اپنی دھرتی سے تکوں، عرش بریں سے دیکھوں
ایک ہی شکل نظر آئے، کہیں سے دیکھوں
میری آنکھوں سے جو یہ خواب ابھی ٹوٹا ہے
کاش پھر سے نظر آئے تو وہیں سے دیکھوں
ذرۂ خاک ہوں کیا اس کو دکھائی دوں گا
وہ ستارہ ہے، اسے اپنی زمیں سے دیکھوں
میرا اللہ مری آنکھوں سے اوجھل ہی سہی
اس کو سجدہ کروں، اور اپنی جبیں سے دیکھوں
۔۔۔۔
آبلے پھوٹ بہیں، چھاؤں گھنی ہو جائے
اور پھر جشنِ غریب الوطنی ہو جائے
ہاں، ستم کر لے ، کرم جان کے کر لوں گا قبول
یوں نہ ہو، تیری کہیں دل شکنی ہو جائے
دل کی دل میں ہی رکھیں، ہونٹوں کو سی لیجے عبیدؔ
کیا خبر جرم یہ گردن زدنی ہو جائے
٭٭٭
اعجاز عبید صاحب
ہائے اور سلام
غزلیں پڑھ کر خوشی ہوئی ۔ عرفان ستار اور رؤف خیر کی غزلیں پسند آئیں۔ پھر اداریہ پڑھا تو معلوم ہوا کہ ہم آئے اور آپ جانے کی تیاری میں تھے۔
سب خوش رہیں
آپ کا
کاوش عباسی
امریکہ۔