مظفر حنفی مرحوم … چند یادیں، چند باتیں ۔۔۔ ڈاکٹر محمد نعمان خاں

2مظفر حنفی صاحب شعبہ اردو سیفیہ کالج کے طالب علم رہے ہیں لیکن ابتدا میں ان سے زیادہ قربت کا شرف اس وجہ سے حاصل نہیں ہو سکا کہ جب میں نے ۱۹۷۱ء میں سیفیہ کالج میں بی اے سال اوّل کے لیے داخلہ لیا، وہ ایم اے کی تعلیم مکمل کر چکے تھے۔ البتہ شعبہ ارد ومیں آنے والے رسائل میں ان کی تخلیقات کے مطالعے نیز بھوپال یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کرنے کی خبر سے غائبانہ طور پر متعارف ہوا۔ عام روش سے ہٹ کر ان کے تیکھے اور طنز آمیز کلام سے محظوظ ہوتا رہا۔ استاذی محترم عبدالقوی صاحب دسنوی کی زبانی کلاس میں ان کی کامرانیوں کے قصّے سنتا رہا۔ وہ یہ باتیں اس لیے بتاتے تھے تاکہ دوسرے طلباء بھی مظفر حنفی جیسے بن جائیں۔ ۱۹۷۴ء؁ میں مظفر صاحب کی پی ایچ ڈی Viva کے بعد شعبہ اردو سیفیہ کالج میں Viva Expert ڈاکٹر سید اعجاز حسین کے اعزاز میں منعقدہ ادبی جلسہ میں جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو نحیف و نزار جسم، دبی رنگت، پتلا چہرہ، نکلتا قد، قدرے گھنگھرالے مگر چھوٹے بال، ستواں ناک پر سفید چشمے کے پیچھے سے جھانکتی ہوئی متجسس ذہین آنکھوں کی حامل سادہ سی شخصیت کو دیکھ کر یقین ہی نہیں آیا کہ یہی مظفر حنفی ہیں، جن کو قدرت نے اتنی صفات سے نوازا اور کمالات سے مزیّن کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پہلی نظر میں، میں ان کی شخصیت سے زیادہ متاثر نہ ہو سکا البتہ وقتاً فوقتاً جب ان سے گفتگو کے مواقع میسّر آئے تو دل میں نہ صرف ان کی بے پناہ صلاحیتوں کا احساس جاگزیں ہوا بلکہ اس بات کا بھی معترف ہونا پڑا کہ وہ انتہائی مخلص، ہمدرد، بے باک، صاف گو، متواضع اور منکسر المزاج شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ راقم الحروف سے پہلی ملاقات کے بعد ان کے مخلصانہ رویہ کے سبب ہمیشہ بڑے بھائی کا احساس ہوتا رہا۔ ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے چھوٹوں پر اپنی علمیت و صلاحیت کا سکّہ جمانے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ وہ دلچسپ واقعات، ادبی لطائف اور موقع و محل کے لحاظ سے منتخب اشعار سنا کر نہ صرف محفل کو زعفران زار بنا دیتے تھے بلکہ شرکائے محفل کو بے تکلف کر کے ان میں اپنائیت کا احساس پیدا کرا دیتے تھے۔

میں نے ہمیشہ انہیں ایک لائق شاگرد، ذمہ دار شوہر اور باپ، ہمدرد بھائی اور اچھے دوست کی شکل میں پایا اور رفقاء، اعزاء، اساتذہ نیز طلباء کے مسائل کے تئیں متفکر و سرگرم عمل دیکھا۔

یہ حقیقت ہے کہ جب انھوں نے سیفیہ کالج میں داخلہ لیا اس سے قبل ہی ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہو چکے تھے اور وہ ملک گیر شہرت حاصل کر چکے تھے۔ لیکن اس شہرت کا دائرہ شاعر، افسانہ نگار اور صحافی (مدیر ’’نئے چراغ‘‘ کی حد تک محدود تھا۔ ایم اے (اردو) میں گولڈ میڈل حاصل کر کے انھوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ اس میدان میں بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ ایم اے کا نتیجہ برآمد ہوتے ہی وہ پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کے لیے تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے اور ’شاد عارفی: شخصیت اور فن‘ کے موضوع پر ایک سال کی مدّت میں ہی تحقیقی مقالہ مکمل کر کے اس وادی پُر خار کو بھی بہ سلامت روی طے کر لیا۔ ایک تخلیقی فنکار نے، ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے جن صلاحیتوں کا اظہار کیا اس کا زبانی اور تحریری اعتراف ان کے دونوں ممتحن ڈاکٹر سید اعجاز حسین اور ڈاکٹر محمود الٰہی زخمی نے بھی کیا اور دیگر اہلِ ذوق حضرات نے بھی!

اس تحقیقی مقالہ سے متعلق اعجاز صاحب کے تعریفی کلمات میں نے اپنے کانوں سے سنے اور محمود الٰہی صاحب کا خط بنام پروفیسر عبد القوی صاحب دسنوی اپنی آنکھوں سے پڑھا جس میں انھوں نے لکھا تھا:

’’اردو تحقیق کے ریگستان میں یہ مقالہ نخلستان کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘

پی ایچ ڈی Viva کے بعد اعجاز صاحب کے اعزاز میں منعقدہ جلسہ میں عمائدین شہر، اردو اساتذہ و طلباء، شعرا و ادباء نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مظفر صاحب نے ’’مجموعہ نغز‘‘ شعبہ اردو (سیفیہ کالج) کو تحفہ میں پیش کیا۔ اس دن وہ بہت مطمئن و مسرور نظر آ رہے تھے۔ یہی خوشی ان کے نگراں پروفیسر دسنوی صاحب کے چہرے سے بھی عیاں تھی۔ بھوپال یونیورسٹی سے تفویض کی جانے والی پی ایچ ڈی کی یہ پہلی سند تھی۔

یہ بات ۱۹۷۴ء کی ہے جب میں ایم اے سال اوّل (اردو) کا طالب علم تھا اور اس موقع پر میرے تمام ساتھیوں نے مظفر صاحب کو اس طرح گھیر لیا تھا جس طرح بارات میں دولہا کو گھیرا جاتا ہے۔ کوئی ان سے تحقیق کے مسائل سے متعلق سوالات کر رہا تھا کوئی ان کی ادبی فتوحات کی کہانی ان کی زبانی سننا چاہتا تھا۔ کوئی اشعار سنانے کی فرمائش کر رہا تھا۔ طالبات آٹو گراف لینے میں مصروف تھیں۔ مظفر صاحب کے چہرے پر تکان کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔ جب بھی آٹو گراف بک ان کے سامنے آتی وہ نروس ہو جاتے۔ شاید انھیں اپنے ہی کالج کے جونیئر ساتھیوں کا یہ عمل اچھّا نہیں لگ رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک آٹوگراف بک پر صرف یہی لکھ دیا کہ ’’دیکھئے! آپ مجھے نروس کر رہی ہیں۔‘‘ کچھ آٹو گراف بکس پر اشعار نقل کئے گئے تھے۔ دو شعر جو سبھی ساتھیوں کو بہت پسند آئے۔ مجھے آج بھی یاد ہیں، آپ بھی سُن لیجیے۔

کم گوئی نے عزّت رکھ لی، مٹّھی بند ہے لاکھوں کی

ورنہ مظفرؔ لطف آ جاتا کھلتی سیپ نکلتی ریت

مشین، عہد رواں کی خدا، فریب فریب

یہ ارتقاء ہے کہ تحت الثّریٰ فریب فریب

پی ایچ ڈی کی سند حاصل ہوتے ہی مظفر صاحب کو پہلے این سی ای آر ٹی اور پھر جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی میں ملازمت مل گئی۔ دہلی منتقل ہو جانے کے بعد، بھوپال کے کسی ادارے یا سیفیہ کالج کے سالانہ مشاعرے میں شرکت کے لیے انھیں جب بھی مدعو کیا جاتا، وہ بھوپال اور سیفیہ کالج سے خصوصی لگاؤ کے باعث، عدیم الفرصتی کے باوجود ضرور تشریف لاتے۔ ان کے اعزاز میں سیفیہ کالج کے علاوہ شہر کی ادبی انجمنوں کی جانب سے نشستوں کا انعقاد عمل میں آتا۔ وہ اپنا کلام سناتے۔ بھوپال کے غزل چشیدہ ماحول کے عادی بعض حضرات ان کے تند اور تیکھے اشعار سن کر منہ بناتے تو نئے پن اور انفرادیت پسندی کے حامل حضرات بھرپور داد بھی دیتے اور مکرر ارشاد کا نعرہ بھی بلند کرتے۔

اعزاء، احباب اور مادرِ علمی سیفیہ کالج سے ان کا جو تعلق رہا، اسے انھوں نے ہمیشہ قائم رکھا۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ۱۹۷۷ء میں شعبہ اردو میں جب ان کے اعزاز میں جلسہ منعقد کیا گیا، تو وہ اپنے ہی گھر میں مہمان بنائے جانے پر خاصے جذباتی ہو گئے تھے اور اسی عالم میں انھوں نے شعبہ اردو کے تاثراتی رجسٹر پر (جس پر ہندو پاک کے بیشتر اردو دانشوروں کے دستخط اور تاثرات درج ہیں) اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا۔

’’یادش بخیر! کبھی یہ کتاب پڑھتا تھا اور خوش ہوتا تھا کہ اس کالج اور شعبے کا طالبِ علم ہوں جسے ہندوستان گیر شہرت حاصل ہے اور ہر آنے والے بڑے نقّاد اور فنکار نے اس کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ آج کہ خود درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہو چکا ہوں، اکثر فاخرانہ انداز میں مختلف مواقع اور ادبی جلسوں میں یہ بیان کرتے ہوئے مسرت ہوتی ہے کہ نہ صرف اس ادارے سے میرا تعلق رہا ہے بلکہ اس کا فیض تا حال جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں تا حال سیفیہ کالج کے شعبۂ اردو کا طالب علم ہوں۔

آمد محبوب پر غالب کی حیرت یاد ہے

یہ بھی قدرت ہے خدا کی، آپ کا گھر اور ہم

(مظفر حنفی)‘‘

مظفر صاحب کی جس بات نے مجھے زیادہ متاثر کیا تھا، وہ ہے اساتذہ سے سچّی محبت اور عقیدت مندی! اردو ادب میں استاد شاگرد کی روایت اگرچہ عام ہے لیکن آج یہ مقدّس رشتہ اپنی اہمیت کھوتا جا رہا ہے۔ اس رشتہ محبت کو ابتداء سے آخر تک مظفر صاحب نے جس طرح برقرار رکھا، فی زمانہ اس کی مثال مشکل سے مل سکے گی۔

شاعری میں شاد عارفی (مرحوم) ان کے استاد تھے تو تعلیمی سطح پر عبد القوی دسنوی صاحب! یہ مثال بھی بڑی عجیب ہے کہ شاد عارفی (مرحوم) سے بالمشافہ ملاقات کا شرف انہیں کبھی حاصل نہیں ہوا۔ ان سے رابطہ و تعلق کا وسیلہ محض ان کا فن تھا۔ مظفر صاحب نے خطوط کے ذریعے یہ رشتہ استوار کیا اور ۱۴ ماہ کی مدّت میں صرف ڈیڑھ سو غزلوں پر اصلاح لے کر اتنا کچھ حاصل کر لیا جو کہ دوسرے شاید طویل مدّت یا بالمشافہ ملاقاتوں کے بعد بھی حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔

مظفر صاحب نے ’’شاد عارفی: شخصیت اور فن‘‘ کے عنوان سے نہ صرف پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ سپرد قلم کیا بلکہ ان سے متعلق کتابیں ’’نثر و غزل دستہ‘‘ ایک تھا شاعر ’’شوخی تحریر‘‘، ’’شاد عارفی کی غزلیں‘‘، ’’کلیات شاد عارفی‘‘ اور ’’شاد عارفی: ایک مطالعہ‘‘ کی اشاعت سے ان کے مقام و مرتبے کا تعین کر کے تحقیق و تنقید کے ساتھ شاگردی کا بھی حق ادا کر دیا۔

شاد عارفی کی طرح پروفیسر عبد القوی صاحب دسنوی کے تئیں بھی ان کے دل میں ہمیشہ محبت و احترام کا جذبہ موجزن دیکھا۔ نجی مسائل ہوں یا ادبی معاملات، ہر موقع پر وہ دسنوی صاحب سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ میری نظر میں کئی واقعات ایسے ہیں جن کے سلسلے میں مظفر صاحب نے دسنوی صاحب سے مشورہ طلب کیا اور عملی قدم اٹھایا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ محض ادبی صلاحیتوں کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ تہذیب و شائستگی کے اعتبار سے بھی میں نے دسنوی صاحب کے کسی اور شاگرد کو اتنا مہذب و مودب نہیں دیکھا جتنا کہ مظفر صاحب نظر آتے تھے۔ دسنوی صاحب کے کئی شاگرد ایسے ہیں جن کی علمی، ادبی ترقی اور روزگار کے سلسلہ میں دسنوی صاحب کی کوششوں کو دخل رہا ہے جب کہ مظفر صاحب نے جو بھی حاصل کیا محض اپنی صلاحیت اور محنت و ریاضت سے حاصل کیا تھا۔

مظفر صاحب کو اپنے اساتذہ سے جو دلی محبت تھی اس کا اظہار انھوں نے اپنے مضمون بعنوان ’’ قوی صاحب‘‘ (مطبوعہ ’’نقد ریزے‘‘) میں اس طرح کیا ہے:

’’یہ سب کچھ ایک مردہ اور ایک زندہ استاد کا فیض ہے۔ خدا شاد عارفی صاحب کو جنّت الفردوس میں جگہ دے کہ مرحوم سے مزاجی مناسبت اور شدید جذباتی لگاؤ نے دیوانہ وار محنت کرنے کی سکت مجھ میں پیدا کی… دسنوی صاحب قیامت تک سلامت رہیں کہ موصوف نے ہر قدم پر میری رہنمائی کی۔ حالات کا سر اٹھا کر مقابلہ کرنا سکھایا۔ شب و روز میرے ساتھ مغز پاشی کی۔ میرے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے سامنے خود سینہ سپر ہوئے، میری فنکارانہ انانیت کو نفسیاتی طریقوں سے متوازن کیا اور مجھ میں طلب علم کی لو جگائی۔ زندگی میں مجھے جن دو شخصیتوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ ہیں شاد عارفی اور عبد القوی دسنوی۔‘‘

مظفر صاحب کا یہ اعتراف ان کی شرافت نفس اور اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہے۔ جس طرح اردو فنکار عام طور پر نا مساعد حالات سے دوچار رہے ہیں، مظفر صاحب کو بھی ویسے ہی حالات سے گزرنا پڑا ہے۔ عمر کے ابتدائی ایّام میں وہ ان تمام آسائشوں سے محروم رہے جن سے شخصیت کی تعمیر میں مدد ملتی ہے لیکن ان کی غیر معمولی قوّت ارادی، محنت، ریاضت اور ادبی صلاحیت کے باعث کوئی بھی آزمائش ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوئی بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آزمائشوں نے تازیانے کا کام انجام دے کر انہیں بے حد فعال، حسّاس اور بے باک بنا دیا اور حقیقت بیانی اور صاف گوئی ان کے مزاج کا حصّہ بن گئی۔ حالات کی بھٹی میں تپ کر کندن بننے والی شخصیت نے اپنے تجربات و مشاہدات کو جب شعر کے پیکر میں ڈھالا تو کلام ایک مخصوص لب و لہجہ اور رنگ و آہنگ کا حامل بن گیا۔ ابتدا میں انھوں نے اپنے استاد شاد عارفی کے رنگ میں شعر کہے اور رموزِ فن نیز قدرت کلام حاصل کرنے کے بعد اس رنگ سے وہ رنگ پیدا کر لیا جس پر نہ صرف ان کا ٹھپّہ لگا ہوا ہے بلکہ جو اب ان کی پہچان بھی بن چکا ہے۔

 

ٹھپّہ لگا ہوا ہے مظفرؔ کے نام کا

اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اٹھا کر دیکھ

 

تجریدیت، عصری حسّیت، ندرت اور انفرادیت نے مظفر صاحب کے شعری اسلوب میں نئی معنویت پیدا کر دی ہے۔ اس ضمن میں ان کے حسب ذیل اشعار مبنی بر حقیقت ہیں، شاعرانہ تعلّی نہیں ہیں:

 

لکیروں کے فقیروں سے مظفر کچھ نہیں ہو گا

نئی نسلوں کی خاطر ہم نئی راہیں بناتے ہیں

٭

مِرے تئیں تو مظفرؔ غزل، غزل ہی نہیں

اگر خیال نہ ہو ندرت ادا میں کوئی

٭

جب وقت نے چھانی ہیں مظفرؔ کی بیاضیں

ہر شعر میں، ندرت کا دفینہ نکل آیا

٭

انفرادی رنگ رکھتا ہے مظفر شعر میں

اس کے مصرعے پر کوئی مصرعہ تو پہنچائے ذرا

 

انفرادیت پسندی کے ساتھ مزاج کا کھرا پن اور بانکپن مظفر صاحب کے کلام میں نمایاں ہے۔ انہیں اپنے کلام کے تیکھے لہجے کا احساس بھی تھا اور اعتراف بھی:

کچھ تیکھا پن اور مظفرؔ

لہجے کو لاثانی کر لو

٭

مظفرؔ سب ہی گلدستے بنا لیتے ہیں پھولوں سے

مگر ہم نے تو کانٹوں سے یہ گلدستہ بنایا ہے

٭

سوچ نئی ہے لہجہ تیکھا، لفظ کھرے آواز جدا

دانستہ رکھتا ہوں، اپنے شعروں کا انداز جدا

 

جدّت پسندی اور ندرت ادا کے سبب روایت پرستی یا لہجہ کی یکسانیت کا الزام مظفر صاحب پر عائد نہیں کیا جا سکتا۔ تجریدیت کے باوجود ان کی تخلیقات ترسیل کے المیہ کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ ہلکا سا ابہام شعر میں تہہ داری پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

مظفر صاحب کے کلام کا اہم وصف طنز بھی ہے جو کہ ان کی تخلیقات کی سرشت میں داخل ہے اور جسے انھوں نے کارگر ہتھیار کے بطور استعمال کیا ہے۔ ہر سچّے فنکار کی طرح مظفر صاحب کے کلام سے بھی ان کے مزاج و ماحول کی عکّاسی ہوتی ہے اور شعری رویّے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مظفر صاحب نے زندگی اور سماج کے زخموں کو نئے لہجے کے ساتھ آئینۂ غزل میں منعکس کرنے کی سعی کی اور اس اعتبار سے ان کا یہ دعویٰ غلط نہیں کہ:

 

ہر شعر ہے اس عہد کی منہ بولتی تصویر

اس باب میں دیوان مِرا ساغر جم ہے

 

ہم عصر اردو ادب میں مظفر صاحب کا کلام کھنکتی ہوئی آواز اور زندگی کے حقیقی پہلوؤں کی عکّاسی کے سبب اپنی خاص پہچان رکھتا ہے۔ ان کا شمار اردو کے صاحبِ طرز، نمائندہ جدید شعرا میں ہوتا ہے۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جن کے باعث مشہور شاعر اختر سعید خاں نے اردو رائٹرس گلڈ بھوپال کی جانب سے مظفر حنفی صاحب کے اعزاز میں منعقدہ جلسہ کی صدارت کرتے ہوئے کہا تھا کہ:

’’اب اردو غزل کو مظفر حنفی کی روش اختیار کرنا ہو گی‘‘

مظفر حنفی صاحب ایک ہمہ جہت فنکار تھے۔ ان کے ادبی کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ طنزیہ غزلوں، پابند و آزاد نظموں، ادب اطفال، ناول، سفرنامے اور افسانوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے مختلف موضوعات پر تحقیقی تنقیدی مقالات، تراجم اور تبصرے بھی سپرد قلم کیے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کئی ناقدین و ادبا ء نے کیا ہے۔ ان کے ادبی کارنامے ہمارے لیے فخر و انبساط کا باعث ہی نہیں مشعلِ راہ بھی ہیں۔ ان کا سانحۂ ارتحال اردو ادب کا ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔

٭٭٭٭

(مطبوعہ سہ ماہی کاروانِ ادب بھوپال دسمبر 2020)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے