(ناول کا ایک باب)
یہاں کوئی ایسا نہیں
جو یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہو
کہ ہم زندہ ہیں
….
مار شہوت را بکش در ابتدا
ورنہ اینک گشت مارت اژدہا
(خواہش کے سانپ کو ابتدا میں ہی مار دو ورنہ
دیر ہونے پر ازدہا قابو سے باہر ہو جائے گا)
– مولانا روم
سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے
– اقبال
’خوف اس بات کا نہیں
کہ ندی گہری ہے
اور مگر مچھ بڑی تعداد میں ہیں
خوف اس بات کا ہے
کہ کچھ مگر مچھ ہمارے اپنے بھی ہیں‘
آغازیہ
’وہاں بہت سے بندر ہیں‘
’جہاں بندر ہوتے ہیں وہاں کتے بھی ہوتے ہیں۔ ‘
بطور مصنف میں اس کے جواب سے مطمئن نہیں تھا۔۔ سڑک کنارے ایک مداری والا تھا۔۔ مداری والے سے کچھ قدم آگے ڈولفن مچھلی جھولا جھول رہی تھی… اور ایک بندر آنکھوں پر چشمہ لگائے، ایک درخت کے سایے میں کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔۔ ایک تتلی تھی جو مداری کے آس پاس منڈراتی ہوئی صوفیانہ رقص میں مشغول تھی۔۔ اس کے داہنے طرف چوہوں کی ایک قطار تھی۔۔ اور چوہے کسی جشن میں شامل ہونے کے لیے جا رہے تھے … اگر یہ سب عجیب ہے تو اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا تھا، اس سے کہیں زیادہ عجیب تھا… اور میں کہتا ہوں، ناول کے صفحات پر کبھی کسی مصنف کو چوہے کی طرح دوڑ کر نہیں آنا چاہیے اور یہ بات مسیح سپرا ہی کر سکتا تھا۔۔ میں اس سے کئی بار ملا۔۔ بندروں کے درمیان، کتوں کے درمیان اور ریچھوں کے اس پارک میں، جہاں میں نے کبھی ڈولفن نہیں دیکھی مگر مسیح سپرا کہتا تھا کہ ڈولفن ہے اور اس نے کئی بار ڈولفن کو پانی میں انگڑائی لیتے ہوئے دیکھا ہے۔۔
ڈولفن، بندر، کتے اور مسیح سپرا کے درمیان اچانک ملک آ گیا تھا… اور ملک بھی ایسا، جس کے ثقافتی اور تمدنی رنگ کے بارے میں، سب کے اپنے اپنے چشمے تھے۔۔ ہزاروں سال، بلکہ لاکھوں سال اور ایک وہ بھی تھا جس نے چنبل گھاٹی میں پڑی دراڑوں کو دکھا کر بتایا تھا کہ یہاں اڑنے والے اور پاؤں سے چلنے والے ڈائنا سور ہوا کرتے تھے۔۔ پہلے یہاں ان کے قدموں کے نشان تھے۔۔ اب ان چٹانوں پر گھاس اگ آئی ہے۔۔ بلکہ چٹانوں پر ڈائنا سور کے ڈی این اے اسی طرح تلاش کیے جا سکتے ہیں، جیسے ان دو بندروں کے، جو درختوں کی شاخوں پر چھلانگ لگاتے ہوئے جب ایک دوسرے سے ملے تو ان کے کوٹ کی جیب میں دو الگ الگ کاغذ کا مسودہ رکھا ہوا تھا۔۔ ایک مسودہ زرد رنگ کا تھا اور یقین ہے کہ یہ مسودہ آزادی کے فوراً بعد کا تھا اور اسی لیے کاغذ بوسیدہ تھا اور ہاتھ میں تھامنے پر کاغذ کے اڑ جانے کا خطرہ تھا۔۔ دوسرے بندر کے ہاتھ میں نیا کاغذ تھا اور ایسا لگتا تھا، جیسے یہ مسودہ ابھی ابھی تیار ہوا ہو… اور اسی لیے بطور مصنف، میں یاد کر سکتا ہوں کہ ان دونوں کے درمیان کیا باتیں ہوئیں۔۔
پہلے نے بوسیدہ کاغذ نکالا۔۔
دوسرے نے نیا۔۔
پہلے نے کہا۔۔ ’ضرورت نہیں۔ ‘
دوسرا ہنسا….’کاغذ دیکھو… پڑھا بھی نہیں جاتا۔ ‘
پہلا ہنسا…’کاغذ اس قدر بوسیدہ ہو چکا ہے کہ….‘
دوسرا مطمئن تھا… اور اسی لیے میں نے نیا مسودہ…..‘
پہلے نے بوسیدہ کاغذ زمین پر پھینک دیا۔۔ جوتے سے مسل دیا۔۔ اب وہ مطمئن تھا۔۔
’اس کی شکل دیکھو…‘
’کس کی؟‘
’مسودے کی….؟‘
’مسودہ کہاں ہے‘ دوسرا ہنسا۔۔
’اب وہ مٹی کا حصہ ہے۔ ‘
’یہ غلط ہے۔ ‘
پہلا سنجیدہ تھا۔۔ اس میں مٹی مت لاؤ۔۔ مٹی کا مطلب راشٹر واد۔ ‘
’ہاں یہ تو ہے …‘
’ایسے بولو… یہ شمسان کا حصہ ہے۔۔ …‘
پہلا مسکرایا…. ’یہ قبر کا حصہ ہے ….‘
دوسرا مطمئن تھا۔۔ ’یہ زیادہ اچھا ہے …‘
پہلے نے کہا۔۔ ’اب ہمارے پاس نیا مسودہ ہے۔۔ ….‘
’نیا کاغذ…‘
’لیکن کیا اس مسودے کو….؟‘
’کیا کبھی ہم نے دوسروں کے بارے میں سوچا ہے؟‘ پہلے نے ٹھہاکہ لگایا…
’کبھی نہیں۔ ‘
پہلا اچانک چونکا۔۔ ’یہ آندھی کیسی ہے …‘
’کافی تیز ہے … اور ہمارے درختوں سے آ رہی ہے۔ ‘
’نہیں۔۔ درختوں کے پیچھے سے بھی۔ ‘
’آندھی تو آئے گی ہی۔ ‘ دوسرے کے چہرے پر سوالیہ نشان تھے … ’کیا وہ آسانی سے چلے جائیں گے۔ ؟‘
’اس کی امید کم ہے … اور اسی لیے آندھی….‘ وہ کہتے کہتے رُک گیا۔۔
پہلا مطمئن تھا۔۔ ’انہیں گولیور کے دیس بھیج دیں گے۔ ‘
دوسرا آہستہ سے بولا۔۔ ’گو لیور کے دیس سے بندر اب یہاں آ چکے ہیں۔ ‘ وہ ہنسا… اور اب پرانی تاریخ کی جگہ نئی تاریخ لکھ رہے ہیں۔۔
اور جس وقت یہ مکالمہ کر رہے تھے، اس وقت زمین بہت تیزی سے ڈول رہی تھی اور مسیح سپرا کو احساس تھا کہ یونان کی دیو مالائی کہانیوں سے نکل کر سمندر کے دیوتا بوسیڈان نے اپنی برچھی سے زمین کو چھوا ہے … اور یقیناً جب جب وہ ایسا کرتا ہے، زمین ہلنے لگتی ہے۔۔
اور اس وقت زمین ہل رہی تھی، ایک کہرام مچا تھا- مسیح سپرا نے آہستہ سے کہا، وہ بندروں سے خوفزدہ نہیں ہے۔۔ مگر وہ گم ہونے جا رہا ہے۔۔
اور وہ اچانک دیکھتے ہی دیکھتے گم ہو گیا…
مجھے اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔۔
جھاڑیوں کے درمیان ایک نیم پلیٹ ملی۔۔ اس پر مردہ خانہ تحریر تھا۔۔ سامنے ایک دروازہ تھا، جس پر تالا لگا تھا۔۔
یونانی دیوتا بوسیڈان کو غصہ آیا ہوا تھا اور زمین مسلسل ہل رہی تھی۔۔
٭٭٭
باب اوّل : اندھیرا، موت اورمسیح سپرا
(۱)
زندگی آپ میں سے کچھ نہ کچھ خالی کر جاتی ہے۔۔ پیدائش سے موت تک یعنی آخری سانس تک روح کا باقی اثاثہ بھی آپ سے چھین لیتی ہے اور سرد جسم دیکھنے والوں کے لیے چھوڑ جاتی ہے۔۔ اس سرد جسم کا قصہ یوں ہے کہ کچھ دیر تک یونہی لا وارث چھوڑ دیجیے تو مکھیاں بیٹھنے لگتی ہیں کچھ دیر اور چھوڑ دیجیے تو چیونٹیاں سوراخوں سے نکل کر خوراک بنا لیتی ہیں۔۔ اور کچھ ہی گھنٹوں میں اس سرد جسم کی بدبو پھیلنے لگتی ہے جو کچھ دیر پہلے یا کچھ ماہ قبل جب زندہ تھا تو خواہشات کا مجسمہ تھا۔۔ اس مجسمے میں تپش بھی تھی اور خواہش بھی۔۔ روح کا اثاثہ چلا گیا تو ایک بے حس جسم، جس پر کوّے بھی منڈرائیں گے اور گدھ بھی۔۔ اور مسیح سپرا کے لیے یہ معاملہ یوں دلچسپ تھا کہ اسنے خود کو زندگی میں ہی مردہ تصور کر لیا تھا۔۔ وہ تین زبانیں جانتا تھا۔۔ اردو، ہندی اور انگریزی۔۔ اسی لیے وہ سوچتا تھا اور اس وقت سوچتا تھا جب اس نے خود کو مردہ تصور نہیں کیا تھا کہ انگریزی میں موت کو دیتھ کہا جاتا ہے۔۔ دیتھ سے د نکال دیجیے تو ایٹ یا کھانے کے لیے اُمنگ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔۔ یعنی پیدا ہوتے ہی موت آپ کا شکار کرنے یا آپ کو کھانے بیٹھ جاتی ہے۔۔ ہندی میں موت کے لیے مرتیو کا لفظ ہے۔۔ آپ م نکال دیجیے تو ریتو کی موسیقی پیدا ہوتی ہے۔۔ مگر یہ موسیقی اس قسم کی ہے جو آپ کو اداسی اور موت کی طرف لے جاتی ہے۔۔ یعنی موت کا موسم۔۔ موت قریب ہے۔۔ آپ بدنصیب ہیں کہ پیدا ہو گئے۔۔ اب ساری زندگی مرتیو کی رتیو کا انتظار کیجیے۔۔ اردو میں مرنا سے م نکال دیجیے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ رو رہے ہیں۔۔ اور یہ رونا زندگی کی صداقت ہے۔۔ پیدائش سے موت تک انسان روتا ہی ہے۔۔ موت سے م نکال دیجیے تو بھوت کا تصور پیدا ہوتا ہے۔۔ یعنی انسان پیدائش سے موت تک بھوت رہتا ہے۔۔ ہندی میں بھوت ماضی کو کہتے ہیں۔۔ یعنی انسان زندگی نہیں گزارتا ہے بلکہ ایک طرح سے بھوت کال یا ماضی میں ہوتا ہے جہاں تاریخ کے گڑے مردے ہوتے ہیں اور یہ مردے زندہ انسانوں کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔۔
مسیح سپرا کو موت کا خیال کسی سایے کی طرح نظر آتا تھا، ایسا سایہ جو سفید لباس میں معلق ہو یا نیلے آسمان پر چلتے سفید بادلوں میں وہ موت کا عکس دیکھا کرتا تھا۔۔ اور جب اس نے سوچ لیا کہ وہ مر چکا ہے تو سب سے پہلے اسے سرد خانے میں کام کرنے والے ملازم مجومدار کا خیال آیا۔۔ ایک زمانہ تھا جب وہ مجومدار سے کئی بار ملا۔۔ اور مجومدار سرد خانہ کے بارے میں بہت دلچسپ باتیں بتایا کرتا تھا۔۔ جیسے مجومدار نے بتایا کہ مردے خاموش رہ کر باتیں کرتے ہیں اور ان کی باتیں اتنی مزیدار ہوا کرتی ہیں کہ سرد خانے کے آہنی گیٹ سے باہر نکل کر، باہر کی دنیا کو دیکھنے کا خیال بھی اسے ناگوار گزرتا ہے۔۔ یہ مجومدار نے ہی بتایا کہ سرد خانے کے آہنی گیٹ سے باہر جو دنیا ہے، وہ بھی ایک مردہ خانہ ہے۔۔ وہاں شور ہے، سازشیں ہیں اور یہاں تنہائی۔۔ کوئی سازش نہیں۔۔ مجومدار نے ہنستے ہوئے بتایا….. دیکھو یہ سینگیں …..‘
’سر میں؟‘
’لو، سینگیں کہاں ہوتی ہیں؟‘
’لیکن سر میں سینگیں ….نظر تو نہیں آتیں۔ ‘
’مجھے آتی ہے۔۔ سینگیں چیختی بھی ہیں۔ ‘
’لیکن سینگیں کہاں سے آئیں؟‘
’ٹھنڈ سے۔ ‘
’ٹھنڈ سے؟‘
’لاشوں سے اور ان کی باتوں سے۔ ‘
مسیح سپرا کے لیے اس کی بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔۔ بیسیوں بار وہ ایسی سینگیں اپنے سر پر بھی محسوس کر چکا تھا، جب اس کی بیوی زندہ تھی اور کسی بات پر غصہ ہو جاتی تھی تو اچانک اس کے سر پر بھی سینگیں پیدا ہو جاتی تھیں۔۔ وہ ہنستا تو مرحومہ کے سر کی سینگیں اور بڑی ہو جاتی تھیں۔۔ پھر کچھ دیر میں یہ سینگیں غائب ہو جاتی تھیں۔۔ سڑک پر آوارہ گردی کرتے ہوئے کتنے ہی لوگوں کے سروں پر اس نے یہ سینگیں دیکھی تھیں۔۔ اس لیے مسیح سپرا کو مجومدار کی سینگوں میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی، مگر مجومدار نے مردہ خانے کے بارے میں جو کچھ بتایا، اس کے تجسس میں اضافہ کرنے کے لیے کافی تھا۔۔
’زندہ یہی لوگ ہیں۔۔ جو باہر ہیں، سب مرے ہوئے ہیں …..اور اسی لیے میں بھی زندہ ہوں، کیونکہ ان کے درمیان ہوں۔ ‘
مجومدار ہمیشہ سفید کرتہ اور پائجامہ میں ہوتا تھا۔۔ سفید چادروں سے ڈھکی لاشوں کے درمیان ایک زندہ سفید لاش…..بقول مجومدار، دودھیا رنگ کے سفیدجمے پانیوں میں تیرتے اجنبی سیاح…. ایک کولڈ اسٹوریج…. سنگ مرمر کا سفید فرش۔۔ آہنی دروازہ کے کھلتے ہی ایک مختصر راہداری۔۔ رات میں مردے گفتگو کرتے ہوئے دروازے تک آ کر ٹہلتے رہتے ہیں …. اور دلچسپ یہ کہ چلتی پھرتی لاشیں موسم بہار اور موسم خزاں دونوں پر گفتگو کرتی ہیں اور جیسا کہ اس نے سنا، موسم خزاں کا لطف یہ مردے زیادہ اٹھاتے ہیں۔۔ مجومدار نے یہ بھی بتایا کہ کئی بار اس کی ملاقات موت کے فرشتے سے بھی ہو چکی ہے۔۔ وہ کبھی بیل پر سواری کرتا ہوا آتا ہے کبھی عورت کی شکل میں جس کی آنکھیں بڑی بڑی اور چہرے پر سفید رنگ کا نقاب ہوتا ہے۔۔ سپرا کی دلچسپی ان باتوں میں اس لیے بھی نہیں تھی کہ اب وہ بھی خود کو مردہ سمجھ رہا تھا بلکہ اس کو یقین تھا کہ وہ مر چکا ہے اور گھر کو اصل مردہ خانے میں تبدیل کرنے کے لیے اسے کچھ انتظام بھی کرنے ہوں گے۔۔ گھر میں کل ملا کر چھ کمرے تھے۔۔ ہر کمرے میں دیوار پر گھڑیاں سجی تھیں۔۔ وقت رُک گیا تھا، اس لیے گھڑیاں بھی رُکی پڑی تھیں۔۔ مردوں کو وقت سے کیا کام۔۔ وقت سے کام تو زندوں کو ہوتا ہے اس لیے مسیح سپرا نے پہلا کام یہ کیا کہ ایک ہتھوڑا لیا اور گھڑیوں کے ٹکرے ٹکرے کر دیے۔۔ پھر ان ٹکروں کو ڈسٹ بین میں ڈال آیا۔۔ موہن سپرا نے گھر کی دیواروں کا جائزہ لیا۔۔ دیواریں بے رونق تھیں۔۔ سفیدی سیاہی میں تبدیل ہو چکی تھی۔۔ مردے چلتے ہیں، جیساکہ مجومدار نے بتایا تھا اور اس لیے گھر سے باہر نکلنے میں اسے کوئی پریشانی نہیں تھی۔۔ سپرا آرام سے باہر نکلا۔۔ سڑکوں پر ٹہلتا رہا۔۔ ٹریفک کو دیکھ کر اور سڑکوں پر چلتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر اسے ہنسی آ رہی تھی۔۔ یہ لوگ کل نہیں ہوں گے۔۔ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہو گا اور یہ لوگ اپنی موت سے کس قدر بے خبر ہیں۔۔ سپرا نے شاپنگ کی اور گھر آ گیا۔۔ سفید چادروں کا ایک بنڈل تھا، جو اس نے دیواروں پر سجانے کے لیے خریدا تھا۔۔ ایک ہالی وڈ کی ہارر فلم میں اس نے مردہ خانہ کی یہ تصویر دیکھ رکھی تھی۔۔ پورے گھر کو سفید چادروں سے ڈھک دیا گیا تھا۔۔ یہاں تک کہ کھڑکی، روزن کو بھی۔۔ گھر کے چھ کمروں میں سفید چادریں دیواروں پر چڑھاتے ہوئے اسے پانچ گھنٹے لگ گئے۔۔ ایک بار تو اسے ایسا لگا جیسے کوئی اور بھی ہے جو اس کے ساتھ کام میں شریک ہے۔۔ ہو سکتا ہے مرحومہ کی روح ہو۔۔ سفید سفے چادروں کے درمیان اب ایک دھندلکا طاری تھا۔۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے ان سفید چادروں سے نکلنے والی دھند نے کمرے کو اپنے حصار میں لے لیا ہو۔۔ اس نے گھر کی ساری بتیاں بجھا دیں۔۔ ہوا میں لہراتے سفید پردے تھے جو دیواروں پر جھول رہے تھے۔۔ کچھ دیر کے لیے مسیح سپرا زمین پر لیٹ گیا۔۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور اچانک اس نے محسوس کیا، ایک عورت نقاب لگائے ہوئے اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔۔ مجومدار نے اس عورت کو موت کا فرشتہ کہا تھا۔۔ سپرا کے اندر کہیں بھی خوف کا احساس نہیں تھا۔۔ بلکہ وہ آہستہ آہستہ بدبدا رہا تھا۔۔ وہ مردہ گھر میں ہے۔۔ اور اب اسے اسی حال میں رہنا ہے۔۔ موت ہر حال میں زندگی سے بہتر ہے۔۔ موت آپ کے اندر سے احساس اور جذبات کا سمندر لے جاتی ہے۔۔ موت آپ کو بے نیاز اور خوش رکھتی ہے۔۔ مسیح سپرا کو کچھ ایسے جابر اور ظالم حکمراں بھی یاد آئے جو خود کو زندہ رکھنے کے لیے اور عمر بڑھانے کے لیے عجیب عجیب طریقے اپنایا کرتے تھے۔۔ برما کا ایک سابق حکمراں ڈولفن مچھلی کا خون پیتا تھا۔۔ چنگیز خاں کو جانوروں اور انسانوں کے خون کی مہک پسند تھی۔۔ کچھ ایسے بھی حکمراں تھے جو جوان اور کنواری لڑکی کو ہلاک کر کے، اس کے لہو سے غسل کیا کرتے تھے۔۔ مسیح سپرا کو حیرت تھی، ایک بے مقصد اور بد تر زندگی کے لیے خون پینا، غسل کرنا، عیاشی کرنا، سفر کرنا، آوارہ گردی کرنا، ان مشاغل کی کیا ضرورت ہے ….؟ اور اسی لیے پہلے دن جب مردہ ہونے کا خیال آیا تو اس نے اپنی پرانی خادمہ کو، جو اہلیہ کے انتقال کے بعد اس کی ضرورتوں کا پورا خیال رکھتی تھی، بلایا اور ڈرائنگ روم میں رکھا ہوا بڑا سا ٹی وی اور کچھ روپے اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا، اب تم جاؤ اور آج سے، تم سے جو بھی جسمانی رشتہ تھا، اس کو ختم کر رہا ہوں۔۔ سپرا جانتا تھا کہ یہاں جسمانی رشتے کا مفہوم وہ نہیں تھا، جو عام طور پر لیا جاتا ہے۔۔ اب وہ ایک مردہ دنیا سے وابستہ تھا، جہاں رشتے صرف روح کے ہوتے ہیں۔۔ برسوں پرانی خادمہ نے خوف سے اس کے چہرے کو دیکھا۔۔ جھک کر سر ہلایا۔۔ ایک آٹو والے کو بلایا اور ٹی وی کا ڈبہ لے کر چلی گئی۔۔ اب اس گھر میں تفریح کا کوئی سامان نہیں تھا۔۔ ویسے بھی مردوں کو تفریح کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔۔ اور سپرا کے لیے یہ خیال کافی تھا کہ وہ مر چکا ہے اور اس کا زندگی سے ہر طرح کا تعلق ختم ہو چکا ہے۔۔ بقول مجومدار وہ ایک انجانے جزیرے کا سیاح ہے اور اس کے چہار اطراف دودھیا نہر بہہ رہی ہے۔۔ اسے احساس ہوا، باہر کتے رو رہے ہیں اور بلّیاں بھی۔۔ رونے کی ان آوازوں کا تعلق بھی موت سے ہے اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ بلّیاں اور کتے انسانوں سے زیادہ موت کی آہٹ کو محسوس کرنے کی حس رکھتے ہیں۔۔ مسیح سپرا ہر انسانی کیفیات سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔۔ مگر جس وقت وہ لیٹا ہوا تھا اور خود کو موت کی آغوش میں محسوس کر رہا تھا اور اس عورت کو جو موت کا فرشتہ تھی اور نقاب میں تھی، اس کو بھی قریب سے دیکھ رہا تھا، ٹھیک اسی لمحہ اس کے موبائل کی گھنٹی بجی اور اسے احساس ہوا کہ وہ اپنی پرانی خادمہ کو موبائل دینا بھول گیا۔۔ یہ انسانی تحفہ اسے آگے بھی پریشان کر سکتا ہے۔۔ کچھ دیر تک موبائل کی گھنٹی بجتی رہی۔۔ پھر گھنٹی خاموش ہو گئی۔۔ مسیح سپرا کو موت کی ان وادیوں میں بس ایک ہی بات کا خطرہ تھا کہ ریحانہ کے رشتے دار اس سے ملنے آ سکتے ہیں۔۔ ریحانہ، اس کی اہلیہ، جس کی موت ایک ماہ قبل ہوئی تھی اور جس کے رشتے دار دور دراز علاقے میں کافی تھے۔۔ یہ رشتے دار کبھی بھی آ سکتے تھے اور اسے موت کی وادیوں سے الگ ایک بیزار، بد مزہ اور خوفناک زندگی کے تجربوں میں واپس لا سکتے تھے۔۔ مسیح سپرا نے کروٹ بدلی۔۔ پھر اٹھ کھڑا ہوا۔۔ میز پر موبائل پڑا تھا اس نے موبائل پر یہ دیکھنا ضرور نہیں سمجھا کہ کس نے فون کیا تھا۔۔ موبائل آف کرنے کے بعد وہ ریوالونگ چیئرپر بیٹھ گیا۔۔ سفید سفید چادروں کے درمیان اس وقت وہ ایک مجسمہ تھا اور ریوالونگ چیئر کو ہلانے کی کوشش کر رہا تھا اور بلا مبالغہ، ایسا کرتے ہوئے اسے سکون مل رہا تھا، پھر اس نے دیکھا کہ سفید چادروں کے درمیان سے ایک عقاب نکلا اور کمرے میں رقص کرنے لگا۔۔ وہ جنگلی بھیڑیوں کی آوازیں سننا چاہتا تھا۔۔ دوسرے ہی لمحے اس کے کانوں میں بھیڑیوں کے چیخنے کی آوازیں گونجنے لگیں۔۔ اب وہ خلا میں سفید گھوڑوں کو اڑتے اور قلابازیاں کھاتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔۔ سفید چادروں سے سفید گھوڑے برآمد ہوئے اور ہوا میں تیرنے لگے۔۔ اس نے ایک ہالی وڈ کی فلم میں سفید پروں کو پھیلائے ایک راج ہنس کو دیکھا تھا جو بادلوں کے درمیان اڑ رہا تھا۔۔ یہ منظر بھی زندہ ہو گیا۔۔ مسیح سپرا کو خوشی تھی کہ وہ موت کے انجان جزیرے میں داخل ہو چکا ہے اور محیر العقل واقعات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اس نے شیش ناگ کا تصور کیا اور اچھل کر شیش ناگ پر بیٹھ گیا۔۔ ٹھیک اسی وقت دروازے کی بیل بجی۔۔ سپرا کو غصہ تھا کہ یہ انسان ’موت‘ سے جینے بھی نہیں دیتے۔۔ وہ کرسی سے اٹھا۔۔ دروازہ کھولا…. سامنے دودھ والا تھا۔۔ اس نے دودھ والے کا حساب برابر کیا۔۔ اور کہا۔۔
’اب یہاں کوئی نہیں رہتا۔ ‘
’آپ جات ہو؟‘
’اب یہاں کوئی نہیں رہتا۔ ‘
مسیح سپرا نے چیخ کر کہا۔۔ دودھ والا گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹا پھر سائیکل چلاتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔۔ مسیح سپرا نے دروازہ بند کیا اور دوبارہ ریوالونگ چیئر پر آ کر بیٹھ گیا۔۔ اسے احسا ہوا، کوئی چیز ہے جو چمک رہی ہے اور جس سے اس کا قریبی رشتہ بھی رہا ہے۔۔ اُف… اس نے دھیان سے دیکھا۔۔ پردے کے پاس اہلیہ کی ریڈیم کی تسبیح تھی، مرحومہ تسبیح ہمیشہ اسی جگہ رکھتی تھیں۔۔ اس سے ان کو سہولت ہوتی تھی۔۔ زندگی نہیں ہونے کے باوجود اپنی نشانیوں میں یاد رکھی جاتی ہے۔۔ جبکہ مسیح سپرا کی حقیقت یہ تھی کہ وہ زندگی سے وابستہ ہر شئے، پریشانی کو بھولنا چاہتا تھا۔۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور خود کو ایک نیلی جھیل کے درمیان پایا۔۔ جھیل میں بطخ تیر رہے تھے اور پھر مسیح سپرا نے کرنل سدھو کو دیکھا۔۔ کرنل سدھو، جو ایک زمانے میں ان کے ساتھ جاگنگ کیا کرتے تھے۔۔ فوج سے ریٹائر ہو چکے تھے۔۔ گورے چٹے اور کیا جسم پایا تھا۔۔ لحیم شحیم۔۔ سب سے زیادہ دلچسپ ان کی باتیں ہوا کرتی تھیں وہ فوج کی بات کم ہی کرتے تھے۔۔ مستقبل کی باتیں زیادہ ہوا کرتی تھیں۔۔
مسیح سپرا نے خیال کیا کہ وہ کرنا سدھو کے ساتھ جاگنگ پر ہیں۔۔ کرنل ٹھہاکے لگا رہے ہیں۔۔
’ایک بیوی بہت دنوں تک ساتھ نہیں دیتی….ہا…ہا…‘
’پھر کیا کرو گے کرنل؟‘
’مرغابیوں کا شکار کریں گے۔ ‘
’اس عمر میں مرغابیاں ملنے سے رہیں۔ ‘
’ہاہا…. یہ عمر… اصل تو یہی عمر ہے سپرا۔۔ لڑکیاں اسی عمر پر فدا ہوتی ہیں۔۔ یہ بات تم کو کون سمجھائے۔ ‘
’پھر شادی بھی کرو گے۔ ‘
’نہیں یار، لڑکیاں پٹاؤ۔۔ عشق لڑاؤ۔۔ پتنگیں کاٹو اور بھول جاؤ…..ہاہا….‘
مسیح سپرا کو ایک دوسری ملاقات یاد آئی، جس میں کرنا سدھو نے ساتھ ساتھ جاگنگ کرتے ہوئے امرت کور کے بارے میں بتایا تھا۔۔
’اسے فوجی پسند ہیں۔ ‘
’یعنی کوئی مل ہی گئی۔ ‘
’تازہ انار کا جوس ہے۔۔ تم کیا جانو ذائقہ۔ ‘
’پھر آگے کیا پروگرام ہے۔ ‘
’دو روز بعد ہم نینی تال جا رہے ہیں۔ ‘
’امرت کور کے ساتھ….؟‘
’ہاں …. ہا ہا….‘
کرنل سدھو نے ٹھہاکہ لگایا۔۔ اور اس کے ٹھیک دوسرے دن، جب آسمان پر کہرا چھایا تھا۔۔ دس بجے تک دھوپ غائب تھی، سردی میں بستر چھوڑنا ظلم تھا، موبائل کی گھنٹی بجی اور مسیح سپرا کو فون پر سدھو اس کے بیٹے نے بتایا، کرنل نینی تال نہیں گئے، بہت دور نکل گئے۔۔ مسیح سپرا ٹھنڈک کے جان لیوا احساس کو بھول گیا۔۔ سدھو دو دن بعد نینی تال جانے والا تھا، یہ کیسے ممکن ہے۔ ؟ دو دن قبل جاگنگ کرتے ہوئے اس کے ٹھہاکے گونج رہے تھے۔۔ کرنل سدھو کا مسکراتا ہوا چہرہ یاد آ رہا تھا۔۔ اس عمر میں کہیں بوجھل پن یا تھکاوٹ نہیں تھی، بھر پور زندگی کا احساس تھا۔۔ بیمار بھی نہیں تھے۔۔ مگر اچانک… منصوبے دھرے رہ گئے۔۔ آسمان کی فلائٹ پکڑ لی۔۔ یہ چور دروازے سے موت کیوں آتی ہے؟ موت پیچھا کرتی ہے بلکہ موت دیکھ رہی ہوتی ہے۔۔ جاگنگ کرتے ہوئے کرنل سدھو نے بھی موت کو دیکھا ہو گا۔۔ موت نے ممکن ہے اشارے بھی کئے ہوں گے۔۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موت سال بھر سے اشارے کرنے شروع کر دیتی ہے۔۔
سپرا نے کرنل سدھو کے مردہ جسم کو دیکھا۔۔ سرد چہرے کو۔۔ چہرہ بولتا ہوا، جیسے کرنل ابھی ٹھہاکے لگائیں گے۔۔ سپرا کو پتہ نہیں، وہ ان کے بیٹے سے کیا کیا باتیں کرتا رہا۔۔ حیرت و خوف نے اس کے الفاظ کو برف بنا دیا تھا۔۔
’ہاں وہ تھا….. اور موت بھی تھی، جس وقت ہم جاگنگ کر رہے تھے اس نے سیاہ نقاب لگا رکھی تھی اور وہ ایک عورت تھی۔۔ وہ کرنل کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔۔ لیکن کرنل اسے دیکھ نہیں رہے تھے ….جبکہ میں …. اور یقیناً میری آنکھیں اس کا تعاقب کر رہی تھیں ….. اور ذرا فاصلے پر مرغابیاں تھیں …..‘
کرنل سدھو کے بیٹے نے غصے سے سپرا کی طرف دیکھا۔۔ پھر وہ کسی کے ساتھ سیاست کی باتیں کرنے لگا۔۔ ’پنجاب میں ڈرگس کا کاروبار بڑھ گیا ہے۔۔ پنجاب کی سیاست میں اس کی دلچسپی ہے۔۔ ڈیڈی کو سیاست پسند نہیں تھی…. اور مرغابیاں …..‘
مرغابیاں کہتے ہوئے پلٹ کر اس نے سپرا کی طرف غصے سے دیکھا۔۔ سپرا کو دھوئیں سے بھرے آسمان میں کرنل سدھو کا چہرہ نظر آیا۔۔ وہ ٹھہاکے لگا رہا تھا۔۔
کمرے میں ایک چوہا آ گیا تھا…..اور سفید چادروں کے درمیان گھسنے کی تیاری کر رہا تھا۔۔ مسیح سپرا اٹھا لیکن اس نے چوہے کو بھگانے کی کوشش نہیں کی۔۔ اسے یقین تھا کہ وہ مرنے کی ریہرسل نہیں کر رہا ہے بلکہ وہ مر چکا ہے اور اس یقین کو پختہ کرنے کے لیے اس وقت اسے بازار کے لیے نکلنا ہو گا۔۔ یہ ضروری بھی ہے اور ایسا کرنا اس کے یقین کو مضبوط کرنے کے لیے اہم ہے۔۔ وہ بازار کے لیے نکلا۔۔ کافی دوڑ دھوپ کے بعد اس کو ایک عورت کا ایک مجسمہ نظر آیا۔۔ عورت شان سے پتھروں میں لپٹی ہوئی اس طرح کھڑی تھی کہ زندہ معلوم ہو رہی تھی۔۔ وہ اس مجسمہ کو لے کر گھر آ گیا۔۔ چادروں کے درمیان اس نے مجسمہ کو رکھ دیا۔۔ مجسمہ پر سفید چادر لپیٹ دیا۔۔ سر پر سیاہ نقاب ڈال دیا۔۔ اب ایک چھڑی کی کمی تھی۔۔ برسوں قبل اس کا ایک دوست واشنگٹن سے آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔۔ یہ چھڑی سانپ کی طرح آڑی ترچھی تھی اور دیکھنے میں خوبصورت لگتی تھی۔۔ سپرا وہ چھڑی لے آیا اور چھڑی کو عورت کے ہاتھ میں دے دیا۔۔ پھر ایک دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔۔ دودھیا چاندنی میں اب وہ عورت موت کا فرشتہ معلوم ہو رہی تھی۔۔ سفید چادروں کے درمیان کھڑی، جیسے اسے لے جانے آئی ہو۔۔ وہ اس منظر سے خوش تھا۔۔ ایک لمحے کے لیے زمین پر لیٹے لیٹے اس نے موسم بہار کا تصور کیا۔۔ پھر وہ اپنے رفیقوں کی تلاش میں نکلا۔۔ اس نے چڑیوں کی چہچہاہٹ محسوس کی….اور خیال کیا کہ جادوگر کے کرشمہ کی طرح آنکھیں بند کرتے ہی اس کا جسم ہوا میں معلق ہو سکتا ہے …. اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ انجانے جزیرے پر، جہاں موت کے فرشتے کا ساتھ ہو گا، یہ مناظر اس کے ہمراہ ہوں گے اور جیسا کہ ڈاکٹر سدھاکر کہتا ہے، ہم ایک دھند میں رہتے ہیں اور ایک دن یہی دھند ہمارا شکار کر لیتی ہے۔۔
ڈاکٹر سدھاکر کو یاد کرنا مسیح سپرا کو خاصہ تقویت دے رہا تھا۔۔ ایک خوبصورت شخص، جس کی باتیں جسم میں گرمی پہچانے کا کام کیا کرتی تھیں اور جب وہ اپنی آنکھوں سے حیرانیوں کا اعتراف کرتا تو ایک خاص قسم کا چمکتا ہوا ہیرا ہوتا، جو اس کی آنکھوں میں نظر آتا تھا اور اس ہیرے سے روشنی پھوٹتی تھی۔۔ ڈاکٹر سدھاکر مذہب کو نہیں مانتا تھا بلکہ کسی بھی طرح کے عقیدے کو نہیں مانتا تھا۔۔ وہ کہتا تھا، ہم ایک بے ڈھب گوشت کے لوتھڑوں کے ساتھ آنکھیں کھولتے ہیں۔۔ پھر یہ بے ڈھب گوشت کا لوتھڑا ایک دن مردہ گھر میں کھو جاتا ہے۔۔
مگر اس دن، جیسا کہ مسیح سپرا کو یاد ہے، ڈاکٹر سدھاکر سیاست کی باتیں کر رہا تھا۔۔ بدلتے ہوئے حالات پر اس کی ناراضی تھی اور وہ ساری دنیا میں آگ لگانے کی باتیں کر رہا تھا۔۔ اس کی حیرانیوں میں وہ چمکتا ہوا ہیرا مسیح سپرا کو صاف نظر آ رہا تھا۔۔
’میں نے ایک خطرناک انجکشن تیار کیا ہے۔۔ یہ ڈرون اور میزائیل کی شکل کا ہو گا اور یہ اس شخص کو ہلاک کرے گا جو سیاست کا بدترین مجرم ہے۔ ‘
’سیاست کا بد ترین مجرم؟‘
’اس کے لیے جس نے ہندوستان کو ایک گندے میلے تالاب میں تبدیل کر دیا۔ ‘
ڈاکٹر سدھار ہنسا۔۔
’تم سائنسداں کب سے ہو گئے؟‘
’ڈاکٹر بھی سائنسداں ہوتا ہے۔ ‘
’سیاست میں کیوں نہیں جاتے؟‘
’یہی تو مشکل ہے۔۔ سیاست گندے ریس کا میدان بن چکی ہے۔۔ یہ ہم لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ ‘
ڈاکٹر سدھاکر مسکرائے۔۔ ’اب دیکھو، کل کی فلائٹ سے لندن جا رہا ہوں۔۔ لندن میں ایڈز پر ایک سمینار ہے۔۔ گندے لوگ اور گندی سیاست نے ہمیں ایڈز کا تحفہ دیا ہے۔۔ وہاں سے واپس آ کر تم سے ملتا ہوں۔ ‘
’کل کتنے بجے کی فلائٹ ہے۔ ؟‘
’شام کی۔ ‘
دھند میں سدھاکر کا چہرہ تیرتا ہے۔۔ سدھاکر لندن سمینار کا حصہ نہیں بن سکا۔۔ صبح ہارٹ اٹیک ہوا۔۔ لندن کی جگہ عدم آباد پہنچ گیا۔۔ صبح ہی صبح ڈاکٹر کستوری نے موبائل پر یہ خوفزدہ کرنے والی خبر سنائی۔۔ وہ سنتا رہا۔۔ سپرا کی آواز کہیں کھو گئی تھی۔۔ چہرہ سرد تھا۔۔ جسم بھی۔۔ کافی دیر تک وہ موبائل تھامے رہا۔۔ جب تک کستوری کی آواز گم نہیں ہو گئی۔۔ یہ کیسے منصوبے ہیں؟ کرنل ڈیٹس پر جانے والے تھے۔۔ ڈاکٹر سدھاکر لندن۔۔ منصوبے میں جھول آ گیا تھا۔۔ جھول میں نقاب والی عورت۔۔ ایک رات۔۔ کچھ لمحے۔۔ لیکن ڈاکٹر سدھاکر نہیں جانتا تھا کہ صرف کچھ گھنٹوں کے بعد کیا ہونے والا ہے۔۔
اس دن وہ آخری تماشے کا حصہ نہیں بنا…. اس دن وہ دیر تک سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا رہا۔۔ اسے یقین تھا کہ یہ گاڑیاں جو سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں، ابھی اچھال لیں گی اور ایک دوسرے سے ٹکرا کر بکھر جائیں گی۔۔ یہ لوگ جو سڑکوں پر چل رہے ہیں، یہ گھر جانے سے قبل ہی موت کو پیارے ہو جائیں گے۔۔ اس دن وہ گھر لوٹا تو ریحانہ اور اپنے کاشف کو حیرت سے دیکھا۔۔ اس دن آخری بار اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔۔ مثال کے لیے اس نے کاشف سے پوچھا….
’تو تم ہو نا…..؟‘
’ہاں پاپا کیوں …..‘
’نہیں۔۔ کچھ نہیں۔۔ تم ہو اور یہ میرے لیے مزے کی بات ہے۔ ‘
یہی سوال اس نے ریحانہ سے کیا۔۔
’تو تم ہو نا…..؟‘
’کیوں؟‘
’پتہ نہیں۔۔ میری تسلی نہیں ہوئی۔ ‘
’یعنی میں نہیں ہوں؟‘
’ہو سکتا ہے۔ ‘
ریحانہ نے مسیح سپرا کو عجیب نظروں سے دیکھا۔۔ پھر پوچھا۔۔ ’تو آج تم نے پھر سے بلڈ پریشر کی دوا نہیں لی۔ ‘
’بھول گیا۔ ‘
’بھولا مت کرو۔۔ اس دوا میں ایک جنگلی بلی ہوتی ہے، جو تمہیں تھپکیاں دے کر نارمل کر دیتی ہے۔ ‘
’جنگلی بلّی۔ ‘ سپرا زور سے ہنسا۔۔
ریحانہ پتلی دبلی سی عورت تھی۔۔ شادی کے بعد بھی اور کاشف کی پیدائش کے بعد بھی اس میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں آئی تھی۔۔ اس کی آنکھیں گہری تھیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی ذات مکمل طور پر ریحانہ پر منحصر تھی۔۔ ناشتہ، کھانا، دوا، یہاں تک کہ باہری خرید و فروخت کے لیے بھی ریحانہ نے کبھی اس کو پریشانی میں نہیں ڈالا۔۔ عام طور پر اس کا چہرہ سپاٹ رہتا تھا اور اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھا کہ کس وقت وہ کس فکر میں غلطاں ہے۔۔ کاشف اٹھارہ کا ہو گیا تھا اور اب سپرا کو کاشف کے کیریر کو لے کر فکر ہو رہی تھی۔۔ کاشف موٹر سائیکل تیز چلاتا تھا اور کئی بار سپرا نے کاشف کو تیز چلانے سے روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔۔ ڈاکٹر سدھاکر کے جانے کے بعد ٹی وی اینکر سمیتا میں اس کی دلچسپی بڑھی تھی۔۔ یہ ملاقات بھی اچانک ہوئی تھی۔۔ انڈیا انٹرنیشل کیفے میں، جہاں وہ ہندوستانی سیاست کو لے کر ایک سابق سیاستداں سے کچھ سوال کر رہی تھی۔۔ سپرا، انڈیا انٹر نیشنل کا ممبر تھا۔۔ سیمتا میں اس کی دلچسپی پیدا ہوئی۔۔ اچانک سمیتا نے اس کی طرف دیکھا۔۔ پھر چونک گئی۔۔
’آپ……؟‘
’تو آپ مجھے جانتی ہیں؟‘
سمیتا کھلکھلا کر ہنسی۔۔ ’سیاست میں سو سال بھی کم ہوتے ہیں۔۔ یہاں سب کو جاننا ہوتا ہے۔۔ ایک چھوٹی سی بائیٹ دیں گے۔ ‘
’کیوں نہیں۔ ‘
اب سمیتا نے مائک کا رخ سپرا کی طرف کر دیا۔۔
’حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف میں کچھ لوگ بخالت سے کیوں کام لیتے ہیں؟‘
سپرا کو ہنسی آئی۔۔ ’آپ نے جارج آرویل کا ۱۹۸۴ پڑھا ہے؟‘
’ہاں۔ ‘
’تعریف بدل دیجیے۔ ‘
’مطلب؟‘ سمیتا چونکی۔۔
’اچھے کو برا بنا دیجیے۔۔ بُرے کو اچھا۔۔ مثال کے لیے چنگیز اور ہلاکو اچھے لوگ تھے، سمیتا مسکرائی۔۔ ’تعریف بدلنے سے کیا ہو گا؟‘
’پھر آپ یہ سوال نہیں پوچھیں گی۔ ‘
اس دن سمیتا نے ساتھ بیٹھ کر کافی شیئر کی۔۔ دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور انڈیا انٹر نیشنل سینٹر میں اس سے ملاقاتوں کا سلسلہ طویل ہوتا چلا گیا۔۔
سپرا نے ایک ملاقات کے دوران پوچھا۔۔
’تم نے شادی کیوں نہیں کی؟‘
’پہلے ایک فلیٹ خریدنا چاہتی ہوں۔ ‘
’اسی لیے حکومت کی چاپلوسی ہو رہی ہے۔ ؟‘
’ہاں۔ ‘ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔۔ اس کے دانت موتیوں کی طرح سفید تھے اور سفید موتیوں سے الفاظ آبشار کی طرح بہتے تھے۔۔
’نہیں کروں گی۔۔ تو پیسے تم دو گے؟‘
’سپرا مسکرایا۔ ‘
’دو دن بعد ہی ایک فلیٹ بُک کر رہی ہوں۔۔ پھر شادی۔ ‘
’فلیٹ دیکھ لیا۔ ؟‘
’ہاں۔۔ گریٹر نوئیڈا میں ہے۔۔ خوش ہوں کہ اب اپنے فلیٹ میں چلی جاؤں گی۔ ‘
سمیتا نے بتایا کہ ایک خبر کے لیے آج شام وہ دہرا دون جاری ہے۔۔ کل صبح واپس ہو گی۔۔ ٹیم کے ساتھ جا رہی ہے۔ ‘
’میں تمہارے نئے فلیٹ میں تم سے ملنے آؤں گا۔ ‘
’ضرور۔ ‘
سمیتا کے جانے کے بعد مسیح سپرا باہر آیا۔۔ دیر تک دیواروں پر آویزاں پینٹنگس کو دیکھتا رہا۔۔ آسمان پر پرندوں کا ایک ہجوم جا رہا تھا۔۔ ایسے مناظر اسے پسند تھے۔۔ اس نے ایک خوشحال زندگی گزاری تھی۔۔ باہر گاڑیاں مسافروں کو اتار کر آگے بڑھ رہی تھیں۔۔ سپرا کو آنکھوں کے آگے دھند کا احساس ہوا۔۔ اسے یقین تھا، خالی وقت میں یہ لوگ موسیقی بھی سنتے ہوں گے، ہوٹل میں بیٹھ کر شراب بھی پیتے ہوں گے۔۔ عیاشیاں بھی کرتے ہوں گے۔۔ معصوم لوگ، جو بہت زیادہ آگے یا مستقبل کی فکر کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ایک دن دھند میں آسمان اور نہ ختم ہونے والی فصیلیں بھی گم ہو جاتی ہیں۔۔ کیا یہ ایک واہیات دن تھا یا خوشیوں بھرا دن کہ سمیتا کے ساتھ کچھ لمحے گزارنے کا موقع ملا تھا۔۔ لیکن جس وقت سمیتا اس کے پاس سے اٹھ کر جا رہی تھی، مسیح سپرا کو احساس ہوا کہ ہوا میں معلق ایک صلیب ہے، جس پر موٹی موٹی کیلیں ہیں اور ان کیلوں میں سمیتا جھول رہی ہے۔۔ یہی لمحہ تھا جب اس کے چہرے پر جھریاں پیدا ہوئیں اور اسے اپنے چہرے کی جلد کے سرد ہونے کا احساس ہوا۔۔ جہاں پر وہ کھڑا تھا، اس سے کچھ دوری پر دو عورتیں تھیں جو مچھلی کے شکار کی باتیں کر رہی تھیں اور ایک بوڑھا شخص دیوار سے لگا کھڑا تھا جو ایک نوجوان کو اپنی عشق کی داستان سنا رہا تھا۔۔ مسیح سپرا کو احساس ہوا کہ عشق و محبت کی داستان کے درمیان صلیبیں آ جاتی ہیں اور مچھلیاں کیلوں میں پھنس جاتی ہیں۔۔ پھر یہی عورتیں نگاڑے ڈھول کے درمیاں جنگل میں مناسب جگہ تلاش کر کے بھنی ہوئی مچھلیوں کا ذائقہ لیتی ہوں گی….. انڈیا انٹر نیشنل کے دروازے سے باہر نکل کر اس نے ایک پولیس والے کو دیکھا جو ہتھکڑیاں لگائے ایک قیدی کو ساتھ لیے جا رہا تھا اور مسکرا مسکرا کر اس سے بات بھی کر رہا تھا۔۔ کہیں نہ کہیں زندگی کی رمق موجود ہے۔۔ تنہائی میں، احساس جرم میں، قید خانے کی گھٹن میں اور جنگل کی وادیوں میں۔۔ اس دن گھر پہنچنے کے بعد ریحانہ نے اس کے چمکتے دمکتے چہرے کو دیکھ کر پوچھا تھا۔۔
’شکار کیا؟‘
’کس کا؟‘
’مچھلیوں کا۔ ؟‘
’اب یہ عمر مچھلیوں کے شکار کی نہیں رہی۔ ‘
’جھوٹ۔۔ مچھلیاں اس عمر میں بغیر کانٹے کے بھی پھنس جاتی ہیں۔ ‘
’یہ تمہارا تجربہ ہے؟‘
’تمہارے تجربے سے ایش ٹرے بناتی ہوں۔ ‘
’پھر ایش ٹرے میں راکھ کس کی ہوتی ہے؟‘
’تمہارے اندر کی خواہشوں کی۔۔ ان میں سگریٹ سے زیادہ کاربن ہوتا ہے۔ ‘
’سگریٹ کی مہک آ رہی ہے۔ ؟‘
’باہر کوئی قیدی پی رہا ہو گا۔۔ ایک تم بھی جلا لو اپنے لیے۔ ‘
اس رات خواب میں صلیبیں دوبارہ روشن ہوئیں۔۔ پھر اس نے آگ کے بڑے بڑے تندور دیکھے جہاں مچھلیوں کو بھونا جا رہا تھا۔۔ اس نے اس بوڑھے کو بھی دیکھا جو اپنی خادمہ کے ساتھ ہم بستری کر رہا تھا…. اور جب صبح اس کی آنکھ کھلی تو کھڑکی کے باہر کا آسمان سیاہ تھا اور ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔۔ اس سے پہلے کہ وہ بارش کی موسیقی کے مزے لیتا، موبائل کی گھنٹی نے خیالوں کے بنتے ابھرتے سلسلے کو روک دیا۔۔ اسے خبر ملی کہ دہرا دون سے واپس آتے ہوئے کار ایکسیڈینٹ میں سمیتا اور تین لوگوں کی موت ہو گئی۔۔ سمیتا واپسی کے بعد اپنے فلیٹ میں جانا چاہتی تھی۔۔ شادی کرنا چاہتی تھی۔۔ وہ کل تک تھی مگر اب نہیں تھی…صلیبیں، کیلیں … بارش… اب وہ کچھ نہیں دیکھ سکتی۔۔
دھند میں اب ایک نورانی گھوڑا تھا جس کو کافی عرصہ پہلے مسیح سپرا نے ایک جیل کے برآمدے میں دیکھا تھا جب وہ بیرکوں اور کچھ قیدیوں کے معائنہ کے لیے گیا تھا۔۔ وہی اسپ نورانی اس وقت اس کی نگاہوں کے سامنے تھا اور نظروں میں وہ بزرگ قیدی تھے جو اب زندگی سے تھک چکے تھے۔۔ مسیح سپرا نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔۔ کوئی جنبش نہیں۔۔ لیٹے لیٹے اس نے پاؤں اٹھانے کی کوشش کی مگر محسوس ہوا، پاؤں اکڑ چکے ہیں۔۔ اس نے سر ہلانے کی کوشش کی تو اس کوشش میں بھی ناکام رہا۔۔ دھند میں سفید چادروں کے درمیان نقاب والی عورت سامنے تھی۔۔ سپرا کو احسا ہوا، اس عورت نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا ہے ….اور اب وہ اس کی طرف بڑھ رہی ہے۔۔
اور جب راتیں چاند پر مہربان تھیں کہ چاند ستاروں کے درمیان اٹکھیلیاں کرتا ہوا نیلگوں آسمان کے درمیان یوں تیر رہا تھا جیسے بدمست مجذوب ہو یا نشے کی حالت میں دنیا و مافیہا سے بے خبر شرابی یا پھر وجد کی وادیوں میں رقص کرتا ہوا صوفی یا پھر آسمانی چادر پر اڑتا ہوا پرندوں کا ہجوم اور مسیح سپرا نے دیکھا کہ ایک پرانی عمارت ہے اور اس شہر میں ہے، جسے بندروں نے گھیر رکھا ہے۔۔ وہ زیر لب بڑبڑایا۔۔ شرارتی بندر- اور اس کے بعد اسے کچھ بھی یاد نہیں رہا۔
(۲) خانہ بدوشوں کا مقدمہ
وہ تعداد میں کئی تھے اور انہیں جاننے والا کوئی نہیں تھا۔۔ وہ الگ الگ شہروں سے جمع ہوئے تھے اور ان میں ایک تھا جو خود کو مارخیز کے شہر کا خانہ بدوش کہتا تھا اور یہ بھی کہ سو سال کی تنہائی میں اس نے اس بوڑھے کو طوطے کا تحفہ دیا تھا جو انسانی آواز میں بولنا جانتا تھا-اور یہ وہ شخص تھا، جس کے سرکے بال نہیں تھے۔۔ چہرے کا رنگ گورا تھا- اور اس وقت جو بھی خانہ بدوش تھے، وہ ان سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا اور زیادہ انسانوں جیسی باتیں کر سکتا تھا جبکہ ان میں وہ بھی تھے جو ابھی بھی سرخ گرم آگ پر چھریاں تیز کر رہے تھے۔۔ ان میں وہ بھی تھے جن کے ہاتھوں میں ترشول تھے اور ان خانہ بدوشوں میں ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے اپنے ہاتھوں میں ایک ایک اینٹ سنبھالی ہوئی تھی۔۔ اینٹ کسی اچھی بھٹی سے نکالی ہوئی تھی۔۔ اس لیے اینٹیں بھری بھری نہیں تھیں بلکہ سخت تھیں اور ان پر ہندی میں کچھ لکھا ہوا تھا، جسے آسانی سے پڑھا جا سکتا تھا۔۔ ان میں کوئی بھی قطار کا مطلب نہیں جانتا تھا اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ وحشت کی تہذیب کو لے کر اس ہال میں جمع ہوئے تھے، جس کی دیواریں بے رونق تھیں۔۔ دروازہ ٹوٹا ہوا تھا اور دروازے کے بعد دور تک گھاس اُگی ہوئی تھی۔۔ اور گھاس پر اس وقت بھی گائیں آرام سے گھوم رہی تھیں اور جس وقت مندر سے بھجن کی آواز آئی، خانہ بدوشوں میں سے پانچ شخص ایسے تھے جنہوں نے گردن میں لپٹے ہوئے رو مال کو نکالا اور پیشانی پر باندھ لیا۔۔ اب وہ پوری طرح سے لچے اور شہدے نظر آ رہے تھے اور کمال یہ کہ خود کو اس حالت میں محسوس کر کے وہ خوش تھے کہ زندگی کی بدلی ہوئی تعریف میں اب یہی تعریف ایسی تھی، جس کے ذریعہ خانہ بدوش کی زندگی کو ایک نئی سیاسی زندگی میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔۔ غارت ہو اس سیاہ روشنی کا کہ بھجن کے دوران ہی پاس کی کسی مسجد سے اذان کی آواز آنی شروع ہوئی۔۔ بوڑھا، جو انسانی آواز میں بولنا جانتا تھا، اس وقت اس کے تیور بدل گئے تھے اور وہ ایسی آواز میں باتیں کر رہا تھا، جیسے وہ بھیڑیوں کے منہ سے نکلی ہوئی آوازوں کے مطلب سمجھتا ہو۔۔ اذان کی آواز ختم ہونے کے بعد اس نے حونق بھیڑ کی طرف دیکھا۔۔ اور مسکرا یا۔۔ اس کی باتوں کا جواب دینے والے کئی خانہ بدوش تھے۔۔ اس وقت جن کے ناموں کا جاننا ضروری نہیں۔۔ جن کی شناخت خانہ بدوش کے طور پرہی تھی اور جو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ یہاں کس لیے اکٹھا ہوئے ہیں۔۔ مگر وہ خوش تھے کہ نئے موسم میں اور اس نئی صبح میں ایک نئے کھیل کی شروعات ہونے والی ہے اور ان سب کے پیچھے وہ بوڑھا ہے، جسے خود پر ضرورت سے زیادہ یقین ہے اور جو طوطے کی طرح اس بات کو فراموش کر گیا ہے کہ زیادہ یقین سے آپ کیڑے لگی ہوئی گیلی لکڑی کی طرح کھوکھلے ہو جاتے ہیں اور ایک ایسے خانہ بدوش میں تبدیل ہو جاتے ہیں جس کے لیے صرف رحم کے الفاظ رہ جاتے ہیں۔۔ وہ خوش تھا کہ وہ اپنی ذات کے جنوں خانے سے نکل کر اس قبیلے کا حصہ بنا تھا، جسے ’گھومنتو‘ قبیلہ کہا جاتا ہے۔۔ اور اس قبیلے کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ شعوری فکر کے روزن میں روشنیوں کو آنے دیں۔۔ روشن خیال و افکار کی دھوپ جمع کریں۔۔ کیونکہ جب مرغا بیاں گاتی ہیں تو سازندے اس گیت کے سر میں سرملاتے ہیں۔۔ پھر جو نغمہ گونجتا ہے وہ کمزور ذہنوں کی آبیاری کرتا ہے اور اس لیے خانہ بدوشوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذہبی عبادت گاہوں پر چڑھ جائیں۔۔ اینٹ سے اینٹ بجا دیں اور خانہ بدوشی کی تعلیمات میں نئے علم کا اضافہ کریں کہ دو اور دو مل کر ایک سو بیس کروڑ بھی ہو سکتے ہیں۔۔ اس وقت بوڑھا مارخیز کی سو سال کی اداسی کے صفحات سے نکل کر ان چراغوں کو دیکھ رہا تھا جن کی ٹمٹماہٹ وقت کے ساتھ کمزور پڑتی گئی تھی اور ایک دن ایسا بھی آیا جب سیاسی دیے بجھ گئے۔۔ ان دیوں میں روشنی کا فقدان تھا۔۔ ان دیوں میں تیور نہیں تھے، خانہ بدوش نہیں تھے۔۔ پتھر پھینکنے والے اور پتھر سنبھال کر رکھنے والے اور غیض و غضب سے پیدا شدہ نسل کو ہر طرح کی فکر سے محروم کرنے والے اور خانہ بدوش نسل میں قبیلے کی قدیم لڑاکو تہذیب کے جراثیم رکھنے والے اور اپنی چنگیزی طبیعت سے ایک مخصوص طبقے کو غلام بنانے والے اور اسی لیے ۱۹۲۵ کے دھندلے آسمان سے، آسمانی اور دھارمک منتروں کے ذریعہ قبیلہ نے وش کا پیالہ حاصل کیا تھا اور بوڑھے کو امید تھی کہ وش کا پیالہ پیتے ہی طوطے کی جان چلی جائے گی مگر سمندر منتھن کی طرح اس بار فتح دیوتاؤں کے حصے میں نہیں آئے گی بلکہ فاتح راکشش ہوں گے کہ ایک طبقے کو غلام کرنے کے لیے کبھی کبھی راکشش کی پناہوں میں بھی جانا پڑتا ہے۔۔ لہذا بنجاروں کو اجازت دی گئی کہ وہ مہینوں جانوروں کے ساتھ رہیں اور اپنا وقت جنگل میں گزاریں اور خطرناک جانوروں کی بولیوں کو ازبر کریں کہ مستقبل قریب میں ان آوازوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔۔ بانسری، طبلے، ہارمونیم، تنبورے کے سریلے راگوں میں درندگی کی موسیقی کا سر پیدا کرنا ہے۔۔ اور اسروں (راکچھس) کی جماعت میں شامل ہو کر ملک کو آزاد کرنا ہے۔۔ اس لیے گھروں کو مقفل کر کے مذہبی عمارت سے اینٹیں لے کر قومی سلامتی کی راہ پر آگے بڑھنا ہے اور طوطے سے بچے وش کو ساتوں سمندر، دریأؤں، پہاڑوں پر اچھال دینا ہے۔۔
بوڑھے کے دماغ مں اس وقت بھی سیٹیاں بج رہی تھیں جب سورج کا گولہ گرم ہونے کی تیاری کر رہا تھا اور اپنی اگنی شعاعوں سے دسمبر کی برف کو پگھلانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ تاریخ کے تناظر میں ہم قدیم خانہ بدوش ٹھہرے مگر ملا کیا؟ جب ملک کی ہوا سہ رنگی پرچم میں رنگ بھرنے کی تیاری کر رہی تھی کچھ سریلے فنکار، فلاسفر اور تاریخ داں بوسیدہ دیواروں پر بجھی ہوئی راکھ سے آزادی اور سیکولرزم کے نعرے کو لکھ رہے تھے۔۔ خانہ بدوش حیران کہ یہ رنگ مٹے نہیں تو جبریہ طاقت اور ذہن کیسے پیدا ہو گا؟
ایک خانہ بدوش نے دریافت کیا۔۔ ’ماچس ہے؟‘
’نہیں۔۔ مگر تیلیاں ہیں۔ ‘
’تیلیاں آگ پکریں گی؟‘
’تیلیاں نقشوں کو جلانے میں ماہر ہیں مگر تیلیوں کو گرم پتھر وں سے رگڑ کر چنگاری پیدا کرنا ہو گا۔ ‘
’کیا چنگاری سے چھریاں تیز ہوں گی؟‘
’ترشول بھی؟‘
’کیا مذہبی عمارت پر چڑھنے میں مدد ملے گی؟‘
’اگر پیسے ملتے ہیں تو ہم خانہ بدوش پجاری بن جائیں گے۔ ‘
بوڑھے کو ہنسی آئی۔۔ وہ ان خانہ بدوشوں کی باتیں سن رہا تھا۔۔ اور یہ کہ اسے ماچس کی تیلیوں میں آگ کا سمندر نظر آ رہا تھا اور وہ خوش تھا کہ آگ کے سمندر سے اس وقت چیخیں نمودار ہو رہی تھیں اور وہ ان چیخوں میں موسیقی تلاش کر رہا تھا۔۔ اس نے پھر ان خانہ بدوشوں کی طرف دیکھا جنہوں نے اپنی پیشانی کو سرخ رو مال سے باندھ رکھا تھا اور ان کے کھلے دانت پیلے تھے اور ان میں کیڑے لگے ہوئے تھے۔۔
’کیا ہمارے رسم و رواج عجیب نہیں تھے؟‘
’تھے۔ ‘
’ہماری طرز زندگی، ہماری زبان…..؟‘
’ان میں اخروٹ کی سختی شامل تھی اور چھریوں کی دھار۔ ‘
’ہم ننگے رہتے تھے اور جسم پر نقش و نگار بناتے تھے۔ ‘
’اور یہ باتیں ہمیں گندے تہذیبی لوگوں سے دور رکھتی تھیں۔ ‘
’لکڑی اور گھاس پھوس کے گھر ہوتے تھے۔۔ زمین میں بڑے بڑے کندے نصب کرتے اور دوسروں کی جھوپڑیوں میں رات کے وقت آگ لگا دیتے۔ ‘
’خانہ بدوشی کا اپنا ذائقہ ہے۔ ‘
’کیا ہم دسمبر کے بارے میں سوچ سکتے تھے؟‘ ان میں سے ایک نے پوچھا جو ابھی تک ایک بڑے سے چھرے کو پتھر پر رگڑ رہا تھا۔۔
’دسمبر، جہاں آگ روشنی دیتی ہے۔۔ کدال اور پھاوڑے گنبدوں کو ڈھا دیتے ہیں اور پرندے آسمانوں میں چھپ جاتے ہیں۔ ‘
’خوب۔۔ دسمبر۔ ‘ اور بوڑھے نے فرض کیا کہ اس کے ہاتھ میں بھی ایک اینٹ ہے، جس پر سنسکرت زبان میں کچھ لکھا ہوا ہے۔۔ کاش وہ سنسکرت کی سمجھ رکھتا۔۔ مگر اس نے اپنے لیے یاترائیں چنیں۔۔ تیرتھ یاترا۔۔ رتھ یاترا۔۔ رتھ یاترا اور دسمبر، جب کہرے آسمان پر چھا جاتے ہیں اور رتھ یاترا کے ٹائر اس طرح گھومتے ہیں اور ناچتے ہیں جیسے سفید گھوڑے آسمانوں پر رقص کر رہے ہوں۔۔ جب رات کو ٹمٹماتے دیے بجھ رہے تھے، وہ خانہ بدوشوں کو جمع کر رہا تھا اور یہ خانہ بدوش پورے ملک کے جنگلوں سے آئے تھے۔۔ یہ مہذب دنیا کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں جانتے تھے۔۔ یہ پتھروں سے آگ نکالنا، جھوپڑیوں کو جلانا بخوبی جانتے تھے۔۔ یہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہتے تھے اور انسانی رشتوں کی پہچان نہیں رکھتے تھے۔۔ ایسا قدیم زمانے سے چلا آ رہا تھا اور بوڑھے نے ایک بار انڈمان کے جزیرے میں ان قبائلیوں کو دیکھا تھا جو ننگے رہتے تھے اور خوب ہنستے تھے۔۔ بوڑھے نے ان قبائلیوں کے ساتھ رقص بھی کیا تھا اور بتایا تھا کہ حضرت نوح کی طرح وہ بھی ایک کشتی کی تعمیر کر رہا ہے مگر یہ رتھ ہو گا اور یہاں جنگلی سور ہوں گے جن کی چمڑیاں سخت ہوں گی اور جو گندے کیچڑوں میں لوٹتے ہوں گے۔۔ انڈمان کے روایتی قبیلے والوں نے بتایا کہ ایسے بے شمار سور ان کے پاس ہیں، جن کا شکار وہ تیر بھالوں سے کرتے ہیں۔۔ پھر پتھروں سے آگ جلا کر سوروں کو بھون کر جشن مانتے ہیں اور بوڑھے نے کہا تھا، اب ان سوروں کو جلانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ انھیں بھی ہتھیار دینے کی ضرورت ہے۔۔ ہم تمہیں ان سؤروں کے لیے مناسب رقم دیں گے۔۔ بوڑھے کو یقین ہے کہ اس ہجوم میں انڈمان کے قبائلی بھی ہوں گے، کیونکہ ان خانہ بدوشوں میں کئیوں کے پاس لباس نہیں تھے مگر ہاتھوں میں اینٹیں موجود تھیں۔۔
وہ عمارت کے سب سے بد نما کمرے میں کھڑے تھے اور ایک عجیب سی بدبو تھی جو ماحول میں پیدا ہو رہی تھی اور ممکن ہے کہ یہ بدبو ان خانہ بدوشوں کے جسم سے آ رہی ہو، جنہوں نے پسینہ بہا کر مذہبی عمارت کے گنبد کو زمین میں دفن کر دیا تھا۔۔ آسمان سے پرندوں کا قافلہ اس طرح رخصت ہوا، جیسے اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔۔ بوڑھے کو تاہم اطمینان ہے کہ اسے تمام اختیارات حاصل ہیں اور اس وقت خانہ بدوشوں کے درمیان اس کی حیثیت کسی راجہ یا مکھیا کی ہے، جس کے آگے سب کوسر جھکانا ہے۔۔ اس نے کٹورے سے پانی پیا اور اس لیے پیا کہ چلاتے شور کرتے ہوئے اس کی زبان بیٹھ گئی تھی۔۔ گلے سے گھڑگھڑانے کی آواز آ رہی تھی اور مذہبی عمارت کی اونچی چوٹی پر دیر تک رہنے کی وجہ سے اس کے قدموں میں نقاہت آ گئی تھی۔۔ اس نے خانہ بدوشوں کی گفتگو کا رُخ قدیم زمانے سے آج کی تاریخی فتح تک موڑنے کی کوشش کی مگر سب کے سب ایسے ترشول لہرا رہے تھے جیسے بھالو اور خنزیروں کا شکار کرنے آئے ہوں۔۔ ان کے جسم توانا تھے اور بوڑھے کو یقین تھا کہ آج کے بعد اس کی عظیم الشان کامیابی کے درمیان محض چند قدم کا فاصلہ رہ گیا ہے۔۔ اس کے بعد مرغابیاں جھیلوں پر اتریں گی اور وش کا نغمہ سنائیں گی۔۔ وہ اچانک چونکا، جب اس نے ایک خانہ بدوش کی آواز سنی۔۔ اس خانہ بدوش کے ساتھ کئی دوسرے خانہ بدوش بھی کھڑے تھے۔۔
’تو تم اس وقت رو رہے تھے۔ ‘
’ہاں۔ ‘
’مگر کیوں؟‘
’میں نے پنکھوں والے ایک فرشتہ کو دیکھا جس کے ہاتھ میں لالٹین تھی۔ ‘
’سب غارت۔۔ فرشتہ کہاں سے آ گیا؟‘
’اس کے دوسرے ہاتھ میں چاقو بھی تھا۔ ‘
’…. اور یقین ہے، تیسرا ہاتھ نہیں ہو گا۔ ‘
’اور تم اس لیے روئے کہ فرشتہ کے ہاتھ کی لالٹین بجھ گئی تھی؟‘
’نہیں۔۔ تیز ہوا کے باوجود جل رہی تھی۔۔ بلکہ لالٹین کے اندر سے شعلے نکل رہے تھے۔ ‘
پہلے نے گھور کر دیکھا۔۔ ’کیا تم اقبال جرم کر رہے ہو؟‘
’نہیں۔۔ اس نے کندھے اُچکائے۔۔ اس وقت میرے ہاتھ میں ایک کدال تھی اور میں فرشتہ کا سر قلم کرنا چاہتا تھا۔ ‘
’اوہ….. ویسے تم اس قابل نہیں تھے۔۔ تم نے چار گھنٹے میں صرف چار اینٹیں جمع کیں۔۔ اور پاجامہ کو بہت حد تک گیلا کر دیا۔۔
بوڑھے کو ہنسی آئی اور ہنسی اس بات پر آئی کہ جس وقت وہ گنبد تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا، ایک سیال اس کے پیٹ کے نیچے جمع ہو رہا تھا۔۔ اس نے چپ چپاہٹ محسوس کی اور یقین کیا کہ اس کا پیشاب خطا ہو گیا ہے جو اکثر جوش جوانی میں ہو جاتا ہے۔۔ جسم میں رتھ یاتراں کی تھکاوٹ اب بھی موجود تھی اور جشن مناتی وہ بھیڑ بھی اب بھی نظروں میں گھوم رہی تھی کہ بوڑھے نے اپنی زندگی میں ایسی کسی بھیڑ کا تصور نہیں کیا تھا۔۔ سارے ہندوستان میں گھومتے ہوئے رتھ کا پہیہ ایک ایسے علاقے میں جام ہو ا، جس کے بارے میں وہ جانتا تھا کہ یہاں سوروں کے شکار ہوتے ہیں اور یہاں کی زمین پتھریلی ہے۔۔ یہاں گنوار، دیہاتی مگر پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں جو اب بھی تہذیبی زبان سے واقف ہیں اور اس خطے میں اتنے گڑھے ہیں کہ رتھ کا پہیہ کسی وقت بھی اچھل کر رتھ سے نکل سکتا ہے یا رتھ کے پہیے پتھریلی زمین پر جام ہو سکتے ہیں۔۔ اسے یہ بھی خیال تھا کہ اگر پہیے اس خطے یا علاقے میں جام نہیں ہوتے تو اسے کامیابی نہیں ملتی۔۔ کیونکہ خانہ بدوش جماعت ناراض تھی اور غصے میں ترشول لہراتی ہوئی اس بات کو فراموش کر گئی تھی کہ بوڑھا تھک چکا ہے اور واپس دار السلطنت لوٹنا چاہتا ہے۔۔ اس کے ہونٹوں پر خون کی پپڑیاں جمی تھیں کیونکہ دو بار رتھ کے پہیے ایسے اچھلے کہ اس کا سر رتھ کی پشت سے ٹکرایا اور کمزور دانتوں نے ہونٹ کو زخمی کر دیا۔۔ اس نے خفیف سی جھر جھری لی کہ وہ گر بھی سکتا تھا اور گرنے کی صورت میں اس کی موت بھی ہو سکتی تھی۔۔ بوڑھے کو اس بات کا گمان تھا کہ وہ صفر سے طلوع ہوا اور رتھ کی کمان تھام کر ان خانہ بدوشوں کا امیر کارواں بن گیا۔۔ اس نے سنا، وہاں کچھ خانہ بدوش اور بھی تھے، جو اب سیاست کی اولادوں میں سے تھے اوہ یہ بھی جانتا تھا کہ پسند نہ کرنے کے باوجود یہ لوگ اس کے پیچھے پیچھے چلنے پر مجبور تھے اس نے کان لگایا اور ان کی باتوں پر دھیان دیا۔۔
’کیا اینٹیں نرم تھیں؟‘
’نہیں۔۔ اس میں سے انسانی خون کی بو آ رہی تھی۔ ‘
’اور تم نے ڈھانچے پر چڑھتے ہوئے ایک گارڈ کو مکّا مارا تھا۔ ‘
’مجھے وہ عمارت کی نگرانی کرنے والا معلوم ہوا۔ ‘
’جبکہ وہ بھی خانہ بدوش تھا اور بوڑھے کا قریبی۔ ‘
’یہ بوڑھا ان خانہ بدوشوں سے کیا کام لے گا؟‘
’وہ اپنی سلطنت بنائے گا۔ ‘
’لیکن اس سے قبل گماں آباد کے خانہ بدوش اسے چپ کرادیں گے۔ ‘
’کیا تم تقدیر کو مانتے ہو؟‘
’نہیں۔۔ رتھ کو۔۔ مذہبی عمارت کو اور وحشتوں کو۔ ‘
’وحشتوں نے ہر دور میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ ‘
’اور اس بار بھی وحشتیں ساتھ دیں گی۔ ‘
بوڑھے نے اطمینان سے ان کی باتیں سنیں اور اسے پہلے سے علم تھا کہ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی بھی ہے، جو ابھی بستروں پرسیاہ حبشی کو بھی اپنے ساتھ سلالیں۔۔ مگر ان میں آپس میں بھی اختلاف ہے اور یہ لوگ کسی حد تک اس کی شہرت اور مقبولیت سے بدگمان بھی ہیں۔۔ مگر وہ رتھ لے کر کافی دور نکل چکا تھا اور جہاں نکل آیا تھا، وہاں پتھر سخت تھے، دریا اونچائی پر تھا اور دسمبر کے زمانے میں زمین برف سے ڈھک چکی تھی۔۔ مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کا گولہ ٹھنڈا تھا اور بوسیدہ دروازے کے باہر لوگوں کا ہجوم اس کا منتظر تھا۔۔ وہ تاریخ اور اپنے قریبی دوستوں کا شکرگزار تھا جنہوں نے سنبھل کر، آگے بڑھ کر مذہبی عمارت کا قفل کھولا تھا۔۔ پھر انہی دوستوں نے آگے بڑھ کر پتھر کے مجسمہ کو اس عمارت میں منتقل کیا تھا۔۔ لیکن منتقل کرتے ہوئے اور قفل کھولتے ہوئے وہ اس فن سے واقف نہیں تھے، جس سے وہ واقف تھا۔۔ اور اب آسمان سے زمین تک سارا نظارہ اسے سرخ نظر آ رہا تھا۔۔ اس سرخی سے اسے زعفران پیدا کرنا تھا اور ملک بھر میں زعفران کی کھیتی کرنی تھی۔۔ وہ ہجوم کے قریب آیا۔۔ چیختے چلاتے، جوشیلے قبائلیوں کو دیکھا۔۔ اس کے کمزور ہاتھوں میں جنبش ہوئی اور اس نے نرم لہجہ اختیار کیا۔۔ اس نے وحشتوں سے پر ہجوم کی طرف دیکھا اور اس ہجوم کے کسی گوشے میں بوڑھے کو لاٹھی ٹیکے ہوئے وہ ننگا فقیر بھی نظر آیا، جس کا وہ منکر تھا اور سخت نفرت کرتا تھا۔۔ مگر یہ نظر آنا ایک چھلاوہ تھا۔۔ در اصل آہنی دروازے کے باہر رکھا ہوا رتھ کاپہیہ تھا، جو اس مقام تک آتے آتے رتھ سے نکل گیا تھا۔۔ اس نے آنکھیں ملیں۔۔ دروازے کی بھربھری لکڑی کو دیکھا اور نئی مہم کے لیے روانگی سے قبل اپنے الفاظ کو جنبش دی۔۔
’وہ سفید فام نسل تھی، جو اس ملک میں آئے اور جن کے لیے ہم نے فرمانبرداریاں پیش کیں۔۔ ان کی عظمت کو سلام کہ وہ ہمیں سمجھتے تھے مگر وہ ہمیں ایک ایسی زمین دے کر گئے جہاں لاٹھی ٹیکنے والا ایک نیم برہنہ فقیر رہتا تھا، ہم نے کوشش کی اور فقیر کو غائب کر دیا۔۔ لیکن غائب ہونے کے بعد فقیر دوبارہ زندہ ہو گیا اور یہ اس کی تعلیمات کا جادو تھا کہ ہم رتھ کی لگام تھامے مستقل کھڑے رہے اور راستہ گم رہا۔۔ پھر میں آیا…..‘
بوڑھے نے شان سے ہاتھ ہلایا…. اس وقت چناروں کے درمیان بجلیاں کڑک رہی تھیں اور برفیلی چٹانیں پگھل رہی تھیں۔۔ خوبصورت دھماکوں کے شور بھی تھے جو ہما پنے ساتھ لائے تھے اور پھر میں رتھ پر بیٹھ گیا…ممکن ہے …..‘
بوڑھے نے ہجوم کی طرف دیکھا۔۔
’ممکن ہے، زنداں کا دروازہ کھل جائے۔۔ ممکن ہے، مذہبی عمارت کو گرانے کے عوض ہم پر مقدمہ چلایا جائے۔۔ مگر یہاں سب دوست ہیں جو زنداں کے پالن ہار ہیں، وہ بھی۔۔ جو بیڑیوں میں بند ہیں وہ بھی۔۔ جو وحشتوں کے اسیر ہیں، وہ بھی۔۔ جو سیاست کے مزدور ہیں، وہ بھی۔۔ جو حکومت کے طرفدار ہیں، وہ بھی۔۔ اس لیے تماشہ ضرور ہو گا مگر کوئی نتیجہ برامد نہیں ہو گا۔۔ کیونکہ سب اپنے ہیں اور ان کی تعداد بے حد کم ہے جو پرانی عمارت سے چپکے ہوئے ہیں۔ ‘
بوڑھے نے ایک بار پھر ہجوم کی طرف دیکھا….. اسے احساس تھا کہ وہ ابھی اس وقت ایک مقدمے سے گزر رہا ہے …..اوردسمبر کی ٹھنڈک کے باوجود زمین گرم ہے۔۔ یہاں وہ لوگ ہیں، جن کو غسل کیے ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں اور جن کے لباس سیاہ پڑ گئے ہیں۔۔ مگر اس کے باوجود دھوپ میں ان کے چہرے چمک رہے ہیں اور بندوق کی جگہ اینٹوں کا تحفہ لے کر یہ خوش ہیں کہ زندگی میں سب سے بڑا انعام یہ حاصل کر چکے ہیں۔۔ بوڑھا مسکرایا اور قیاس کیا کہ وہ اپنے لو گوں کی عدالت میں ہے اور یہ صحیح وقت ہے کہ اس ہجوم سے مکالمہ قائم کیا جا سکتا ہے۔۔
’جب آسمان سرخ دھول سے غسل کر رہا تھا، کیا وہاں کوئی آبادی تھی، جہاں ایک پرانی عمارت کھڑی تھی؟‘
’بالکل بھی نہیں۔ ‘
بوڑھے کو یاد آیا، وہاں دور تک جنگل جھاڑ تھا۔۔ دھول بھری سڑک تھی۔۔ اور ٹیمپو والے مسافروں کو دھول بھری سڑک پر لا کر اتار دیتے تھے۔۔ اور جب بسوں، ٹرکوں میں بھر بھر کر لوگ اس مقام پر پہنچے تو فضا میں چاروں طرف دھول ہی دھول تھی اور عمارت کی جگہ ایک دلدل یا ملبہ نظر آ رہا تھا۔۔ چند قدموں کا فاصلہ اور مٹی کا ملبہ۔۔
’ہم پرانی کی جگہ نئی اور عالیشان عمارت کھڑی کریں گے اور ایک دن…..‘
’کیا اس دن سوروں کا گوشت تقسیم ہو گا۔ ‘
’بالکل بھی نہیں۔ ‘
’کیا اس دن مادہ کبوتروں کو حمل ٹھہرے گا؟‘
بوڑھے نے مڑ کر دیکھا۔۔ وہ ایک ناگا خانہ بدوش تھا – اور اس وقت اپنے برہنہ جسم کا مظاہرہ کر رہا تھا۔۔
’کیا اس دن فاختائیں ہوں گی؟‘
’اس دن ہم ہوں گے اور نئی عمارت ہو گی۔ ‘ بوڑھے نے جوش سے کہا۔۔
’- اور اس یقین کو گھسنے میں کتنے برس لگ جائیں گے۔ ؟‘
’جتنے دن جنگلی بلّیوں کے دانت نوکیلے ہونے میں لگتے ہیں۔ ‘
’جنگلی بلیاں۔۔ کیا ان بلیوں کا رنگ زعفرانی ہو گا؟‘
’ہاں۔۔ اور زمین کا رنگ بھی۔۔ اور ملک کے نقشے کا رنگ بھی۔۔ فصیلوں کا رنگ بھی۔۔ یہاں تک کہ ہمارے چہروں کا رنگ بھی۔ ‘
’کیا ہمارے لیے زنداں کے دروازے بھی ہوں گے۔ ؟‘
’ہاں ہوں گے۔۔ تب تک ہم اپنے گھوڑوں پر بہت آگے نکل چکے ہوں گے۔ ‘
بوڑھے نے اشارہ کیا۔۔ دو برس قبل ہم نے اسی مقام پر گولیاں کھائی تھیں۔۔ اور اب پرندے اڑ گئے۔۔ گنبد ٹوٹ گیا۔۔ ملبہ میں حیرتیں دفن ہیں۔ ‘
اس نے ہجوم کے درمیان سے آواز سنی، کوئی کہہ رہا تھا۔۔
’ایک دن تم بھی حیرتوں میں دفن ہو جاؤ گے۔ ‘
بوڑھے نے اس مکالمے کو نظر انداز کیا۔۔ دسمبر فتح کے لیے آتا ہے اور دسمبر میں دھوپ کی کرنوں پر دھند کی حکومت رہتی ہے۔۔ کچھ لوگ ابھی بھی دھند میں ہیں اور یقیناً درختوں پر چڑھے ہوئے، بندر ایسے لوگوں کا راستہ تنگ کر دیں گے۔۔ بوڑھا جب ان اطراف میں آیا تھا تو اسے چاروں طرف بندر ہی بندر نظر آئے تھے۔۔ مگر خانہ بدوشوں کو دیکھ کر یہ بندر بھی بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔۔
’کیا ابھی بھی ہم بندروں کے ساتھ ہیں؟‘
’ہاں۔۔ وہ ہر چورا ہے پر ہیں۔۔ درختوں پر بھی ہیں۔۔ ملبے کے آس پاس ہیں اور عمارتوں کی چھت پر بھی نظر آ رہے ہیں۔ ‘
’ہمیں ان بندروں کو بھی ساتھ لینا ہو گا؟‘
بوڑھے نے ہاتھ ہلایا اور ٹھیک اسی لمحہ اس نے دیکھا، ایک شخص نے جھک کر اس کے ہاتھ کو تھاما ہوا ہے۔۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی داڑھی تھی۔۔ وہ دبلا پتلا تھا۔۔ کپڑے گندے اور دھول سے بھرے تھے۔۔ اور اس نے بوڑھے کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور عقیدت سے دریافت کیا۔۔
’آپ تھک گئے ہیں۔۔ میں آپ کے لیے چائے لے کر ابھی حاضر ہوتا ہوں۔۔
٭٭٭