نظمیں ۔۔۔ ستیہ پال آنند

خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا

 

کوئی دروازہ نہیں تھا قفل جس کا کھولتا

سر نکالے

کوئی سمت الراس بھی ایسی نہیں تھی

جس سے رستہ پوچھتا

ایک قوسِ آسماں حّدِ نظر تک

لا تعلق سی کہیں قطبین تک پھیلی ہوئی تھی

دھند تھی چاروں یُگوں کے تا بقائے دہر تک …

اور میں تھا

اور میں تھا

لاکھ جنموں کی مسافت سے ہراساں بھاگ کر

اعراف کے لا سمت صحرا میں بھٹکتا

کوئی روزن، کوئی در، کوئی دریچہ ڈھونڈتا، پر

یہ بھٹکنا خود میں ہی بے انت، ابد الدہر تھا

ایسی سناتن، قائم و دائم حقیقت

جس سے چھٹکارہ فقط اک اور قالب میں دخولِ عارضی تھا

اس جنم میں جو نئی زنجیر میں پہلی کڑی تھی

ان گنت کڑیوں کی صف بستہ قطاروں سے مرتب

اور میں خود سے ہراساں

یہ کہاں برداشت کر سکتا تھا

جس زنجیر سے میں

تسمہ پا، اک لاکھ جنموں کی مسافت سے صیانت پا چکا ہوں

اس میں پھر اک بار بستہ بند ہو کر چل پڑوں

بے انت جنموں کے نئے پیدل سفر پر؟

ہاں مجھے تسلیم ہے یہ

خانۂ مجنونِ صحرا گرد کی بے در مسافت

میرے ’ہونے‘ اور ’بننے‘ کے گزرتے وقت کا دورانیہ

برزخ کے باب و در سے عاری دشت میں ہی

تا بقائے دہر تک

جنموں کے دوزخ سے رہائی کے لیے ہی

٭٭٭

 

 

 

آؤ گائیں، ذات کا نوحہ

 

آؤ گائیں

ذات کا نوحہ

دانتوں میں اک تنکا رکھ کر

روتے روتے سوگ منائیں

آؤ گائیں

 

اشک بہائیں

خود کو پُرسا دیں

رک رک کر

دیتے جائیں

سبک سبک کر

پھوٹ پھوٹ کر روئیں

دھاڑیں مار مار کر

ٹھنڈے سانس بھریں۔۔۔ پھر بھرتے جائیں

رک رک کر فریاد کریں۔۔۔ اور کرتے جائیں

ماتھا پیٹیں اور کراہیں

سسک سسک کر

روتے روتے منہ لٹکائیں

آؤ گائیں

 

اللہ اللہ، "میری توبہ!‘‘ کہتے جائیں

لوٹ لوٹ کر فرش پہ خود جھاڑو بن جائیں

دھاڑیں ماریں، ہاتھ ملیں ۔۔ اور ملتے جائیں

کوئی اگر پوچھے یہ گریہ کس کے لیے ہے

حیرت سے دیکھیں اس کو اور پہلو بدلیں

روتے ہنستے۔۔۔ ہنستے روتے یہ فرمائیں

کھیل کود ہے، خوش طبعی ہے،

ہِپ ہِپ ہُّرے۔۔۔ ہپ ہِپ ہُرے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے