( چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کے ایم۔فل۔ کے مقالے سے اقتباس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیغام آفاقی ایک مشہور اور معروف ناول نگار ہیں اور ان کے کئی تخلیقات کتابی شکل میں منظر عام پر آ چکی ہیں جیسے ’’مکان‘‘، ’’مافیا‘‘، ’’پلیتہ‘‘ اور ’’درندہ‘‘۔ مکان ان کا نہایت ہی مقبول ناول ہے۔ یہ ان کا سب سے مشہور و معروف ناول ہے جس نے شائع ہوتے ہی اردو ادب میں ایک ہلچل سی مچا دی۔
پیغام آفاقی کی پیدائش ۱۹۵۳ء میں جانپ ضلع(سیوان، بہار) میں ہوئی۔ ۶فروری جمعہ کے دن شام کوسورج غروب ہونے سے پہلے شام ساڑھے چار بجے اس عظیم ہستی نے جنم لیا۔ آپ کے والد کا نام شیخ عبدالجبار فاروقی تھا۔ والدہ کا نام وظیفۃ النساء ہے۔ آپ کے دادا کا نام شیخ علی جان تھا۔ آپ کے والد دو بھائی اور آپ کی دو پھوپھیاں تھیں۔ آپ کے پردادا کا نام اطہر حسین تھا ان کے والد کا نام حاجی بخش تھا۔ آفاقی صاحب کے چھ بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ ایک ان سے چھوٹی اور ایک بڑی آپ پانچویں نمبر کے بھائی ہیں۔ آپ کے والد کی تعلیم پہلے سیوان میں پھر کلکتہ میں ہوئی۔ اس طرح ان کا ایکسپوزر کلکتہ کا تھا۔ دادا کے انتقال کی وجہ سے پھرسیوان واپس آ گئے تھے۔ آپ کا زمیندارانہ گھرانہ تھا۔ زمینداری سن انیس سو چھپن میں ختم ہوئی تھی۔ بقول آفاقی صاحب:
’’والد کی شخصیت کا ہم پراس لیے اثر پڑا کہ وہ ہر موقع پر مہابھارت کی کہانیاں سنایاکرتے تھے گاؤں میں بہت سے لوگ برہمن برادری کے بھی رہتے تھے جن سے میرے خاندان کو بہت قربت تھی اور ان میں بھی بہت پڑھے لکھے لوگ تھے۔ میرے والد صاحب کبیرداس کے دوہے اکثر گایا کرتے تھے۔ حضرت آسی کے اشعار بھی سناتے اور گاتے بھی تھے۔ ‘‘ ۱
مزید فرماتے ہیں :
درویشوں سے بہت گہرا رشتہ ہمارے خاندان کا رہا ہے اور مجذوب قسم کے درویشوں کی عزت کرنے کی بہت خاص ہدایت ہمارے خاندان میں رہی ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی کے ہمارے والد مرید تھے لیکن ہر طرح کے بناؤٹی فقیروں، منافق قسم کے عالموں اور مذہب کے نام پر دھونس جمانے والے لوگوں سے بہت بے زار ہوتے تھے۔ ان کے گھر میں بحث کی بڑی آزادی تھی اور کسی بچے کو بھی اس کے سوال کا جواب ضرور دیا جاتا تھا۔ بقول پیغام آفاقی:
’’میرے اوپر میری بڑی بہن جو تقریباً مجھ سے دس سال بڑی تھیں ان کی گہری چھاپ پڑی ہے۔ میں نے ان کو اپنی والدہ کی مدد کرتے ہوئے اور گھر کے کام کاج کو چستی سے چلانے میں حصہ لیتے تو دیکھا ہی تھا مگر ان کی سوچ کا جو انداز تھا اس نے میرے اندر ذہنی وسعت پیدا کی ایک بار میں نے ان سے پوچھا تھا کہ دوسرے مذہب کی کتابیں پڑھنی چاہیے یا نہیں تو انھوں نے کہا تھا کہ پڑھنی چاہیے مگر اس سے پہلے اپنے مذہب کی کتابوں کو ٹھیک سے پڑھنا چاہیے۔ میں نے ان کی زبانی پیغمبروں اور نبیوں کی کہانی بھی سنی تھی۔ ‘‘
(پیغام آفاقی سے گفتگو پر مبنی)
آفاقی صاحب کے والد گرمیوں کے روزے رکھنے کے بڑے پابند تھے۔ وہ گرمیوں کے روزوں کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ حضرت عبدالقادر جیلانی کی واعظ اور تذکرۂ اولیا کا خصوصی مطالعہ بھی کرتے تھے۔ ان کی بہن امیرالنساء انسانی دردمندی پر زیادہ زور دیتی تھیں۔ غریبوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنے کی نصیحت تھی۔ ان کے گھر میں اور تمام مسلم گھروں میں مذہبی کتابیں تو ہوتی ہی ہیں مگر ساتھ ساتھ قصہ ’’حاتم طائی‘‘ اور ’’عربیہ نائٹ‘‘(الف لیلہ) جیسے انھوں نے بچپن میں پڑھا تھا۔ اس کے بعد انھیں سب سے زیادہ علامہ اقبال کا کلام ’’بانگ درا‘‘ پسند آیا۔ ایسے زمانہ میں مختلف حصوں میں خاص طور سے کلکتہ اور جمشید پور اور قلعہ میں جو فسادات ہوئے اور اس سے جو کہانیاں ان کے گھروں تک پہنچیں اس کا ان کے اوپر زیادہ اثر پڑا۔ جس میں خاص طور پر ایک ایسی خاتون تھی جو ان کے گھر کے پڑوس میں رہتی تھی اور وہ فسادکا شکار ہوئی (جمشید پور میں ) ان کا چہرہ اکثر ان کی نگاہوں میں گھوم جاتا ہے کیونکہ ان کی ماں سے ان کی بہت قربت تھی۔ تقسیم کے وقت جو فسادات ہوئے اس میں چھپرا شہر (بہار) میں جس طرح ایک محلہ کو گھیر کر لوگوں کا قتل عام ہوا تھا اس پر بھی ایک کتاب انھوں نے پڑھی تھی اس لیے بچپن سے ہی یہ دنیا ان کے لیے ایک پر خطر جگہ تھی۔ گھر کی مخصوص تربیت کی وجہ سے مذہب ان کے لیے انسانی خدمت کا دوسرانام تھا اور آس پاس کے ماحول سے لے کر دور دور تک پھیلے مسائل نے ان کی سوچ کو اپنے اندر گرفتار کر لیا تھا۔ گھر میں زمیندارانہ روایت اور زمینداری ختم ہونے کے بعد بدلے ہوئے حالات زندہ رہنے کی کاوشوں نے کوشش اور محنت کو بنیادی اقدار کی جگہ دے دی تھی۔ ذاتی، خاندانی، سماجی اور عالمی تمام مسئلوں کو ضرورتوں نے ان کے ذہن کو ایسے سانچے میں ڈھال دیاجس نے آگے چل کر ایک معقول ملازمت سے لے کر ادب کے ذریعہ انسانی مسائل کے حال کی تلاش نے ان سب کو زندگی میں برابرمقام دے دیا۔ جہاں مذہب سے گہری وابستگی قائم رہی وہیں اپنے فرقہ کا تحفظ سوچ کا ایک موضوع بن گیا۔ لیکن ان کے والد کے کھلے ذہن نے انھیں پوری دنیا کو سطحی نظر کے ساتھ دیکھنا سکھایا اور انسانی اصولوں کے لیے کسی بھی چیز پرسوالیہ نشان لگانے میں کبھی کوتاہی نہیں ہوئی۔ ان کے والد عورتوں کے اوپر چاہے وہ بیوی ہو، بہو ہو یا بیٹی یا کوئی اور ہو ان کے اوپر ہاتھ اٹھانے کو مرد کی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ وہ عورتوں کی حق تلفی کے سخت خلاف تھے۔ زمیندارانہ خاندان ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں کبھی کسی کے آگے سرجھکانے کی نوبت نہیں آئی اور اپرسے خدا کی رحمت اور ’’کلمہ طیبہ‘‘ کو بے حد اہمیت دے کر ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی کہ یقین کا معاملہ عمل سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور عمل میں کوتاہی ہو بھی جائے تو یقین میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ دنیاپرستی اور دنیا داری کی تربیت پر بالکل نہیں ہوئی۔
ان کے گاؤں میں ایک مکتب تھا تیسرے درجہ تک انھوں نے وہیں پڑھا وہ اکثر سبق سے آگے کے اوراق پڑھنے لگتے تھے۔ ان کے اسکول میں جو استاد تھے مولوی مختار علی انھوں نے اس بات پر ایک دن ان کی پٹائی کر دی۔ انھوں نے جا کر اپنے والد سے شکایت کی اور بتایا کہ سمجھی ہوئی چیز کو بار بار پڑھنے میں میرا دل نہیں لگتا وہ ان کی بات سمجھ گئے۔ ان کے والد نے اس سلسلے میں ان کے استاد سے بات کی اور اس سلسلے میں انھیں ٹوکنے یا روکنے سے منع کر دیا۔ اسکول کے دنوں کا تجربہ بھی انھیں ابھی تک یاد ہے۔ وہ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالے جانے والے واقعہ کو اور اس آتش کولے کر باغ میں تبدیل ہو جانے والے واقعہ کو اپنے بڑوں سے سن کر اس کے ممکن ہونے کا ان کے اندرایسا یقین پیدا ہو گیا کہ ایک دن جب وہ اسکول میں چھٹی ہو چکی تھی اور بارش ہو رہی تھی توانھوں نے بسم اللہ اورکلمہ طیبہ پڑھ کر دوڑ پڑے اور انھیں یقین تھا کہ وہ بارش میں نہیں بھیگیں گے۔
بقول پیغام آفاقی:
’’مجھے لگتا ہے کہ تعلیم اور تربیت کے دو ذرائع شانہ بشانہ بچپن سے اپنا اثر قائم کرتے رہے ہیں جہاں ایک طرف اپنے علائق سے اور کتابوں سے علم حاصل کرنے کاجو سلسلہ رہا اس کو تو لا ذہن ہمیشہ کتابی ذہن سمجھتارہا جو باتیں کسی ایسے شخص نے کیں جو کسی بھی اعتبار سے مربی سرپرست یا خیر خواہ چاہتے وہ ذاتی طور پر میرا خیر خواہ ہو یا اسے ہمارا معاشرہ خیر خواہ سمجھتا ہو۔ اس کی باتیں سیدھے ذہن اور دل میں اترتی چلی گئیں اور یہ محسوس بھی نہیں ہوا کہ اس میں میری تربیت ہو رہی ہے لہٰذا سچ اور بھوت کا فیصلہ یا فرق کہنے والے کے جذبہ خیرخواہی ہوتی رہی۔‘‘ (پیغام آفاقی سے گفتگو پر مبنی)
بہت بعد میں انھیں اندازہ ہوا کہ دنیا میں سچ اور جھوٹ کا پیمانہ یہ بھی ہے کہ کسی بات کو کہنے والا آپ کا دوست ہے یا دشمن ایسے ہی لوگوں میں ان کے ایک بزرگ حکیم الدین تھے جنھیں عاقل میاں بھی کہا کرتے تھے۔ ان کے خاندانی حجام تھے۔ انتہائی دیندار اور کتابوں کا مطالعہ کرنے والے بزرگوں اور صوفیا سے بہت قربت رکھتے تھے۔ اکثرمسجد میں امامت بھی کرتے تھے۔ وہ ان سے بہت سارے سوالات زندگی اور مذہب کے بارے میں پوچھتے تھے اور ان کے جواب سے مطمئن ہوتے تھے۔ انھوں نے ہی عربی اور قرآن شریف پڑھوایا ان سے پہلے ایک میاں جی تھے جو مسجد میں اذان دیتے تھے ، وہ نہایت مختصر قد کے انسان تھے ، سانولا چہرہ، میٹھی آواز، انھوں نے ان کی پردادی کو بھی قرآن شریف پڑھنا سکھایا تھا۔ سنا ہے تقریباً۹۰ برس کی عمر میں ایک دن ان کی پردادی نے انھیں بلایا اور پوچھا کہ میری ایک نماز قضا ہو گئی ہے لہٰذا وہ قضا نماز پڑھنے کا طریقہ بتا دیں تو انھوں نے بتا دیا۔
وہ جب بھی عید کے موقع پر اپنے گھر (بہار)جاتے ہیں تو ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے ضرور جاتے ہیں بعد میں اپنے خاندان والوں کی قبروں پر جاتے ہیں۔ علم، تربیت، تعلیم ان سب کے ذرائع ایک نہیں کئی ہیں اور علم، آواز، محبت، برتاؤ عمل کتابوں کی قرأت ان سب راستوں سے ہو کر انسانوں تک پہنچتا ہے۔ ان کی بنیادی تعلیم مکتب کے بعد شہر کے اسلامیہ اسکول میں اور اس کے بعد D.A.B.اسکول چلے گئے۔ D.A.B.اسکول کی تین باتیں قابل ذکر ہیں۔ مخلوط تعلیم اور خواتین کے ساتھ مذہبی انداز میں پیش آنا سکھایا گیا۔ اردو کے بہترین استادوں سے ان کاسابقہ پڑا جنھوں نے فارسی کی بنیادی تعلیم دے کر اردو کے خمیر کو واضح کیا۔ اسکول کے زمانے سے ہی انھوں نے نظمیں لکھنی شروع کی جب وہ ۹ویں کلاس میں تھے لیکن شاعری کے فن سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے ان کے استاد مولانا شیخ القادرین نے انھیں حکیم بشیر الدین کے پاس خاص طور پر بھیجا جہاں چند روز کی تربیت کے بعد ایک دن انھوں نے ان سے کہا کہ اگر اسے شاعری کہتے ہیں تو جو مجھے آپ بتا رہے ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص شاعر نہیں ہے وہ در اصل گوں گا ہے۔ تو انھوں نے کہا کہ یہ بات بالکل سچ ہے۔ انھوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ شاعری در اصل چیزوں کے خواص و معنی اور اپنے مفہوم کو مراد کے مکمل اظہار کا نام ہے۔
آگے چل کر اس تربیت نے انھیں جدے دیت کے ذریعہ نظم، افسانے ، ناول اور شاعری کے اوپر سوالیہ نشان لگانے میں مدد کی کیونکہ ابہام جدے دیت کی پہچان بن گئی تھی۔ شاعری کے علاوہ انھیں مذہبی معاملات میں مقامی علما سے بھی الجھنا پڑا۔ ان کے نزدیک مذہب کے جو معنی تھے اس میں ایمان اور قربانی بہت حیثیت رکھتے تھے جبکہ علما کے نزدیک مذہب خدا کے اقتدار اور مذہبی اقدام کی پابندی اور ایمان کے فائدے کمانے کے مترادف تھا۔ اس صورتِ حال نے ایسی ذہنی کشمکش پیدا کیا کہ ایک دن بہت افسوس زدہ ہو کر وہ یہ سوچتے رہے کہ بقول پیغام آفاقی:
’’میرا ایک بہت ہی عزیز ترین دوست ہے جو انتہائی اچھا انسان ہے مگر وہ ہندو ہے۔ اسے قیامت کے دن دوزخ کی آگ میں جلایا جائے گا، کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس سے کہوں کہ وہ مسلمان ہو جائے ، کبھی میں سوچتا ہوں کہ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے کیونکہ وہ کسی بھی طرح سے غلط انسان نہیں ہے تو پھر خدا اسے کیسے آگ میں جلانے کا حکم دے سکتا ہے۔ میرے نزدیک یہ سوالات بہت اہمیت رکھتے تھے اور آج میں پاتا ہوں کہ ان سوالات میں ہمارا سماج، ہمارا ملک اور پوری دنیا بری طرح گرفتار ہے۔ ‘‘
(پیغام آفاقی سے گفتگو پر مبنی)
اسی طرح کے سوالات نے انھیں یونیورسٹی میں آنے کے بعد M.A.کی سطح پر تاریخ کے موضوع میں اسلامیات اوراسلامی تاریخ کو ایک خصوصی موضوع کے طور پر لینے کی ترغیب دی۔ اسکول میں ان کا ارادہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر بننے کا تھا لیکن معاشرے میں پھیلے ہوئے مختلف مسائل پر غور کرتے کرتے اس کا کچھ ایسا اثر پڑا کہ ہائرسیکنڈری پاس کرنے کے بعد ان کا ارادہ بدل چکا تھا۔ ڈاکٹر بننے کا ارادہ بھی اسی لیے پیش نظر تھا کہ انسانیت کی خدمات کرنے کا موقع ملے گا لیکن بعد میں محسوس ہوا کہ جہاں یہ کام دوسرے لوگ بھی کر سکتے ہیں، وہیں کچھ دوسرے ایسے بڑے مسائل سماج میں موجود ہیں جو بڑے پیمانے پرانسانوں کے لیے دکھ کا مآخذ ہیں۔ بچپن میں ان کا ایک خواب سائنس داں بننے کا بھی تھا کیونکہ غور و فکر کرنا ان کی فطرت میں شامل تھا۔ ان کا زیادہ تر وقت تنہائی میں تجربات کرنے میں گزرتا تھا۔ ایک مرتبہ انھوں نے لینس خرید کر ایک دوربین بنائی اور کھلیانوں میں بیٹھ کر رات کو ستاروں اور بادلوں کو دیکھا کرتے تھے۔ آگے چل کر یہ رجحان ان انسانی مسائل سے جڑ گیا جن سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ سائنس دانوں کی ایک بات انھیں بے حد پسندتھی وہ یہ کہ زد و کوب اور انتہائی بھیانک سزادینے کے باوجود وہی بات کہتے تھے جس کو سچ سمجھتے تھے۔ وہ ایسے سائنس داں کی زندگی کے بارے میں بار بار پڑھا کرتے تھے۔
ان کے ذہن اور دل پر یہ معاملات اتنی شدت سے حاوی تھے کہ ہائرسیکنڈری کا امتحان دینے کے بعد امتحان کی چھٹیوں میں وہ اپنے شہر سیوان سے ڈیڑھ مہینے کی چھٹی میں پٹنہ چلے گئے اور وہاں گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں لائبریریوں کے چکر لگاتے رہے۔ ان کا زیادہ تر وقت خدا بخش لائبریری پٹنہ میں گزرا۔ جہاں انھوں نے انسان سے متعلق تقریباً تمام کتابوں کی الٹ پلٹ کی اور انہی دنوں انھوں نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان ’کتابِ قوم‘ ہے اور جوان کی کتاب شعری مجموعہ ’’درندہ‘‘ میں شامل ہے۔ ڈیڑھ مہینے کے اس مطالعہ نے ان کی پیاس کو بجھانے کے بجائے اور بڑھا دیا اور انھیں محسوس ہونے لگا کہ اگر وہ میڈیکل میں گئے تو اس مطالعہ کے لیے انھیں فرصت نہیں ملے گی جس کی انھیں شدید ضرورت تھی لہٰذا انھوں نے ڈاکٹر بننے کا ارادہ ترک کر دیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آرٹس میں انگریزی آنرز میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ادب میں ان کی یہ دلچسپی زندگی کے مسائل کے حوالے سے تھی۔ وہیں پٹنہ میں ان کے بزرگ رشتہ دار سیدعلی حیدر نیر تھے جو مدرسہ شمس الہدی کے ڈائریکٹر تھے۔ انھوں نے تقریباً۶۰۔ ۷۰ کتابوں کی فہرست انھیں دی جس میں اردو ادب کے کلاس کے علاوہ دنیا کی چند اہم کتابیں تھیں اور انھیں ان کتابوں کے مطالعہ کا مشورہ دیا۔
علی گڑھ میں داخلہ لینے کا ان کا مقصد دنیا کے عظیم ترین دانشوروں کے ذہن کو سمجھنا تھا۔ ۱۹۷۱ء میں علی گڑھ یونیورسٹی میں آ گئے۔ انگریزی ادب کے علاوہ اردو اور پولٹیکل سائنس ان کے مضامین تھے۔ یہاں انھوں نے ۱۹۷۲ء میں پہلی بار ایک ناولٹ لکھاجس کا نام ’’راگنی‘‘ تھا۔ یہ ناول کہیں شائع نہیں ہو سکا مگر اسے ڈیڑھ دوسولوگوں نے پڑھا۔ افسانے بعد میں لکھے اور شاعری بھی جاری رہی۔ زندگی اور قوموں کے مسائل ہی ان کے اصل موضوع رہے۔ علی گڑھ میں ان کے اساتذہ میں جن سے انھوں نے فیض حاصل کیا۔ انگریزی کے اردو اور تاریخ کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی شامل تھے۔ جیسے انگریزی کے رضوان احمد، زاہدہ زیدی، اردو کے حسین قریشی، خلیل الرحمن اعظمی، اطہر علی، انتظار علی خان، احمدسورتی اور دیگر لوگ رہے ، جس میں شہریار دوستوں میں بشیر بدر، صلاح الدین پرویز، فرحت احساس، سیدمحمد اشرف، غضنفر علی وغیرہ ہر نوجوان کے طرح پیغام آفاقی کے سامنے ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر بننے کے علاوہ اورکسی انتخاب کا امکان نہیں تھا۔ جب ۱۹۷۵ء سے ۱۹۷۷ء تک وہ علی گڑھ یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کے سال اول اور سام دوم کا نتیجہ آ گیا تھا اور انھیں انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ روزگار کے سلسلے میں ان کا سابقہ کچھ ایسے تجربات سے ہوا جنھوں نے ان کی سوچ پر گہرا اثر ڈالا۔ ہوا یہ کہ اسکول کے رجسٹرمیں ان کی تاریخ پیدائش ۱۰جنوری ۱۹۵۶ء درج ہو گئی تھی۔ جب وہ ہائی اسکول کے آخری درجوں میں آئے تو انھوں نے اندازہ لگایا کہ اگر وہ آئی اے ایس کے امتحان میں بیٹھنا چاہیں گے تو انھیں M.A.کے بعد انتظار کرنا پڑے گا جبکہ وہ میڈیکل میں جانے کا ارادہ کر چکے تھے۔ لہٰذا انھوں نے اپنی پیدائش کی تاریخ وسیع کرنے کی درخواست دی۔ اپنی تاریخ پیدائش کودرست کرانے کے سلسلے میں ان کے اپنے شہر سیوان کے اسپتال اور محکمہ تعلیم کے ہیڈکوارٹر تینوں جگہوں پر رشوت خوری کا سامنا کرنا پڑا جس میں بہ ظاہر پڑھے لکھے لوگ ان جیسے طالب علم سے رشوت چاہتے تھے۔ بڑی مشکل سے اس کی تصحیح ہوئی لیکن چندبرسوں بعد وہ آئی اے ایس کے امتحان میں پاس ہو گئے تو ان کی تاریخ پیدائش کا سوال ازسرنواٹھایا گیا اور پرانی تصحیح کو زبردست منسوب کر دیا گیا۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ پیغام آفاقی سب سے کم عمر کامیاب امیدوار تھے۔ یہی نہیں اس کے بعد انڈین پولیس سروس میں کامیاب ہونے اور حتمی اور ختمی طور پر منتخب ہونے کے باوجود ان کی جگہ کسی اورکو تقرری دے دی گئی اور ان کی تقرری کم تر جگہ پرکر دی گئی۔ جب انھیں یہ معلوم ہوا تو انھوں نے سرکار سے اس سلسلے میں انصاف کے لیے آواز اٹھائی یہ دیکھ کر انھیں حیرت ہوئی کہ سرکار انصاف کے لیے اٹھائی جانے والی آواز پر ’’لبیک‘‘ کہنے کو قطعی تیار نہ تھی۔ جب اس سلسلے میں انھوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو انھوں نے اس بناپرسرکارکی حمایت کی کہ جعل سازی کا یہ معاملہ سولہ سال پرانا ہو چکا تھا۔
پیغام آفاقی نے یہ محسوس کیا کہ نا انصافی اور بے ایمانی کو جنم دینے والی اور اس کی پرورش کرنے والی ذہنیت کی جڑیں بہت مضبوطی سے خود حاکم طبقہ اورسیاسی طبقہ میں پیوست ہیں۔ اس سنگین تجربہ اور مشاہدہ کے بعد ہی انھوں نے عالم گیر سطح پر موجود مافیا طرزِ فکر کو منکشف کرنا شروع کیا جس کا آغاز ان کے افسانوی مجموعہ ’’مافیا‘‘ سے ہوا۔ ۵مئی ۱۹۷۸ء کو انھوں نے پولیس سروس جوائن کی تھی۔ اس زمانے میں انھوں نے چار بہت طویل خطوط اپنے دوست جو ناول نگار ہیں غضنفر کو لکھے جس میں انھوں نے آگے چل کر اپنے ناول ’’فسحو‘‘ میں شامل کیے۔ ایک سال کی ٹریننگ کے بعد اگلے سال وہ دہلی میں رہے اور ایک سال بعد ان کی پوسٹنگ جزائر انڈمان نکوبار میں ہو گئی، جہاں انھیں ایک جزیرے کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران وہاں ایک بلوہ ہونے کے بعد فائرنگ ہونے کی وجہ سے ایک انکوائری کمشنر کا بھی سامنا کرنا پڑا جس میں انھیں حکومت اور سیاست کے مختلف پہلوؤں کو محسوس کرنے کا موقع ملا۔ وہاں انھوں نے ’’کالا پانی‘‘ کی تاریخ کا بھی مطالعہ کیا۔ ۱۹۸۴ء میں وہ جیسے ہی دہلی آئے ، یہاں وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعدسکھوں کے خلاف جو دنگا پھوٹا اس کے مناظر کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا۔ پیغام آفاقی نے ایک جگہ اپنی ڈائری میں لکھا ہے :
’’میں اپنے پیشے کی زندگی کو جہاں ایک پولیس آفیسر کی حیثیت سے دیکھتا ہوں اور اپنے فرائض انجام دیتا ہوں تو وہیں ایک ادیب کی حیثیت سے زندگی کا بہت قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ‘‘
’’مکان‘‘ کی کہانی بھی ایسے ہی تجربوں کی پیداوار ہے جس میں واقعتہً نیرا نام کی ایک لڑکی اپنے مکان کے سلسلے میں مدد کے لیے ان سے ملی تھی اور یہیں سے انھیں اپنی اس کہانی کا پلاٹ ملا تھا۔ ۱۹۸۴ء کے بعدسے اب تک وہ دہلی پولیس کے مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں۔
پیغام آفاقی کی سب سے پہلی تخلیق ایک نظم ہے جو پٹنہ میں شائع ہوئی تھی جو ۱۹۶۸ء میں چھپی تھی۔ اس کے بعد ان کی غم خوار پٹنہ میں چھپی تھی۔ ۱۹۷۱ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آنے کے بعد ان کی کچھ نظمیں گوپال متل کے رسالہ ’’تحریک‘‘ دہلی میں چھپیں پھر ان کے افسانے ’’آج کل‘‘، دہلی، ’’ تحریک‘‘، ’’دہلیز‘‘، ’’آہنگ‘‘، گیا، بہار اور کئی دوسرے رسالوں میں شائع ہوئے۔ اس کے کافی عرصہ بعد ازسرنو ان کی کہانیاں ’’پیتل کی بالٹی‘‘ اور ’’قطب مینار‘‘ ماہنامہ ’’آج کل‘‘ دہلی میں شائع ہوئیں۔ ۱۹۸۹ء میں ان کا ناول ’’مکان منظر عام پر آیا۔ ۲۰۰۰ میں شعری مجموعہ ’’درندہ‘‘ شائع ہوا۔ ۲۰۰۲ء میں افسانوی مجموعہ ’’مافیا‘‘ شائع ہوا۔ پیغام آفاقی کے کئی اور تنقیدی مضامین بھی ہیں جو انھوں نے سمیناروں میں پڑھے اور رسالوں میں شائع ہوئے۔
٭٭٭