نظمیں ۔۔۔ منیب الرحمن

نقلی پھول

 

میں نے جب پہلے پہل دیکھا تھا

یہ مجھے کتنے بھلے لگتے تھے

تم نے گلدان میں رکھا تھا انہیں

تھی مرے کمرے کی زینت ان سے

اور اب تھک گئیں آنکھیں میری

دیکھتے دیکھتے صورت ان کی

یہ مہکتے ہیں، نہ کمھلاتے ہیں

دن انہیں چھو کے نکل جاتے ہیں

کاش موسم کی عمل داری میں

یہ بھی پابند تغیر ہوتے

جب یہ کھلتے تو کوئی چن چن کر

گوندھتا ان کی لڑی جوڑے میں

اور جب ان پہ خزاں آ جاتی

پھینک دیتا

میں انہیں

کوڑے میں

٭٭٭

 

 

 

سوکھا پیڑ

 

اس باغ میں پیڑ تھے بہت سے

جتنے تھے سبھی ہرے بھرے تھے

صرف ایک اس جھنڈ سے جدا تھا

بے برگ اداس اک طرف کھڑا تھا

دیکھا تو وہیں ٹھہر گیا میں

بے نام غموں سے بھر گیا میں

’’کیوں رک گئے‘‘ تم نے مجھ سے پوچھا

میں چپ رہا کیا جواب دیتا

کہتا کہ یہ نقش حسرتوں کا

پیکر ہے گزشتہ موسموں کا

یہ میری تمہاری داستاں ہے

مرتے ہوئے عشق کا نشاں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پگڈنڈی

 

چلتے ہوئے اس پگڈنڈی پر

جب سامنے پیڑ آ جاتے تھے

ہوتا ہے گماں حد آ پہنچی

کہتے تھے قدم اب لوٹ چلو

اب لوٹ چلو اس راہ پہ جس سے آئے تھے

کچھ دور پہ جا کر لیکن یہ مڑ جاتی تھی

پیڑوں کی صفوں میں تیزی سے گھس جاتی تھی

بکھرے ہوئے پتے اوس میں تر

چھنتی ہوئی کرنوں کا سونا

چپ چاپ فضاؤں کی خوشبو

ناگاہ کسی طائر کے پروں کی گھبراہٹ

ہم آ گئے ان میدانوں میں

پھیلے ہوئے میداں اور افق کی پہنائی

اب آؤ یہاں سے گھر لوٹیں

چلتے ہوئے اس پگڈنڈی پر

٭٭٭

 

 

 

روشنی کے مینار

 

دو سمندر جہاں آپس میں ملا کرتے ہیں

میں نے کتنے سحر و شام گزارے ہیں وہاں

میں نے دیکھی ہے نکلتے ہوئے سورج کی کرن

اور کل ہوتے ہوئے دن کی شفق دیکھی ہے

میں نے موجوں کے تلاطم میں گہر ڈھونڈے ہیں

اور پائے ہیں خزف ریزے بھی

جال پانی سے جب اک بار نکالا میں نے

اک گھڑا ریت بھرا ہاتھ آیا

ثبت تھی مہر سلیماں جس پر

اور کھولا تو دھوئیں کا بادل

پیٹ سے اس کے نمودار ہوا

آدمی کے لیے یہ بہتر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

گزرا ہوا دن

 

 

کل کا گزرا ہوا دن پھر مرے گھر آیا ہے

ناگہاں سینے کا ہر داغ ابھر آیا ہے

 

گھومتی پھرتی ہے آوارہ چمیلی کی مہک

چاند آنگن میں دبے پاؤں اتر آیا ہے

 

کس کے ہونٹوں کے تبسم سے بکھرتے ہیں گلاب

کون ہم راہ لیے باد سحر آیا ہے

 

جھٹ پٹا چھا گیا بوسیدہ گھروں کے اوپر

دور سے چل کے کوئی خاک بسر آیا ہے

 

کس کے اعزاز میں یہ سائے نکل آئے ہیں

آج کیا بزم میں وہ خستہ جگر آیا ہے

 

ایک مہمان ہے جو آ کے چلا جائے گا

دل بیمار اسے دیکھ کے بھر آیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تم اپنے خواب گھر پر چھوڑ آؤ

 

تم اپنے خواب گھر پر چھوڑ آؤ

نہیں تو خار بن کر یہ چبھیں گے

تمہاری روح کو پیہم ڈسیں گے

مبادا یہ تمہارا منہ چڑائیں

تم ان سب آئنوں کو توڑ آؤ

تم اپنی عقل و منطق پر ہو نازاں

یہ ناخن اس جگہ کیا کام دیں گے

جہاں دل کی گرہ الجھی ہوئی ہو

تمہارے ہاتھ اپنی بے بسی پر

تمہیں ہر گام پر الزام دیں گے

کہاں ہیں وہ کتابیں وہ صحائف

کہ جن میں زخم اپنے رکھ دیے تھے

اس انساں نے جو شعلوں میں جلا تھا

اس انساں نے جو سولی پر چڑھا تھا

اس انساں نے جو مر مر کر جیا تھا

تم اپنے خواب گھر پر چھوڑ آؤ

تمہاری دھوپ سایوں میں ڈھلے گی

تمہاری رات شبنم پر چلے گی

ضمیر زہر آلودہ کے چیونٹے

نہ رینگیں گے تمہاری بے حسی میں

تمہارا تن تمہارا تن بنے گا

تمہارا دل تمہارا ساتھ دے گا

تمہیں کیا چاہیئے پھر زندگی میں

تم اپنے خواب گھر پر چھوڑ آؤ

٭٭٭

 

 

 

معمولی انسان ہونے کا فائدہ

 

سوچتا ہوں کہ مری عمرِ رواں کی کشتی

اب کنارے کے قریب آ پہنچی

کون سا میں نے بڑا کام کیا

شہرتِ عام کی کس دوڑ میں بازی جیتی

شاعری کی مگر اعزاز کے لائق نہ ہوا

نہ ملی علم کے میداں میں فضیلت مجھ کو

مائلِ کذب و ریا تھی نہ طبیعت میری

خوش نہ آئی کبھی بھولے سے سیاست مجھ کو

زندگی کہنے کو بے سود کٹی

پھر بھی قسمت سے نہیں کوئی شکایت مجھ کو

کامیابی پہ کسی کی نہ مجھے رشک آیا

نہ کسی نے بھی مجھے چشمِ حسد سے دیکھا

ایک گمنام سے ہو سکتا ہے خطرہ کس کو

کس نے ایسے کو بھلا نیتِ بد سے دیکھا

گوشۂ امن میں آسودہ و دلشاد رہا

شکر ہے کینۂ دنیا سے میں آزاد رہا

٭٭٭

 

مجھے رونے دو

 

 

مجھے رونے دو رونے دو

اسی پیپل کے سائے میں

جہاں اک درد کی تاثیر کا مارا

بتاتا تھا کہ راز درد و غم کیا ہے

مداوائے الم کیا ہے

مجھے رونے دو رونے دو

جہاں مرلی کی دھن سن کر

وہ رادھائیں

کڑے جاڑے کے موسم میں

کسی کی گرمیِ آغوش سے اٹھ کر

محبت کی دمکتی چاندنی میں جا نکلتی تھیں

مجھے رونے دو رونے دو

کہ میں اک اجنبی بن کر

تمہارے در پہ آیا ہوں، مرا کشکول خالی ہے

تمہارے پاس جو دھن تھا

مرا دل آج پھر اس کا سوالی ہے

مگر تم دان کیا دو گے

کہ تم تو خود بھکاری ہو

مجھے رونے دو رونے دو

٭٭٭

 

 

 

 

برف باری

 

برف ہر آن گرے جاتی ہے

بام و در کوچہ و میداں چپ ہیں

رات کے سایۂ لرزاں چپ ہیں

کوئی موٹر کبھی بھولے سے گزر جاتی ہے

ہر قدم گنتی ہوئی

اپنی چندھیائی ہوئی آنکھوں سے

ورنہ ہر سمت بس اک آہنی خاموشی ہے

کوئی آواز نہ سرگوشی ہے

اور یہ دل بھی کہ تھی گرمئ بازار جہاں

آج مدت سے بیابان کی صورت چپ ہے

زندگی ہے کہ کسی طور کٹے جاتی ہے

برف ہر آن گرے جاتی ہے

یہ سماں برف سے ڈھک جائے گا

راہرو راستہ چلتے ہوئے تھک جائے گا

عمر رفتہ کے خط و خال نہاں

کوئی مشکل ہی سے پہچانے گا

راز سربستہ رہیں گے دل میں

کس کو غم ہے کہ انہیں جانے گا

وقت کی گرتی ہوئی برف گرے جائے گی

ایک دھندلائی ہوئی رات کبھی آئے گی

زندگی یوں ہی گزر جائے گی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے