نظمیں ۔۔۔ مصحف اقبال توصیفی

ناشکری

 

ہم کو تو جینا بھی اچھا لگتا ہے

لیکن کیوں اچھا لگتا ہے

جب ہر شئے ہم سے چھنتی جاتی ہے

جب پہلے کچھ تھا اور اب کچھ ہے

جب ہر شئے معدوم ہوئی جاتی ہے

جب ہر شئے …

اب وہ زیادہ تھی یا کم ہو

ایسی کون سی دولت اس نے دی تھی

جس کے چھن جانے کا ہم کو غم ہو

 

راتوں کو۔

ہم نے دن میں کیا کھویا کیا پایا

ان بے کار خیالوں میں کھو جاتے ہیں

دس بجتے ہیں اور بستر پر

اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر

سو جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

یہ کیسی خواہشیں ہیں

 

یہ کیسی خواہشیں ہیں

جو مرتی ہیں نہ جیتی ہیں

جو میرا خون پیتی ہیں

مجھے جب تیرنا آتا نہیں۔ تو کیوں

مجھے ان زنگ خوردہ الجھے تاروں میں جکڑ کر

(خس و خاشاک کی پے چان روانی میں)

مجھ کو بالوں سے پکڑ کر

ڈبکیاں دیتی ہیں پانی میں

 

مجھے بہرا نہ کر دے شور موجوں کا

مرے اندر۔ مرے باہر

سمندر موجزن ہے خواہشوں کا

مرے ہی گھر میں۔ خود میرے بدن میں

مجھے بیتاب رکھنے کی

مجھے غرقاب کرنے کی

یہ کیسی سازشیں ہیں

 

یہ کیسی خواہشیں ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے