نام کتاب: وہ کون تھی (افسانے اور خاکے)
مرتب: علیم صبا نویدی
مبصر : محسن خان
علیم صبا نویدی دنیائے ادب میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے۔ ان کا اہم تحقیقی کارنامہ ’’تامل ناڈو میں اردو‘‘ جو دو ضخیم جلدوں، دوہزار چھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس منفرد تحقیقی کام کی بدولت ان کی پہچان نا صرف جنوبی ہند بلکہ ملک گیر سطح پر بنی۔ علیم صبا نویدی ایک بہترین افسانہ نگار، انشاء پرداز، تبصرہ نگار، کہنہ مشق شاعر اور ایک معتبر نقاد ہیں۔ اردو تحقیق کے حوالے سے جب بھی ٹامل ناڈو اور چینائی کا ذکرآتا ہے تو سب سے پہلا نام علیم صبا نویدی کا لیا جاتا ہے۔ علیم صبا نویدی کے مطابق ان کی اب تک پچاس کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ انہوں نے اردو شاعری میں بہت سارے تجربات کیے ہیں۔ وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے نثری نظموں میں نعت گوئی کا تجربہ کیا۔ ان کے افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اکبر زاہد نے علیم صبا نویدی پر پاکستان، ہندوستان اور دنیا بھر کے مصنفین کی جانب سے لکھے گئے اہم مضامین کو ’’مطالعہ علیم صبانویدی‘‘ کے عنوان کے تحت ترتیب دئے کر شائع کیا ہے۔ جس کے مطالعہ سے علیم صبا نویدی کی شخصیت اور ادبی خدمات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
علیم صبا نویدی کی شہرت اور ان کے تحقیقی کتابوں کو دیکھنے کے بعد حال ہی میں ان کی ایک مرتب کردہ کتاب پر نظر پڑی جس کا عنوان ’’وہ کون تھی‘‘ ہے۔ کتاب کے عنوان کو دیکھ کر لگا کہ یہ کوئی ناول ہو گا لیکن جب اس کو پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ایس عبدالمجید اسد صاحب کے افسانے اورخاکے ہیں جنہیں علیم صبا نویدی نے ذمہ داری کے ساتھ مرتب کر کے کتابی شکل میں پیش کیا ہے۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصہ میں انبیاء کرامؑ پر لکھے گئے خاکے ہیں اور دوسرے حصہ میں افسانے اور کہانیاں ہیں۔
اپنی بات کے تحت لکھے گئے مقدمہ میں علیم صبا نویدی نے مجید اسد کا کوئی تعارف پیش نہیں کیا ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس کی کتاب ترتیب دی گئی ہو اس کے بارے میں مختصراَ تعارف پیش کیا جاتا۔ مقدمہ میں مجید اسد کے افسانہ نگاری کے فن پر کم گفتگو کی گئی ہے اور انتہائی مختصر مقدمہ لکھا گیا ہے جس میں صرف کتاب کی فہرست ہی بتائی گئی ہے۔ حالانکہ جب کسی کی کتاب ترتیب دی جائے تو یہ بات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ مقدمہ طویل ہو، پر یہاں انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ قاری کو مجید اسد کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہے۔ کتاب میں ’’حضرت آدم علیہ السلام‘‘ کے عنوان سے شامل اولین خاکہ سے لے کر کتاب میں شامل آخری افسانے تک املا کی غلطیاں کھٹکتی ہیں۔ آدم علیہ السلام پر تحریر شدہ خاکے میں تمام جگہوں پر ’’ابلیس‘‘ کی جگہ لفظ ’’ابلیں‘‘ حرف ’’س‘‘ کی شمولیت کے ساتھ درستگی کا متقاضی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب کے صفحہ چھ پر ’’دہنے بائیں‘‘ جیسے نئے لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ ’’اللہ کی چہیتی اور نیک بندیاں (امہات المومنین)‘‘ کے تحت خاکے میں اُمہات المومنین کی غلط تعریف کی گئی ہے کہ ’’خدائے تعالیٰ اپنی آزمائش خاص میں جن مرد خواتین کو چنتا ہے وہ بالیقین اللہ کی آزمائش پر پوری اترتی ہیں‘‘(صفحہ: ۱۷)۔ اس طرح کی غلط تفسیر بیان کی گئی ہے۔ اُمہات المومنین میں بی بی خدیجہؓ کے ساتھ ساتھ حضرت زلیخاؓ اور حضرت بی بی ہاجرہؓ کا ذکر ہے۔ جبکہ قرآن میں امہات المومنین، حضرت نبی کریمﷺ کی ازواج مطہرات کو کہا گیا ہے۔ اس طرح سے نام ترتیب دینا مناسب نہیں ہے۔
’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ کے تحت ایک افسانہ کتاب میں شامل ہے جو الف لیلہ کی مشہور افسانوی کہانیوں میں سے ایک ’’علی بابا چالیس چور‘‘ کی ہو بہو نقل ہے۔ جس میں افسانہ نگار نے صرف ایک چھوٹی سی تبدیلی کی ہے کہ لٹیرے الف لیلیٰ میں ’’کھل جا سم سم‘‘ کہہ کر دروازہ کھولتے ہیں تو اسد صاحب نے اسے اپنے افسانہ میں ’’یا ہو کھل جا‘‘ کر دیا ہے۔ صفحہ 33 کی تیسری لائن میں ارجن اور رجنی کو بہن بھائی بتایا جاتا ہے اور ارجن کی محبوبہ نرملا بتایا گیا ہے بعد میں نرملا ارجن سے بن بیاہی حاملہ ہو جاتی ہے اور صدمہ سے مر جاتی ہے اور پھر افسانہ نگار نے یہاں یہ بڑی غلطی کر دی کہ صفحہ 34 پر نرملا جو ارجن کی بہن ہے دونوں کی شادی کرا دی۔ اس طرح کی بڑی لاپرواہی سے افسانہ نگار نے ایک غلط پیغام دیا ہے۔ اور اسی صفحہ پر ایک جگہ بم کو بام لکھا گیا ہے۔ اور ایک جگہ کتیا کو کتنی لکھا گیا۔
’’گل صنوبر‘‘ افسانہ میں دو بھائیوں کا کردار ہے جو بادشاہ بننا چاہتے ہیں اور قبیلے کے لوگ بھی بوڑھے باپ کا جانشین منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ بوڑھا بادشاہ باپ اپنے بیٹوں سے خواہش ظاہر کرتا ہے کہ وہ ’’گل صنوبر‘‘ لائے تاکہ اس کی بینائی لوٹ آئے۔ اس کہانی کو بھی الف لیلیٰ کی کہانی سے نقل کیا گیا ہے جس میں ایک شیطان کنواری لڑکیوں کو دلہن بنا کر اپنے غار لے جاتے ہیں اور انہیں ختم کر دیتا ہے۔ اسی کی نقل پر یہ افسانہ لکھا گیا ہے۔ اور افسانہ ختم ہونے تک افسانہ نگار اس میں ایک بھائی کا تذکرہ کو یکسر بھول جاتا ہے۔ اس طرح افسانہ نگار نے الف لیلیٰ کی کہانیوں سے نقل کیے گئے افسانہ میں بھی انصاف نہیں کیا ہے۔
’’ہم لوگاں‘‘ افسانہ میں پنجاب کا ذکر ہے جس میں صفحہ 47 پر پنجاب میں منائی جانے والی عیدوں، رمضان، ہولی اور دیوالی کا ذکر ہوا ہے لیکن سکھوں کے تہوار کا کوئی ذکر نہیں ہے اور یہ افسانہ بھی دو صفحات پر مشتمل ہے اور آٹھ دس کردار ہیں جو صرف شادی کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں صرف ایک نوجوان بہادر رہتا ہے اور وہ شادی کر لیتا ہے بس یہی کہانی موجود ہے۔ ’’ہم ہیں بنجارے‘‘ بھی جلد بازی میں لکھا گیا افسانہ نظر آتا ہے جو صرف دو صفحات پر مشتمل ہے اس میں بھی صرف شادی اور محبت کا ذکر ہے۔
’’رتن مچھیرے کا انجام‘‘ میں بھی افسانہ نگار محبت، عصمت ریز (ریپ) اور اس طرح کی باتوں سے افسانہ کا آغاز کرتا ہے۔ افسانہ میں ایک سردار کا نوکر ہوتا ہے ’’رتن‘‘ جو مچھلیاں پکڑتا ہے وہ اپنی محبوبہ کو ہوس کانشانہ بنا لیتا ہے اور مچھلیوں کے ساتھ اسے موتیاں اسے برابر حاصل ہوتی رہتی ہیں۔ افسانہ نگار لکھتا ہے کہ ’’مچھلی اور موتیاں سمندر میں ساتھ آنے سے ان کی قیمت دوگنی ہوتی ہے‘‘ یعنی وہ موتی کی قیمت کو صرف مچھلی سے دوگنا بتاتا ہے۔ بعد میں رتن کو جل پری ملتی ہے وہ اس کا پیچھا کرتے ہوئے سمندر کی تہہ میں چلا جاتا ہے اور وہاں کا بادشاہ اسے قتل کر کے واپس سمندر کے کنارے پھینک دیتا ہے۔ یہاں پھر افسانہ نگار کرداروں کے نام بھول کرکہتا ہے کہ ’’سردار کا بیٹا رتن کی لاش مسخ شدہ حالت میں دستیاب ہوئی ہے‘‘ جبکہ شروع میں اُسے سردار کا ملازم بتایا گیا۔ اسی طرح کے ناموں کی گڑبڑ ہر افسانہ میں کی گئی یہاں تک کہ کتاب کے دو افسانوں میں بہن بھائی کی شادی کر دی گئی۔
صفحہ 58 پر موجود ’’پری زاد سے آدم زاد تک (جنم جنم کے ساتھی) اور صفحہ 70 پر طلسمی دنیا (جنم جنم کے ساتھی) یہ دونوں افسانے ایک ہی ہیں مگر صرف ان کا نام بدل دیا گیا ہے اور تین چارلائنوں کو تبدیل کیا گیا ہے تاکہ وہ بالکل الگ لگے۔ صرف کاپی پیسٹ کیا گیا۔ اس افسانہ میں نواب نصیر الدین کا ذکر ہے جس کا بیٹا نصراللہ ہوتا ہے۔ بعد میں نصراللہ کے کردار کا نام نصیر الدین ہو جاتا ہے! کچھ۔ اس طرح کرداروں کے ناموں میں الجھن ہر افسانہ میں موجود ہے۔ ’’جس کا کوئی نہیں اس کا خدا ہوتا ہے‘‘ افسانہ میں جاوید نام کے بہادر شخص، جو لٹیروں سے لڑتا ہے، کی کہانی پیش ہے لیکن اس میں بھی ناموں کی الجھن ہے۔ کبھی جاوید کو بہادر نوجوان کہا جاتا ہے تو کبھی اسے سردار۔ ’’وہ کون تھی‘‘ افسانہ جس کے عنوان سے یہ کتاب ترتیب دی گئی ہے۔ یہ افسانہ کم ایک واقعہ نظر آیا جس میں صرف یہ بتایا گیا کہ ایک لڑکا مصور ہے اوراس کی تصویریں ہر جگہ فروخت ہوتی ہے اور کہانی یہیں ختم ہو جاتی ہے۔
’’گیت گایا پتھروں نے‘‘ میں لکھا گیا کہ ’’شمس کو بھی حضرت عیسیٰ ؑکا پیروکار بنا کر اس طلسمی نگر میں بھیجا تھا، پھرکنکروں نے لا الہٰ پڑھا اور پتھروں نے روح اللہ کا روحانی ترانہ گایا، وہ راجہ بن گیا۔ اس طرح افسانہ میں فرضی کہانیوں اور قصوں میں انبیاء کرام کا ذکر مناسب نہیں ہے اور کرداروں سے اس کو جوڑنا بہت ہی غلط بات ہے۔ ایک اور کہانی ’’ہارون رشید‘‘ میں ’’ایک کردار دوسرے کردار کو ذوالفقار ( اللہ کی تلوار) دے کر کہتا ہے کہ اسے قبول کرے‘‘۔ افسانہ نگار کو کسی بھی لفظ کے استعمال سے پہلے اس کی نسبت پر غور کرنا چاہئے۔ ذوالفقار حضرت علیؓ کی تلوار کو کہا جاتا ہے کیوں کہ اس تلوار کی پشت ریڑھ کے مہروں کی طرح سیدھی تھی اس لیے اس کو ذوالفقار کہا گیا۔ اس طرح کے صحابہ کرامؓ سے جڑی مقدس چیزوں کو اپنے افسانوں میں معمولی کرداروں کے لیے پیش نہیں کرنا چاہئے۔ کتاب کا آخری افسانہ ’’دوسری شادی‘‘ہے جس میں انور حسین کافی محنت سے پڑھ کر وکیل بنتا ہے اور منظورحسین کے پاس ملازمت کرتا ہے اور کئی دن کام کرنے کے بعد وہ ان کا بھروسہ جیت لیتا ہے اور پورے کیسس وہی لڑنا شروع کر دیتا ہے جس سے منظور حسین سینئر وکیل خوش رہتا ہے بعد میں اس کا انتقال ہوتا ہے توایک دن منظور حسین کی بیوی انور کو بلا کر اس کے ساتھ زبردستی کرتی ہے اور بعد میں مجبوراً انور حسین کو مرحوم باس کی بیوی سے شادی کرنا پڑتا ہے جبکہ حال ہی میں انور کی شادی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ ایک بہت پیچیدہ افسانہ ہے اور مشرقی سماج کی تہذیب کے خلاف ہے۔
ہر خاکے اور افسانے میں موجود املا کی غلطیاں پروف ریڈنگ کے بغیر جلد بازی میں اشاعت کا سبب لگتی ہیں۔ علیم صبا نویدی جو ایک کہنہ مشق شاعر اور ممتاز ادیب ہیں جن کی پچاس سے زائد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، ان کی مرتب کی گئی کتاب میں اس طرح کی غلطیاں، کرداروں کے نام میں تبدیلیاں، الف لیلیٰ کی طلسمانی کہانیوں کی نقل وغیرہ سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اس میں افسانہ نگار (ایس عبدالمجید اسد) کی غلطی ہے یا مرتب (علیم صبا نویدی) کی، یہ فیصلہ بڑا کٹھن ہے۔ علیم صبا نویدی کا شمار ایک بہترین نعت گو کے طور پر ہوتا ہے۔ انہوں نے کئی نعتیہ کلام لکھے ہیں اور ان کے نعتیہ کلام کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ وہ دینی معلومات پر عبور رکھتے ہیں انہیں کتاب میں لکھئے گئے مذہبی موضوعات پر اپنی گہری نظر رکھنا چاہیے تھی لیکن وہ چونک گئے۔ عام طور پر لوگوں کی یہ شکایت ہوتی ہے کہ بعض لوگ صرف نقل کر کے اور دوسروں کے مضامین، افسانے، کہانیاں اور تخلیقات کو اپنے نام سے شائع کروا کر خود کو بڑا قلمکار بتانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اگر کوئی نقل کرتا ہے تو اس کو حوالہ دینا چاہیے۔ دلیلوں کے ساتھ گفتگو ہونی چاہئے۔
علیم صبا نویدی اپنی مرتب کردہا س کتاب کا دوبارہ مطالعہ کریں تو انہیں املا کی اغلاط، جملوں کی ترتیب اور کرداروں کے ناموں میں غلطیاں نظر آئیں گی۔ شاید اور بھی اس قسم کی اغلاط ہوں جو میرے جیسے ادنیٰ طالب علم سے چھوٹ گئی ہوں۔ وہ بھی انہیں دوبارہ مطالعہ کرنے پر سامنے آ جائیں گی۔ ایس عبدالمجید اسد نے اچھا تخلیقی کام کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن انہوں نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے وہ بہت نازک ہیں، جس پر بہت سوچ سمجھ کر اور سنبھل کر لکھنا ہوتا ہے، افسانوں میں بھی انہوں جس طریقے کار کو اختیار کیا ہے وہ نامناسب ہے۔ افسانوں کے کرداروں کے نام بھی آگے پیچھے ہونے اور غلط آ جانے سے قاری الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔ کتاب کو جلد سے جلد شائع کروانے کی کوشش میں بہت چیزوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں مصنف اور مرتب اور کتاب کی فروخت کے مراکز کے پتے موجود نہیں ہے۔ یہ کتاب ناز پبلی کشینز چنئی نے شائع کی ہے۔
امید کہ مرتب اپنی اس ترتیب کردہ کتاب کا از سر نو جائزہ لے کر اصلاح طلب پہلوؤں کو درست کرتے ہوئے کتاب کی دوبارہ اشاعت عمل میں لائیں گے۔ اردو کے قارئین کے لیے معلوماتی و تفریحی ادب کو پیش کیا جائے گا۔ امید کہ جن باتوں کا تذکرہ تبصرہ میں کیا گیا ہے، ان کو مثبت طریقے سے لیا جائے گا۔
٭٭٭