یہ زمیں مٹّی کی ہے یہ آسماں مٹّی کا ہے
سچ تو یہ ہے زندگی کا ہر نشاں مٹّی کا ہے
دشت کو گلزار کرنے میں جنوں سے بھی گئے
اور مجھ پر قرض کتنا مہرباں مٹی کا ہے
دفن ہیں اس میں مری بچپن کی سب محرومیاں
وہ جو دریا کے کنارے اک مکاں مٹّی کا ہے
منکشف ہوتا نہیں مجھ پر جو رازِ کائنات
ایک پردہ میرے اس کے درمیاں مٹّی کا ہے
اور کیا دوں اپنی مٹّی سے محبت کا ثبوت
میری پیشانی پہ بھی روشن نشاں مٹّی کا ہے
در حقیقت اپنی مٹّی کا ہوں میں مجرم سلیم
پھر بھی میرے واسطے سارا بیاں مٹّی کا ہے
٭٭٭
یہ دادی اور نانی کھو رہے ہیں
کہ بچّے اب کہانی کھو رہے ہیں
سمندر بیکرانی کھو رہے ہیں
کہ دریا ہی روانی کھو رہے ہیں
تو کیا تہذیب کا ماتم کریں ہم؟
اگر رشتے معانی کھو رہے ہیں
کشادہ تو ہے دستر خوان، اور ہم
شعورِ میزبانی کھو رہے ہیں
جنہیں دل سے بہت ازبر کیا تھا
وہ سب چہرے زبانی کھو رہے ہیں
ہمیں خوابوں کی تعبیریں بہم ہیں
مگر آنکھوں کا پانی کھو رہے ہیں
٭٭٭