پنکھے پر لٹکی ہوئی لاش اور ٹیبل پر رکھے سوسائڈ نوٹ نے اسپیکٹر اودھیش کمار پانڈے کے سامنے ساری کہانی بیان کر دی تھی۔ سوسائڈ نوٹ میں لکھا ہوا تھا۔
میں پریم لتا۔
میری موت کا ذمے دار کوئی ایک شخص نہیں بلکہ پورا سماج ہے۔ خاص طور سے میرے پتی پرمیشور جمنا پرشاد شرما اور میرا بیٹا موہن داس شرما۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے میری فیلنگس (Feelings) کو کبھی نہیں سمجھا۔ میں آج بھی اپنے پتی کی پوجا کرتی ہوں اور اپنے اکلوتے بیٹے موہن سے بے انتہاء محبت کرتی ہوں۔ مجھے جیون بھر افسوس رہا اور مرنے کے بعد بھی اس کا دکھ رہے گا کہ نہ میرے پتی مجھے سمجھ سکے اور نہ میرا بیٹا۔۔ پتی تو خیر۔۔۔ لیکن میرا بیٹا تو میرا ہی انش ہے۔ مجھے اس کا دکھ ہے کہ اس نے بھی مجھے جیتے جی مارنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔
میں آج بتانا چاہتی ہوں کہ میں کبھی غلط نہیں تھی۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ میں غریب اور پریشان لوگوں کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ کیونکہ میری تربیت اسی طرح ہوئی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمارے گھر کے دروازے پر جب کوئی بھیک مانگنے آتا تو ممی میرے پاتھ سے اسے آٹا یا روپئے دلواتیں۔ پتا جی دیکھتے تو کہتے۔
’’پریما سے بھیک کیوں دلواتی ہو؟؟؟ تم خود کیوں نہیں دیتیں؟؟؟ میں بھی تو گھر میں ہوں۔۔۔ ذرا انتظار کیا کرو۔‘‘
تو مری ممی کہتیں۔
’’آپ نہیں سمجھیں گے۔۔۔ پریما کو ابھی سے لوگوں کی مدد کی عادت ہونی چاہئے۔۔۔ تاکہ بڑی ہو کر اسے دکھی لوگوں کی سہایتا کرنے میں کوئی جھجھک نہ ہو۔‘‘
اس طرح میری تربیت ہوئی۔ مجھے ایک واقعہ اور یاد آ رہا ہے جب میں کالج کی چھاترا تھی۔ ہندی میرا سبجیکٹ تھا۔ میں نے ہندی ساہتیہ کا گہن ادھین کیا تو میرے دل میں انسانیت کا جذبہ اور زیادہ ابھرنے لگا مجھے لگتا کہ دنیا میں انسانوں نے انسانوں کا حق مارا ہے اگر ہم غریبوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں تو اس سے بڑا کوئی پنیہ نہیں۔ اس لئے میں نے اپنی فیس کے روپے ایک غریب رکشہ والے کو دے دئیے۔ مجھے لگا کہ اگر یہ رکشہ ایک دن نہیں کھینچے گا اور اس کا روپیوں سے خرچہ پورا ہو جائے گا تو میرے من کو بہت شانتی ملے گی۔ لیکن جب یہ بات پتا جی کو پتہ چلی تو انھوں نے مجھے بہت ڈانٹا ان کا کہنا تھا کہ وہ دن بھر تالوں کی فیکٹری میں کڑی محنت کر کے روپیہ کماتے ہیں اور میں انھیں فضول کے کاموں میں اڑا دیتی ہوں۔ انھیں میری پڑھائی بھی پسند نہیں تھی ان کا کہنا تھا کہ میں ایم اے کر کے کیا کروں گی؟؟؟ جب کہ شادی کے بعد مجھے گھر گرہستی کا کام سنبھالنا ہے۔
اچانک ایک نوجوان کے رونے نے اسپیکٹر اودھیش کمار پانڈے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
’’تم۔۔۔۔ تم کون ہو؟؟؟۔‘‘
اسپیکٹر نے آنے والے نوجوان سے سوال کیا۔
’’جی۔۔۔ میں۔۔ موہن داس شرما۔‘‘
’’ہمم۔۔ ۔ میڈم کے بیٹے؟؟؟‘‘
’’جی۔۔۔‘‘
کس لئے۔۔ ۔ آئے ہو؟؟؟۔۔۔ تمہارے پتا جی کہاں ہیں ؟؟؟‘‘
’’جی وہ۔۔۔‘‘
’’کیا۔۔۔ وہ؟؟؟‘‘
’’جی۔۔۔ انھوں نے آنے سے انکار کر دیا۔‘‘
’’جی!!! مجھے معلوم ہے۔۔۔ ویسے تمہارا آنا بھی۔۔۔ تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔‘‘
’’جی!!! میں جانتا ہوں۔۔۔ ممی مجھ سے ناراض تھیں۔‘‘
اسپیکٹر نے ذرا خاموش رہ کر کہا۔
’’یہ۔۔۔۔ آپ کی ممی کا سوسائڈ نوٹ ہے۔۔۔۔ خود ہی پڑھ لو۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔ میں نہیں پڑھ سکتا۔۔۔۔ مجھ میں اتنی طاقت نہیں۔‘‘ موہن نے آستین سے آنسو پہنچتے ہوئے کہا اور برابر میں صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہیں ’بھوری‘ بھی بیٹھی تھی۔ جو خاموشی کے ساتھ آنسو بہا رہی تھی اور بار بار اپنے ملگجی دوپٹے سے اپنی آنکھوں کو صاف کر رہی تھی۔ دونوں نے ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھا اور اپنی اپنی نگاہیں پھیر لیں۔
پنکھے سے پریم لتا کی لاش اتاری جا چکی تھی اور اسے پوسٹ مارٹم کے لئے بھیجنے کی تیاری ہو رہی تھی۔
اسپیکٹر اودھیش نے ایک بار لاش کی طرف دیکھا اس نے دیکھا کہ لاش کے چہرے پر عجیب سا سکون ہے۔ اس نے لاش سے نگاہ ہٹاتے ہوئے ایک بار پھر سوسائڈ نوٹ کو پڑھنا شروع کیا۔ نوٹ میں لکھا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔میری ممی ہمیشہ میرا دفع کرتیں اور مجھے پڑھنے کے لئے ہر آسانی مہیا کرتیں۔ ان کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ میں آج ’سینٹ سیموئل کالج آف لٹریچر علی گڑھ‘‘ کی پرنسپل ہوں۔ لیکن ہر آسانی اور دولت کی فراوانی ہونے کے باوجود میں ابھی تک وہی بچی ہوں جو بچپنے میں غریبوں کے لئے دل دکھایا کرتی تھی۔ مجھے آج بھی کسی غریب کو سخت سست سنانا اچھا نہیں لگتا۔ میں اپنے دفتر کے پی آن ’اقبال‘ کو ہمیشہ ’اقبال بھائی‘ کہہ کر پکارتی ہوں۔ مجھے بہت برا لگتا ہے جب کوئی ٹیچر انھیں ان کے نام سے پکارتا ہے۔ وہ ہم سے بڑے ہیں انھوں نے کالج کو اپنی زندگی کے پینتیس سال دئیے ہیں۔ ان کے چہرے پر داڑھی ہے تو کیا ہوا ؟؟؟ وہ اگر مسلمان ہیں تو کیا ہوا؟؟؟ وہ کوئی آتنک وادی تو نہیں۔
اسپیکٹر اودھیش نے نوٹ کی عبارت ابھی یہیں تک پڑھی تھی کہ اس کو ایک شور نے اپنی جانب متوجہ کیا۔ اس نے کانسٹیبل سریش سے کہا۔
’’ذرا پتا لگاؤ۔۔۔۔ یہ شور کیسا ہے؟؟؟‘‘۔۔۔۔ ان لوگوں سے کہو سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال رکھیں۔۔۔۔ کیا انھیں معلوم نہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہے؟؟؟‘‘
یہ کہہ کر اسپیکٹر اودھیش پھر نوٹ پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔ اس میں لکھا ہوا تھا۔
۔۔۔ وقت بھی کتنا ظالم ہے بڑی جلدی گذر جاتا ہے۔ پتہ نہیں کب میری شادی ہو گئی اور میں بیاہ کر گھنشیام پوری رام گھاٹ روڈ علی گڑھ سے میل روز اپارٹمنٹ بنا دیوی کے فلیٹ نمبر آٹھ میں آ گئی۔ یہاں کچھ دن تک سب ٹھیک رہا لیکن ایک دن میری تقدیر نے ایک موڑ لیا۔ سیموئل کالج آف لٹریچر علی گڑھ میں ہندی کے ٹیچرس کی جگہ نکلیں میں نے اپنے پتی جمنا پرشاد کو بتایا تو انھوں نے کہا۔
’’تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے پاس کوئی کمی نہیں۔۔۔۔ ممی اور پاپا۔۔۔۔ تمہیں نوکری میں دیکھ کر خوش نہیں ہوں گے۔ اور پھر موہن کی پرورش کا بھی تو سوال ہے۔‘‘
لیکن میں اپنی ضد پر اڑی رہی اور کسی طرح نہ چاہتے ہوئے بھی میرے پتی میری نوکری کے لئے راضی ہوئے۔ یہیں سے میری بربادی کا دور شروع ہوا۔ میں نے اسکول جانے کے لئے ایک رکشہ طے کیا۔ رکشہ والا غریب طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ ایک دن میں جب کالج سے لوٹ رہی تھی۔ تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کچھ اداس ہے۔ مجھ سے رہا نہ گیا میں نے کہا۔
’’شاداب بھائی کیا ہوا؟؟؟ کیوں اداس ہو؟؟؟‘‘
’’نہیں !!! میم ساب کوئی بات نہیں۔‘‘
’’کچھ تو بات ہے؟؟؟‘‘
’’ہاں !!! جے بات ہے کہ ہم کل سے آپ کو کالج نہ لے جا سکیں گے۔‘‘
’’کیوں ؟؟؟‘‘
’’وہ۔۔۔۔ ہم بتا نہیں سکتے۔۔۔۔ آپ کو گھر پہنچ کر خود ہی پتہ لگ جائے گا۔‘‘
شام کے پانچ بج چکے تھے فروری کا مہینہ تھا سردی ابھی پاؤں پسارے ہوئے علی گڑھ میں اپنے رنگ دکھا رہی تھی۔ میں روز کی طرح گھر پہنچی۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ تو موہن نے کھولا۔ گھر میں ایک چبھتی ہوئی خاموشی نے میرا استقبال کیا۔ ڈرائنگ روم میں ہمارے پڑوسی اجے پال یادو بیٹھے تھے۔ ان کے برابر میں صوفے پر میری ساس سسر اور میرے پتی بیٹھے تھے۔
جمنا پرشاد نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔۔ کہاں سے آ رہی ہو؟؟م یں نے جواب دیا۔
’’کیا تمہیں نہیں معلوم؟؟؟‘‘
’’معلوم ہے۔۔۔۔ یہ بتاؤ کہ تم جس رکشے والے کے ساتھ آتی ہو وہ تمہیں کیسا لگتا ہے؟؟؟‘‘
میرے پتی کے اس سوال نے میرے دل کو اندر تک زخمی کر دیا۔
’’کیا۔۔۔۔ کیا۔۔ مطلب؟؟؟‘‘میں نے اپنے غصے کو قابو کرتے ہوئے کہا۔
’’مطلب یہ کہ اجے پال بھائی صاحب نے۔۔ تمہیں۔۔۔‘‘‘
’’کیا۔۔۔۔ تمہیں ؟؟؟‘‘
اچانک میرے جگر کا ٹکڑا موہن بول اٹھا۔
’’آپ نے رکشے والے کو دس ہزار روپے بینک سے نکال کر دئیے۔ یہ اجے پال انکل نے اپنی آنکھوں سے دیکھا‘‘۔
’’تو کیا ہوا؟؟؟ ہاں دئیے۔۔۔۔ اس میں غلط کیا ہے؟؟؟‘‘
میں نے برجستہ جواب دیا۔
’’ممی ایک تو وہ غریب۔۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔ مسلمان۔۔۔۔ آپ نے ایک مسلمان کی مدد کی۔۔۔۔ کیوں؟؟؟‘‘
’’اس کی لڑکی کی شادی تھی۔۔ اسے پیسوں کی ضرورت تھی۔‘‘
یکایک میری ساس پائل دیوی بول اٹھیں۔
’’تمہارے اس کے ساتھ۔۔۔۔‘‘
جملہ ادھورا ہی رہ گیا لیکن مجھے تکلیف پہنچا گیا۔ ایسا لگا کسی نے میرے دل میں ہزاروں چھریاں پیوست کر دی ہوں۔
سسر جی بھی کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ غصے سے بولے۔
’’دیکھ پریما۔۔۔۔ تیری بہت شکایت آ رہی ہیں۔۔۔۔ کبھی تو سبزی والے سے بولتی ہے۔۔ کبھی پھل والے کو دیکھ کر مسکراتی ہے۔۔۔۔ ساری سوسائٹی میں تیرے چرچے ہو رہے ہیں۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ ہماری ناک کٹ رہی ہے۔‘‘
جمنا پرشاد کی آنکھوں میں لہو تیر رہا تھا اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ میرے بال پکڑ کر ایک طمانچہ لگاتے ہوئے بولا۔۔۔۔ اب تو کبھی کالج نہیں جائے گی۔‘‘
’’میں ضرور جاؤں گی۔‘‘
میں نے بھی غصے کے عالم میں کہا۔ مجھے سب سے زیادہ اس بات کا افسوس تھا کہ مجھے پڑوسی کے سامنے مارا گیا تھا۔ رات جیسے تیسے کٹی۔ اگلی صبح جب میں کالج کے لئے تیار ہوئی تو جمنا پرشاد نے موہن سے کہا۔
’’اپنی ممی سے کہہ دے اگر گھر سے باہر گئی تو پھر کبھی لوٹ کر یہاں نہ آئے۔‘‘
ابھی اسپیکٹر سوسائڈ نوٹ پڑھ ہی رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ پریم لتا کا اسٹاف اس کی موت کی خبر پا کر اس کے گھر آ چکا تھا۔
ایک ضعیف داڑھی والے بوڑھے نے جیوں ہی یہ منظر دیکھا کہ پریم لتا کی لاش زمین پر پڑی ہوئی ہے۔ بے تحاشہ رونے لگا، ایک تلک دھاری ادھیڑ عمر کے شخص نے اسے خاموش کرایا۔
’’اقبال بھائی۔۔۔۔ صبر کرو۔۔۔۔ شانت رہو۔۔۔۔ میڈم کے مرنے کا دکھ ہمیں بھی ہے۔‘‘
اچانک اسپیکٹر کو محسوس ہوا کہ سوسائڈ نوٹ ایک بار پھر اسپیکٹر سے مخاطب ہے اور کہہ رہا ہے مجھے مکمل پڑھو۔ اس میں آگے لکھا ہوا تھا۔
۔۔۔ تقریباً تین سال ہو چکے ہیں اب میں ایک کرائے کے مکان پر کوارسی بائی پاس میں پی اے سی کے پاس رہتی ہوں۔ یہاں بھی آ کر مجھے سکون نہیں۔ پتی اور بیٹے نے تو کب کا قطع تعلق کر لیا ہے لیکن یہاں کے آس پاس کے لوگ بھی مجھے تکلیف پہنچاتے ہیں مجھ پر طرح طرح کے طنز کرتے ہیں۔ اس میں میرا کیا قصور ہے کہ میں ایک غریب بھکارن کو اپنے گھر یہ سوچ کر لے آئی ہوں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے غریبوں پر فاقہ کشی کی نوبت ہے۔ میری مراد بھوری سے ہے یہ مجھے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے آ کر ملی تھی میں اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھی میرا بائی کی رچنائیں پڑھ رہی تھی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور آواز آئی۔
’’اللہ کے نام پر دے دو باجی۔۔۔۔ اللہ کے نام پر دے دو باجی۔۔۔۔‘‘
مجھے تعجب ہوا کہ ہمارے محلے میں اللہ کے نام پر مانگنے والا کون آ گیا ؟؟؟ کیا اسے یہاں ڈر نہیں لگتا؟؟؟ خیر میں نے اسے دس کا نوٹ دیا۔ اب وہ روزانہ شام کو میرے دروازے پر یہی صدا دیتی۔
’’اللہ کے نام پر دے دو باجی۔۔۔۔ اللہ کے نام پر دے دو باجی۔۔۔۔‘‘
ایک دن میرے ایک پڑوسی کو شکایت ہو ہی گئی۔
’’آپ کو معلوم ہے میڈم یہ مانگنے والی کون ہے؟؟؟‘‘
’’کون ہے گپتا جی؟؟؟۔۔۔۔ انسان اور کون؟؟؟۔۔۔۔ وہ بھی غریب۔۔۔۔ میں اس کے بارے میں جانتی ہوں جیون گڑھ میں رہتی ہے۔۔۔۔ اس کا پتی شرابی ہے۔ کچھ کماتا نہیں اسے مارتا الگ ہے۔۔۔۔ بچہ کوئی ہے نہیں۔‘‘
گپتا جی چڑ کر بولے۔
’’آپ تو پتہ نہیں کہاں کہاں کی کتھا سنانے لگیں۔۔۔۔ آپ کو معلوم ہے یہ مسلمان ہے۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ مسلمانوں سے میں نفرت کرتا ہوں۔۔‘‘
’’وہ کیوں؟؟؟‘‘
’’یہ چور۔۔ اچکے۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ آتنک وادی ہوتے ہیں۔۔۔۔ دیش سے محبت نہیں کرتے۔۔۔۔ غدار ہیں۔۔۔۔‘‘
’’میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’کس نے کہا؟؟؟‘‘
’’ارے !!! لیجئے ساری دنیا کہتی ہے۔۔۔۔ نیوز چیلنز نہیں دیکھتیں آپ؟؟؟‘‘
بات ختم ہو گئی لیکن محلے میں ایک نئے انداز میں میری بدنامی شروع ہو گئی۔ اس بدنامی کو اس وقت اور پر لگے جب کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہوا تو ایک دن صبح سویرے بھوری روتی ہوئی میرے گھر آئی۔
’’میڈم جی!!! میڈم جی!!! میرے شوہر نے آج مجھے بہت مارا۔‘‘
’’کیوں ؟؟؟‘‘
میں نے اسے ڈارئنگ روم میں پڑے ہوئے صوفے پر بیٹھنے کے لئے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ نیچے فرش پر بیٹھنے لگی۔ میں نے کہا۔
’’زمین پر نہیں صوفے پر بیٹھو۔‘‘
میں نے محسوس کیا کہ اس کے سانولے رنگ میں مزید اضافہ ہو چکا تھا اور اس کی گردن پر کٹے کا نشان تھا۔
اس واقعہ کے بعد وہ میرے گھر پر ہی رہ رہی ہے۔ لیکن آج مجھے بہت افسوس ہوا جب میرے پاس میرے بیٹے کا فون آیا۔
’’ممی!!! بہت ہوا۔۔۔۔ پہلے آپ رکشے والے کے ساتھ گھومتی تھیں اور اب ایک مسلمان بھکارن کے ساتھ آپ کے۔۔۔۔‘‘
اس کی بات ادھوری ہی رہ گئی اور میں نے فون کاٹ دیا۔
میں سب کچھ برداشت کر سکتی ہوں لیکن اپنوں کی غلط فہمی نہیں، خاص طور سے اپنے بیٹے موہن کی۔ اس لئے میں خود کو ختم کر رہی ہوں بھوری بغل کے کمرے میں سو رہی ہے اور میں ہمیشہ کے لئے سونے جا رہی ہوں۔ میرے بعد میرے بینک میں جتنا روپیہ ہے اس کی مالک بھوری ہے اور میرے پتی اور بیٹے کو میرے انتم سنسکار میں نہ آنے دیا جائے۔
پریم لتا۔ شانتی کٹیر۔ 4/222 کوارسی نیر پی اے سی علی گڑھ۔‘‘
سوسائڈ نوٹ نے پریم لتا کی ساری کہانی بیان کر دی تھی۔ اسپیکٹر اودھیش کمار کی آنکھوں میں چند آنسوؤں کے قطرے جھلک کر خشک ہو گئے۔ برابر میں ایک گھر سے ٹی وی کی زور سے آواز آ رہی تھی۔ ’’مسلمانوں کی وجہ سے پھیلا کورونا وائرس۔‘‘
٭٭٭