پھر کسی خواب کی پلکوں پہ سواری آئی
خوش امیدی کو لئے باد بہاری آئی
پھول آئے ہیں نئ رت کے نئی شاخوں پر
موجۂ ماہ دل آرام کی باری آئی
نامرادانہ کہیں عمر بسر ہوتی ہے
شادکامی کے لئے یاد تمہاری آئی
اور پھر پھیل گیا رنگ محبت رخ پر
لالۂ زخم لئے یار کی یاری آئی
ایک دن ہم نے زباں کھول دی سچ کہنے کو
اور پھر شامت اعمال ہماری آئی
ہوس و عشق کے احوال رقم کرنے کو
پردۂ شعر میں افسانہ نگاری آئی
٭٭٭
اس آس پہ زندہ دل نادان رہے گا
گل ہیں تو سدا خواب گلستان رہے گا
یہ بوند لہو کی یونہی ہنگامہ کرے گی
آباد یونہی خانۂ ویران رہے گا
کب غنچۂ امید کھلاۓ سے کھلا ہے
یہ خواب پریشان، پریشان رہے گا
اب وہ بھی بچھڑتا ہے، بچھڑ جانے، بلا سے
کچھ نفع کا سودا ہے، جو نقصان رہے گا
یہ عیب ہنر یا ہنر بے ہنری ہے
کچھ بھی ہو مگر "نون” کا اعلان رہے گا
اب تختۂ الفاظ پہ مہتاب کی صورت
بلقیس سخن تیرا سلیمان رہے گا
٭٭٭