( چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کے ایم۔فل۔ کے مقالے سے اقتباس۔اس مقالے پر مقالہ نگار کو ایم۔فل۔ کی ڈگری عطا کی گئی http://esbaatpublications.com/urducamp/2011/08/ccsu۔urdu۔dept۔mphil/)
پیغام آفاقی نے اپنے فن کا اظہار کئی اصناف میں کیا ہے جس میں ناول، شعری مجموعہ وغیرہ شامل ہے۔ پیغام آفاقی کی اس ہمہ جہت فنی شخصیت نے کم و بیش ہر صنف پر اپنی چابک دستی کی چھاپ چھوڑی ہے۔ انھوں نے اپنی تکنیک کا موضوع زیادہ تر ناول کوہی بنایا ہے اور اس صنف کو اپنے فن سے اس جگہ پرلا کھڑا کیا ہے جہاں زندگی کسی قلب ماہیئت سے گزرتی ہے تو ایک نیا ناول انسان کی ضرورت بن جاتا ہے۔ اس خیال کی عکاسی ان کا ناول ’’مکان‘‘ کرتا ہے۔ ان کا یہ ناول اردو کا ایک مشہور و معروف ناول ہے۔ اس ناول نے اردو ادب میں ایک ہلچل مچا دی۔ آج اس کا شمار اردو کے بہترین ناولوں میں ہوتا ہے۔
بعد ۔ ’زو ؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ازاں پیغام آفاقی صاحب ایک اچھے ناول نگار، شاعر اور ادیب ہیں۔ آج کل وہ پولیس میں ایک سینئر آفسر کے عہدہ پر فائز ہیں اور اتنے مصروف ہونے کے باوجود بھی وہ صنف ناول کی طرف توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے اردو فکشن کو جدید اور متنوع جہات سے روشناس کیا۔ انھوں نے ٹی وی سیریل اور اسکرپٹ میں بھی ایک منفرد جگہ بنائی ہے۔ ان کے فن کے بارے میں ڈاکٹر مولابخش اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں :
’’ناول شاعری کی اولاد نرینہ ہے جس نے اپنے پاؤں، اصناف نثر و نظم میں تاریخ کی تدریس کے ذریعہ جمائے تھے مگر اب رقص حیات، رزم گاہ انسان اور انسانیت کی بقا کی جمہوری جنگ کا بلیغ میڈیم بن چکا ہے جس کے لیے نثر پہلی شرط ہے۔ اس نثری ہیئت میں جملہ اصناف نثر و نظم کے اہم اسلوبی و تکنیکی خصائص شیرو شکر ہو کر اسے ام الاصناف کا درجہ عطا کر دیتے ہیں۔ غالب نے داستان سرائی کو اسی حقیقت کے پیش نظر منجملہ فنون سخن قرار دیا تھا۔ ‘‘(مکان، ص۱)
آفاقی صاحب نے اپنے فن میں لوگوں کی سوچ کو صحیح سمت عطا کرنے کے لیے عصری مسائل پر گہری نظر ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آفاقی صاحب نے اس ناول کے فن، ہیئت اور موضوع سب کچھ نیا اور منفرد ہے اور فن کار زندگی کی ایک بھرپور بصیرت دینے میں کامیاب ہے۔ ان کے ناولوں میں ماضی کی یادیں سموئی ہوئی ہیں۔
بدر عالم خان ’’مکان‘‘ ناول کے بارے میں کچھ اس طرح اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں :
’’پیغام آفاقی کا ناول ’’مکان‘‘ ایک عہد شکن، عہدساز اور عہد آفرین تخلیق ہے۔ اسلوب کے سلسلہ میں انھوں نے مروج روایات سے بغاوت کی ہے ، اس لیے یہ ایک باغیانہ تخلیق بھی ہے۔ آفاقی صاحب نے در اصل ’’زمانہ بساز‘‘ ہونے کے گمراہ کن عمل سے گریز کیا ہے اور ’’با زمانہ تیز‘‘ ہونے کی روایت کا آغاز کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ناول کے ذریعہ نئی نسل کے خفتہ تخلیقی شعور کو بیدار کیا ہے اور انھیں اپنی بے پناہ تخلیقی قوتوں کا عرفان کرایا ہے۔ ان کا ناول Impactکے نقطہ نظر سے ادبی فرعونیت پر ضربِ کلیمی کا اثر رکھتا ہے۔ اس لیے ’مکان‘ ایک Trendsetterہے۔
مشاہدے کی باریک بینی احساسات کی شدت اور نقطہ نظر سے یہ اس دور کا ایک عظیم ناول ہے۔ آفاقی صاحب نے اپنے ناول ’’مکان‘‘ میں اپنی فنی تقاضوں کو کس طرح برتا اور کس حد تک پورا کیا ہے۔ پیغام آفاقی کا ناول ’’مکان‘‘ یہ پیغام سنارہا ہے کہ کوئی بھی کام صرف ارادہ کرنے سے نہیں بلکہ محنت کرنے سے ہوتا ہے۔ محنت اور ایمانداری کے بغیر کوئی پھل حاصل نہیں ہوتا جس کام کا ارادہ کرو، اس کی جستجو میں لگے رہو، قدرت ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب کر دے گی۔ غیرمستقل مزاج اور کمزور انسان کبھی بلندی پر نہیں پہنچ سکتے ، بلندی پر وہی پہنچتا ہے جو ناکامی سے گھبراتا نہیں بلکہ سبق حاصل کرتا ہے۔ ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لیے مستقبل ارادہ ہی واحد راستہ ہے۔ جنسی مسائل، معاشی جبر، عورت کی مجبوری، انسانی رشتے ، ذہنی و جذباتی کشمکش اور خواب و حقیقت کا تصادم جیسے موضوعات اردو ناول کے لیے نئے نہیں ہیں لیکن آفاقی صاحب نے ان موضوعات کو اپنے ناول ’’مکان‘‘ میں اس طرح پیش کیا ہے کہ زندگی کی کچھ حقیقتیں زیادہ واضح شکل میں سامنے آ جاتی ہیں اور قاری کو غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ ہمارے آس پاس اور خود جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اسے ہم محسوس نہیں کر پاتے۔
ناول کا پلاٹ ایک ایسی سماجی حقیقت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ، جہاں نیرا جیسی عورت صرف جنسی آسودگی کا ذریعہ ہی نہیں رہتی بلکہ وہ مختلف حیثیتوں میں جد و جہد کرتی نظر آتی ہے۔ آفاقی صاحب نے حالات کے جبر کی طرف اشارہ کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ آدمی حالات و ماحول کا قیدی ہے۔ وہیں یہ نشاندہی بھی کی ہے کہ حالات کے ساتھ جنگ اور مفاہمت میں ہی زندگی کا راز چھپا ہے۔ سچے بہادر انسان گمبھیر اور آزاد ہوتے ہیں۔ ان کی خاموشی ایک کمزوری معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جب یہ شیر گرجتے ہیں توبرسوں ان کی دہاڑسنائی پڑتی ہے اور باقی ساری آوازیں بند ہو جاتی ہیں۔ ’’مکان‘‘ میں نیرا کے کردار نے اسی بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔ آفاقی صاحب کے اس ناول میں انسان کا گرا ہوا ضمیر ہی ساری برائی کی جڑ ہے۔ پیغام آفاقی کا یہ ناول ایک بیوہ عورت اور ایک یتیم بے سہارالڑکی نیرا کا مکان ہے جسے ایک کرایہ دار کمار اپنے حربوں اور ہتھ کنڈوں سے ہڑپ لینا چاہتا ہے اور وہ بے سہارالڑکی اتنے مضبوط سماج کی موجودگی میں جس میں عدالت بھی ہے پولیس بھی ہے ، قانون اور انصاف بھی ہے لیکن پھر بھی کچھ کر نہیں پاتی۔ انصاف اور اپنے تحفظ کے لیے ادھر ادھر بھٹکتی رہتی ہے اور اپنے کرایہ دار کمار کے ذریعہ پیدا کی گئی مصیبتوں سے بھی جوجھتی رہتی ہے۔ نیرا کے مکان کو ہڑپنے کے خاطر کمار کے ذریعہ نیرا کو طرح طرح سے پریشان کرنا اور نیرا کے ذریعہ کمار کے بچھائے ہوئے جال کو کاٹنا نیرا اور کمار کی اس لڑائی کاپولیس، تھانہ، وکیل اور موقع پرست انسانوں کے ذریعہ استحصال کرنا اور اپنا اصلی چہرہ ظاہر کرنا ان کرداروں کے اردگرد پورا ناول گھومتا رہتا ہے۔
ناول مکان پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پیغام آفاقی نے ہندوستانی سماج کی قدروں، یہاں کے عورت مرد کی نفسیات اوراس ملک کے سرکاری محکموں خاص کر تھانہ، عدالت، یہاں کی سیاست کے مردہ قانون، ہندوستانی سماج کی روز مرہ کی زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ قاری کو ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی ایک جھلک وہ خود بھی دیکھ چکا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارا سماج اور ہمارا محکمہ برا ہے بلکہ اصلیت تو یہ ہے کہ ہم خود برے ہیں۔ ہم الزام لگاتے ہیں کہ رشوت خوری بڑھ رہی ہے لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ اس رشوت خوری کو ہم خود بڑھا رہے ہیں۔ ہم رشوت دیتے ہی کیوں ہیں۔ ہم کسی دوسرے انسان کے سامنے خود پریشانی کیوں کھڑی کرتے ہیں۔ جیسا کہ کمار اوراس کی بیوی آشا نے نیرا کے سامنے پریشانی کھڑی کی۔ ہم کسی کی بھلائی کا بدلا برائی سے کیوں دیتے ہیں۔ نیرا کے والد نے کمار کو اپنے گھر میں پناہ دے کر بھلائی کی تو کیا بھلائی کا احسان یہی تھا جو کمار اور اس کی بیوی آشا نے اس کے ساتھ کیا، اگرپولیس خراب ہے تو کیوں ہے ؟
ناول ایک نہ دکھائی دینے والے پلاٹ پر یوں مضبوطی سے قائم ہے جیسے اس کے واقعات محض مقناطیسی قوت سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس ناول میں حیرت انگیز حد تک کہانی پن ہونے کے باوجود کوئی کہانی دکھائی نہیں دیتی۔ در اصل اس ناول کا ڈھانچہ ایک انسانی کاز پر قائم ہے اور اس کے دقیق فکری تجزیے کو بھی کہانی کا ناگزیر حصہ بنا دیتا ہے۔ اپنے چاروں طرف موجود تمام چیزوں کو دیکھنے اور جاننے کی گہری دلچسپی بھی پیدا کرتا ہے۔ ناول کے مکالمے بھی آسان زبان میں تحریر کیے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ناول کی دلکشی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کا صحیح اور بر محل استعمال کیا گیا ہے۔ مکالمے ناول کے واقعات میں اس طرح پیوست ہو گئے ہیں کہ انھیں وہاں سے علاحدہ کرنا ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ ناول کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ واقعات کا سلسلہ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل میں اس خوبی سے منتقل ہوتا ہے کہ اس تبدیلی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ یہ ناول شروع سے آخر تک قاری کی دلچسپی برقرار رکھنے میں پوری طرح کامیاب ہے۔
آل احمدسرور کہتے ہیں کہ:
’’ناول ’’مکان‘‘ مجھے کئی وجوہ سے پسند آیا۔ یہ عام ناولوں سے مختلف ہے۔ مصنف نے جو موضوع لیا ہے وہ آج کل کے آشوب کا مظہر ہے مگر اس کو برتنے میں مصنف نے بلندی اور گہرائی دونوں کوچھو لیا ہے۔ اس ناول میں جو نفسیاتی اور فلسفیانہ گہرائی ہے وہ اس ناول کو عام ناولوں سے ممتاز کرتی ہے۔ کہانی توسیدھی سادی ہے مگر اس کے ارتقا میں نیرا، کمار، اشوک، آلوک، انکل، سونیا کے یہاں جو اتار چڑھاؤ آئے ہیں وہی اس ناول کی جان ہے۔ کہیں کہیں کرداروں کی سوچوں میں تکرار محسوس ہوتی ہے۔ شاید یہ عمل ناگزیر ہو۔ موجودہ زندگی کی پیچیدگی، تضادات، اخلاقی قدروں کا زوال، بڑھتی ہوئی کرپشن اور اس کے اثر سے تمام اعلیٰ قدروں کا زوال، یہ باتیں بہت کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ بڑی چیز ان سب کے باوجود، مصنف کا زندگی کے ثبات اور انسان کی روح پر اعتماد ہے جو پورے ناول کو ایک مجاہدہ بنا دیتا ہے جس میں مکان کو محفوظ رکھنے کی جد و جہد انسانیت کی بقا کی ایک سعی بن جاتی ہے۔ کچھ کرداروں یعنی آلوک کا بہہ جانا اور اشوک کے یہاں آخری تبدیلی، ان کے لیے قاری کو پہلے سے تیار نہیں کیا گیا کم سے کم میرا تاثر یہی ہے۔ یہ تبدیلی اچانک ہوئی ’’مکان‘‘ اب بھی اردو میں ایک منفرد ناول کہا جا سکتا ہے اور اس کے فکر و فن کی خصوصیات یقیناً ادبی دنیا کو اپی طرف متوجہ کریں گی۔
ڈاکٹر آغاسہیل کہتے ہیں کہ:
’مکان‘ اردو کے روایتی ناولوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں اعلیٰ درجے کے ادبی ناولوں کی کچھ ایسی کمی بھی نہیں ہے۔ اگرچہ مغرب کے روسی، فرانسینی اور انگریزی ناولوں کے مقابلے میں بہت کمی ہے لیکن مشرق میں بالخصوص تیسری دنیا میں اردو کا ناول اتنا کمزور بھی نہیں کہ اس کے بارے میں اظہارِ خیال نہ کیا جائے۔ گزشتہ چندسالوں میں ’’گردش رنگ چمن‘‘، ’’دشت ہوس‘‘۔ ’’دیدار کے پیچھے ‘‘، ’’نادیدہ‘‘ اور ’’زوال‘‘جیسے ناول اردو میں آ چکے تھے۔ ’مکان‘ اس سلسلے کو آگے بڑھانے کا کام کرتا ہے۔ چارسوصفحات پر پھیلے ہوئے اس ناول کا پلاٹ بہت مختصر ہے ، جس سے نیرا کے مکان پر اس کا کرایہ دار کمار ایک پراپرٹی ڈیلر کے اکسانے اور ایک پولیس انسپکٹر کے شہ دینے پر قبضہ کر لینا چاہتا ہے۔ پیغام آفاقی ایک طرف تو انڈین سول سروس کے حوالہ سے پولیس کے افسر ہیں۔ دوسری طرف انگریزی ادبیات کے فاضل ہیں۔ تیسری معاشرتی تارجیت، عمرانیات اورنفسیات کے حوالہ سے معروضی تجربوں پر قدرت رکھتے ہیں اور اسی مثلث میں یہ ناول شروع سے آخر تک اپناسفر پورا کر لیتا ہے۔ پیغام آفاقی نے نہایت احتیاط سے تمام کرداروں کی سائیکی میں ایسے ہی منفی کرداروں کو جھلکایا ہے اور بتایا ہے کہ سیدھے سادے سچے راستے پر چلنے والے کردار منفی کرداروں کی نگاہ میں کیوں ناپسندیدہ ٹھہرتے ہیں جیسا کہ ابتدا میں کہا جا چکا ہے کہ یہ اردو کے روایتی ناولوں سے مختلف ہے۔ اس طرح انھوں نے اردو ناول کے روایتی قاری کو جُل دے دی اور نئے امکانات روشن کر دیے۔
ادبیات کی کسی مسلمہ تعریف کا قائل نہیں ادب سائنس سے مختلف ہے۔ ادیب فن پاروں کا لیبارٹری میں تجربہ نہیں کرتا وہ تو انگلش کی زبان میں انسانی روح کا انجینئر ہوتا ہے۔ یہ انجینئرنگ پل صراط سے گزرنا سکھاتی ہے۔ لوہے اور کنکر سے پل بنانا اس کا کام نہیں۔ اس میں تمام انسانی تجربات کا گارا ہوتا ہے جس میں خونِ دل کی سرخی شامل رہتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ادبیات کے لیے فارم کی تلاش کامسئلہ ہے لیکن فارم کی تلاش یا اس کی یافت بھی تخلیقی تجربوں کی خاص منزل میں حاصل ہوتی ہے۔ کہانیوں سے داستان پھر ناول اور پھر مختصر افسانہ یہ سب ہمارے تخلیقی اور جمالیاتی تجربوں کی جستجو کے ذریعہ ابتدا وسط اور انتہا قصہ، پلاٹ، کردار وغیرہ عناصر کو یکجا کر کے ایک شکل دینے کی کوشش کی اور پھر اس کو ایک نام دیا۔ پیغام آفاقی کے ناول ’’مکان‘‘ کے شائع ہونے تک پریم چند اور ان کی قبیل کے تمام فن کار ہی اردو افسانہ اور ناول کی دنیا میں سب کچھ تھے لیکن پیغام آفاقی کا یہ ناول اب پریم چند کی حدوں سے آگے اور بہت آگے نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ اب تک اردو میں جتنے ناول لکھے گئے ہیں، ان پر کوئی نہ کوئی لیبل فوراً ہی چپکا دیا جاتا ہے۔
’’مکان‘‘ ایساناول ہے جس پر بادی النظر میں کوئی لیبل نہیں لگا ہے۔ یہ ناول بنیادی طور پر ارضی فضا میں شروع ہو کر بتدریج سماوی ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر ارضی پھرسماوی ہوتا ہے مگر سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس کے خلق کا رشتہ زمین سے مضبوط تر ہو جاتا ہے۔ اس فن کار کو ایک ایسی بصیرت عطا کرتا رہتا ہے جو اس کی آئندہ زندگی میں بھی اس کے تخلیقی عمل کے آخری لمحات تک اسے کبھی بھی متوازن ہونے نہیں دے گا۔ ناول میں پلاٹ اور واقعات کا وہ پھیلاؤ نہیں ہے جس کی چارسو صفحات کے ایک ناول میں توقع ہو سکتی ہے۔ مصنف نے کہانی کی بنت اور اس کے پھیلاؤ سے زیادہ کرداروں کی خود کلامی، تجزیے ، سوچ اور فکر کی حالتوں اور کیفیتوں کو معیاری اہمیت دی ہے۔ کہیں ناول نگار خود واقعات کا تجزیہ کرتا ہے اور کہیں کردار بلکہ زیادہ تر کردار ہی حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ان میں بڑی گرہوں کو کھولتے ہیں اور آنے والے دنوں میں زندگی کے تئیں اپنی حکمت عملی کی بساط بچھانے کے خاکے بتاتے ہیں اور یہی اس ناول کے وہ حصے ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے ایک وسیع و عریض زندگی کی تہہ در تہہ پیچیدگیوں کا علم ہوتا ہے۔ مصنف نے اس ناول میں جس خاص فرد، ماحول یا علاقہ کو بنیاد بنایا ہے۔ وہ محض علامت ہے پورے سماج سے چند جیتے جاگتے ایسے کردار و واقعات نکال لیے ہیں۔
وسیع تر معنوی جہتوں کے ساتھ ایک فریم میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ نیرا اس دور کے ان سادہ لوح انسانوں کی علامت ہے جو اپنے گرد و پیش کی غیر ضروری چیزوں کی طرف نگاہ بھی نہیں اٹھاتے اور اپنے جائز تعمیری مقاصد کی تکمیل کے لیے وقف رہتے ہیں۔ اس ناول کے واقعات میں جو بے ترتیبی ہے اور کرداروں میں جو کھردرا پن ہے وہ بھی زندگی کا کھردرا پن ہے۔ زندگی کو اتنے قریب سے دیکھ لینا اپنے آپ میں ایک بڑی بات ہے مگراس سے بڑی بات یہ ہے کہ اس پورے مشاہدے کو اپنی پوری دیانت داری کے ساتھ پیش کیا ہے۔
’مکان‘ اردو کا ایک شاہکار ناول ہے۔ یہ ناول عہد جدید کے زوال پذیر رویوں، ناکام جمہوریت کے خلاف ایک جہاد کا درجہ رکھتا ہے۔ ’مکان‘ نے اردو ناول نگاری کو ایک نیا انداز دیا ہے جو کہ غیر روایتی ہے۔ پیغام آفاقی کے اپنے ہم عصر ناول نگاروں کے موضوع فساد، تقسیم کا المیہ، ہجرت کا کرب، زمینداری اور جاگیردارانہ نظام کا بھوت تھا جو اردو ناول پراس طرح سے حاوی تھا کہ قارئین کوایسے موضوعات کے گرد چکر کاٹنے کی عادت سی پڑ گئی تھی مگر اسی دور میں ۱۹۸۹ء میں پیغام آفاقی نے ان موضوعات سے الگ ہٹتے ہوئے ناول کا موضوع ہی بدل دیا۔
ناول ’مکان‘ کے شائع ہوتے ہی اردو ادب میں ایک ہلچل سی مچل گئی تھی۔ مصنف نے اپنے دور کے مسائل اوربیسویں صدی کی زندگی کو ایک کہانی کے پردے میں پیش کیا۔ ناول کا موضوع جدیدہندوستان کی جمہوریت کے تلے پنپنے والی زندگی اور اس کے المیے ، افراد کی روحانی و مادی کشمکش ناول نگار کی زبان میں تارکول کی طرح پھیلی ہوئی رشوت خوری، نوکر شاہوں کی دھاندلی، پولیس کے مظالم، عورت کو گری نظر سے دیکھنے کا دستور جمہوریت کے نقائص اوراس پس منظر میں انسان کے عظیم مقصد کو پیش کرنا تھا۔
اس ناول کا موضوع محض مکان مالک اور کرایہ دار کا جھگڑا یا مکان مالکوں کو کرایہ داروں سے محفوظ رکھنے کا نسخہ وغیرہ بتایا ہے۔ اگر یہی مطلب ہوتا تو ۴۰۰ صفحات پر اتنی بات کیسے پھیل گئی چونکہ ناول نگار نے مکان مالک اور کرایہ دار کی جنگ کے ذریعہ حیات و کائنات کے بڑے مسائل سامنے لائے ہیں۔ یہ بات دھیان میں رکھنے والی ہے کہ اس ناول کا ہندوستان کی آزادی کے پچاس سال بعد کا ہندوستان ہے۔ مصنف نے اپنے خاص کردار نیرا چھوئی موئی سی عورت یا لڑکی کی صورت میں نہیں بلکہ ایک مستحکم ارادہ والی عورت ہمارے سامنے آتی ہے۔ ان کی لڑائی انتہائی سرد جنگ/نفسیاتی و ذہنی جنگ کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ اس لڑائی میں مکان بچاتے بچاتے نیرا مکان کے بچ جانے پر خوش نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک نئے مسئلے کا شکار ہو کر زندگی کو اور کریدنے کے لیے آگے بڑھ جاتی ہے۔
ڈاکٹر ارتضیٰ کریم نے اپنی کتاب ’’اردو فکشن کی تنقید‘‘ میں مکان کا تجزیہ سرسری طور پر نہ کر کے اس کی تہہ تک جانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی نظر میں یہ ناول محض جدید شہری معاشرے کی پوشیدہ کرپشن، لاقانونیت اور اخلاقی بے راہ روی کی نشاندہی ہی نہیں بلکہ اس سے آگے بھی بہت کچھ کہتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماراجسم مکان ہے اور ہم نے اپنے جسم کے سارے اعضا کو کرایہ پر اٹھا رکھا ہے۔ کہیں پیغام آفاقی نے اس ناول کے تعلق سے عرفانِ ذات کی توسیع تو نہیں پیش کی ہے ؟ ارتضیٰ کریم نے اس نثری فن پارے سے ایک اچھوتا معنی برآمد کیا ہے۔ اس ناول کے موضوع و مقصد کے بعد اس کی تکنیک پربھی ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔ مصنف نے ناول کی تکنیک میں ایک انوکھا تجربہ کیا ہے۔ اس کہانی کا بیان کنندہ صرف ناول نگار کی ذات نہیں ہے۔ بعض حصوں میں کرداروں کی زبانی ہے۔ کچھ جگہوں پر خطوط نگاری کا تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ نیز خواب کے سہارے بھی کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ناول میں یکسانیت (Monotonous Style)کا لہجہ (اکتا دینے والی، بور ہونے والی) نہ پیدا ہواس لیے مسائل مختلف Narrative Strategiesکاسہارا لیتے ہوئے بیان کیا گیا ہے۔ اس انداز سے ناول میں منتشر آہنگ پیدا ہو گیا ہے جو کہ فکشن کی جان ہے۔
اس ناول میں سے بڑی خصوصیات یہ ہے کہ جہاں اردو ناولوں میں کرداروں کے سراپا کا بیان ملتا ہے وہاں مکان میں نیرا جو کہ مرکزی کردار ہے اس کے سراپا کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ تو پھر دوسرے کرداروں کی تو بات ہی دور ہے۔ ایسا اس لیے کہ اس ناول کا مقصد کرداروں کی ذہن کی کہانی لکھنا ہے اور ان کے ذہن کی تقصیر سے نیرا یا دوسرے کرداروں کاسراپا قاری خود بخودVisualizeکر لیتا ہے۔ یعنی کرداروں کے ظاہری حسن کے بیان سے یہ ناول انحراف کرتا ہے۔ ہر ناول اپنے حصے کی اپنے دور کی نئی زبان ساتھ لاتا ہے۔ اس ناول کے مکالمے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر جملہ جذباتی نہ ہونا، بڑے سے بڑے المیہ سے گزرنے کے باوجود جملوں کی ادائیگی جذبات سے پر ہے یہ اس کی سب سے بڑی خوبی ہے کیونکہ ناول اپنے اجزائے ترکیبی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے خالق کے فلسفہ حیات اور بصیرت افروزی کی وجہ سے زندہ جاوید فن پارہ بنتا ہے۔ مصنف نے پورے ناول میں جن تشبیہوں کا استعمال کیا ہے اس سے ان کی نثر کے اسٹائل میں فنی ترسیل کا اندازہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ان کے عمیق مشاہدے کا اظہار ہوا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کی سوچ منفرد ہے کیونکہ انھوں نے اشیا کو اپنی طرف سے دیکھا ہے۔ ان کے یہاں خارجی حسن سے زیادہ داخلی سچائیاں پیش کی گئی ہیں۔ کچھ تشبیہوں کی مثالیں اس طرح ہیں۔
اسٹیل پن، گھنی زندگی، گندھا ہوا کیچڑ، سنگین مسئلہ، روشنی، فلامنٹ، گھومتا دماغ، شوقین عورت، زور پکڑتی آندھی، اُبلا ہوا انڈا، ٹھنڈے لمس، جادوئی گھروندا، سپاٹ منظر وغیرہ۔
تمام موضوع پر بحث کرنے کے بعد ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’مکان‘ کا مقام ہر روایتی ناول سے بہت بلند ہے۔ اپنے عہد میں موضوع اور فن کے اعتبار سے ایک اچھوتا فن پارہ ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ ہر اعتبار سے یعنی کہ اپنے موضوع، مقصد، کردار نگاری، پلاٹ، مکالمہ، تشبیہ، تمثیل ہر اعتبار سے اس کا درجہ اعلیٰ ہے۔ اس طرح ’’مکان‘‘ دنیائے فکشن میں ہی نہیں انسانی اذہان کی تاریخ کا ایک نیا تناظر لے کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ بلا مبالغہ اردو ناول کے معیار سازی میں اہم کردار ادا کرنے والا رجحان ساز ناول ہے۔
٭٭٭