فسادیوں نے پورے گاؤں کو تباہ کر دیا تھا۔ ان کے جانے کے بعد وہاں قوم کے رہبر اور علما کا وفد پہنچا۔ سفید ریش عمامہ پوش مفتیِ شہر نے پورے وفد کے ساتھ پوری بستی کا دورہ شروع کیا۔
اسی بستی کا ایک پتلا دبلا نوجوان جو کہیں چھپ کر بچ گیا تھا ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔
"اس گھر کے لوگوں نے خطرے کو پہلے ہی محسوس کر لیا تھا اور رات میں ہی یہاں سے کوچ کر گئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ عورتوں اور لڑکیوں کو بھی لے گئے تاکہ ان کی عصمت محفوظ رہے۔ ” مفتی صاحب چپ رہے۔
"اس گھر کے لوگوں کو بھی خبر ہو گئی تھی لیکن یہ رات بھر اپنی تلواریں تیز کرتے رہے۔ جب حملہ ہوا تو انہوں نے کئی حملہ آوروں کو مار گرایا لیکن حملہ آوروں کی تو تعداد اندازے سے بہت زیادہ تھی لہذا یہ سب مارے گئے۔ ”
"مارے نہیں گئے شہید ہوئے۔ ” ان کا مقام جنت میں ہو گا اور بہت بلند ہو گا۔
"اور یہ دیکھئے۔” نوجوان انہیں ایک گھر کے دالان میں لے گیا ” یہ بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔ دیکھئے ، ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا ہے۔”
"ماشا اللہ یہ غازی ہیں۔ اور اللہ کے یہاں ان کو بڑا اجر ملے گا اور بستے کے لوگوں میں ان کا مقام بہت افضل ہے۔”
"اور یہ ان کی بیوی ہیں۔ ظالموں نے ان کے پیٹ میں بھالا مار دیا لیکن یہ ابھی تک زندہ ہیں۔”
” ہمیں ان کے علاج کا فوراً انتظام کرانا چاہئے۔ جو بھی اس سلسلے میں تعاون کرے گا وہ اللہ کے نزدیک سرخرو ہو گا "۔
"اور اندر سے کس کے سسکنے کی آواز آ رہی ہے ؟ ” مفتی صاحب نے پوچھا۔
” وہ ان کی بڑی بیٹی ہے۔ فسادیوں نے اس کے عضو خاص میں برچھی مار کر گھائل کیا اور ویسے ہی چھوڑ دیا۔”
"اس کا مقام بھی انہیں غازیوں کے برابر ہے جن کے ہاتھ کاٹے گئے ہیں۔ ” مفتی صاحب نے ذرا ٹھہر کر استفسار کیا ” کیا اس گھر میں کوئی اور بھی ہے۔ مجھے ایک اور سسکتی ہوئی آواز سنائی دے رہی ہے۔”
نوجوان نے سر جھکا لیا۔
"کیا ہوا۔ بتاؤ ؟ "مفتی صاحب نے اصرار کیا۔
"وہ ان کی چھوٹی بیٹی ہے۔ خود کو کمرے کے اندر بند کر کے بیٹھی ہے۔”
"کیوں ؟”
"اس کو ظالموں نے اس وقت دیکھ لیا جب وہ تلوار نکال کر اپنے چچا کو پکڑا رہی تھی۔ انہوں نے آگے بڑھ کر زور دار حملہ کیا اور اسے دبوچ لیا۔ اس کے بعد انہوں نے اسے بالکل برہنہ کر دیا، اندر لے گئے اور یکے بعد دیگرے جا کر کئی حملہ آوروں نے اس کے ساتھ (زبردست مباشرت کی) / اندھا دھند ہوس کی آگ بجھائی / اور پھر اسے تڑپتا ہوا چھوڑ گئے۔”
یہ کہ کر وہ مفتی صاحب کے چہرے کو دیکھنے لگا لیکن انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ وہ نگاہیں نیچی کر کے خاموش ہو گئے تھے۔
چند لمحوں بعد انہوں نے سر اٹھا کر بیحد درد بھرے لہجے میں کہا ” نہ جانے ہماری قوم کو اس ذلت سے کب نجات ملے گی۔”
سب خاموش تھے جیسے کسی کے ذہن میں کوئی جواب نہیں تھا۔ اس نوجوان نے سب کے چہروں کو ایک اڑتی نظر سے دیکھا اور بولا۔
"مفتی صاحب، مجھے معلوم ہے۔”
پورے وفد نے اس کی اس بات کو گستاخی سمجھا اور اس کو تنبیہی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” میری قوم کی حالت اس دن بدلے گی جب مفتی صاحب نے جس طرح ان سب لوگوں کے مقام اور ثواب کے بارے میں بتا دیا ہے اسی طرح یہ بھی بتا دیں گے کہ جو لڑکیاں اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنی بستی، یہاں کی مسجد، مدرسے اور قبرستان کو چھور کر بھاگ گئیں ان سے اس لڑکی کا مقام کتنا بلند تر ہو گیا ہے جو کمرے میں بند ہو گئی ہے۔ اور اس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے عوض اسے قیامت کے روز کیا انعام ملے گا۔ جس دن مفتی صاحب میرے اس سوال کا جواب دے دیں گے اس کے بعد اس طرح ہماری کسی بستی کو ذلیل نہیں کیا جا سکے گا۔ ”
لوگ مفتی صاحب کی طرف دیکھنے لگے اور مفتی صاحب اپنے ذہن میں اپنی پڑھی ہوئی کتابوں کے اوراق الٹنے میں لگے ہوئے تھے۔
جب کافی دیر ہو گئی تو اس نے مفتی صاحب کو جیسے ان کے خیالوں کی دنیا سے باہر کھینچتے ہوئے کہا۔
"میں نے اس امرہ کو پہچان لیا ہے۔ آپ یہاں سے جانے سے پہلے اس سے میرا نکاح پڑھا کر جائیں گے۔ میں کوشش کروں گا کہ وہ مجھ سے نکاح کرنے پر تیار ہو جائے۔”
سب نے اسے تعجب سے دیکھا تو وہ سوالیہ نشانوں کو سمجھ گیا۔ میں اس بستی کا امیر ترین لڑکا ہوں اور میرے اندر کوئی برائی بھی نہیں ہے۔ میں نماز روزے کا بھی پابند ہوں۔ لیکن میرے جسم پر کوئی زخم نہیں ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں مجھے قبول کرنے سے انکار نہ کر دے۔ میں کئی بار اس کمرے کے دروازے تک گیا لیکن میری ہمت نہیں پڑی کہ میں اس سے دروازہ کھولنے کو کہوں۔ جب بھی میں نے چاہا کہ میں آواز دوں میری نظر اپنے جسم پر چلی گئی اور میری آواز میرے حلق میں رک گئی۔ میں اس وقت اس کا کمرہ کھلو کر اس کو آپ لوگوں سے ملواتا۔ وہ بہت ہمت والی لڑکی ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ آپ لوگوں کے جسموں کو اپنی نگاہوں سے ٹٹولنے نہ لگے۔”
یہ کہتے ہوئے نوجوان نے تمام لوگوں کو دیکھا اور پھر انہیں لے کر آگے کی گلی میں چلا گیا۔
٭٭٭