تہہ دار تخلیق کی ایک پہچان ہوتی ہے کہ وہ آسانی سے تفہیم کی گرفت میں نہیں آتی، اس کے باوجود اپنے حسن اور معنویت کا احساس دلا دیتی ہے۔ اس کے اندر کا تجربہ اپنے رگ و ریشے میں معنی کی اتنی جہتیں سموئے ہوئے ہوتا ہے کہ دیکھنے والوں کو مختلف روپ اور الگ الگ رنگ میں دکھائی دیتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایک ہی نگاہ جب اس کی طرف دو با را دیکھتی ہے تو اس کی شکل بدل جاتی ہے۔
ایسا ہی کچھ پیغام آفاقی کے ناول ’’ مکان ‘‘ کے مطالعے کے وقت ہوتا ہے۔ آفاقی کا مکان ایک ہوتے ہوئے بھی ایک نظر نہیں آتا۔ یہ الگ الگ نگاہوں کو الگ الگ شکلوں میں دکھائی دیتا ہے۔ کسی کو یہ ایک بیوہ عورت اور ایک یتیم بے سہارا بچّی کا مکان دکھائی دیتا ہے جسے ایک کرایے دار اپنے حربوں اور ہتھکنڈوں سے ہڑپ لینا چا ہتا ہے اور وہ بے سہار لڑکی اتنے بڑے، بھرے پرے اور مضبوط سماج کی موجودگی میں، جس میں عدالت بھی ہے اور پولیس بھی، جس کے پاس قانون بھی ہے اور انصاف بھی، کچھ نہیں کر پاتی۔
کسی کو یہ مکان انسانی پناہ گاہ اور تحفّظ کی علامت نظر آتا ہے تو کوئی اسے غیر محفوظیت کے نشان کا نام دیتا ہے۔ کسی کو اس میں انسانوں کے استحصال کا عکس دکھائی دیتا ہے اور کسی کو سماج کے جبر کا گھناؤنا منظر نظر آتا ہے۔ کوئی اس ناول کو عرفانِ ذات کی کہانی کہتا ہے تو کوئی اسے ذات کے عرفان کا عرفان سمجھتا ہے۔
مجھے بھی یہ مکان مختلف اوقات میں مختلف نظر آیا ہے۔ پہلی بار جب میں نے اسے دیکھا تو یہ دنیا کی علامت نظر آیا تھا۔ دنیا جہاں انسان نہ صرف یہ کہ پناہ لیتا ہے اور اپنے کو محفوظ رکھتا ہے بلکہ اپنی نشو و نما بھی کرتا ہے اور اپنی شخصیت کلا ارتقا بھی۔ یہ مکان جس دنیا کی علا مت ہے اس میں کچھ ایسی طاقتیں بھی ہوتی ہیں جو مکان سے لوگوں کو بے دخل کر کے اسے اپنے لیے محفوظ کر لینا چاہتی ہیں تاکہ وہ اسے اپنے لیے عیاشی کا اڈّہ بنا سکیں، اور جو بھی ان طاقتوں کے راستے میں آتا ہے اسے وہ یا تو کچل ڈالتی ہیں یا اگر اسے مضبوط پاتی ہیں تو کبیرے کی میگنیٹ میں جکڑ کر رکھ لیتی ہیں۔
اسی دنیا میں کچھ ایسی قوتیں بھی ہوتی ہیں جو اس دنیا کے تحفظ اور انسانی بقا کے لیے وجود میں آتی ہیں، جنھیں ہم نظام حیات کا نام دیتے ہیں لیکن وہ بھی بشری طاقتوں کے دباؤ یا ان کے دکھائے گئے منظروں اور تماشوں کے لالچ میں آ کر اپنے فرض کو بھول جاتی ہیں اور انھیں اپنے وجود تک کا احساس نہیں رہتا۔ پولیس اور عدالت ان کی واضح مثالیں ہیں۔ اور اس طرح یہ مکان دنیا کا آئینہ بن جا تا ہے۔ دوسری بار مکان مجھے انسانی تخلیقیت یا انسان کی تخلیقی قوّت کی کہانی محسوس ہوا۔ مکان کا خالق انسان کے اندر پوشیدہ اس تخلیقی قوت کو متشکل کرنا چاہتا ہے جس کا ادراک ہوتے ہی جسم بے معنی ہو جاتا ہے اور جسمانی طور پر کمزور سے کمزور انسان بھی اس قوّت کے زور پر اپنے اِرد گرد کے گھیروں کو توڑ تا اور رکاوٹوں کو روندتا چلا جاتا ہے اونچے اونچے پہاڑ گرنے اور بکھرنے لگتے ہیں۔ خلیجیں پٹنے لگتی ہیں۔ نشیب و فراز ہموار ہونے لگتے ہیں اور جو انسان اپنی تخلیقیت کو پا لیتا ہے وہ نیرا کی طرح پر پیچ راستوں اونچے اونچے پہاڑوں، گہری گہری گھاٹیوں، خوفناک موڑوں اور ٹیڑھی میڑھی اور تنگ سڑکوں سے ڈرنے کے بجائے ان سے کھیلنے لگتا ہے۔ ان میں اسے مزا آنے لگتا ہے اور اسے بھی ویسا ہی محسوس ہونے لگتا ہے جیسا کے شملہ کی پہاڑیوں پر چڑھتے ہوئے نیرا کو محسوس ہوا:
’’ وہ اس ترنگ کی تھر تھری کو اپنے اندر محسوس کرنے لگی۔۔ یہ پہاڑ پر پوری قوت سے چڑھنے کا تھرل تھا۔ اسے لگا جیسے وہ گاڑی کی اس قوت سے خود ہم آہنگ ہو گئی ہو اور اپنی قوت سے پہاڑ کی اونچائی پر رفتار کے ساتھ چڑھ رہی ہو۔ ..۔ ..۔ اس کا جی چاہا اُونچائیاں اور زیادہ ہوں تاکہ گاڑی کے استعمال کی وہ مشینی آواز محسوس کرے جو اس کے جسم میں نشے کی کیفیت گھولتی جا رہی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ اگر وہ خود گاڑی ہو تو زیادہ سے زیادہ سیدھی اوپر چڑھتی پہاڑی کا انتخاب کرے تا کہ زیادہ سے زیادہ مزہ آئے۔ ‘‘
اور یہ احساس اس انسان کے اندر یہ شعور پیدا کر دیتا ہے کہ :
’’ جن چیزوں سے ڈر لگتا ہے، ان کی وہی کیفیت سب سے زیادہ خوبصورت ہوتی ہے۔
جب لوگ ان خوفناک سڑکوں سے مسلسل گزرتے ہیں تو یہ ٹیڑھا پن کسی سطح پر انسانی شعور میں خوف پیدا کرتا ہے۔
وہی ٹیڑھا پن اچھا لگنے لگتا ہے۔
اور وہ حسن در اصل بر تر ہو جانے کا احساس ہوتا ہے کہ یہ احساس انسانی روح کو چمکتا ہے۔ ‘‘
اور انسان جب اپنی تخلیقیت کو پا جات ہے یا اسے اپنی تخلیقی قوت کا عرفان ہو جاتا ہے تو وہ اپنی اس تخلیقیت سے دوسروں کے اند ر تخلیقیت کو بھی بیدار کرنے لگتا ہے جیسا کے نیرا کی تخلیقیت سے جڑی سی پی مسنر بترا نیرا جاگی ہے یا اے۔ سی۔ پی۔ الوک بدلا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس تخلیقی قوت سے راستے میں کھڑی مزا حم قوتیں بھی ہلنے اور ٹوٹنے لگتی ہیں جیسا کہ اس ناول میں اشوک ہلا ہے اور کمار ٹوٹا ہے۔
یہ تخلیقی قوت جسے ناول نگار اپنے مکان میں دکھانا چا ہتا ہے یہ وہی تخلیقیت ہے۔ جو گوتم بدھ کو گیا میں پیپل کے پیڑ کے نیچے دھیان کے ذریعے ملی تھی جسے خواجہ معین الدین چشتی نے کشف سے پایا تھا۔ اور مکان کی نیرا نے سے تصادم اور مسلسل جدّو جہد سے حاصل کیا ہے۔
مکان کو غصب کرنے والی قوتوں سے ٹکرا نے لوگوں پر بھروسہ کر کے مدد کے لیے مختلف دروازوں پر جانے اور گرم پر خار راستوں پر مسلسل بھاگتے رہنے کے دوران نیرا پر انکشاف ہوا کہ :
’’ یہ سارے بھرو سے صرف اذیت پہنچاتے ہیں۔ ‘‘
اور اس انکشاف پر جب اس نے سوچنا شروع کیا تو :
’’سوچنے کے دوران اس نے محسوس کیا کہ اس کے دماغ کے ریشے ازسر نو مرتب ہو رہے ہیں، جیسے اس سے کوئی ہولے ہولے کہہ رہا تھا، یہاں قدم قدم پر رہزن گھات میں بیٹھے ہیں، یہ بیسویں صدی کی نویں دہائی کی دلّی ہے، یہ وہ شہر ہے جہاں کب رات ہوتی ہے، اور کب دن نکلتا ہے، پتا نہیں چلتا۔ یہ وہ شہر ہے جہاں ہر انسان اپنی حفاظت کا آپ ہی ذمّہ دار ہے یہاں بھروسوں کی تجارت ہوتی ہے، یہاں معاہدہ بنانے والے ایک ایک لفظ کے ہزاروں روپے لیتے ہیں اور اس شہر میں تم بھروسوں پر چل رہی ہو۔ ‘‘
اور اسی سوچ کے بیچ اسے یہ بھی محسوس ہوا کہ :
’’ بچپن سے لے کر چند روز پہلے تک وہ زندگی کو جس روپ میں دیکھ رہی تھی وہ زندگی کا اصل روپ نہیں تھا، زندگی اس روپ میں تو بھیس بدل کر کھڑی تھی۔ وہ زندگی کا جو روپ اب دیکھ ۵رہی ہے، یہ حقیقت ہے ___زندگی کے اس روپ کے ایک ایک خد و خال کو غور سے دیکھنے کے لیے وہ بے چین ہو گئی۔ ‘‘
اور جب وہ اصل زندگی کے خد و خال کی تلاش میں نکلی تو اس پر کائنات کے اسرار کھلنے لگے اسے صاف دکھائی دینے لگا کہ :
’’ یہ سب کچھ جو وہ دیکھ رہی ہے، وہ محض تماشا ہے اور زندگی ایک کھیل ہے اور اس کھیل میں جیتنے یا ہارنے کا احساس ہی اس کی روح ہے اور اسی روح کی گہرائی میں اس کی بقا مضمر ہے کہ لہروں کی طرح ڈوبتے اور اتراتے رہنے کا احساس ہی دائمی سے اور اس احساس کی لہریں ہی ہر چیز کی اصل ہیں۔ ‘‘
زندگی کی مزید باریکیوں کی تلاش کرتے ہوئے ایک دن اسے نیند آ گئی اور اس نے :
’’نیند میں اپنے اندر ایسی کیفیت محسوس کی کہ اسے لگا کہ آج اس کی نیند حسب معمول نہیں تھی۔ صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو اس کے اندر بدلتے موسموں والی بے چینی تھی۔ تم سب مجھے کیا سمجھتے ہو ؟ اس نے ایک ایک کوکھا جانے والی نگاہ سے اپنے چاروں طرف کے ماحول کو دیکھا۔ تم سمجھتے ہو کہ میں ایک کمزور لڑکی ہوں، میں عورت ہوں، میں سمندر ہوں کہ جس میں پورا کا پورا پہاڑ غرقاب ہو سکتا ہے لیکن میں جو کچھ اپنے اندر سہتی ہوں اس سے نئی چیزیں جنم لیتی ہیں۔ میں کوکھ ہوں میرے اندر جو عکس پیدا ہوتا ہے وہ محض خیال نہیں ہوتا۔ ‘‘
اس دن کے بعد نیرا کو یہ محسوس ہونے لگا :
اس کی زندگی کے نقوش اب اور تیزی سے یکے بعد دیگرے بدلنے لگے۔ چند ماہ پہلے اس کے ذہن میں جو آتش فشاں پھوٹا تھا اور جس نے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا تھا، اس کی ایک ایک چنگاری سے سورج پیدا ہو رہا تھا۔ ‘‘
اور اس سورج کے پیدا ہوتے ہی اس پر یہ راز روشن ہو گیا کہ :
’’ اپنی زندگی کے اس دور میں جب وہ اندھوں کی طرح چل رہی تھی، لوگ اسے اپنے اشاروں پر دوڑاتے تھے اور وہ چوٹ کھاتی تھی تو ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھی، لیکن اب یہ چوٹیں اور یہ دوسروں پر بھروسہ کرنا، ایک کھیل، ایک لذتّ آ میز عمل بن گیا تھا۔ اور جیسے جیسے وہ اس آندھی کے ساتھ تیز حرکت میں آ رہی تھی، ویسے ویسے اس کو لگ رہا تھا کہ وہ ایک رقّاصہ کی طرح دوسروں کے لیے سب کچھ کر رہی ہے، وہا پنے آپ سے باہر نکل آئی تھی۔ اسے ناچنے، دوڑنے، بھاگنے اور تھکنے میں لذّت مل رہی تھی۔
گویا اس طرح نیرا کی تخلیقیت اس پر آشکار ہوتی ہے اور وہ دبلی پتلی کمزور سی لڑکی مضبوط اور طاقتور ہوتی چلی جاتی ہے۔
تخلیقیت کی اس کہانی سلسلے یں خود ناول نگار کا یہ اقتباس ملا خطہ کیا جا سکتا ہے :
’’ انسان کے اندر جو تخلیقی اور اخلاقی صلاحیتیں ہیں ان کا استعمال کرنا ان سے رجوع نہ کرنا۔
اور اس گدھے کی طرح جو ایک جانور ہے، ذلّت کا بوجھ اٹھائے جانا۔
یا کتے کی طرح وفاداری کی دُم ہلائے جانا۔
انسان کی مٹیّ کا مذاق ہے۔
اپنی تلوار اپنے نگار خانۂ دل کی دیور پر لٹکتی ہوئی چھوڑ کر غیر متناسب طاقتوں سے خالی ہاتھ لڑنا۔
اور شکست کھا کر دوسروں کی بھی ہمت پست کرنا بے معنی ہے نیرا اپنی اندرونی طاقت سے کہو کہ ان مسائل کا حل تلاش کرے اس قوت سے جو تعمیر اور آزادی کا چشمہ ہے جہاں پر تہذیبی مسئلوں کا حل ملتا ہے۔ جہاں سے سپہ سا لار اور بادشاہ اپنا اعتماد حاصل کرتے ہیں، جہاں سے سائنسداں اپنی ایجادوں کا انجام لے کر آتے ہیں۔ جہاں سے فقیر بے نیازی کی دولت سے مالامال ہوتے ہے۔ جہاں سے مجاہد زندگی کے معنی حاصل کرتے ہیں۔
نیرا وہ طاقت ہر انسان کے اندر ہے۔ یہ وہ جڑ ہے جس سے انسان اپنی زندگی کی اصل خوراک کرتے ہیں۔ ‘‘
نیرا کی تخلیقیت کی اس کہانی کو پڑھتے وقت قاری اپنے اندر رون میں ایک ابھرتی ہوئی قوت کی گونج سنتا ہے اور اور بعض بعض موڑ پر خود کو بدلتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اور جب نیرا کے ساتھ شملے کی پہاڑیوں پر چڑھتا ہے تو نیرا کی طرح وہ بھی پہاڑی راستوں، اندھے موڑوں، خوفناک گھاٹیوں اور خطرناک اونچائیوں کو بے پروائی سے روندتا ہوا گزرتا چلا جاتا ہے اور ایک سرور کی کیفیت بھی محسوس کرتا ہے اس طرح پیغام آفاقی کا یہ مکان اپنے قاری کو بھی ایک ایسی بلندی پر پہنچا دیتا ہے۔ جہاں زندگی نغمہ بن جاتی ہے اور روح لذتوں سے بھر جاتی ہے۔
ممکن ہے اگلی بار پڑھنے پر مکان کسی اور ہی صورت میں نظر آئے۔ اور اس کے در و دیوار سے معنی کا کوئی اور ہی چہرہ نکل آئے۔
قاری کی نگاہ میں مکان کی بار بار بدلتی ہوئی شکل اسے ایک ایسی بلندی عطا کرتی ہے جو اسے فن کی عظمتوں کی طرف لے جاتی ہے۔
٭٭٭