ایک کہانی ہے کہ سول اپنے باپ کی بھیڑیں تلاش کرنے نکلے اور مل گئی انہیں بادشاہی۔ اس کی دوسری صورت یہ تھی کہ سول ان بھیڑوں کی جستجو کرتے جس میں وہ کامیاب بھی ہو سکتے تھے اور ناکام بھی۔ اس دوسری صورت میں ایسی کہانی بنتی جو ہمارے بہت سے افسانوں اور ناولوں کا بنیادی اسٹرکچر ہے۔ لیکن بصورت اول ناکامی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس کے اسٹرکچر میں دوسری صورت کے مقابلے میں ایک خاص قسم کی پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے جو ناکامی کو مانع ہے۔ ’’مکان‘‘ کا بنیادی اسٹرکچر یہی ہے کیونکہ یہاں بھیڑوں کی جگہ مکان نے لے لی ہے اور بادشاہی کی جگہ نیرا کے عکس ذات نے۔ اس طرح اس ناول کا بالائی ڈھانچہ یا نام نہاد کینوس گو وسیع نہیں لیکن بنیادی ساخت زیادہ پیچیدہ ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پیغام نے اس بنیاد پر کہانی کی جو عمارت تعمیر کی ہے ، اس کی ہیئت کیا ہے۔ در اصل ’’مکان‘‘ ایک Bildungs roman ہے یعنی ایسا ناول جس میں ایک نوخیز کردار کی شخصیتی تشکیل کی کہانی بیان ہوئی ہے۔ تاکہ اس کے اندر سماجی زندگی میں داخل ہونے کی صلاحیت پیدا ہو جائے ایسے ناول یورپ میں بھی کم ہی لکھے گئے ہیں۔ ناول کا یہ فارم جرمن ادب کی خاص عطا ہے۔ یہاں اس مخصوص فارم کی خصوصیات بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف ’’مکان‘‘ اور اس کے متوقع قاری کو ذہن میں رکھتے ہوئے چند باتوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ اکثر وجودی ناولوں میں ہیرو کو موت سے ہمکنار ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ موت کے ذریعے زندگی کی لایعنیت بخوبی واضح ہو جاتی ہے۔ لیکن Bildungs romanمیں ہیرو مر نہیں سکتا۔ کیونکہ اسے درس گاہ حیات میں شخصیت کی تکمیل کے بعد کارزار حیات میں قدم بھی رکھنا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ناولوں کا انجام المناک بھی ہو سکتا ہے اور خوش آئند بھی۔ مگر ایسے ناول کا انجام بہرحال خوش آئند ہوتا ہے۔ اس خوش آئند انجام کا میلو ڈراما سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ جن سخت آزمائشوں سے یہ کردار گزرتا ہے اس کا میلو ڈراما میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور آخری بات یہ کہ اس قسم کے ناول میں پختہ عمر یا ادھیڑ عمر یا پہلے سے نمو یافتہ ہیرو جگہ نہیں پا سکتا بلکہ اس کا ہیرو کوئی نوعمر ہوتا ہے ، جس کی نشو و نما کی تکمیل کے ساتھ ہی یہ ناول ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ایسے ناول میں سب سے مشکل مرحلہ اختتام کا ہوتا ہے یعنی وہ نقطہ کہاں ملے جو درس گاہ حیات کا نقطۂ اختتام بھی ہو اور رزم گاہِ حیات کا نقطۂ آغاز بھی۔ یہ ’’مکان‘‘ کی خوش نصیبی ہے کہ اسے وہ نقطہ مل گیا ہے۔ اب محققین کے لیے گنجائش رکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ’’مکان‘‘ نہ صرف فنی تکمیل کا عمدہ نمونہ ہے بلکہ اس فارم میں لکھا ہوا اردو کا پہلا ناول بھی ہے۔
اردو میں فکشن کی تنقید کو ٹائپ، فلیٹ اور راونڈ کرداروں کی بحث میں پڑ کر جو نقصان اٹھانا پڑ رہ ہے ، وہ سب کے سامنے ہے۔ اس بحث سے قطع نظر ’’مکان‘‘ کے دو کرداروں کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ ناولوں میں عموماً سنگین صورت حال کا سامنا ہونے پر ہیرو کے نزدیک دوہی صورتیں رہ جاتی ہیں۔ یا تو فرار یا مفاہمت۔ پیغام نے اسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیسرا متبادل پیش کیا ہے جس کو فی الحال کوئی نام دینا مشکل ہے لیکن مادام بواری کی ’’بوارزم‘‘ پر قیاس کر کے ’’نیرائیت‘‘ کہا جا سکتا ہے جس کا مفہوم ناول کے مطالعے سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ صنف قوی کے مقابلے میں صنف لطیف کو مرکزی کردار کیوں بنایا اور پھر مرکزی کردار کو ڈاکٹری کی تعلیم کیوں دلوائی؟ صنف لطیف تو اس لیے کہ یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ اگر عورت ہوتی تو ٹوٹ جاتی اور ڈاکٹری کی تعلیم اس لیے کہ سماج سے بے لوث رشتہ قائم کرنے کا یہ بہترین وسیلہ ہے۔
’’مکان‘‘ کا دوسرا کردار ہے۔ سونیا جس کی تخلیق ناول نگار کی فنی بصیرت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ سونیا تنقید کی اصطلاح میں فلیٹ کردار ہے اور اتنا فلیٹ کہ اگر ناول سے سرسری گزریں تو نظر بھی نہ آئے۔ وہ ناول میں نیرا کے ساتھ شروع سے آخر تک رہتی ہے۔ اس پورے عرصے میں دو تین بار سے زیادہ نہیں بولتی اور اسی طرح تین چار بار مسکراتی ہے ، بس لیکن اس کی پیشکش کے انداز سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ مصنف نے ایک قسم کی فنی عیاری کے ساتھ اسے نیرا کے تقابل میں پیدا کیا ہے کیونکہ اس کا وجود نیرا کے طرز عمل کو مسائل کا واحد حل سمجھنے کے ایقان پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے اس سے ناول کی ہیئت میں ایک حیرت انگیز فنی توازن پیدا ہو گیا ہے۔
چونکہ اس ناول کا مرکز ثقل نیرا ہے ، اس لیے اس کو سہارا دینے کی غرض سے تین طرح کے استعارے خلق کیے گئے ہیں۔ ایک تو قید کا استعارہ مثلاً تالا، پنجرہ، نماز اور لباس وغیرہ۔ دوسرا آزادی کا استعارہ مثلاً کھلی چھت، کھلی ہوا وغیرہ اور تیسرے نباتاتی استعارہ مثلاً کونپل، پودا، درخت، کلی اور پھول وغیرہ۔ یہ تیسرا استعارہ باقی دو استعاروں کے باہمی عمل اور رد عمل کے نتیجے میں نیرا کے داخلی نمو کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس سے فنی انضباط کی فضا قائم کرنے میں خاطر خواہ مدد ملی ہے۔
ذہنی واردات کو پیش کرنے کی جتنی بھی آزمودہ تکنیکیں ہیں خود کلامی، منقول خود کلامی داخلی خود کلامی151 یہ سب آپس میں چاہے جتنی مختلف ہوں لیکن اس بات میں مشترک ہیں کہ ان میں کردار تحت شعوری طور پر سرزد ہوتا ہے۔ پیغام کے ہاں یہ سب تکنیکیں صورتاً موجود ہیں مگر ان میں معنوی تبدیلی آ گئی ہے یعنی ان میں کردار جتنا سمجھتا ہے اتنا ہی قاری بھی سمجھتا ہے کیونکہ پیغام کے کرداروں کے ہاں سوچ کا عمل شعوری سطح پر سرزد ہوتا ہے۔ یہ تبدیلی ’’مکان‘‘ میں فنی ضرورت کے تحت واقع ہوئی ہے۔
اب آخری بات پیغام کے اس مخصوص اسلوب اظہار کے بارے میں جس کی وجہ سے ان کا ناول بظاہر طویل معلوم ہوتا ہے۔ شعور جب رواں ہوتا ہے تو ایک نہیں انیک خیالات انمل بے جوڑ، پرے ادھورے ، منطقی ربط سے بے نیاز ذہن کے اسٹیج سے گزرتے ہیں۔ یہاں صرف یہ بات توجہ طلب ہے کہ ایک نہیں انیک خیالات۔
’’مکان‘‘ کے کرداروں میں ذہنی عمل اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ یہاں خیال ایک ہوتا ہے اور کردار اس ایک خیال کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتا ہے۔ پھر اس جان کاہ عمل سے گزرنے کے بعد اس کے اندر کشف کی ایک کرن چمکتی ہے جو اس کردار کے داخلی نمو کا حصہ بن جاتی ہے۔ خود پیغام نے اس عمل اور اس عمل کے فائدے کی طرف ناول میں ایک جگہ اشارہ کیا ہے۔ وہ نیرا کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ایک ہی بات کو کئی کئی پہلوؤں سے یوں دہراتی رہی جیسے اپنے اعتماد کو بٹھا بٹھا کر مضبوط کر رہی ہو۔ ‘‘
اب اس طریقۂ اظہار کی وضاحت کے لیے ایک مختصر سی عبارت ملاحظہ کیجئے :
’’اس نے غور کیا!
یہ مکان تمہاری ملکیت ہے۔ تم اس مکان کی مالک ہو۔ یہ دو طرفہ رشتہ ہے کہ مکان تمہاری ملکیت ہے اور تم مکان کی مالک ہو اور اس طرح مکان تمہارے ساتھ مقفل ہے اور تم مکان کے ساتھ مقفل ہو۔ لیکن مکان کے ساتھ تمہارا رشتہ ایک الگ ہی چیز ہے اور یہ تمہارے اور مکان کے علاوہ تیسری چیز ہے۔
اسے محسوس ہوا کہ وہ اس وقت بالکل فلسفی ہو گئی تھی۔ ‘‘
٭٭٭