اب تاریخ یاد نہیں کہ منیب الرحمن کو جامعہ میں پہلی اور آخری مرتبہ کب دیکھا تھا۔ اتنا یاد ہے کہ وہ علی گڑھ سے شہریار صاحب کے ساتھ دہلی آئے تھے اور جامعہ میں ان کے لئے ایک ادبی محفل کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس انعقاد میں عبید صدیقی کا اہم کردار تھا۔ وہ بھی چند سال ہوئے رخصت ہو گئے۔ منیب الرحمن کی شخصیت میں ایک خاص کشش تھی۔ قد نکلتا ہوا تھا اور لباس سے بھی خاص طرح کی انفرادیت ظاہر ہو رہی تھی۔ سیاہ چشمہ ان کے چہرے پر کچھ زیادہ ہی اچھا لگ رہا تھا۔ بعد کو معلوم ہوا کہ بینائی بہت کم ہو گئی ہے۔ وہ جتنی دیر رہے چشمہ اتارا نہیں۔ شہر یار صاحب نے ان کے تعلق سے مختصر سی گفتگو کی تھی۔ آج اس گفتگو کو یاد کرتے ہوئے یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ کسی اچھے شاعر اور ادیب سے محبت اور اخلاص کے کیا معنی ہیں۔ منیب الرحمن صاحب نے اس جلسے میں اپنی دہلی آمد کا سہرا شہریار کے سر باندھا تھا کہ یہ جب کہتے ہیں میں یہاں آ جاتا ہوں۔ منیب الرحمن صاحب کی آواز میں کچھ ایسی کھنک تھی کہ مائک کی ضرورت نہیں تھی۔ دھیرے دھیرے بول رہے تھے۔ چہرے سے طمانیت اور سرشاری دونوں ظاہر ہو رہی تھی۔ وہ سب کے ساتھ تھے۔ مگر شاید کسی کو ٹھیک سے دیکھ نہیں رہے تھے۔ شہریار صاحب بالکل پاس بیٹھے ہوئے تھے لہذا گفتگو کرتے ہوئے دونوں اسٹیج پر بغل گیر ہو جاتے۔ وہ کس کو دیکھ رہے تھے، یہ سوال آج میرے لئے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ اگر اس کا جواب یہ ہے کہ وہ کسی کو بھی نہیں دیکھ رہے تھے تو گویا ان کی نظر میں غیاب کا ایک تصور تھا جسے موجودگی کا غیاب کہنا چاہئے۔ جو موجود ہے اسے غیاب کے طور پر دیکھنا بہت مشکل ہے۔ یہ وہ دیکھنا ہے جس کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے۔ مجھے نرمل ورما کا ایک جملہ یاد آ رہا ہے جو ان کے مضمون ’بورخیس لندن میں‘ کا ہے۔ کہ بورخیس دیکھ رہے تھے اور کسی کو بھی نہیں دیکھ رہے تھے۔ 0 کے سیاہ چشمے کے پیچھے کتنی بینائی تھی میں اس کی تحقیق نہ اس وقت کر سکتا تھا اور نہ آج اس کی ضرورت ہے۔ بینائی کا زیادہ یا کم ہونا دونوں کا تعلق وقت اور صورت حال سے ہے۔ بہت قریب کی شئے دور معلوم ہونے لگتی ہے اور ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتی ہے۔ دور کی شئے قریب کی معلوم ہوتی ہے۔ منیب الرحمن کی آواز ہر ایک تک پہنچ رہی تھی اور ان کی شخصیت کا جادو بھی اپنا کام کر رہا تھا۔ میں نے بہت کم ایسی ادبی شخصیات کو دیکھا ہے جس کی موجودگی محفل کو اس طرح متاثر کرے۔
وہ 18 جولائی 1924 کو آگرہ میں پیدا ہوئے اور 28 نومبر 2022 کو ویسٹ ورجینا میں ان کا انتقال ہوا۔ 98 سال کی یہ زندگی کئی اعتبار سے متاثر کرتی ہے۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ ان کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں بہت کم تحریر سامنے آئی۔ 2019 میں انجمن ترقی اردو ہند دہلی سے ان کی شعری کلیات ’سرمایۂ کلام‘ شائع ہوئی۔ اس کلیات کی اشاعت کے بعد بھی سناٹا ٹوٹا نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک شام شمیم حنفی صاحب منیب الرحمن کی شاعری کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس مسئلے پر غور کر رہے تھے کہ آخر کیوں ان کے معاصر نظم نگاروں کے بارے میں ان سے زیادہ کیوں باتیں ہوئیں۔ ان کا خیال تھا کہ مجید امجد، اختر الایمان، فیض، میراجی آگے پیچھے یہ سب جمع ہو گئے اور اس گھیرے کو توڑنا ممکن نہیں تھا۔ منیب الرحمن کی شاعری کو ان شعرا کے ساتھ رکھ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیدار بخت نے دو صفحے میں تعارف کے عنوان سے منیب الرحمن کے شعری سفر کے بارے میں لکھا ہے۔ ابتدا میں وہ فیض، میراجی، سردار جعفری، اختر الایمان اور راشد کی اموات کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں۔
”ہم عصر اور ہم مرتبہ جدید اردو شاعروں میں اب صرف منیب الرحمن رہ گئے ہیں۔ خدا انہیں سلامت رکھے۔ ان کی شاعری کا سفر کوئی آٹھ دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے باوجود کے ان کی عمر ترانوے سال کی ہو گئی ہے۔ اور بصارت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ تخلیقی سوتے خشک نہیں ہوئے۔ منیب الرحمن کے متعلق بہت کم لکھا گیا ہے ایک زمانہ ہوا شہریار اور مغنی تبسم نے اپنی رائے دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ منیب الرحمن کی شاعری ایک پراسرار خوبصورت جزیرہ ہے۔ اس جزیرے کی سیر کی توفیق کم لوگوں کو ہوئی ہے۔ جنہوں نے اس کی سیر کی، جو اس منظر سے سیراب ہوئے اور جن پر اس کے بھید منکشف ہوئے انہوں نے بہت کم کسی کو اس کا اتا پتہ بتایا۔“
شہریار اور مغنی تبسم کی یہ رائے محبت سے لبریز ہے اور تخلیقی بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ منیب الرحمن کی شاعری کو کم پڑھا گیا اور اس پر کم لکھا گیا۔ کسی شاعر کو زیادہ یا کم پڑھا گیا اس کا فیصلہ تحریر اور تقریر سے ممکن ہے۔ لہذا یہ بات تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ منیب الرحمن کے تعلق سے ادبی معاشرے نے جو رویہ اختیار کیا اس میں ممکن ہے کوئی تعصب نہ ہو مگر ایک فاصلہ ضرور تھا۔ وہ اپنے وطن سے دور بھی رہے لیکن ان کا کلام تو بہر حال موجود تھا۔ نقطۂ موہوم کی شاعری اکثر لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کسی عہد کا کوئی اسلوب دیگر اسالیب کو بے دخل تو نہیں کرتا مگر وہ کسی نہ کسی طور پر متاثر ضرور کرتا ہے۔ فوراً ہمارے ذہن میں وہ خیالات ابھرنے لگتے ہیں جن کا تعلق پر اسرار اور تہہ دار متن سے ہے۔ مگر پر اسرار اور تہہ دار متن صرف وہی نہیں ہوتا جس کو پڑھتے ہوئے ذہنی طور پر مشقت کرنی پڑتی ہے اور ہم کئی معنی برآمد کرتے ہیں۔ اسرار کا تعلق کسی ایک اسلوب سے نہیں ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے ان کی شاعری کے بارے میں لکھا تھا کہ ’ان کی شاعری میں وہ چیز تو بہت ہے جسے ہم احساس کی شدت اور جذبے کا ارتکاز یعنی پیشن کہہ سکتے ہیں لیکن شاعر کا زیادہ تر زور اس پیشن کو کھل کر بیان کرنے میں تو نہیں بلکہ اس کی طرف اشارہ کرنے میں صرف ہوا ہے۔ منیب الرحمن برہمی کی بات بھی آہستہ لہجہ میں کہتے ہیں۔‘
منیب الرحمن کی اس کلیات کو پڑھتے ہوئے جو وقت گزرا ہے وہ اس لحاظ سے یادگار ہے کہ ہر قرأت میں نظم کا کوئی نہ کوئی حصہ فکر و خیال کے ساتھ کھو گیا ہے۔ لہجہ جس کی طرف فاروقی صاحب نے اشارہ کیا اس میں کوئی شور نہیں ہے اور اس لہجے میں گہرائی پیدا کرنے کی کوئی خارجی کوشش بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ان کی ایک نظم ’بڑھاپا آ چکا ہے‘ اگر اسے توجہ سے پڑھا جائے تو محسوس ہو گا کہ شاعر نے کس طرح بڑھتی ہوئی عمر کو محسوس کیا ہے اور اس احساس کو کائناتی بنانے کی غیر ضروری طور پر کوشش نہیں کی مگر جس انداز سے زندگی کے گزران کو دیکھا ہے اور اسے جو زبان دی ہے وہ شاعری کا اعلا نمونہ ہے۔
گرے جاتے ہیں پتے شاخسار زندگانی سے
ہوا کا ایک ہی جھونکا اڑا لے جائے گا ان کو
جوانی خود فراموشی تھی، غفلت تھی
جسے ہم عمر لافانی سمجھتے تھے
بڑھاپا زندگی کی فرصت محدود ہشیار کرتا ہے
دل منکر کو چلنے کے لئے تیار کرتا ہے
منیب الرحمن نے اپنی یوم پیدائش پر بھی نظم کہی ہے جس میں موت کی آہٹ بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کچھ ایسے موضوعات پر بھی نظمیں کہیں جو بہت سامنے کی ہیں اور جن کا تعلق فطرت سے ہے۔ ایسی بہت سی نظمیں ہیں جنہیں پڑھتے ہوئے وقفے اور خاموشیوں کا احساس ہوتا ہے۔ ایک نظم ’خاموشی‘ ہے جو شاعر کو کائنات کے شور میں ہر طرف چھپی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اسے سننے اور محسوس کرنے کے لئے شاعری میں جس زبان کی ضرورت ہے وہ زبان بھی اکثر خاموشی کا ساتھ نہیں دیتی اور وہ اسے شور میں تبدیل کر دیتی ہے۔ منیب الرحمن نے شہریار کے انتقال پر ایک نظم کہی تھی جسے آصف فرخی نے دنیا زاد میں شائع کیا تھا اور ایک نظم ’دیدہ ور ہو کوئی‘ شہریار کے نام معنون کی گئی تھی۔ کسی طرح ان کی ایک نظم امراؤ جان ادا کراچی میں ہے وہ بھی شہریار کے نام ہے۔ اقبال اور برگساں کے تعلق سے بہت کچھ لکھا گیا۔ اس تناظر میں ان کی ایک نظم ’اقبال اور برگساں کی ملاقات‘ دیکھی جا سکتی ہے۔
٭٭٭