں۔۔

تیزی سے گھر میں پرانے کلنڈر کی جگہ نیا کلنڈر لے لیتا اور حاشیے پر آتی میری زندگی سے حساب کتاب لینے کے لئے وقت تیار ہوتا رہا۔۔

اچانک کمرے میں روشنی ہو جانے سے میں نے انداز لگا لیا کہ کُسُم کمرے کی لائٹ جلانے آئی ہے۔۔ شام کے گہراتے سائے سے گھبرا کر میں بالکنی سے اُٹھ کر کمرے میں آ گئی۔۔ مجھے ان دنوں اندھیرے میں بیٹھنے سے بے حد خوف آنے لگا تھا۔۔ میں تنہائی میں بیٹھے بیٹھے اکثر اپنے آپ کو ٹٹولتی اور خود سے کہتی۔۔

’بیگم نصرت جہاں، آخر تم بن گئی نا ایک معمولی عورت۔۔ ایسی عورت جسے دوسری عورتوں سے بے مقصد باتیں کرنے میں مزہ ملتا ہے۔۔ جو اکیلے بیٹھنے سے گھبراتی ہیں، جنہیں اندھیرے اپنی سیاہی سے ڈراتے ہیں۔ ‘

میں نے قد آدم آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا۔۔ ’اُف، نہیں نصرت جہاں آنکھیں بند کر لو۔۔ نہیں دیکھ سکتیں تم اپنی یہ بدحالی۔۔ سچ سے بچنے کے لئے سچ مچ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔۔ مجھے وہ کبوتری یاد آ گئی جو بلّے کی شکل میں اپنی موت کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتی ہے۔۔ یہ آئینہ بھی مجھے موت کا عکس دکھا رہا ہے۔۔

’’کیا ہوا بیگم صاحب؟‘‘ کُسُم کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔۔ وہ مجھے بیگم صاحب ہی کہتی تھی۔۔

’’کئی بار آواز دی مگر آپ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔ ‘‘

میں نے آنکھیں کھول دیں‘‘۔۔ ہاں! ہاں! بالکل ٹھیک ہوں، آؤ بیٹھو‘‘۔۔

کُسُم گھبرا اٹھی، اس سے بات کرتے وقت میرا ایسا نرم لہجہ کبھی نہیں رہتا تھا۔۔

’’نہیں نہیں بیگم صاحب میں تو صرف یہ پوچھنے آئی تھی کہ رات کے کھانے میں آپ کے لئے کیا بناؤں‘‘۔۔

’’آؤ پہلے بیٹھو تو‘‘۔۔ مجھے اپنی آواز میں اجنبی پن صاف محسوس ہو رہا تھا۔۔

یہ بیگم نصرت جہاں کی نہیں، ایک مڈل کلاس عورت کی آواز تھی جو ایک ملازمہ سے بیٹھ کر باتیں کرنے کی چاہ رکھتی تھی۔۔ میں نے خود کو لعنت بھیجی کہ واہ نصرت جہاں اب تم اتنا گر گئی ہو کہ اپنا وقار تک بھول گئی۔۔ اپنے شوہر کی شان بھول گئی۔۔ اپنا رتبہ بھول گئی۔۔ میں نے اگلے ہی لمحہ اپنا لہجہ بدلتے ہوئے کُسُم کو رات کے کھانے کا آڈر دیا۔۔ ’’اب تم جاؤ۔۔ رات کے کھانے پر میرے لئے صرف لوکی کی سبزی اور دو پھلکے بنا دینا‘‘۔۔

کُسُم کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔۔ وہ میری آواز کی سختی کا مطلب نہیں سمجھ سکی۔۔ وہ مڑی اور دروازے کے باہر جانے لگی۔۔

مجھے تنہائی کا ناقابل برداشت عذاب اپنے قریب آتا محسوس ہوا۔۔

’’سنو‘‘ میری تیز آواز نے اس کے بڑھتے قدموں کو روک دیا۔۔

’’تم جانتی ہو میں نے لوکی کھانے کی خواہش کیوں کی؟‘‘

’’جی نہیں بیگم صاحب‘‘۔۔ کُسُم نے آہستہ سے کہا۔۔

’’کیونکہ ہمارے آخری پیغمبر محمدؐ صاحب کو لوکی بہت پسند تھی۔۔ صحت کے لئے بھی لوکی کھانا بہت فائدے مند ہے‘‘۔۔

’’جی بیگم صاحب‘‘۔۔ کُسُم نے سپاٹ لہجے میں کہا اور آگے بڑھنے لگی۔۔

اس کے جاتے قدموں کو روکنے کی میں نے آخری کوشش کی۔۔

’’تم بھی کھایا کرو۔۔ تمہاری صحت بھی ٹھیک نہیں رہتی‘‘۔۔

’’جی! آپ جو چھوڑ دیتی ہیں وہ میں کھا لیتی ہوں‘‘۔۔

’’جوٹھا مت کھایا کرو۔۔ اپنے لئے تھوڑا بڑھا کر پکا لیا کرو‘‘۔۔

کُسُم جا چکی تھی۔۔ میں کمرے میں تنہا تھی۔۔ عالی شان کمرہ۔۔ دبیز قالین، چھت پر لٹکتے ہوئے فانوس،ر نگ و روغن کی ہوئی سجاوٹ سے بھرپور دیواریں اور مسہری کے سامنے لگی ہوئی میرے شوہر کی تصویر، میں نے ایک گہری سانس لی۔۔ اچانک موبائل کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔۔ میرے بیٹے امان کا فون تھا۔۔ جو سنگاپور میں اپنی تجارت پھیلا رہا تھا۔۔ اس نے اپنا اصول بنا رکھا تھا کہ دن بھر میں ایک بار وہ فون کر کے میری خیریت ضرور پوچھ لیتا تھا۔۔ اعجاز کی موت اور امان کے سنگاپور چلے جانے کے بعد میں خود کو ہمیشہ بیمار محسوس کرتی رہتی۔۔ دن رات بستر پر پڑی رہتی۔۔ بات مختصر اتنی تھی کہ بھرپور سوشل لائف جینے کے بعد کمرے کی بند زندگی نے میرے اندر سے جینے کا حوصلہ توڑ دیا تھا۔۔ میری اپنی انا اور خود داری نے مجھے سب سے الگ تنہا حاشیے پر لا کھڑا کیا تھا۔۔ دو بار کے ہارٹ اٹیک نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔۔ اب غذا کم، پیٹ میں دوائیں زیادہ جاتیں۔۔ تیز دواؤں کے اثر سے میرے آدھے سے زیادہ بال جھڑ چکے تھے۔۔

میں اپنے خیالوں میں گم تھی اور موبائل بجتے بجتے بند گیا۔۔ دوسری رنگ پر میں نے جلدی سے اسے ریسیو کیا۔۔ ’’ہیلو‘‘ میں نے اپنی آواز میں چہک پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی تاکہ پردیس میں میری پست آواز سن کر امان فکر مند نہ ہو جائے۔۔ سلام دعا کے بعد اس کا ہمیشہ کی طرح پہلا سوال تھا۔۔

’’امّی جان اب آپ کیسی ہیں؟‘‘

’’بیٹا ٹھیک ہی ہوں‘‘۔۔

’’دوائیں کھانے میں کوتا ہی مت کیجئے گا۔۔ میری تقریباً روز ڈاکٹر سے بات ہوتی رہتی ہے۔۔ کُسُم کو بھی میں نے موبائل اس لئے دے رکھا ہے کہ کوئی بات ہو تو مجھے فوراً فون کرے۔ ‘‘

’’ہاں بیٹا مجھے معلوم ہے۔۔ تم اپنا کام دیکھو۔۔ میری فکر کرنے والے یہاں بہت ہیں۔ ‘‘

میں نے اسے تسلی دینی چاہی۔۔ سچ بھی ہے۔۔ میرے جاننے والے میرے ماننے والے شہر میں ہی نہیں پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔۔ مگر افسوس سب موبائل سے ہی خیریت معلوم کرتے ہیں۔۔ کوئی میرے سنگ بیٹھ کر میرے دکھ درد اور تنہائی کو بانٹنے کے لئے میرے کمرے میں نہیں آتا۔۔ لوگ آگے بڑھ گئے اور میرے پیر تھک گئے۔۔ میں پیچھے چھوٹ گئی۔۔ عمر بھی تو میری پینسٹھ (۶۵) سال ہو رہی ہے۔۔

’’ہیلو امّی آپ میری آواز سن رہی ہیں نا؟‘‘

’’جولی کا آپ کے ساتھ برتاؤ ٹھیک رہتا ہے نا؟‘‘

’’بالکل ٹھیک رہتا ہے۔۔ صبح شام وہ میرے پاس آ کر بیٹھتی ہے۔۔ حال چال پوچھتی ہے۔ ‘‘

میں امان کو کیسے بتاتی کہ مہینوں ہو جاتے ہیں جولی کو میرے کمرے میں آئے ہوئے۔۔

جولی ایک عیسائی لڑکی تھی۔۔ امان نے اسے پسند کیا۔۔ ایک بار ہلکے لہجے میں اسے سمجھانے کی میں نے کوشش کی۔۔ ’’بیٹا، کرشچن لڑکی ہے مسلم گھرانے میں کیسے اڈجسٹ (Adjust) ہو گی‘‘۔۔ مگر عشق کا جنون کسے کچھ سوچنے کی مہلت دیتا ہے۔۔ میں نے امان کی بات مان لی۔۔ جولی بہو بن کر میرے گھر آ گئی۔۔

اس کا پہننا، اوڑھنا، اٹھنا، بیٹھنا، بولنا کچھ بھی مجھے نہ بھاتا۔۔ میں اسے ٹوکتی اور جو میں کہتی وہ اُس کا الٹا کرتی۔۔ کچھ ہی دنوں میں ہم دونوں کے بیچ ٹکراؤ شروع ہو گیا۔۔ میں نے اعجاز سے شکایت کی۔۔ اعجاز گھریلو معاملوں میں کم دخل دیتے تھے۔۔ انہوں نے مجھے چپ رہنے کا مشورہ دیا۔۔ مگر میں کہاں چپ بیٹھنے والی اور پھر کوٹھی کی لگام ابھی میرے ہاتھ میں تھی۔۔ یہاں سب کچھ میرے اشارے پر ہوتا تھا۔۔ میں نے امان سے بات کی۔۔ وہ جولی سے بے حد ناراض ہوا۔۔ میاں بیوی میں جھگڑے شروع ہو گئے۔۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔۔ اعجاز ٹھیک کہتے تھے۔۔ میں نے چپ سادھ لی۔۔ پہلی بار مجھے لگا میرے ہاتھ سے لگام ڈھیلی پڑ رہی ہے۔۔ چند سال بعد ہی اعجاز کی بے وقت موت نے مجھے توڑ دیا۔۔ ابھی میں پوری طرح سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ مرض الموت نے مجھے آ گھیرا۔۔

’’ہیلو! امّی جان آپ چپ کیوں ہیں؟‘‘

’’نہیں بیٹا میں چپ کہاں ہوں۔۔ میں بول تو رہی ہوں۔ ‘‘

’’بول کہاں رہی ہیں۔۔ آپ تو خاموش ہیں۔ ‘‘

’’تم بتاؤ تم کیسے ہو۔۔ کام کہاں تک آگے بڑھا۔۔ آج تمہارے والد زندہ ہوتے تو کتنا خوش ہوتے۔۔ ان کی تجارت تو ہندوستان میں ہی پھیلی تھی مگر تم نے ان کے کام کو ہندوستان کے باہر بھی پہنچا دیا۔۔ ہیلو۔۔ ہیلو۔۔ ارے لائن کٹ گئی۔۔ اور میں بولتی ہی چلی جا رہی ہوں‘‘۔۔

بیٹے سے باتیں کر کے طبیعت بہت خوش ہوتی تھی۔۔ دل چاہ رہا تھا کچھ دیر اور اس کی آوازیں سنوں مگر میں نے رنگ بیک نہیں کیا۔۔ نہ جانے وہ کس کام میں الجھا ہو گا۔۔

میں نے موبائل سے فون کر کے کُسُم کو اپنے پاس بلا لیا۔۔

’’کہاں تھیں تم؟‘‘

’’کچن میں تھی۔۔ رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی۔ ‘‘

’’کون سا مجھے مرغ قورمہ کھانا رہتا ہے۔۔ جو تم اتنی دیر لگی رہتی ہو۔۔ ارے تھوڑی دیر یہاں بیٹھو۔ ‘‘

’’جی‘‘

کُسُم زمین پر بیٹھ گئی۔۔

’’وہاں نہیں کرسی کھینچ کر میرے قریب بیٹھو۔ ‘‘ کُسُم ہچکچاتےہوئے میرے قریب آ کر بیٹھ گئی۔۔ بات بڑھانے کی غرض سے میں نے سوال کیا۔۔ حالانکہ جب بعد میں سوچا تو یہ سوال خنجر کی طرح میری خود داری کو چیر گیا۔۔ کئی قطرے آنسو میرے گالوں پر بہہ گئے۔۔ میں نے اس سے پوچھا۔۔

کُسُم بتاؤ۔۔ اب میں کیسی دکھتی ہوں؟‘‘

اس کی آنکھوں میں میرے لئے دکھ بھی تھا اور ہلکا سا خوف بھی۔۔ شاید میری شکل کچھ زیادہ ہی ڈراؤنی ہو گئی تھی۔۔ اس نے بڑی سادگی سے کہا۔۔

’’جی بیگم صاحب اچھی دکھتی ہیں۔ ‘‘

میں نے ہنس دیا۔۔ مگر میری آنکھوں میں بے شمار آنسوؤں کا درد تھا۔۔

ایک لمبی تنہائی کی آہ و بکا تھی۔۔ ایک ایسی بے بسی تھی جو چاقو کی دھار کے نیچے آئے ہوئے پرندے کی ہوتی ہے۔۔

’’دیکھو کُسُم میرے سر کے تقریباً سارے بال جھڑ گئے ہیں۔۔ میں گنجی ہو گئی ہوں لوگ میرے پاس آنے سے گھبرانے لگے ہیں۔ ‘‘

’’بیگم صاحب یہ دواؤں کا اثر ہے۔۔ صاحب کہہ رہے تھے لمبی بیماری اور زیادہ دوائیں کھانے سے سر کے بال جھڑ جاتے ہیں۔ ‘‘

’’جولی کیسی ہے۔۔ دن بھر کیا کرتی ہے؟‘‘ میں نے جھٹ سے بات بدل دی۔۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ کُسُم اس موضوع پر کوئی بات مجھ سے کرے۔۔

ایک طرف میرا دل چاہتا تھا کہ کُسُم میرے قریب آ کر مجھ سے دنیا جہان کی باتیں کرے، دوسری طرف دماغ مجھے حکم دیتا کہ میں اپنے اور اس کے بیچ مالکن اور ملازمہ کا رشتہ بنائے رکھوں۔۔ دل، دماغ کی کشمکش مجھے تھکائے رہتی تھی۔۔ کُسُم کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔۔

’’جی چھوٹی مالکن ٹھیک ہیں۔۔ ان کے پیر بھاری ہیں۔ ‘‘

میں اپنا سارا درد بھول کر چہک اٹھی۔۔ ’’اچھا جولی ماں بننے والی ہے۔ ‘‘

اتنی بڑی خوشخبری اس نے مجھے بتائی نہیں۔۔ امان بھی بتانا بھول گیا۔۔ اس بے چارے کو تو میری گرتی صحت کی فکر کھائے جا رہی ہے۔۔ اچھا بتاؤ کون سا مہینہ چل رہا ہے۔ ‘‘

’’بیگم صاحب ان سے یہ پوچھنے کی ہمت تو مجھ میں نہیں ہے مگر میرا اندازہ ہے کہ ساتواں مہینہ چل رہا ہے۔ ‘‘

’’یا خدا! سات مہینے سے اس گھر میں خوشیاں ناچ رہی ہیں اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ ‘‘

کُسُم جانے کے لئے اٹھی۔۔

’’اب تم کہاں جا رہی ہو۔۔ بیٹھو۔ ‘‘ میں نے تھوڑا ڈانٹتے ہوئے اس سے کہا۔۔

کُسُم دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئی۔۔

’’ایک بات بتاؤ کُسُم۔۔ تمہارا اکلوتا بیٹا نالائق ہو گیا۔۔ تمہیں چھوڑ کر بمبئی بھاگ گیا۔۔ تمہارا شوہر مر گیا۔۔ تم میرے سرونٹ کوارٹر میں اکیلی رہتی ہو۔۔ تمہارا دل نہیں گھبراتا۔ ‘‘

’’دل کا ہے گھبرائے گا بیگم صاحب۔۔ آپ کی دی ہوئی چھت میرا سب سے بڑا آسرا ہے اور ابھی اپنے ہاتھ پیر چل رہے ہیں۔۔ محنت سے اپنا پیٹ پال رہی ہوں اور کیا چاہئے۔۔ دن بھر تھک کر لیٹتی ہوں تو ہوش نہیں رہتا۔ ‘‘

’’مجھے پہلی بار کُسُم کے نصیب سے جلن ہوئی۔۔ میں تو ساری ساری رات کروٹیں بدلتے گزارتی ہوں۔۔ میرا رنگ روپ مٹ گیا۔۔ میرے بال جھڑ گئے۔۔ میں حال سے بے حال ہو گئی۔۔ آئینہ مجھے میری موت کا عکس دکھا کر مجھے ڈراتا رہتا ہے اور یہ ایک معمولی سی عورت ساری زندگی دکھ درد جھیلنے کے بعد بھی کتنے سکون سے جی رہی ہے۔۔ میں تنہائی میں بیٹھی گھنٹوں اپنی اور کُسُم کی زندگی پر غور و خوض کرتی۔۔ کہاں میں اور کہاں وہ۔۔ کہاں عرش اور کہاں فرش۔۔ مگر آج مجھے وہ معمولی عورت عرش پر بیٹھی نظر آتی اور میں فرش پر گھٹنوں کے بل گھسٹتی ہوئی سی لگتی۔۔ میں اپنے آپ پر جھنجھلاتی۔۔ دل ہی دل میں خود کو کوستی کہ کمبخت تو اپنا مقابلہ ایک ملازمہ سے کر رہی ہے۔۔ مگر کروں تو کیا کروں سوچ پر قابو نہ رہا۔۔

ایک دن دوپہر کا کھانا کھا کر میں آرام کرنے لیٹی ہی تھی کہ کُسُم جھاڑو جھٹکا لے کر کمرے میں آ گئی۔۔

’’ارے یہ کیا۔ ‘‘ میں نے حیرانی سے سوال کیا۔۔ کیونکہ صبح وہ جھاڑو پونچھا کر چکی تھی۔۔

’’بیگم صاحب آپ نے دیکھا نہیں، بڑے مالک کی تصویر کے پیچھے چڑیا نے اپنا گھونسلہ بنا لیا ہے۔۔ گھانس تنکے تصویر پر جھول رہے ہیں۔۔ انہیں صاف کر دوں۔ ‘‘

’’مگر یہ چڑیا کمرے میں آئی کہاں سے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔۔

’’اوپر دیکھئے۔۔ روشن دان تھوڑا سا کھلا رہ گیا ہے۔۔ ان دنوں ان کا ٹائم بھی تو آ گیا ہے۔۔ گھونسلہ بنا نے کا۔ ‘‘

مجھے ہلکی سی ہنسی آ گئی۔۔ ’’واہ ری کُسُم گھونسلہ بنانے کا بھی ٹائم ہوتا ہے۔ ‘‘

’’ہاں بیگم صاحب جب یہ بچے جننے والی ہوتی ہیں تو انڈے دینے کے لئے گھونسلے بناتی ہیں۔ ‘‘

’’بچے‘‘ میں اٹھ کر بستر پر بیٹھ گئی۔۔

’’جی‘‘ کُسُم اسٹول کھینچ کر تصویر کے قریب لے جانے لگی۔۔

’’نہیں نہیں رہنے دو کُسُم۔ !ان کا گھونسلہ مت اجاڑو۔ ‘‘

’’یہ بڑی گندگی کریں گے بیگم صاحبہ۔ ‘‘

’’رہنے دو۔۔ ہم دونوں مل کر صاف کر لیں گے۔ ‘‘

کُسُم ہنسنے لگی۔۔ ’’آپ صاف کریں گی۔ ‘‘

’’ہاں کر لوں گی۔ ‘‘ میں نے خود اعتمادی سے کہا۔۔ کُسُم واپس چلی گئی۔۔

اس بیچ میں لگا تار جولی کی خیریت معلوم کرتی رہی۔۔

کُسُم کے ذریعہ بہت سی ہدایتیں اس تک بھیجتی رہی۔۔ میرا امان! میرا بیٹا باپ بننے والا ہے، ایک ماں کے لئے اس سے بڑی خوشی اور کیا ہو گی۔۔ افسوس یہ رہا کہ جولی ایک بار بھی مجھ سے ملنے نہیں آئی۔۔ شروعاتی دور کی باتیں چھوڑ دی جائیں تو جولی سے میرا کوئی جھگڑا تو تھا نہیں اور پھر وہ میری بہو تھی۔۔ اس بات کا خیال تو اسے رکھنا ہی چاہئے تھا۔۔ ایک دن کُسُم نے مجھے خبر دی ’’بیگم صاحب چھوٹی مالکن مائیکے چلی گئی ہیں۔۔ بچے کی پیدائش وہیں ہو گی۔ ‘‘

’’ارے وہ تو تھوڑی دیر پہلے مجھ سے آ کر ملی تھی لیکن ایسا کچھ بتایا نہیں، ٹھیک ہے‘‘ میں نے بظاہر مطمئن ہو کر کہا مگر مجھے اپنا پورا وجود خلا میں تیرتا محسوس ہو رہا تھا۔۔ میں نے اپنے آپ کو سمجھانا چاہا۔۔

’بیگم نصرت جہاں۔۔ اس کوٹھی میں اب تمہاری حیثیت صفر کے برابر ہے۔ ‘

’ماتم کرنا چھوڑو اور اس سچ کو قبول کر لو۔۔ رشتے دور کے ہوں یا پاس کے۔۔ چل سکیں تو چلا لو، نہ چلیں تو مٹھی میں ریت کی طرح پھسل کر اپنے سے دور ہو جانے دو۔۔ رشتوں کا کیا ہے۔ ‘مگر کون سمجھائے جولی کو۔ ‘

مجھے شدت سے کُسُم کی ضرورت محسوس ہونے لگی مگر وہ کمرے سے جا چکی تھی۔۔

سچ کا عکس لئے آئینہ میرے سامنے تھا۔۔ ٹھیک ہے اب کُسُم آئے گی تو میں اس آئینے پر ایک پردہ ڈلوا دوں گی۔۔ نہ اسے دیکھوں گی، نہ اپنے بارے میں سوچوں گی۔۔ میرا یہ عمل میرے لئے بڑا کارگر رہا۔۔ آئینے پر پردہ پڑ گیا۔۔ اب نہ بیگم نصرت جہاں کا ٹوٹتا غرور نظر آتا، نہ ان کی بدحالی۔۔ یہ آئینے کی ہی بیان بازی تھی جو میں دن رات اپنے آپ سے الجھتی رہتی تھی، اندر ہی اندر ٹوٹتی پھوٹتی رہتی تھی۔۔ اب مجھے کُسُم اپنی ملازمہ نہیں، اپنی گوئیاں (سہیلی) نظر آنے لگی تھی۔۔ مجھے اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنا اچھا لگنے لگا تھا۔۔

امان کا فون نہیں آیا تھا۔۔ صبح سے مجھے اس کے فون کا انتظار تھا۔۔ شام کی چائے لے کر کُسُم کمرے میں آئی۔۔ اچانک مجھے کچھ آواز سنائی دی، مجھے لگا میرا موبائل بج رہا ہے۔۔ میں نے تکیے کے نیچے سے موبائل نکالا۔۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے موبائل میں مس کال ڈھونڈتی، کُسُم کی تیز ہنسی نے مجھے چونکا دیا۔۔ میرے بدلے ہوئے رویے نے اسے بھی کافی حد تک بدل دیا تھا۔۔ وہ مجھ سے بات چیت کرنے میں بالکل نارمل رہتی۔۔ نہ ڈرتی، نہ گھبراتی۔۔ ہم دونوں کے بیچ اب مالکن اور ملازمہ کا نہیں بلکہ یکساں حالات میں جینے والی دو عورتوں کا رشتہ بن گیا تھا۔۔

میں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی۔۔ وہ دوبارہ ہنستے ہوئے بولی۔۔

’’یہ چیں چیں کی آواز موبائل کی نہیں بچوں کی ہے۔ ‘‘

’’بچے‘‘۔۔ میں ایک جھٹکے سے مسہری پر کھڑی ہو گئی۔۔

مجھے لگا جولی ماں بن گئی۔۔ میں دادی بن گئی۔۔ میرے امان کا بچہ دنیا میں آ گیا۔۔

میں جوش میں آ کر مسہری سے نیچے کود پڑی اور جذبات سے لبریز ہو کر کُسُم کو میں نے سینے سے لگا لیا۔۔

’’بیگم صاحب چڑیا کے بچے نکل آئے۔ ‘‘

چڑیا کے۔۔ ہاں۔۔ ہاں۔۔ چڑیا کے بچے ہیں۔ ‘‘ میں اپنے حواس میں آ گئی۔۔ لیکن مجھے کوئی شرمندگی نہیں ہوئی کہ میں نے ایک ملازمہ کو اپنے سینے سے لگا لیا۔۔ مجھے تو آج اپنا کمرہ بڑا بھرا پرا لگ رہا تھا۔۔ چڑیا کے بچے تھے، بچے کی ماں بھی اور ساتھ میں تھی کُسُم، میری گوئیاں۔۔ میں نے بس یوں ہی بات جاری رکھنے کی غرض سے اسے چھیڑا۔۔ ’’کُسُم کیا تمہاری چاہ نہیں ہوتی کہ تمہارے بیٹے کی بھی شادی ہو، بچے ہوں، گھر میں خوشیاں پھیلیں۔ ‘‘

’’میں اتنا نہیں سوچتی بیگم صاحب۔۔ جب بیٹا نالائق ہو کر مجھے چھوڑ کر بھاگ گیا تو اس کو لے کر کیا خواب بنوں۔۔ بس دن رات ایک ہی دعا کرتی ہوں وہ جہاں کہیں رہے خوش رہے، آباد رہے اور مجھے کیا چاہئے۔ ‘‘

کُسُم ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔ ہم لوگ رشتوں کے بہانے کتنی آس جگا لیتے ہیں۔۔ اُمیدیں بڑھا لیتے ہیں۔۔ اب دیکھئے نا، اتنا کچھ ہونے پر بھی میں کچھ سیکھ نہ سکی۔۔ مجھے دن رات یہ خیال رہتا کہ چڑیا نے جو بچے نکالے ہیں وہ ابھی نوزائیدہ ہیں۔۔ گھونسلے کے تنکے انہیں تکلیف پہنچاتے ہوں گے۔۔ میں نے اپنی دخل اندازی شروع کر دی۔۔ کُسُم کے منع کرنے کے باوجود میں نے اپنے زیور کا خالی ڈبہ نکالا اور اس میں نرم ریشم بچھا دئے۔۔ اب اس انتظار میں بیٹھ گئی کہ کب چڑیا اڑے اور میں اپنا یہ ڈبہ اس کے بنائے ہوئے گھونسلے کی جگہ رکھ دوں۔۔

موقع ملتے ہیں میں نے اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا دیا۔۔ اب ڈبہ تصویر کے پیچھے تھا، جس میں چڑیا کے ننھے ننھے دو بچے چیں چیں کر رہے تھے اور چڑیا کا بنایا ہوا گھونسلہ میں نے اپنے ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔۔ صبح سو کر اٹھی تو دیکھا کہ گھونسلے کی جگہ رکھا ہوا ڈبہ خالی پڑا ہے۔۔ چڑیا اپنے بچوں کے ساتھ اڑ چکی تھی۔۔

خالی گھونسلہ دیکھ کر میں روئی نہیں، میں تڑپی بھی نہیں۔۔

میں نے چپ چاپ سچ کو تسلیم کر لیا۔۔ اب میں انتظار کر رہی تھی کہ کب کُسُم آئے اور کب میں اس سے کہوں کہ چل گوئیاں سنگ بیٹھیں، کچھ بولیں، کچھ بتیائیں، دنیا جہان کی باتیں کریں۔۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے