ریت کے پیکر
سرخ پھولوں کی یہ بیلیں
جنگلوں میں اُگ رہی تھیں
دشت کی ہیبت سے خائف
مجھ سے رہتی تھیں گریزاں
چودھویں کی رات میں
خوشبو سے جلتے ہوئے
کتنے جسموں کے ستونوں سے
لپٹنا تھا انہیں
میں نے ان کے رنگ سے
ہر انگ اپنا بھر لیا
دور تک پھیلے ہوئے
ریت کے ذرے سنہرے تھے بہت
تیز ہوا کے جھکڑوں کا شور
اونچا تھا مگر
میں نے اُس منظر میں
تم کو بھی تو دیکھا تھا وہاں
بال ہوا میں اڑ رہے تھے
سرخ پھولوں کی یہ بیلیں
باندھ لیں چپکے سے میں نے
اپنے صحرائی سفر میں
ان کی سوندھی خوشبوؤں کے
پَر لگائے چل پڑی!
٭٭٭
عشق تماشہ
صبح سویرے جاگی میں
سورج سے اک کرن اٹھا کر
اس سے اپنا منہ دھویا
سارے خوابوں کو بند کر کے
شب کے دریا میں پھینکا
پیڑوں پر گل رنگ پرندے
دل کی بولی بول پڑے
چلتی ہوئی منہ زور ہوائیں
اس لمحے جب مست ہوئیں
خوشہ خوشہ گل گلابی
سوندھی مٹی کی وہ کہانی
اپنے جَلو میں لے کر
میر کی غزلیں گانے لگیں
روح میں تتلی اڑانے لگیں
پھر تم کو اپنے باغ میں دیکھا
دھوکہ تھا وہ اُجلا دھوکہ
گھر کے شیشوں سے کرنوں کا رقص
اندھیرے کو بھاگا
بھول بھلیاں کی گلیوں میں
ایک تماشہ سا جاگا
عشق کی آتش بازی ایسی
تن من جس میں جل جل جائے
دیکھا بھی تو کیا دیکھا
دل میرا دشت میں اک ٹیلہ
وہ عشق تھا، ریت کا میں ذرہ
بس دور دور سے چمکیلا
میں نے آنکھوں کو مسلا
جھرمٹ آنسو کا اترا
کھڑکی کے شیشے ٹوٹے
دو نیناں رہ گئے بھیگے ۔۔۔!
٭٭٭
بہت کمال، شکریہ.